فطرت سے بغاوت اخلاقی زوال کا ذریعہ

لیو اِن ریلیشن شپ، جنریشن گیپ، ہندوستانی قوانین اور اسلام

آصف بن نعیم، نئی دہلی

خدائی قوانین کے نفاذ میں ہی انسانوں کی کامیابی و کامرانی کے راز پنہاں
لیو اِن ریلیشن شپ، لیو اِن یا ہم باشی ( Cohabitation) میں دو بالغ مرد یا عورتیں باہمی رضامندی سے ایک ساتھ رہنے، جنسی تعلق قائم کرنے اور قانونی رشتے کے بغیر مل جل کر گھر چلانے کو کہتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کی رو سے یہ جرم نہیں کیونکہ کسی فرد کا جنسی رجحان اس کا انفرادی اور فطری معاملہ ہے۔ یہ تعلق کچھ عرصے، لمبے عرصے اور تا حیات بھی جاری رہ سکتا ہے۔ لیو ان ریلیشن شپ میں عام طور سے مرکوزیت صرف دو اشخاص کے باہمی تال میل پر ہوتی ہے۔ اس میں خاندانوں کی وابستگی یا تو بالکل ہی مفقود ہوتی ہے یا یہ دخل برائے نام ہوتا ہے۔ چونکہ قانونی بندش کا پہلو اس میں کم ہوتا ہے، اس لیے فریقین میں تفریق کی صورت میں قانونی داؤ پیچ اور مقدمے بازی بہت کم ہوتی ہے۔ لیو ان ریلیشن شپ کے مشارکت دار اکثر ایک رشتے کے ٹوٹنے کے بعد دوسری رشتے داری میں بندھ جاتے ہیں۔ Law beatویب سائٹ پر گوتم مشرا کے مضمون میں لیو ان ریلیشن شپ پر ستمبر 2023 میں S.Rajadurai بمقابلہ ریاست (NCT) دہلی اور ANR کیس کی روشنی میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں 13 ستمبر 2023 کو سنائے گئے فیصلے میں جسٹس سورنا کانتا شرما نے سماجی واخلاقی فیصلوں اور قانونی مجرمانہ غلطیوں کے درمیان فرق پر زور دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ معاشرے کی طرف سے اخلاقی اعتراضات اور قانونی مجرمانہ خلاف ورزیاں دو الگ الگ معاملات ہیں، اگرچہ کچھ لوگ شادی شدہ افراد کے درمیان رہنے والے تعلقات پر تنقید کر سکتے ہیں، اس کے باوجود بہت سے دوسرے ہیں جنہیں یہ عمل قابل اعتراض نہیں لگتا۔ مزید برآں، عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ ججوں کو اس طرح کے تعلقات کے بارے میں ذاتی رائے رکھنے کا حق ہے، ان کے اپنے اخلاقی نقطہ نظر کی بنیاد پر اِن کارروائیوں کو جرم قرار نہیں دینا چاہیے۔ عدالت کا فیصلہ اس اصول کو برقرار رکھتا ہے کہ انفرادی بالغ افراد فیصلے کرنے کے لیے آزاد ہیں، چاہے وہ فیصلے معاشرتی اصولوں یا توقعات کے مطابق ہوں یا نہ ہوں۔ تاہم، عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے تعلقات رکھنے والے افراد کو اپنی پسند کے ممکنہ نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ عدالت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ قانون کی عدالتوں کو اخلاقی اتھارٹی کے طور پر کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر کیس کے مجرمانہ پہلوؤں کا جائزہ لینے پر توجہ دینی چاہیے۔آخر میں عدالت کا فیصلہ تھا کہ وہ خواتین کے مساوی انتخاب کرنے کے حقوق کی توثیق کرتا ہے اور ان کے انتخابات کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، قطع نظر اس سے کہ خواتین کے روایتی تصورات سماجی اخلاقیات کا بوجھ اٹھاپاتے ہیں یا نہیں۔دوسری جانب سپریم کورٹ آف انڈیا نے 6ستمبر 2018کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ہم جنس پرستی اب جرم نہیں ہے۔ اس طرح عدالت نے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377 کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ سیکشن 377 ’غیر منطقی، ناقابل دفاع اور غیر واضح‘ ہے۔فیصلہ کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی میں ایسا قانون لاگو کرنا نا مناسب عمل ہے کیونکہ کسی بھی جدید معاشرے میں اس قانون کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پانچ ہم جنس پسند افراد نے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس پرانے قانون کو ختم کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے وہ خوف میں زندگی بسر کرنے پر مجبورہیں۔
وہیں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے 8مئی 2024 ایک درخواست پر فیصلے سناتے ہوئے کہا کہ مسلمان’لیو اِن ریلیشن شپ’ کے حق کا دعویٰ نہیں کر سکتے، خاص کر اس وقت جب کہ ان کا شریک سفر باحیات ہو۔ جسٹس عطاءالرحمن مسعودی اور اجے کمار سریواستو پر مشتمل بنچ نے یہ تبصرہ ایک ہندو عورت اور مسلم مرد کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کیا جس میں انہوں نے پولیس کارروائی سے تحفظ حاصل کرنے کے لیے کہا کہ وہ لیو ان ریلیشن میں ہیں اور حکومت انہیں تحفظ فراہم کرے۔دوسری جانب 27 مئی 2024کو ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ ایک مسلمان مرد اور ہندو عورت ایک دوسرے سے شادی نہیں کر سکتے۔ اس فیصلے کے مطابق ایسی شادی کو اسلامی قوانین کی بنیاد پر یا اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اسلامی قانون کسی مسلمان مرد کی کسی’بت پرست یا آگ کی پوجا کرنے والی‘ہندو عورت سے شادی کی اجازت نہیں دیتا اور ایسی شادی کو اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
موجودہ حالات میں اگر نئی جنریشن کے افراد کے درمیان مکالمہ سنا جائے تو عموماً اس طرح کے الفاظ سننے میں آئیں گے کہ ہم جدید دور میں رہتے ہیں، ہم آزاد مزاج، روشن خیال اور جدت پسندی کے قائل ہیں۔ ہم پرانے دور کے لوگ نہیں جن کو اپنی مرضی سے جینے کا بھی حق نہیں دیا گیا۔ ہم مذہب کو صرف انسان کی خواہش پر چھوڑتے ہیں۔ مرضی ہے تو اپناؤ ورنہ چھوڑ دو۔ مذہب انسان کا ذاتی فعل ہے، نماز نہیں پڑھتے تو یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے، آپ سوال نہ کریں۔ مذہب کیا کہتا ہے، دین اسلام کیا کہتا ہے، اس کی تعلیمات کیا ہیں؟ پلیز رہنے دیجیے، ہمیں سب پتہ ہے۔آپ بہت ہی دقیانوسی اوربنیاد پرست ہیں ۔آپ کی سوچ بہت پرانی ہے، پلیز اپنی سوچ اپنے پاس رکھیے، ہمیں سانس لینے دیجیے۔ اپنے خیالات و نظریات ہم پر مسلط نہ کریں، ہمیں اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے دیجیے، ہمیں تنگ نہ کیجیے۔ارے کیا سگریٹ پینا عورت کے لیے معیوب عمل ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔کیونکہ جب مرد سگریٹ پی سکتے ہیں تو خواتین کیوں نہیں؟ دونوں برابر ہیں، دونوں کے حقوق یکساں ہیں، دونوں معاشرے کے فرد ہیں، دونوں کوآزادی حاصل ہے۔اورکیا آپ جانتے ہیں کہ خواتین ہر شعبے میں مردوں کو پیچھے چھوڑ رہی ہیں؟آپ کو اپنی بہن کے لباس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے، وہ جو بھی کپڑے پہنے آپ سے کیا مطلب؟ ہماری شخصی آزادی کو مت چھینو۔ مرد جو کرسکتا ہے وہ ہم کیوں نہیں کرسکتے، ہم پر پابندیاں کیوں؟آپ بیمار ذہن کے مالک ہیں، آپ کو تو صرف خواتین کو پابند کرنا آتا ہے، آپ اسے گھر کی لونڈی بنانا چاہتے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ خواتین ترقی نہ کریں، وہ اپنی مرضی سے زندگی نہ گزاریں، آپ اپنی سوچ بدلیں، آپ منافق ہیں، آپ تمام مرد چاہتے ہیں کہ عورت ان کے پیر کی جوتی بن جائے۔ ہمیں سب معلوم ہے آپ زیادہ عقلمند نہیں۔ انسان کی سوچ وسیع اور بلند ہونی چاہیے، اسلام نے ہمیں برابری کے حقوق دیے ہیں، آپ لوگ ہمارے حقوق غصب کرنا چاہتے ہیں۔ بازآجائیں!
درج بالا پیراگراف اورکلیدی الفاظ (keywords)معاشرہ کی کیفیت،اس کی ذہنی ساخت اور اس کے فکر وعمل کی عکاسی کرتے ہیں۔اس پیراگراف میں چند بہت ہی اہم اور بنیادی الفاظ اورنکات کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔یہ نکات معاشرہ کی بگڑتی صورتحال کی وجوہات بھی بیان کرتے ہیں ۔ساتھ ہی1928سے1997یا2012اور اس کے بعد کے زمانوں میں جو نسلیں پروان چڑھی ہیں ان کی کہانی بھی بخوبی بیان کرتے ہیں۔ نسلوں کی شناخت اورمختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے تغیرات نیز ان کی فکری ساخت کے سلسلے میں پیو ریسرچ پیپر کی روشنی میں پانچ زمانے اور انسانی نسلوں کی وضاحت کی گئی ہے۔جس میں 1928-45(Silent)، 1946-64 (Boomers)، 1965-80(Generation X)،1981-96(Millennials) اور 1997-2012(Generation Z)کو بیان کیا گیا ہے۔فی الوقت یہ موقع نہیں ہے کہ ہم اس مضمون میں انسانی نسلوں کی تقسیم، ان کی خصوصیات اور مسائل پر گفتگو کریں۔بلکہ اس موقع پر بس اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ زمانوں کی تقسیم کے لحاظ سے جس زمانے میں آج، ہم اور آپ رہتے ہیں، اس میں پروان چڑھنے والی نسل ،گزشتہ زمانوں ، ان کے افکار و نظریات اور فکر و عمل پر مبنی خصوصیات سے بہت مختلف ہے۔یہ سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو لوگ اصلاح معاشرہ کا کام انجام دینا چاہتے ہیں یا دے رہے ہیں انہیں موجودہ زمانے کی حقیقی صورتحال سے واقف ہونا ضروری ہے بصورت دیگر وہ افراد کے فکر و عمل اور نفسیاتی کیفیات سے ناواقفیت کی وجہ سے اصلاح کے ان طریقوں کو استعمال کرنے سے قاصر ہوں گے جس کی فی زمانہ ضرورت ہوتی ہے۔البتہ چونکہ اللہ تعالیٰ ہی انسانوں کا خالق ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر بچے کو فطرت پر پید اکیا ہے لہٰذا بنیادی اصول وضوابط اور احکامات زمان و مکان کی قیود سے بالاتر وہی رہیں گے جو اس کے خالق نے طے کردیے ہیں۔کہا کہ”یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جمادو۔قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی ۔ یہی بالکل راست اور درست دین ہے” (الروم:30)
گفتگو کے پس منظر میں آئیے۔ اب عصر حاضر کے بڑے فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ خاندانی نظام کی کمزور ہوتی صورتحال کو دیکھتے ہیں۔خاندانی نظام سے مرادمیاں بیوی کے درمیان رشتے میں غیر مستحکم صورتحال ہے ۔اور اس غیر استحکامی صورتحال کی وجوہات میں میاں بیوی کے درمیان محبت، الفت، ہمدردی، اعتماد،ایک دوسرے کے تئیں احساس ذمہ داری اور مقصد خاندان کو نظر انداز کیا جانا ہے۔نتیجہ میں ایک ایسا خاندان وجود میں آتا ہے جس میں بچوں کی تربیت فطری تقاضوں کے پیش نظر نہیں ہوپاتی اور جو فکر، ماحول اور پریکٹسس کے درمیان وہ اپنی زندگی کے شب و روز گزارتے ہیں، اس کا عکس مختلف حیثیتوں سے ان پر ظاہر ہوتا ہے۔اسی پس منظر میں لیو ان ریلیشن شپ کے فتنے اور اس کے ذریعہ ہونے والے جرائم کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر یہ بھی ضروری ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ برادران وطن کو بھی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ قوانین اور انسانوں کے بنائے گئے قوانین کے درمیان فرق کوواضح کیا جائے تاکہ باطل افکار و نظریات اور اسلامی عقائد و تعلیمات کی روشنی میں جو گھر،خاندان اور معاشرہ پروان چڑھتا ہے،اس کی کمزوریوں اور خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے حقائق تک پہنچنے میں مدد حاصل ہو۔اس لحاظ سے قانون شریعت اور دیگرقوانین کے درمیان تین بنیادی فرق ہیں۔ i) قانون شریعت میں قانون کا ماخذ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، دوسرے قوانین میں خود انسان کی عقل یا خواہش کو قانون کا سرچشمہ مانا گیا ہے۔ ii) قانون شریعت انسانی فطرت پر مبنی ہے نہ کہ انسانی خواہش پر، برخلاف اس کے مروجہ قوانین کی بنیاد انسانی خواہش پر مشتمل ہے۔ iii) شریعت میں اصل اہمیت عدل کی ہے، یعنی تمام طبقات کے ساتھ انصاف کیا جائے، کبھی مساوات اور برابری عدل کا تقاضا ہوتا ہے، اس وقت برابری ضروری ہوگی اور کبھی عدل کا تقاضا ہوتا ہے کہ تمام لوگوں پر برابری کے ساتھ اس کا اطلاق نہیں کیا جائے بلکہ فرق کے ساتھ اس کو نافذ کیا جائے، ایسے موقع پر شریعت مساوات کے بجائے عدل کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ ان میں سے پہلے نکتہ کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن حکیم میں کہا گیا ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل کے بارے میں فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے (انعام: ۷۵) جو فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کر دیا ہے، وہ سچائی اور انصاف پر مبنی ہے، اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی (انعام: ۵۱۱) اسی لیے شریعت کا اولین ماخذ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہے۔ جو حکم قرآن میں واضح الفاظ میں آیا ہو اور اس میں کسی دوسرے معنٰی کا احتمال نہ ہو یا ایسی معتبر حدیث میں آیا ہو جس کے ثابت ہونے میں کوئی شک نہیں ہو، وہ قطعی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔ البتہ جس حکم کی بنیاد کسی خاص زمانہ کی مصلحت پر ہو، جو بعد میں بدل گئی ہو تو اس حکم میں بدلاؤ ہو سکتا ہے یا جو حکم کسی خاص زمانہ کے عرف اور رواج کی وجہ سے دیا گیا ہو اور وہ عرف بدل گیا ہو یا جس حکم کی قرآن وحدیث میں صراحت نہ ہو اور وہ اجتہادی مسئلہ ہو، جس میں شریعت کے مزاج کو سامنے رکھ کر غور وفکر کر کے کوئی رائے قائم کی گئی ہو تو ایسے احکام میں امت کے فقہاء اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ کوئی تبدیلی کر سکتے ہیں۔ مگر یہ حقیقت میں تبدیلی نہیں ہوگی بلکہ دو مفاہیم میں سے ایک کو ترجیح دینا اور اپنے زمانے کے لحاظ سے شریعت کے حکم کو منطبق کرنا ہوگا۔ لہٰذا سماج میں رائج برائیوں اور بداخلاقیوں کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا ہوگا کہ جن برائیوں میں بھی آج سماج مبتلا ہے اور اس کے نتیجہ میں خاندان تباہ اور معاشرہ تنزلی کے دوراہے پر ہے اس کی بنیادی وجہ خالق کائنات اور خالق انسان کے احکامات کی خلاف ورزی ہے بصورت دیگر دنیا امن و امان کا گہوارا بن سکتی ہے اور انسان دنیا میں بھی اور بعد الموت بھی کامیابی و سرخ روئی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024