ڈاکٹر حسن رشید، دبئی
شاعرِ انسانیت اقبالؒ کو زندگی کا ہم سفر قرار دے کر اس رباعی سے مضمون کی ابتدا کرتا ہوں۔
ترا تن روح سے ناآشنا ہے
عجب کیا آہ تیری نارسا ہے
تن بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے
یہ اشعار ہماری موجودہ سوچ اور فکر کے لیے تازیانہ ہیں اور ہمارے زندہ ہونے کے احساس کو بیدار کرتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے انسان کے جاگ اٹھنے اور باشعور ہونے کی کہانی بڑی دلچسپ اور طویل ہے۔ ابتداء میں نہ صرف انسان کی زندگی سادہ اور مختصر تھی بلکہ اس کی ضرورت‘ خواہش اور دائرہ کار بھی محدود تھا۔ خالق کائنات کے سامنے ملائک اور فرشتوں کے سجدوں کا انبار تھا۔ حیوانات و نباتات کی بقا اور نسلی تحفظ کا مسئلہ موجود نہ تھا۔ نظام کائنات اور قانون فطرت کے مطابق شمس و قمر ابھرتے ڈوبتے تھے۔ سمندر اور پہاڑ، جنگل اور میدان، موت اور زیست کے تقاضے پورے کرتے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ رب جلیل نے نہ صرف انسان کو افضل کیا بلکہ اسے آزاد فضا اور قوتِ فکر و عمل سے نوازا۔ انسان کے دائمی تحرک اور تگ و دو سے یہ ویران زمین دنیا کہلائی اور آدمی انسان بنا۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں علامہ اقبالؒ کا کلام جنوبی ایشیا کے اکثر و بیشتر مسلمان گھرانوں میں مقبول تھا۔ بعض مکاتیب فکرِ ادب عالیہ کو بڑی حد تک زمان و مکان کی سطح سے بلند کر دیتے ہیں۔ میرے خیال میں زندہ جاوید ادب کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تاریخ سے تو گریز کر سکتا ہے مگر زمان و مکان کی حدودو سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکتا۔ اعلیٰ ادب مقامیت کے تنگ دائرے سے آگے اور ثقافتی و سیاسی تعصبات سے بلند ضرور ہوتا ہے مگر اس کی جڑیں اپنے زمانے اور زمین سے اکھڑ نہیں سکتیں۔ اقبالؒ جیسا دانائے راز اور دیدہ ور شاعر کل عالم انسانیت اور خصوصاً مسلمانان ہندو پاک کے انداز زندگی اور اخلاق و عادات دیکھ رہا تھا۔ ایک طرف مغربی ممالک میں سائنسی ترقیاں، مشینی ایجادیں، جنگ و جدل اور تیز رفتاری تھی، مختلف علوم کا عروج اور تحقیق کا عمل جاری تھا تو دوسری طرف مشرق میں سیاسی و ذہنی غلامی کی تاریکی اور مایوسی و ناامیدی کی گھٹن تھی۔ راحت طلبی، تن آسانی اور کاہلی زندگی پر چھائی جا رہی تھی۔ مغرب والے اپنی تاریخی ضرورت اور پیاس کے تحت اقبالؒ کے کلام کی کلاسیکیت، رمزیت اور اس کے مرد مومن کے عشق و فقر و بے نیازی پر مر مٹے تھے۔ جب اقبالؒ اپنے ہم وطنوں اور ان جیسے سب انسانوں کے لیے روحانی و جسمانی پس ماندگی کے جنگل میں راستہ بنانے کا خیال کر رہے تھے تو درختوں کے جھنڈ میں پہلے سے ہی جلے ہوئے بے شمار چراغ موجود تھے۔ یہ رابندرناتھ ٹیگور، مولانا محمد علی جوہر، سید سلیمان ندوی، مولوی عبدالحق، مولانا حالی اور شبلی کا دور تھا۔ گوئٹے، نیطشے، غالب اور سرسید احمد خان کے اثرات ذہنوں پر چھائے ہوئے تھے۔ سیاست، فلسفے اور سائنس کا دامن مصطفیٰ کمال پاشا، کارل مارکس، برگساں اور آئن اسٹائن جیسی عظیم ہستیوں سے مالا مال تھا۔ ان منور چراغوں کے ہوتے ہوئے ابتدا میں اقبالؒ کا پیغام دائمی تحریک، ایک چراغ کی مانند ہی ہو گا۔ مگر اس نے انسانی قلب و ذہن کے چراغ کی لو تیز کر دی۔ اس کی نثر اور شاعری دونوں میں تہہ در تہہ مسلسل قوت اور حرکت و عمل کارفرما ہے۔ اقبالؒ اجتماعی زندگی میں احساس کمتری، ذہنی انتشار اور مردہ دلی پر رو اٹھتا ہے۔
بجھی ہے عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
ہر عمل سے پہلے خیال جنم لیتا ہے۔ اقبالؒ ذہنوں میں مقصد کی لگن اور ذوقِ عمل بیدار کرتا رہا۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اقبالؒ نئی نسل سے توقعات بھی رکھتے ہیں اور اشارتاً یاد بھی دلاتے ہیں۔
یہ محبت کی حرارت، یہ تمنا، یہ نمود
فصلِ گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیرحجاب
وہی ہے جہاں ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ وخشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے
زندگی کی اصلیت کو بیان کیا کہ
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات، ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
تاریخ شاہد ہے کہ اقبالؒ کے زمانے میں نف ذات، تصوف کے مسخ شدہ چہرے اور دنیا سے فراریت اور قنوطیت کے تصورات عام تھے۔ اقبالؒ کا فلسفہ خودی ایک طرح کا جہاد تھا کیونکہ خودی کی اساس عملِ پیہم پر ہے۔ علامہ بیمار ذہنیت، خیالی دنیا اور خود پرستی کے خلاف صف آرا ہوئے۔ اقبالؒ کے نظریہ حیات پر غم و اداسی، محکومی و مسکینی کی قطعی کوئی چھاپ نہیں۔ اس کے نزدیک تلخ حیات سے فرار اور گریز جرم ہے۔ اس نے فریب نگاہ اور خود فراموشی کی دھند کو دور کیا۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والا شاعر بے عملی اور آرام پسندی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرامیں نہیں
ہے جنون تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر
بے شک شاعرِ مشرق کے اشعار میں بے پناہ وسعتیں ہیں مگر عظمت کا یہ پہلو نہایت اہم ہے کہ اس کی شاعری ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر فرد اپنا ماضی اور قومیں اپنی تاریخ بھول جائیں تو یہ بات ہمیشہ دکھ اور احساس کمتری کی علامت بنی رہتی ہے۔ اقبالؒ اپنے اسلاف پر نازاں ہے اور حال و مستقبل کی تعمیر جہد مسلسل اور قوت بازو سے کرتا ہے۔ اس کے نزدیک فاتح عالم وہی ہے جو دلوں کو محبت سے جیتے مگر دنیا پر اپنے اعمال صالح اور رفعت پرواز سے چھا جائے۔ اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقبالؒ کو سمندر اور دریا سے جو لگاؤ ہے وہ اس کی موجوں کی روانی کی بدولت ہے۔ پرندوں اور پھولوں سے محبت ان کے ذوق پرواز اور مہک کی وجہ سے ہے۔ مغنی کا ساز اس لیے دلکش ہے کہ نغمے بکھیرتا ہے۔ اقبالؒ صحرا اور ہوائے بیاباں کا متوالا ہے کہ یہی، بندگانِ صحرائی، یا مردان کوہستانی، کی پرجوش اور فعال شخصیت کی تعمیر میں شریک ہیں۔ دائمی حرکت کا شیدائی اقبالؒ زندگی میں جمود اور سکوت کی کیفیت برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ اس کا یہ شعر ہمارے لیے چراغ راہ ہے۔
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلّٰی
اﷲ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
اگر ہم کسی فن کار یا شاعر کے فکر و احساس کی سچی تصویر دیکھنا چاہیں تو ہمیں اس کے تخیلی پیکروں اور کرداروں کو اچھی طرح جان لینا چاہیے۔ اقبالؒ کے تخیلی پیکروں میں اس کی اپنی قدریں صاف جھلکتی ہیں۔ آئیے چند نظموں کے کرداروں پر طائرانہ نظر ڈالیں۔ نظم تسخیر فطرت میں کم و بیش ملٹن کی ’’فردوس گم شدہ‘‘ اور گوئٹے کی ’’فاؤسٹ‘‘ کی طرح شیطان المیے کا ہیرو اور عالمگیر دلچسپی کا مظہر ہے۔ اقبالؒ کے ہاں شیطان کا کردار بے چینی اور خود غرضی کا مجموعہ، خلوص و محبت اور نظم و ضبط کی نفی کرتا ہے۔ اس کردار میں قوت تخلیق اور عمل پیہم سے جان پڑ گئی ہے۔ اسی طرح جبریلؑ اور ابلیس کا مکالمہ معنی خیز ہے۔ جبریلؑ کے لاکھ سمجھانے اور متاثر کرنے پر بھی ابلیس کو قرب الہٰی اور افلاک کا سکون و قرار منظور نہیں۔ ابلیس گناہ کی علامت اور شرکا مرکز ہوتے ہوئے بھی جرأتِ مردانہ ہمت اور حوصلے کے عناصر سے جی اُٹھتا ہے۔ جاوید نامہ میں اقبالؒ اپنے مرشد رومی کے ہمراہ افلاک کی سیر کرتے ہوئے ایک شاعر اور رقاصہ کی ملاقات کا سماں باندھتے ہیں۔ رقاصہ اگرچہ گوتم بدھ کے ہاتھ پر شر سے توبہ کر چکی تھی مگر اب وہ آسمانوں پر چھائے دائمی سکوت اور اپنے عیش و آرام سے بیزار بھی ہے۔ ہماری نگاہ میں رقاصہ کا کردار زندگی کے روحانی اور جوش ولولے کا تمنائی پیکر بن کر ابھرتا ہے۔ اسی طرح پیام مشرق کی نظم حوروشاعر میں سکونی نظریہ حیات کے خلاف درس موجود ہے۔ شاعر کے کرداروں میں توانائی اور ذوق جستجو ہے۔ وہ جنت میں بے نیاز رہ کر اور حوروں کو آرزو کی کسک دکھا کر اس پر دنیا کی سخت کوشی اور قیامت خیز مقابلے کو ترجیح دیتا ہے۔
نظم مسجد قرطبہ ادب کا لافانی شاہکار اور روشن دلیل ہے کہ زندگی متحرک حقیقت ہے اور تغیر و انقلاب اس کے ارتقا کے لازمی عناصر ہیں۔ مسجد قرطبہ ایک کردار اور علامت ہے جس پر عظیم مسلمان قوم کے عشق کے جذبۂ صادق اور متواتر محنت و جان بازی کی مہر لگی ہے۔ اقبالؒ اپنے بعض اشعار میں حد تو یہ ہے کہ محبت کے خنک اور پرسکون ماحول کی بجائے دوزخ کی ہل چل اور حرارت کو پسند کرتا ہے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ مفکر شاعر اقبالؒ کی نثر اور لیکچرز جابجا زیست کے حرکی تصور کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس نے لندن سے واپسی پر پروفیسر نکلسن کو ایک خط میں لکھا: میں حرکت اور عمل کو خواہ وہ کسی شکل میں ہوں زندگی کے لیے ضروری سمجھتا ہوں، عمل ہی کی ایک صورت تصادم و پیکار بھی ہے جس کی اجازت اسلام نے خاص حالات میں دی ہے۔ اقبالؒ کا بندہ مولیٰ صفات رومی کے’’ خدا خُو‘‘ سے آگے بڑھ کر جہاد زندگانی میں گامزن ہے۔ اقبالؒ نے قیام یورپ کے زمانے میں اس تصور کو ایک لیکچر میں یوں پیش کیا۔ ’’انسان کو شعور اور شخصیت ملی ہے جو شمس و قمر کو نہیں ملی۔ ذی روح اور ذی شخصیت ہونے کی حیثیت سے انسان کا فرض ہے کہ وہ اس دنیا کو اپنے فکر و عمل سے آباد کرے۔‘‘ اقبالؒ نے بارہا جرمنی، فرانس اور اٹلی کے انقلابوں کے حوالوں سے یہ امید ظاہر کی کہ ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ سے وطن کی بدحالی دور ہو گی۔ وہ بدر وحنین اور خیبر وکربلا کے واقعات، قوم کی بیداری کی خاطر سناتا رہتا ہے۔ وہ انسانی غیرت کو زندہ کرنے کے لیے شیر شاہ سوری، صلاح الدین ایوبی اور اورنگ زیب کے کارناموں کو نمایاں کرتا ہے۔ اقبالؒ اپنا فلسفہ حرکت و عمل سمجھانے کی خاطر مجاہدوں کی اذانوں، صوفیائے کرام کی قوت ارادی اور دشوار ترین خدمات کو بار بار زبان پر لاتا ہے۔ اس نے تاریخ سازی کی تعریف اس طرح کی ہے۔ ’’واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اجتماعی حیثیت سے انسان روح کی ایک حرکت ہے۔ روح انسانی کا کوئی ماحول نہیں بلکہ تمام عالم اس کا ماحول ہے۔‘‘ خطبات اقبالؒ میں یہ بظاہر سادہ سا جملہ کس قدر گہرائی رکھتا ہے۔ خودی کا مسئلہ کسی شے کو جاننے کا نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو کچھ بنانے کا ہے۔ اقبالؒ کا پیام عمل، جرأت، جسمانی قوت، روحانی توانائی اور تخلیق کا تقاضہ کرتا ہے۔ کلام اقبالؒ کے موضوعات اور ان سے وابستہ شخصیتوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سب ہر دم جواں ہردم رواں، رہنے والی ہستیاں تھیں۔ وہ کاروان حیات کو مسلسل آگے
بڑھانے کا قائل ہے اقبالؒ کے نزدیک
کمال کس کو میسر ہوا ہے بے تگ و دو
اس کی محفل میں مسولینی، لینن، رومی، ابن عربی، گوئٹے، ٹالسٹائی، ٹیپوسلطان، جمال الدین افغانی، خوشحال خان خٹک، سرسید احمد خان اور کئی عظیم ہستیاں پہلو بہ پہلونظر آتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن کے عشق رسولؐ انسانوں کے لیے اعمال صالح کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ فلسفی شاعر اقبالؒ نے اپنی جدت طبع سے ہر شعبہ حیات کے متعلق جدید مکتب فکر کی تخلیق کی۔ بقول خواجہ عبدالوحید، اقبالؒ نظریہ فن کے بارے میں رقم طراز ہے۔ اعلیٰ ترین فن وہ ہے جو ہماری خفتہ قوتوں کو بیدار کر کے ہم میں زندگی سے نبردآزمائی کی مردانہ صلاحیتیں ابھارتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور جگہ لکھتا ہے۔ ’’بعض قسم کا آرٹ قوموں کو ہمیشہ کے لیے مردہ بنا دیتا ہے۔ ہندو قوم کی پستی اور تباہی میں ان کے فن موسیقی کا بڑا حصہ رہا ہے۔ فن شاعری کے، انسانی دلوں پر، بے پناہ اثرات کا اقرار سب ہی کرتے ہیں مگر اقبالؒ شاعری کے لیے ایک نظریے اور مقصد کی وضاحت کرتا ہے۔ ایک تنہا انحطاط پذیر روح کا شاعرانہ پیغام کسی قوم کے لیے چنگیز خان اور ایٹلا کی فوجوں سے کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اقبالؒ کا عقیدہ ہے کہ سچا شاعر اپنے فن اور جوشِ عشق سے خوابیدہ ذہنوں اور جذبات کو زندگی عطا کرتا ہے ورنہ جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرۂ نیساں‘ وہ صدف کیا وہ گہر کیا؟ اگر ہم دیدۂ دل وا کریں تو ہمارے سامنے اقبالؒ کے وجدان میں امنگوں کا نگر آباد ہے۔ وہ قیام کا سرے سے قائل نہیں۔ اس کا تصور حسن و جمال منفرد و فعال ہے۔
دلبری بے قاہری جادوگری است
دلبری باقاہری پیغمبری است
مصور کا بنایا ہوا شاہکار جان دار اور بولتا ہوا نہیں تو اقبالؒ کے لیے بے معنی ہے۔ اس کے لیے حسین فطری مناظر کوئی کشش نہیں رکھتے اگر وہ ساکن ہیں۔ اقبالؒ تصور حسن کے جمالی پہلو سے سچی مسرت حاصل کرتا ہے اور جلالی پہلو سے جوش حیات اور کوشش ناتمام مراد لیتا ہے۔
اقبالؒ کے حیات افروز پیغام کی وسعتیں جاننے کے لیے اس کی شاعرانہ علامتوں کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ علامت کی تعریف سادہ لفظوں میں یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ ادبی ورثے اور موجودہ تخلیقات تک ایک ذہنی رشتے کا کام کرتی ہے۔
یہ شاعر یا ادیب کے دل کی بات کو لمحے بھر میں لفظی پیکر میں بدل کر قاری کے دل میں اتار دیتی ہے۔ میں نظریہ تحرک کی نسبت سے اس وقت صرف شاہین اور مرد مومن کی علامت کا ذکر کروں گی۔ اقبالؒ کے اشعار میں رفعتِ پرواز اور جواں مردی کے جواہر بعض پرندوں اور جانوروں میں جلوہ گر ہیں۔ مثلاً
چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ
نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے
شکارِ مردہ سزاوارِ شاہباز نہیں
اقبالؒ کا آئیڈیل اور محبوب پرندہ شاہین فقر و بلند نگاہی، قوت اور گرمئ خوں کی صلاحیتوں کا پیکر ہے۔ وہ دنیاوی بسیروں اور آرام اور چین سے بے نیاز ہے۔ اقبالؒ جو سورج یا نیّر اعظم کو بھی بلازحمت فضیلت کا نشان دینے پر تیار نہیں ہے۔ شاہیں یا عقاب کے حوالے سے کہہ اٹھتا ہے۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں
نظم ’’شاہین‘‘ کے چند اشعار ہیں
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
اعلیٰ شاعری، عالمگیر صداقتوں اور جذبات کی ترجمان ہوتی ہے اور اس کا محور انسان کی ذات ہے۔ ایک آئیڈیل انسان کسی نہ کسی سے شاعری میں زندگی کے وسیع تر امکانات کو اجاگر کرتا رہتا ہے۔ اقبالؒ کا انسان کامل یا مرد مومن بلا کا ذہین، دلیر، توانا اور باعمل ہے۔ اقبالؒ نے اس علامت میں جو چار عناصر سمو دیے ہیں، وہ قہاری وغفاری اور قدوسی و جبروت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں قہاری صفات جلالی میں سے ہے۔ صفات جلالی کی تعریف یہ ہے کہ وہ صفات جس سے ﷲ تعالیٰ کی حکومت جلالی اور جبروت کا اظہار ہوتا ہے۔ قہار وہ ہے جو سب کو قابو میں رکھ کر حکم چلائے۔ اقبالؒ کی نگاہ میں مرد مومن کی زندگی اصل ہے اور اس کا دوسرا نام مسلسل تگ و دو اور تسخیر کائنات ہے۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
شاید ہی کوئی اس صداقت سے منکر ہو کہ اقبالؒ نے دنیائے ادب کو فکری نظام دیا اور انسان کو نائب حق کے مقام تک لے جانے کے لیے متحرک فلسفۂ حیات بخشا۔ لیکن یہ سب کچھ خشک اور دقیق فلسفے کے روپ میں باقی رہتا ہے۔ اگر اقبال فن کے قبیلے کے وجیہہ اور مستعد سردار نہ ہوتے تو سوچنے کی بات ہے کہ کوئی بنجر اور پتھریلی زمین پر صرف جوش اور قوت سے کدال مارے تو دھول اور گرد ہی اٹھتی رہے گی، اناج تو پیدا نہ ہو گا۔ اقبالؒ فکر و خیال کے چشمے کے لئے اپنے ساتھ اظہار کے جان دار اور متحرک سانچے بھی لایا۔ اردو شاعری جو داغ اور امیر مینائی کے بعد طرز ادا کے لحاظ سے بے جان اور گدلی سی ہوتی جا رہی تھی۔ اقبالؒ کی منفرد لے اور گونج سے جاگ اٹھی۔ اس کی شاعری کا ادبی حسن، زیست کی توانائیوں سے دمک رہا ہے۔ اقبالؒ نے فنی لحاظ سے جمود و یکسانیت کو توڑا۔ اس کا دائمی تحرک فلسفۂ اظہار فن میں، پراعتماد لب و لہجہ اور ولولہ انگیز تاثر بن کر نمایاں ہوا۔ اقبالؒ کے طرزِ کلام میں مردانہ پن، ارتعاش کی کیفیت اور جوش حیات ہے۔ بوڑھا عقاب اپنے بچے سے جفاکشی کے بارے میں کہتا ہے۔
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر
وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں
اقبالؒ نے محراب گل افغان والی نظموں میں بوڑھے بلوچ کی زبان سے بیٹے کو نصیحت کروائی۔
ہو تیرے بیاباں کو ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہنائی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا
خوشحال خان خٹک کی نظم کے ایک شعر کا ترجمہ اس زندگی سے بھرپور انداز میں کیا ہے۔
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
جس اقبالؒ کا یہ ایمان ہو کہ قوت میں یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ باطل کو چھو لیتی ہے تو باطل حق میں بدل جاتا ہے۔ اس کی ہستی موت سے مٹتی نہیں بلکہ لافانی بن جاتی ہے۔ میں ان الفاظ کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ ہم سب یقین رکھتے ہیں کہ فرد اور قوم کی ترقی و تعمیر کا راز، اعلیٰ صلاحیتوں کے نکھار اور مسلسل سخت محنت میں ہے۔ مگر ہماری یہ حالت ہے کہ سفر شروع کرنے سے پہلے ہم سو کر اٹھے ہیں۔ ہماری آنکھیں کھلی ہیں اور ہم پلکیں جھپکا کر کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ابھی ہم پوری طرح جاگے نہیں، بیدار بھی نہیں۔ جبھی ہمارے ہاتھ پاؤں شل اور ذہن سُن ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں بے یقینی اور سہل انگاری کی دھند کو ہٹا کر راستہ بنانا ہے اور اس راستے پر آج بھی اقبالؒ ہم سفر و ہمدم ہے۔
[email protected]
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2022