فکر معاصر: ماضی کی قبروں پر حال کی سیاست: ایک خطرناک رجحان

مترجم ڈاکٹر ضیاء الحسن (ناندیڑ)

انگریزی کا محاورہ ہے (Keep the pot boiling) یعنی کسی مسئلہ کو ہمیشہ سلگتا ہوا رکھیں۔ ہمارے ملک میں ایک ایسا ہی مسئلہ ہندو-مسلم ٹکراؤ کا ہے۔ یعنی یہ مسئلہ اگر نہ ہو تو پیدا کیا جاتا ہے اور پیدا ہو جائے تو ٹھنڈا ہونے نہیں دیا جاتا۔ اگر اس کی شدت کم ہوتی دکھائی دے تو اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ آگ پھر سے بھڑک اٹھے۔ دراصل موجودہ حالات کے تناظر میں مندرجہ بالا انگریزی محاورہ کا مفہوم یہی ہے کہ اگر ہندو-مسلم مسئلہ نہ ہو تو مراٹھا-او بی سی، دلت، غیردلت، خود ساختہ اعلیٰ و ادنی ذات یا کوئی ایک زبان بنام دوسری زبان جیسے کسی مسئلہ کو تلاش کیا جائے اور اسے ہوا دی جائے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ یہ مسئلہ ٹھنڈا نہ ہونے پائے۔ اس طرح کے مسائل زندہ رکھنا بہت سارے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ ان میں غیر سیاسی عناصر مثلاً سیکوریٹی نظام سے وابستہ اہلکار، میڈیا اور بزنس سے جڑے لوگ بھی شامل رہتے ہیں، چونکہ آج کل میڈیا سب کی توجہ کا مرکز ہے اس لیے اس طرح کے ماحول سے میڈیا ہمیشہ خوش رہتا ہے۔ سیکوریٹی کے اہلکاروں کو اپنی من مانی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ تاجر اس بات سے خوش رہتے ہیں کہ ایسے ماحول میں حالات بگڑنے کے خوف سے عوام غیر ضروری چیزیں بھی خرید لیتے ہیں۔ اس طرح مختلف چیزوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ دراصل خوف، خود ایک بڑا بزنس مارکیٹ ہے۔ دوسرے کاروباروں کی طرح اس کاروبار کی بھی تیزی برقرار رکھنا یہاں کے سرغنہ افراد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر ہم ایک بار اس بات کو سمجھ لیں تو اورنگ زیب کی قبر کو لے کر آج کل شروع کیے گئے تنازعہ کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ اس تنازعہ کی شروعات کرنے اور اسے ہوا دینے والوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس وقت اورنگ زیب صرف ایک بہانہ ہے۔
چھتر پتی شیوا جی مہاراج صرف اس لیے قابل احترام اور عظیم نہیں ہیں کہ انہوں نے عادل شاہی اورنظام شاہی جیسی چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کا خاتمہ کیا تھا بلکہ انہوں نے تو ”دشتٹ دھیومن "(مہارت کا ایک بہادر کردار مگر یہاں ظالم کے معنی ہیں) اورنگ زیب کو شکست دی تھی۔ جو کام چھتر پتی کے ہم عصر ہندو اور راجپورت راجا نہیں کر پائے وہ انہوں نے کر دکھایا۔ عالمگیر کے سفاکانہ رویہ اور پھر اس کے خاتمہ سے قبر ہٹانے کا مطالبہ کرنے والے بخوبی واقف ہیں۔
دراصل چھتر پتی نے انگریزوں کو جس طرح مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا وہ ان کی سفارتی حکمت عملی کی بہترین مثال ہے۔ لیکن اس بات کی تشہیر اس لیے نہیں کی جاتی کہ انگریز کرسچن تھے اور اورنگ زیب مسلمان۔ اس طرح اورنگ زیب کا رشتہ پہلے پاکستان اور پھر بھارتی مسلمانوں سے جوڑنا آسان ہو جاتا ہے۔ ایسا کرنا پولرائزیشن کی سیاست کے لیے ضروری ہے۔ ویسے بھی گوروں یا انگریزوں سے ہمارا راست ٹکراو نہیں ہے۔ اسے عقلی طور پر تسلیم بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو دبائے رکھنا نسبتاً آسان ہوگا۔ تبھی تو شکستہ حال پاکستان کے لیے ’گھر میں گھس کے ماریں گے‘ جیسی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خود چین ہمارے ملک میں گھس آیا ہے لیکن اس کے ساتھ خوش اخلاقی اور امن و دوستی کی زبان میں بات کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ بھی مذہب اور اس ملک کی طاقت کا اندازہ لگالینا ہے چنانچہ چین کے ساتھ اس طرح کی زبان میں گفتگو سیاسی نقطہ نظر سے ہمارے لیے مفاد میں نہیں ہوگی۔ اس لیے ان حالات میں تقریباً چار سو سال پرانا اورنگ زیب ہی ہمارے کام آتا ہے۔ اس کی قبر پر تھوکنے جیسی بہادری کی باتیں کرنا اور شجاعت و دلیری کے مظاہرے موجودہ سیاسی حالات میں فائدہ مند ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کئی پرانے مسائل کی طرف عوام کی توجہ مبذول کراتے رہنا بھی ایک آسان کام ہے۔ مگر کسی مسئلہ کو سلگا دینا تو اس بھی زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اگر اورنگ زیب کی قبر کا تنازعہ شروع کرنا ممکن نہیں ہوتا تو اس طرح کے مسئلہ کے لیے کوئی دوسری قبر، مزار یا مسجد تلاش کرلی جاتی۔ بھارت جیسے ملک میں قبروں اور یادگاری مقامات کی کمی نہیں ہے۔ آگ لگانے کے لیے آخر ان لوگوں کو کچھ نہ کچھ تو مل ہی جاتا تھا۔ کیوں کہ آگ بجھا کر کوئی تعمیری کام کرنے سے زیادہ آسان آگ لگا کر تخریب کاری کے منصوبے بنانا ہے۔ اگر اس عمل میں لوگوں کا بڑا ہجوم اور برسر اقتدار طبقہ بھی شامل ہو تو پھر بڑی آسانی ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی حرکت دیکھنے کا ایک موقع بابری مسجد کے انہدام کے وقت بھارتی عوام کو مل چکا ہے۔
بیروزگاروں اور ذہنی طور پر قلاش افراد کی تعداد ہمارے ملک میں کم نہیں ہے۔ پولیس صرف تماشائی بن کر سب دیکھتی رہے گی اس بات کا اطمینان ہو جانے کے بعد سو دو سو لوگ اورنگ زیب کی قبر پر جائیں گے اور اسے مسمار کر دیں گے۔ اس طرح ان کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ خود کو دنیا کی سب سے پرانی اور سب سے زیادہ روادار سمجھنے والی ہندوؤں کی ایک عالمی تنظیم نے جمہوریت کی ماں کہلائے جانے والے اس ملک میں یہ سب کر دکھانے کا اشارہ پہلے ہی دے رکھا ہے۔ اس پر عمل کرنا ان کے لیے مشکل بھی نہیں ہے۔ لیکن اس منصوبہ پر عمل کیے جانے کے امکانات کم ہیں۔ کیوں کہ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ایک اچھا خاصا سلگتا ہوا مسئلہ ختم ہو جائے گا اور آئندہ کے لیے ایک نئی مسجد یا کوئی نئی قبر تلاش کرنی پڑے گی۔ رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے ایک فلم بھی بنانی ہوگی۔ یعنی اتنی ساری کارستانیاں کرنے کے بعد ہی کسی مسئلہ کو ایجنڈے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اورنگ زیب کی قبر کا مسئلہ بھی بالکل اسی طرح کھڑا کیا گیا، ایک منصوبہ بند طریقے سے مختلف شہروں میں پریس کانفرنسوں سے لے کر تقریروں اور اشاروں، کنایوں کے ذریعہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اس مسئلہ کو کسی طرح زیادہ سے زیادہ ابھارا جاسکے اور آئندہ کے لیے سلگتا رہنے دیا جائے تاکہ اس کے بعد والے مرحلہ میں قبر کی مسماری کو باجے گاجے کے ساتھ براہ راست دکھائے جانے کے پروگرام پر عمل کیا جاسکے۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر بنی ہوئی قبروں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جنہیں اکھاڑ پھینکنے کے لیے کوئی دوسرا پروگرام بنایا جاسکتا ہے۔
اس طرح کی توڑ پھوڑ کی صلاحیت رکھنے والوں نے کچھ تعمیری کام بھی کرنے چاہئیں۔ مثلاً انتظامیہ میں پھیلے ہوئے کرپشن کو وہ لوگ اکھاڑ پھینکیں۔ افضل خان اور اورنگ زیب کی قبریں اکھاڑنے کا عزم رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ریاستی انتظامیہ کی غیر کارکردگی کو بھی اسی طرح اکھاڑ پھینکیں۔ ایسا کرنے سے لال فیتہ شاہی مزاج اور وقت کا ضیاع کم ہوکر ریاستی انتظامیہ فعال ہونے میں مدد ملے گی۔ ہمارے تعلیمی نظام میں بڑے پیمانہ پر جہالت اور لا علمی پھیلی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کو اسے بھی اکھاڑ دینا چاہیے تاکہ ساتویں کلاس میں تعلیم حاصل کرنے والے ہمارے طلبہ کم از کم دوسری اور تیسری جماعت کی نصابی کتابیں پڑھنے کے قابل ہو جائیں۔ کون ایسا شخص ہے جو یہ نہیں کہے گا کہ ہمارے معاشرہ سے جہالت کو اکھاڑ پھینکا جائے، مسلم حکم رانوں کی قبریں اکھاڑ پھینکنے سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ مہاراشٹرا کے بے شمار نوجوان روزگار سے محروم ہیں۔ ان کی بے روزگاری اور ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا خاتمہ بھی ان لوگوں کو کرنا چاہیے۔ ہماری ریاست کے بڑے بڑے شہر آج کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اور گاؤں ویران ہوچکے ہیں۔ ان نئے دھرم رکشکوں کو چاہیے کہ وہ گندگی کے ان ڈھیروں اور گاوؤں کے اجاڑ پن کو دور کریں ورنہ صرف ان بے جان قبروں میں کیا دھرا ہے؟ ان دھرم پریمیوں کو چاہیے کہ وہ جگہ جگہ بنی ہوئی اذیت و کرب، غربت بے چینی اور دکھ درد کی قبروں کے نام و نشان مٹانے کا بھی عزم کرلیں۔
مشہور مراٹھی ادیب و شاعر وندا کرندی کرنے کہا تھا کہ ’صرف کسی سے حسد کرتے رہنے سے ہمارا قد نہیں بڑھتا‘ اس نصیحت سے شاید نئے دھرم پریمی واقف نہیں ہیں۔ اس لیے انہیں بتا دینا چاہیے کہ کسی دوسرے مذہب کی مخالفت کرکے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ہم اپنے دھرم سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ شکست خوردہ حکم رانوں کی قبریں اس طرح اکھاڑنے کا عمل جیت نہیں کہلائے گا۔ جیت تو تب ہوگی جب اوپر بیان کی گئی تمام چیزوں کو بھی اکھاڑ پھینکا جائے۔
(اداریہ، مراٹھی روزنامہ لوک ستا ، پونا مورخہ ۱۹مارچ ۲۰۲۵)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025