فلم ’’خالد کا شیواجی‘‘ تنازعہ، وجوہات اور تاریخی پس منظر

تنازعہ کیوں کھڑا ہوا؟ ڈائیلاگ اور تاریخی پس منظر کی جھلک

ضمیر خان

شیواجی مہاراج کی غیر جانب داری، تعصب پر مبنی بیانیے کے لیے چیلنج!
نئی تعبیر پر چرچا فلم نے فرقہ وارانہ سیاست کو بے نقاب کیا، نفرتی ایجنڈا ناکام
مراٹھی فلم ’’خالد کا شیواجی‘‘ حالیہ دنوں میں مہاراشٹر اور ملک بھر میں ایک بڑے تنازعے کا سبب بنی ہوئی ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ اس فلم کے عنوان، اس کے ڈائیلاگ اور بعض تاریخی حوالوں کو غلط انداز میں پیش کیے جانے کی وجہ سے یہ تنازعہ شروع ہوا ہے۔ کئی تنظیموں نے اس فلم کی نمائش پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ فلم کی ریلیز سے پہلے ہی مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں میں شدید بحث چھڑ گئی ہے۔ ایک طرف فلم ساز اور فن کار اسے شیواجی مہاراج کی اصل روح یعنی ’’سب کو ساتھ لے کر چلنے والے حکم راں‘‘ کے طور پر دیکھنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف کچھ تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اسے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش مان رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ممبئی کی ایک ہندو تنظیم نے اس فلم پر اعتراض کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ فلم پر پابندی لگائی جائے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ فلم میں چھترپتی شیواجی مہاراج کی تاریخ کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
تنازعے کی وجوہات
فلم میں شیواجی مہاراج کو ایک ایسے حکم راں کے طور پر دکھایا گیا ہے جو مذہب کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ فلم کے ایک اہم منظر میں ایک کردار کہتا ہے:’’ایک سچا بادشاہ وہ ہے جو مذہب میں یقین نہیں رکھتا بلکہ وہ انسانیت کے مذہب کو مانتا ہے‘‘ یہ جملہ اور شیواجی کے ہمہ جہت اور شمولیتی کردار کی جھلک دائیں بازو کے گروہوں کو ناگوار گزری۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ شیواجی کی اصل شناخت کو بدلنے کی کوشش ہے۔کچھ حلقوں نے اعتراض کیا ہے کہ فلم میں شیواجی کے دور کی فوج میں مسلمانوں کی بڑی تعداد اور رائے گڑھ پر مسجد کی موجودگی جیسے نکات بڑھا چڑھا کر دکھائے گئے ہیں جس سے تاریخ کے مسخ ہونے کا اندیشہ ہے۔ مخالفین کے دباؤ میں آکر مہاراشٹر حکومت نے مرکزی وزارتِ اطلاعات و نشریات (I&B) کو خط لکھ کر فلم کے سرٹیفکیٹ پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ فلم کے بعض مناظر عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں اس لیے فلم کی ریلیز کو روک دیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ ماہ قبل ریاستی وزیرِ ثقافت آشیش شیلار نے اسی فلم کو کانس فلم فیسٹیول کے لیے منتخب کیے جانے پر مبارکباد دی تھی۔ مگر اب وہی اشیش شیلار فلم پر تنقید کرنے والوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں جس سے سیاسی سطح پر تضاد اور بحث نے شدت اختیار کر لی ہے۔ میڈیا نمائندوں نے جب اشیش شیلار سے ان کے دوہرے رویہ کے بارے میں سوال کیا تو جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے وہ فلم دیکھی نہیں تھی کچھ لوگ میرے پاس اس فلم کو کانس فلم فیسٹول کے لیے بھیجنے سے متعلق فائل لے کر آئے تھے میں نے اس خیال سے اس پر دستخط کیے تھے کہ شیواجی مہاراج کی حیات و خدمات پر بنائی گئی فلم پر بھلا کوئی تنازعہ کیوں ہوگا لیکن اب جب کہ فلم کے کہانی اور مکالموں پر سماج میں ایک نئی بحث چھڑ گئی تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں نے مرکزی حکومت سے اس کی ریلیز پر روک لگانے کی سفارش کی ہے۔ اور CBFC سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ اس کی فلم ریلیز کے لیے جاری کیے گئے سرٹیفکیشن پر نظر ثانی کرے۔ سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن نے فلم کے ہدایت کار کو حکم دیا کہ فلم میں پیش کی گئی کہانی کی تصدیق کے لیے تاریخی حوالے پیش کرے۔ ہدایت کار راج پرتِم مور اور اداکار مکرن دیشپانڈے نے حکومت کے اس رویے پر مایوسی ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلم کو منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت میں یہ فلم ایک مثبت پیغام دینے کی کوشش ہے۔ فلم کی کہانی ایک مسلمان لڑکے خالد کے گرد گھومتی ہے جو پانچویں جماعت کا طالبِ علم ہے۔ اسکول میں ساتھی بچے اسے ’’افضل خان‘‘ کہہ کر چھیڑتے ہیں کیونکہ افضل خان شیواجی مہاراج کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ اس طعنے کے بعد خالد اپنی شناخت اور شیواجی کی حقیقی شخصیت کو جاننے کی جستجو شروع کرتا ہے۔ اپنی دادی، استاد اور دوستوں کے ذریعے وہ یہ جانتا ہے کہ شیواجی صرف ایک مراٹھا یا ہندو حکم راں نہیں تھے بلکہ وہ ایک ایسے رہنما تھے جن کی فوج میں سبھی مذاہب کے لوگ شامل تھے، جنہوں نے انصاف اور مساوات کی بنیاد پر حکم رانی کی۔
شیواجی مہاراج اور افضل خان:تاریخ، حقیقت اور فرقہ وارانہ بیانیہ
ہندوستان کی تاریخ میں بعض واقعات ایسے ہیں جنہیں بار بار دہرا کر مخصوص بیانیے گھڑ لیے گئے ہیں۔ انہی میں ایک مشہور واقعہ ہے شیواجی مہاراج اور افضل خان کی دشمنی کا۔ اس واقعے کو مختلف تاریخ نگاروں نے الگ الگ زاویوں سے بیان کیا ہے، لیکن بعد کے ادوار میں اسے ہندو-مسلم دشمنی کی علامت بنا دیا گیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ دشمنی دراصل کیا تھی اوراسے کس طرح مذہبی رنگ دے کر نفرت کے بیج بوئے گئے۔
شیواجی بھوسلے (1630–1680) مراٹھا سلطنت کے بانی تھے۔ ان کی سب سے بڑی جدوجہد مغلوں اور دکن کی طاقتور سلطنتوں کے خلاف آزادی حاصل کرنا تھی۔ افضل خان، بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت کا ایک طاقتور جرنیل تھا جسے 1659 میں شیواجی کے بڑھتے ہوئے اثر کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ شیواجی اور افضل خان کی ملاقات رائے گڑھ کے قلعے کے قریب طے ہوئی۔ مختلف تاریخوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ افضل خان نے گلے ملنے کے بہانے شیواجی مہاراج کو خنجر سے مارنے کی کوشش کی۔ شیواجی چونکہ ذرہ بکتر پہنے ہوئے تھے اس لیے بچ گئے اور اپنی چھپی ہوئی خنجر سے حملہ کر کے افضل خان کا پیٹ چیر دیا۔ اس دوران افضل خان کے ایک محافظ کرشنا کلکرنی نے شواجی مہاراج پر تلوار سے حملہ کر دیا جس سے شیواجی مہاراج زخمی ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے پلٹ وار کرتے ہوئے کرشنا ککلرنی کو بھی قتل کر دیا۔ تاریخ میں یہاں صرف افضل خان کی غداری کا ذکر کیا گیا جبکہ شیواجی مہاراج پر حملہ کرنے والے برہمن کرشنا کلکرنی کے کردار کو جان بوجھ کر چھپا دیا گیا۔ اس کے بعد مراٹھا فوج نے عادل شاہی لشکر کو شکست دی۔ یہ واقعہ شیواجی مہاراج کی بہادری اور تدبر کی مثال کے طور پر مشہور ہوا۔ اس کے بعد مہاراشٹر کی درسی کتابوں، مراٹھی لوک کتھاؤں اور قوم پرست تحریروں میں افضل خان کو ’’دھوکے باز مسلمان‘‘ اور شیواجی مہاراج کو ’’ہندو دھرم کا محافظ‘‘ دکھایا گیا۔ یہاں یہ واقعہ صرف ایک مذہبی جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جبکہ کئی غیر جانب دار اور جدید مورخین جیسے ستیش چندر اور جادو ناتھ سرکار اس پر زور دیتے ہیں کہ یہ جنگ اصل میں سیاسی اقتدار کے لیے تھی، نہ کہ مذہب کے لیے؟ عادل شاہی دربار میں ہندو وزراء اور فوجی بھی تھے۔ شیواجی کی اپنی فوج اور انتظامیہ میں بھی مسلمان افسران شامل تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ شیواجی کی فوج میں تقریباً 35 فیصد مسلم سپاہی خدمات انجام دے رہے تھے۔شیواجی مہاراج کے محافظین میں سے ایک بڑی تعداد مسلم سپہ سالاروں کی تھی۔ شیواجی مہاراج نے مسلم سپاہیوں کے لیے رائے گڑھ کے قلعہ میں مسجد کی تعمیر کی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس واقعے کو ہندو-مسلم تضاد کے طور پر پیش کیا گیا۔ نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے بھی "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی کے تحت اس بیانیے کو بڑھاوا دیا۔
بعد میں نام نہاد قوم پرست سیاست نے شیواجی مہاراج۔افضل خان کے واقعے کو ’’ہندو بمقابلہ مسلمان‘‘ کی علامت بنا دیا۔اسکولوں کی کتابوں اور سیاسی تقریروں میں افضل خان کو ’’اسلامی عیار دشمن‘‘ اور شیواجی کو ’’ہندو ہیرو‘‘ کے طور پر دکھا کر دونوں قوموں میں نفرت پھیلائی گئی۔ اگر غیر جانب داری سے دیکھا جائے تو یہ لڑائی مذہب کے بجائے طاقت اور اقتدار کے لیے تھی۔
شیواجی نے کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر دشمنی نہیں کی۔ ان کی ریاست میں مسلمان افسر، مشیر اور فوجی نہ صرف شریک تھے بلکہ اہم کردار ادا کر رہے تھے۔شیواجی اور افضل خان کی دشمنی کا واقعہ تاریخ کا ایک اہم موڑ ضرور ہے لیکن یہ ہندو-مسلم جنگ نہیں تھی۔ اصل میں یہ سیاسی طاقت کی کشمکش تھی۔ بعد کے دور میں اس کو مذہبی رنگ دے کر نفرت کے بیج بوئے گئے تاکہ سماج میں تقسیم پیدا ہو۔
درحقیقت شیواجی مہاراج کا وژن ایک ایسی سلطنت کا قیام تھا جہاں انصاف، مساوات اور سب کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ ان کی شخصیت سے یہی پیغام ملتا ہے کہ تاریخ کو فرقہ وارانہ نہیں بلکہ انسانی اقدار کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خالد کا شیواجی فلم یہ پیغام دیتی ہے کہ ایک سچا بادشاہ وہ ہوتا ہے جو مذہب اور فرقے سے بالاتر ہو کر سب کو اپنا سمجھتا ہے۔ نیز یہ فلم تاریخ کے مشہور کردار کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن یہی نیا زاویہ تنازعے کی جڑ بنا ہوا ہے۔ جہاں کچھ لوگ اسے فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر ایک بہتر معاشرتی سوچ کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو وہیں تنگ نظر دوسری طاقتیں اسے شیواجی کی تاریخی شبیہ کے ساتھ نا انصافی سمجھ رہی ہیں۔ یہ تنازعہ اس سوال کو اور زیادہ نمایاں کرتا ہے کہ کیا تاریخ کو نئی نسل کے سامنے صرف روایتی زاویے سے پیش کیا جانا چاہیے یا پھر اس کے اندر پوشیدہ انسانی اور آفاقی قدروں کو اجاگر کرنے کی بھی گنجائش ہونی چاہیے؟ اب خبر یہ ہے کہ فلم کے پروڈیوسروں نے ایک محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ فلم کی ٹیم کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں فلم پر ہونے والی تنقید کا تفصیل سے جواب دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ "ناظرین کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ یہ فلم صرف تفریح کا ذریعہ بنے، کسی کو کسی بھی طرح کی تکلیف نہ پہنچے۔ اسی مقصد کے تحت فلم میں شامل متنازعہ ڈائیلاگ فوراً نکالنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ اس تنازعہ پر دنگا مکت مہاراشٹر کے کنوینر شیخ سبحان علی نے میڈیا ڈبیٹ میں حصہ لے کر اپنی بات پیش کرتے ہوئے کہا کہ شیواجی مہاراج ایک انصاف پسند اور سیکولر حکم راں تھے ان کی نظر میں تمام مذاہب ایک جیسے تھے لیکن موجودہ دور میں جو لوگ نفرت کی سیاست کے ذریعے اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں انہیں اس فلم کے سامنے آنے سے اپنا ایجنڈا ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اقتدار کے چھن جانے کی فکر ستا رہی ہے اس لیے اس فلم کو منظر عام پر آنے سے روکا جا رہا ہے اور مختلف باتیں بنائی جا رہی ہے۔ شیواجی مہاراج کے بارے میں تاریخ دانوں میں الگ الگ بیانیے ملتے ہیں، ایسے میں اگر فلم ڈائریکٹر کو ایک مثبت اور تعمیری پہلوؤں کے حوالے سے کچھ باتیں ملیں اور اس نے اسی کو اپنی فلم میں پیش کرنے کی کوشش کی تو اس میں برا کیا ہے؟ کچھ لوگ اس کے نام پر اعتراض کر رہے ہیں۔ ٹھیک ہے خالد کا شیواجی اگر نام مناسب نہیں ہے تو کلکرنی کا شیواجی یہ نام رکھ دینا چاہیے لیکن فلم کو سامنے آنا چاہیے۔ اس فلم کے ذریعے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان پائی جانے والی دوریاں اور نفرت کچھ حد تک کم ہوگی اور آپسی بھائی چارہ بڑھے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برسر اقتدار پارٹیوں کو کیا یہ منظور ہے یا اسے وہ اپنی سیاسی ایجنڈے میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔

 

***

 ’’خالد کا شیواجی‘‘ صرف ایک فلم نہیں بلکہ ایک فکری مکالمہ ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا تاریخ کو ہمیشہ مذہب اور تعصب کے چشمے سے ہی دیکھا جانا چاہیے؟ فلم کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ شیواجی مہاراج صرف ایک ہندو حکم راں نہیں بلکہ انصاف، رواداری اور انسانیت کے علمبردار تھے۔ یہی مثبت پیغام کچھ حلقوں کو برداشت نہیں ہو رہا، کیونکہ وہ اپنی سیاست کو مذہبی تقسیم پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025

hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |