فرقہ پرستی اور مسلم ناز برداری کے بیانیہ کی حقیقت

شاہ بانو کیس اور مسلم پرسنل لا کا بابری مسجد کی شہادت سے کوئی تعلق نہیں

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

کانگریس حکومت کی بنیادیں متزلزل ہونے اور بی جے پی کے عروج پانے کی داستان
بار بار دہرایا جانے والا جھوٹ بھی سچ معلوم ہونے لگتا ہے لیکن اگر مظلوم کو ہی ظلم کا ذمہ دار ٹھیرا دیا جائے تو معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔ ملک میں فرقہ پرستی کے فروغ کے لیے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی خود مسلمانوں کو ہی ذمہ دار مانتے ہیں۔ عام بیانیہ یہ ہے کہ راجیو گاندھی بڑے سیدھے سادے انسان تھے، انہوں نے مسلم بنیاد پرستوں کے دباؤ میں آکر شاہ بانو فیصلے کے خلاف آئین میں ترمیم کروا دی۔ اس سے ہندو ناراض ہوگئے تو ان کو خوش کرنے کے لیے انہوں بابری مسجد کا تالا کھلوا دیا اور اس طرح ملک میں فرقہ پرستی کی سونامی آگئی۔ گویا مسلمان خود اپنے کرموں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس غلط فہمی کو دور کرنےکے لیے مختلف واقعات کے تاریخوں کی ترتیب پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے۔ 23؍ اپریل 1985 کو سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر پرسنل لا کے خلاف ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی اور اس کے تیرہ ماہ بعد 19 مئی 1986 کو آئینی تبدیلی عمل آئی لیکن اس دوران رونما ہونے والے دیگر واقعات کو یکسر نظر انداز کرکے پرسنل کے تحفظ کی جد وجہد کو فرقہ پرستی کے فروغ سے جوڑ دینا بدترین قسم کی بہتان طرازی ہے مگر اس کا ارتکاب ہمدردان ملت کی جانب سے ہوتا رہتا ہے۔
وشو ہندو پریشد سنگھ پریوار کا ایک اہم حصہ ہے۔ 1984 میں اشوک سنگھل نے ایودھیا میں دھرم سنسد کا اہتمام کیا اور اس کے بعد رام مندر کی تعمیر کے لیے پجاریوں اور سادھوؤں کو متحد کرنا شروع کیا۔ اس کے فوراً بعد انہیں وشو ہندو پریشد کا کارگزار صدر بنا دیا گیا اور پھر مندر کی تعمیر کو وہ ایک عوامی تحریک بنانے میں جٹ گئے۔ 7 اور 8 اپریل 1984ء کو وشو ہندو پریشد نے ایک نشست میں ایودھیا، کاشی اور متھرا کی مساجد گرا کر مندریں تعمیر کرنے کا عزم کیا اور ایودھیا کے معاملے کو متفقہ طور پر ترجیح دی گئی۔ 18 جولائی 1985کو یوگی آدتیہ ناتھ کے گرو اور گورکھ ناتھ پیٹھ کے سربراہ مہنت اویدیہ ناتھ کو وی ایچ پی کی ایک ذیلی تنظیم شری رام مکتی یگنا سمیتی کا سربراہ بنایا گیا۔ اس تنظیم نے 25 ستمبر 1985 کو رام جنم بھومی آزاد کرانے کے لیے سیتا کی جائے پیدائش سیتا مڑھی (بہار) سے ایک رتھ یاترا نکال کر ایودھیا آنے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح رام جنم بھومی کے نام فرقہ پرستی پھیلانے کی ایک زبردست مہم کا آغاز ہو گیا جس کا شاہ بانو مقدمہ اور شریعت کی تحریک سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔
اتر پردیش میں اس دوران ایک بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی۔ اس وقت اتر پردیش کی اسمبلی میں کانگریس کے پاس تین سو میں سے دو سو انہتر ارکان اسمبلی کی زبردست اکثریت موجود تھی اس کے باوجود 18 ستمبر 1985 کو یو پی کے وزیر اعلیٰ این ڈی تیواری اچانک استعفیٰ دے کر دہلی میں مرکزی وزیر صنعت بنا دیے جاتے ہیں۔ اس خلا کو پرُ کرنے کے لیے 24 ستمبر 1985 کو مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ و قومی سلامتی کے انچارج ارون نہرو اپنے خاص آدمی ویر بہادر سنگھ کو وزیر اعلیٰ بنوا دیتے ہیں۔ راجیو گاندھی بذاتِ خود ارون نہرو کے احسان مند تھے اس لیے وہ گورکھپور کے رہنے والے ویر بہادر سنگھ کو جن کی مہنت اویدیہ ناتھ سے گہری دوستی تھی وزیر اعلیٰ بننے سے نہیں روک سکے، حالانکہ ارون نہرو کی اس تجویز کو ماضی میں اندرا گاندھی مسترد کرچکی تھیں۔ 19 دسمبر 1985 کو ارون نہرو کے ایما پر وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ نے بابری مسجد کا تالا کھلوانے کی تیاری کے لیے ایودھیا میں رامائن میلے میں شرکت کی۔ اس موقع پر تمام فائلوں کا مطالعہ کروانے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ تالا عدالتی فیصلے کے باعث نہیں بلکہ ایک انتظامیہ کے حکم کے تحت لگایا گیا تھا۔
آگے چل کر ویر بہادر سنگھ اویدیہ ناتھ کو اس یقین دہانی کے ساتھ قفل کھلوانے عدالت سے رجوع کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔ اس حقیقت کا اعتراف آرگنائزر کے مدیر اعلیٰ کے آر ملکانی نے مدر لینڈ نامی جریدے میں کیا تھا۔ وشو ہندو پریشد اسے عدالتی فیصلے کے بجائے اپنی طاقت سے کھلوانے کا کریڈٹ لینے کے چکر میں پڑ جاتی ہے مگر ارون نہرو اپنی وزارتِ داخلہ میں زیر ملازمت اشوک سنگھل کے بھائی بی پی سنگھل کی مدد سے اسے راضی کر لیتے ہیں۔ ایک منصوبے کے تحت فیض آباد کے مقامی وکیل امیش چندر نے 28 جنوری سنہ 1986 کو عدالت میں دروازہ کھولنے کے لیے درخواست دائر کی جسے جج نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس کیس سے متعلق تمام دستاویزات ہائی کورٹ میں ہیں اس لیے انہیں دیکھے بغیر اس پر کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ امیش چندر 31 جنوری سنہ 1986 کو اس فیصلے کے خلاف ڈسٹرکٹ جج کے سامنے اپیل کرتے ہیں اور وہاں پر جج کے ایم پانڈے اگلے ہی دن فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ اس فیصلے کے وقت تک شاہ بانو کا معاملہ ایوان پارلیمان میں زیر بحث نہیں آیا تھا۔
یکم فروری 1986کو فیض آباد ڈسٹرکٹ جج نے بابری مسجد میں ہندوؤں کو عبادت کرنے کی اجازت دیتے وقت اپنے فیصلے کے حق میں شواہد کے بجائے متعدد نشانیوں مثلاً فیصلے کے دن عدالت کے احاطے میں موجود ایک بندر وغیرہ کا ذکر خود اپنے مضامین میں کیا تھا۔ یعنی وہی کہ آستھا کی بنیاد کوئی غیر مرئی طاقت مجھ سے فیصلہ کروا رہی ہے والا جھوٹ گھڑا گیا حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کئی دہائیوں سے عدالت میں زیر سماعت ایسے دھماکہ خیز معاملوں میں اقتدار پر فائز لوگوں کے اشارے کار فرما ہوتے ہیں۔ چنانچہ شک کی سوئی ارون نہرو کی جانب مڑ جاتی ہے۔ اس متنازع فیصلے پر عمل آوری میں سرکاری ملی بھگت کی شہادت ملتی ہے۔ فیض آباد کے ضلعی جج نے شام چار بج کر بیس منٹ پر اپنا فیصلہ سنایا اور ٹھیک چالیس منٹ بعد یعنی شام پانچ بجکر پانچ منٹ پر مسجد کا تالا کھول دیا گیا جبکہ ڈسٹرکٹ جج نے تمام فریقین کو ابھی اپنے فیصلے کی کاپی بھی نہیں دی تھی اور جج کے دفتر سے بابری مسجد کا فاصلہ قریب سات کلومیٹر تھا۔ حتیٰ کہ جس آفیسر کے پاس تالے کی چابی تھی اسے بھی اطلاع نہیں دی گئی اور نہ ہی اس کا انتظار کیا گیا اور تالا توڑ دیا گیا۔ بعد میں کانگریس حکومت نے ضلعی جج کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس خبر کو نشر کرنے کے لیے دور درشن کی پوری ٹیم پہلے ہی سے اس واقعے کی عکس بندی کے لیے وہاں موجود تھی تاکہ شام کی خبروں میں دکھایا جاسکے اور ہوا بھی ایسا ہی۔ اس پر مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ سب اس آئینی ترمیم سے ساڑھے تین ماہ قبل ہوگیا جس کے لیے اسے ذمہ دار بتایا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی تشکیل اس کے بعد عمل میں آئی تھی۔ رام مندر کی آڑ میں بابری مسجد کے خلاف یہ سازش رچی جا رہی تھی تو اس وقت راجیو گاندھی کے پی ایم او میں وجاہت حبیب اللہ جوائنٹ سکریٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ اسکول میں جونیئر ہونے کے سبب وزیر اعظم سے خاصے قریب تھے۔ موصوف نے بی بی سی پر صاف کہا تھا کہ شاہ بانو معاملے میں قانون (مسلم اپیزمنٹ یا نازبرداری) کے عوض ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے بابری مسجد کا تالا کھولنے کی بات بالکل غلط ہے۔
وجاہت حبیب اللہ نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ’یکم فروری سنہ 1986 کو ارون نہرو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے ساتھ لکھنؤ میں موجود تھے۔‘ یعنی ان دونوں نے مل کر ایک سازش کے تحت یہ فیصلہ کروا کے نافذ کر دیا۔ اپریل 1986 میں خود اشوک سنگھ نے بھی اعتراف کیا تھا کہ ارون نہرو نے وی ایچ پی کے دفتر میں اس مقصد کے لیے ایک نشست کی تھی۔ اس میں 8؍ مارچ 1986 کو مہا شیوراتری سے پہلے قفل کھولنے کی تیاری مکمل کرلی گئی تھی۔ اس لیے قفل کھلوانے کو شاہ بانو سے جوڑنا اگر عیاری نہ تھی تو سادگی ضرور تھی۔ لکھنؤ ہائی کورٹ کی خصوصی بنچ نے 2010 میں مندرجہ بالا فیصلے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے نہ صرف غیر قانونی قرار دیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ یہی ناعاقبت اندیش فیصلہ چھ دسمبر 1992 کو مسجد کی شہادت کا سبب بنا۔
بی جے پی کے لیے یہ سب سے بڑی آزمائش کا زمانہ تھا۔ 1980میں جنتا پارٹی سے الگ ہوکر اس نے گاندھیائی سوشلزم کا مکھوٹا اوڑھ کر اپنانیا سیاسی سفر شروع کیا تھا حالانکہ گاندھی اور سوشلزم کے نظریات سے اسے خدا واسطے کا بیر تھا۔ اسی مصلحت کے تحت پارٹی کی قیادت معتدل مزاج کے حامل اٹل بہاری واجپائی کے ہاتھوں میں دی گئی تھی اور راج ماتا وجئے راجے سندھیا کے ساتھ سکندر بخت کو پارٹی کا نائب صدر بنایا گیا تھا۔ ایسے میں اندرا گاندھی کا قتل ہو گیا اور 1984 میں اچانک ایک غیر تجربہ کار نووارد سیاست داں کی تاجپوشی ہوگئی۔ راجیو گاندھی کی سیاسی ناپختگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے دہلی میں سکھوں کے بدترین قتل عام کو بلا واسطہ جائز ٹھیراتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ’جب کوئی بڑا پیڑ گرتا ہے تو زمین ہلتی ہے‘۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ہم بدلہ لیں گے‘۔ آگے چل کر یہ سمجھانے کی کوشش تو کی انتقام کیسے لیا جائے گا لیکن لوگوں نے اس کا وہی مطلب لیا جو ہوتا ہے اور سکھوں پر مصائب کا طوفان آگیا۔
ان حالات میں انتخابات کا انعقاد ہوا تو کانگریس نے 49.1 فیصد ووٹ حاصل کرکے چار سو چار نشستیں جیت لیں۔ تیلگو دیشم تیس، سی پی ایم بائیس، جنتا پارٹی دس، سی پی آئی چھ ،لوک دل تین اور سب سے نیچے بی جے پی صرف دو نشستوں پر کامیابی درج کرواسکی۔ اٹل بہاری واجپائی خود ہار گئے اور لال کرشن اڈوانی کو راجیش کھنہ جیسے فلمی ہیرو نے دہلی میں شکست سے دوچار کر دیا۔ راجیو گاندھی کا چونکہ کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا اس لیے ان کی شخصیت بدعنوانی جیسے ہر الزام سے پاک تھی۔ کانگریس کے ممبئی اجلاس میں انہوں نے بدعنوانی کے خلاف یہ کہہ کر ساری دنیا کو چونکا دیا تھا کہ سرکاری خزانے سے نکلنے والے ایک روپے میں سے صرف پندرہ پیسے مستحقین تک پہنچتے ہیں۔ وہ بدعنوانی سے پاک ایک جدید ٹکنالوجی سے آراستہ ترقی یافتہ ملک بنانے کا عزم لے کر آگے بڑھ رہے تھے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ کانگریس کے مسٹر کلین کہلانے والے وزیر اعظم کی سرکار پر انہیں کے وزیر خزانہ وی پی سنگھ نے بوفورس توپ کی دلالی میں بدعنوانی کا الزام لگا دیا۔ ان کو ہٹا کر وزیر دفاع بنایا گیا تو پستول کی خریدی میں رشوت خوری کا معاملہ سامنے لے آئے۔ اس طرح 1988 میں وی پی سنگھ نے کانگریس سے علیحدہ ہوکر جن مورچہ قائم کی اور پھر جنتا دل کے مختلف گروہوں کو یکجا کرکے قومی محاذ بنایا۔ وی پی سنگھ کی بغاوت بی جے پی کے لیے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھی چنانچہ اس نے جنتا دل کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ وشوناتھ پرتاپ سنگھ بی جے پی کی ابن الوقتی اور فرقہ پرستی سے خوب واقف تھے اس لیے تعلق خاطر کے باوجود ایک خاص فاصلہ بنا رہا۔ انہوں نے کسی ایسے خطاب عام میں شرکت نہیں کی جس کے اسٹیج پر بھگوائیوں کا غلبہ تھا۔ متھرا میں ایک مرتبہ وہ جلسہ گاہ سے بغیر تقریر کیے لوٹ آئے کیونکہ اس پر بھگوا پرچم لہرا رہا تھا۔وی پی سنگھ سے ایک بار سوال کیا گیا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کانگریس پوری طرح ختم ہوجائے؟ تو ان کا جواب تھا نہیں، عوام کے سامنے ہمیشہ دو غیر فرقہ پرست متبادل موجود رہنے چاہئیں جن کے درمیان وہ انتخاب کرسکیں لیکن اتفاق سے یہ صورتحال نہیں رہی جس کے سبب بی جے پی کی قسمت چمک گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ وی پی سنگھ کے مقبولیت کی لہر سے گھبرا کر 9؍ نومبر 1989 کو راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے قریب رام مندر کے سنگ بنیاد کی اجازت دے دی اور رام راجیہ قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کا شاہ بانو مقدمہ یا پرسنل لا کے قانون سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ راجیو گاندھی کو ہندوؤں کی ناز برداری کسی کام نہیں آئی اور راجہ مانڈا کے لقب سے مشہور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اس نعرے کے ساتھ وزیر اعظم بن گئے کہ ’راجہ نہیں فقیر ہے، یہ بھارت کی تقدیر ہے‘۔ وی پی سنگھ دراصل بی جے پی کے لیے امید کی ایک کرن تھے اس لیے اشتراکیوں کے ساتھ اس نے بھی جنتا دل کی حمایت کی اور ملک کی تاریخ میں دوسری مرتبہ ایک غیر کانگریسی حکومت قائم ہوگئی۔ ان کا مختصر دورِ اقتدار کافی اتار چڑھاو سے پُر تھا۔ انہوں نے بی جے پی کی پروا کیے بغیر مفتی محمد سعید کو وزیر داخلہ بنایا۔ اسی زمانے میں محبوبہ مفتی کی بہن روبیہ مفتی کو یرغمال بنایا گیا اور پنڈتوں کو جموں و کشمیر سے نکلنا پڑا مگر بی جے پی نے ان موضوعات پر اپنی حمایت واپس نہیں لی۔
بی جے پی کے لیے وی پی سنگھ کی حمایت اس وقت نا ممکن ہوگئی جب اگست 1990 میں انہوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ کرنے کا اعلان کردیا ۔ اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر ایک ماہ بعد لال کرشن اڈوانی نے 25 ستمبر 1990 کو گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک رام رتھ یاترا شروع کر دی، نتیجے میں فرقہ پرستی کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ ملک بھر میں دنگے فسادات شروع ہوگئے۔ نومبر 1990 اڈوانی کو بہار کے سمستی پور میں گرفتار کیا گیا۔ اس کا بہانہ بناکر بی جے پی نے وی پی سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی، حالانکہ اڈوانی نے وزیر اعظم کو لکھے گئے ایک خط میں اعتراف کیا تھا کہ رتھ یاترا نکالنے کی بنیادی وجہ منڈل کمیشن تھی۔ یہ خط اب بھی ذرائع ابلاغ میں موجود ہے۔ 1989 میں اتر پردیش میں بھی جنتا دل کو کامیابی مل چکی تھی۔ وی پی سنگھ کے منظورِ نظر تو اجیت سنگھ تھے مگر ملائم سنگھ کی مقبولیت اور دیوی لال کی حمایت نے انہیں وزیرِ اعلیٰ بنا دیا۔
رام مندر تعمیر کی تحریک کا محور یو پی ریاست تھی جہاں ملائم سنگھ یادو وزیرِ اعلیٰ تھے۔ جنتا دل ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے آر ایس ایس، بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کی مہم کی سخت مخالف تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اکتوبر 1990 میں ملائم سنگھ یادو نے اعلان کیا کہ اگر کار سیوک یو پی میں داخل ہوئے تو انہیں قانون پر عمل کرنے کا سبق پڑھایا جائے گا اور کسی کو بھی مسجد گرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بہار میں لالو پرساد یادو کے ذریعہ اڈوانی کی گرفتاری کے باوجود ایودھیا میں کارسیوکوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی۔ان لوگوں نے 30 اکتوبر 1990 کو بابری مسجد کی جانب پیش قدمی شروع کی تو ان کا پولیس سے تصادم ہوگیا۔ یو پی حکومت نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچ گئی اور پولیس نے فسادیوں کو گرفتار بھی کیا۔ اس کے بعد دو نومبر 1990 کو ایک اور تصادم میں سترہ ہلاکتیں ہوئیں اور بی جے پی نے ملائم سنگھ کے حکم پر پولیس کی فائرنگ سے درجنوں افراد کو ہلاک کرنے کا بہتان تراشا اور جھوٹ کی بنیاد پر فرقہ پرستی کی آگ بھڑکائی۔
ملائم سنگھ یادو نے اپنے اس اقدام پر کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ 2017 میں اپنی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ملک کا اتحاد قائم رکھنے کے لیے اگر مزید لوگوں کی جانیں بھی درکار ہوتیں تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 1990 میں ایودھیا کے اندر ہونے والے واقعے کے بعد شمالی بھارت میں ہندو قوم پرستی کی لہر کے آگے ملائم سنگھ یادو ٹھیر نہیں پائے اور بی جے پی کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے۔ اس طرح بی جے پی کے کلیان سنگھ کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی یقین دہانی کے باوجود 1992 میں بابری مسجد منہدم کرنے دی اور اس کی علامتی سزا بھی پائی مگر ملائم سنگھ یادو کی مقبولیت میں مسلم رائے دہندگان بہت بڑھ گئی۔ اس کے نتیجے میں 2003 میں وہ ایک بار پھر یو پی کے وزیرِ اعلٰی بنے اور 1996 میں مرکزی وزیرِ دفاع کا اہم قلم دان بھی سنبھالا۔ رام مندر کی سیاست نے دراصل ملائم سنگھ یادو اور پھر بی جے پی دونوں کو فائدہ پہنچایا لیکن بدقسمتی سے اس کو شاہ بانو کے مقدمے، شریعت یا مسلم پرسنل لا سے جوڑا جاتا ہے جو کہ سراسر ظلم ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024