’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے دعوؤں پر  آر ٹی آئی کا انکشاف،ہندو،عیسائی لڑکیوں کے تبدیلی مذہب کا کوئی ریکارڈ نہیں

محکمہ حق اطلاعات نے کنال شکلا کے ذریعہ مانگی گئی معلومات میں  آر ٹی آئی نے کہا کہ ملک کی وزارت داخلہ کے پاس ایسا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے، معلومات NIL ہے۔

نئی دہلی،24مئی:

ہندو شدت پسند نظریات کے پروپیگنڈہ پر مبنی متنازعہ فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘پر ریلیز کے تقریباً 20 دن گزرنے کے بعد بھی بحث  جاری ہے ۔دائیں بازو کی وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی مسلم دشمن تنظیمیں اس فلم کے ذریعہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف ہندو اکثریت کے ذہن میں نفرت پھیلانے کی مہم چلا رہی ہیں،اس فلم کو مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ملک  کی متعدد ریاستوں میں سنیما ہالوں میں فلم دیکھنے پہنچے لوگوں کے سامنے شدت پسند تنظیموں کے کارکنان اشتعال انگیز بیانات کے ذریعہ’لو جہاد‘ اور مسلم نوجوانوں کے ذریعہ ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسانے کی جھوٹی تشہیر کرکے نفرت پھیلا رہے  ہیں۔دریں اثنا آر ٹی آئی  کے جواب میں  دی کیرالہ اسٹوری میں کئے جا رہے  ہندو اور عیسائی لڑکیوں کے جبراً تبدیلی مذہب کے دعوؤں کی پول کھل گئی ہے۔آر ٹی آئی کے ذریعہ طلب کئے گئے سوال کے جواب میں متعلقہ محکمہ نے ہندو لڑکیوں کے تبدیلی مذہب کرا کر مسلمان بنائے جانے سے متعلق کسی بھی ریکارڈ کی موجودگی سے انکار کر دیاہے ۔

یہ آر ٹی آئی سماجی خدمت گار اور آر ٹی آئی کارکن کنال شکلا نے داخل کی تھی جس کے جواب میں محکمہ حق اطلاعات نے وزیر داخلہ کے پاس  کسی بھی ریکارڈ کی موجودگی سے سرے سے انکار کر تے ہوئے ’نل(NIL)‘ جواب دیا ہے ۔آر ٹی آئی کارکن کنال شکلا نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ٹوئٹر پر آر ٹی آئی میں ملے جواب کی کاپی شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فلم "دی کیرالہ اسٹوری”  میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ 30,000 ہندو/عیسائی لڑکیوں  کا مذہب تبدیل کر کے مسلمان بنا کر دہشت گرد تنظیموں کے پاس بھیج دیا گیا تھا۔ میں نے #RTI سے اس تناظر میں معلومات مانگی تو جواب آیا، ملک کی وزارت داخلہ کے پاس ایسا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے، معلومات نل ہے۔انہوں نے لکھا کہ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بھی اس فلم کی بنیاد پر کرناٹک کے انتخابات  میں پولرائزیشن اور نفرت پھیلانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی  لیکن   10 روپے کی آر ٹی آئی نے ایک بار پھر ان کے پروپینگڈے سے پردہ اٹھادیا ہے۔

کنال شکلا کے ذریعہ ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کئے گئے آر ٹی آئی کے اس جواب پر متعدد صارفین نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔صارفین کی اکثریت نے کنال شکلا کے نظریہ سے اتفاق کرتے ہوئے اس فلم کو مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ فلم قرار دیا ہے وہیں کچھ شدت پسند وں کے نظریات کے حامی  صارفین نے کنال شکلا کے سلسلے میں نا زیبا اور غیر مہذب تبصرے بھی کئے ہیں۔

ایک ٹوئٹر صارف انوراگ اگروال نے کنال شکلا کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ  اب عوام کو سچ سے کوئی مطلب نہیں جناب! اب تو ہر چیز پرسیپشن اور مارکیٹنگ کا کھیل بن چکی ہے، اچھی مارکیٹنگ سے جھوٹ کو فروغ دے کر دو لوگ سچ مان لیتے ہیں، عوام  بد عنوان ذہنیت ہو چکی ہے، مذہبی تعصب میں اپنا ہی گھر اور ملک کو تباہ کر کے ہی انہیں سکون ملے گا۔

امر جیت ہندو نامی صارف نے کنال شکلا پر نازیبا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب، آپ کے مطابق اور آر ٹی آئی کے مطابق، ایسا ایک بھی کیس نہیں ہے؟ کاش آپ کی بیٹی یا بہن اس عمل سے گزری ہوتی۔ لیکن آپ کو کیا فرق پڑتا ہے، آپ نے پہلے ہی۔۔۔۔۔۔

ایک اور ٹوئٹر صارف بھانو پرتاپ  سنگھ راگھو نے تبصرہ کیا کہ سوال کا جواب تھاکہ کیرالہ حکومت سے معلومات مانگی جانی چاہیے کیونکہ موضوع ریاست کا ہے،   ہمیں ہر چیز کےلئے صرف مودی کے پاس ہی جانا ہے کیا؟میں نے سوچا کہ آپ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن یہ پروپیگنڈہ نکلا۔

واضح رہے کہ فلم دی کیرالہ اسٹوری ریلیز سے قبل ہی تنازعہ کا شکار ہو گئی تھی،ایک طرف دائیں بازو کی شدت پسند تنظیمیں اس فلم کو حقیقت پر مبنی بتا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کر رہی ہیں وہیں دوسری جانب ملک کے سنجیدہ طبقہ نے اس فلم کی کہانی اور دعوؤں پر سوال کھڑے کرتے ہوئے اس فلم کو شدت پسند ہندو نظریات پر مبنی فلم قرار دیا    ہے ۔کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنرائی وجین نے اس فلم کو کیرالہ ریاست کو بد نام کرنے اور کیرالہ کی مذہبی ہم آہنگی پر حملہ قرار دیا ہے ۔مغربی بنگال  کی ممتا حکومت نے   اس فلم کی نمائش پر پابندی عائد کر دی تھی مگر سپریم کورٹ کی جانب سے اس پر اسٹے لگا دیا گیا۔حالیہ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی اس فلم کی تشہیر کی اور فلم کے ذریعہ فرقہ وارانہ بنیاد پر رائے دہندگان کو پولرائز کرنے کی کوشش کی تھی مگر کرناٹک کے سمجھدار عوام نے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔