جرم کوئی بھی کرسکتا ہے اور واردات کوئی بھی انجام دے سکتا ہے، اس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ بڑا آدمی چھوٹا جرم کرسکتا ہے اور چھوٹا آدمی بڑا جرم کرسکتا ہے۔ شہری بھی جرم کرسکتا ہے اور گاؤں والا بھی جرم کرسکتا ہے۔ کون کب کس جرم کا ارتکاب کر دے، کوئی نہیں جانتا۔ ممبئی میں ہفتہ 12 اکتوبر کو جس طرح قدآور لیڈر بابا صدیقی کا گولی مار کر قتل کیا گیا یا جن لوگوں نے قتل کے واقعے کو انجام دیا، کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایسا بھی وی آئی پی سیکیورٹی والے لیڈر کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ قتل کی منصوبہ بندی ایسی تھی کہ پٹاخے کے شور میں گولی چل گئی، کام بھی ہوگیا اور جب تک لوگ سمجھتے، دیر ہو چکی تھی۔ اس طرح کی انہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ قاتل بھی ایسے نکلے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ وہ قتل جیسی سنگین واردات کو انجام دے سکتے ہیں، حالانکہ قتل کا شبہ لارنس بشنوئی گینگ پر ظاہر کیا گیا اور اس نے ذمہ داری بھی لی ہے، لیکن قاتلوں کے تار اتر پردیش اور ہریانہ سے جڑ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 2 قاتل دھرم راج کشیپ اور شیو گوتم اتر پردیش ضلع بہرائچ کے قیصر گنج تھانے کے گندارا گاؤں کی ایک جھونپڑی میں رہنے والے غریب کنبے سے تعلق رکھتے ہیں، جو پیسہ کمانے کے لیے پنے گئے تھے اور ممبئی میں بابا صدیقی کے قتل میں حصہ لیا۔ دونوں کی عمر 20 سال سے زیادہ نہیں ہے۔ اس عمر میں جرائم کا خیال تک نہیں آتا، جبکہ تیسرے قاتل گرمیل بلجیت سنگھ کا تعلق ہریانہ سے بتایا جاتا ہے۔ الگ الگ ریاستوں سے تعلق رکھنے والے یہ تینوں گینگ کا حصہ کیسے بنے؟ گولی چلانے کی ٹریننگ کہاں لی؟ شوٹر کیسے بنے؟ اور کس کے کہنے پر کس لیے قتل کیا؟ یہ اہم سوالات ہیں۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ تینوں کی کوئی کریمنل ہسٹری نہیں ہے، تب تو ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
بات صرف کم عمر کے نوجوانوں کے ذریعہ بابا صدیقی کے قتل کی نہیں ہے، اس طرح کے قتل اور بھی ہوئے ہیں، اور ان میں بھی شوٹر کم عمر کے تھے اور ان کی نہ تو مقتول سے کوئی دشمنی تھی اور نہ کوئی جھگڑا ہوا تھا۔ اگر ہم ماضی کے واقعات پر نظر ڈالیں تو پولیس کی تحویل میں عتیق احمد اور اشرف کا گولی چلا کر قتل کرنے والے بھی حمیر پور کے سنی سنگھ، باندہ کے لولیش تیواری اور قیصر گنج کے ارون موریہ کی عمر بھی 18 سے 22 سال کے درمیان تھی۔ ایک تو ان کی عمر زیادہ نہیں ہے، دوسرے ان کی کوئی کریمنل ہسٹری نہیں ہے، تیسرے الگ الگ اضلاع سے تعلق کے باوجود تینوں ایک گینگ کا حصہ بن کر کسی اور ضلع میں قتل کے واقعے کو پولیس کی موجودگی میں انجام دیا، وہ بھی غیر ملکی مہنگے اور ممنوع ہتھیار سے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ عتیق اور اشرف سے ان کی کوئی دشمنی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی جھگڑا ہوا تھا، بلکہ جان پہچان بھی نہیں تھی۔ لکھنؤ کورٹ میں پیشی کے لیے لائے گئے سنجیو جیوا کو قتل کرنے والا بھی جونپور کے چھوٹے سے گاؤں کا 24 سال کا وجے یادو تھا، جو ممبئی کمانے گیا تھا اور لکھنؤ میں قتل کے واقعے کو انجام دیا۔ منابجرنگی کے قاتلوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اتنی کم عمر میں کوئی بھی پیشہ ور قاتل نہیں ہو سکتا، پھر بھی سنگین واردات کو کس طرح انجام دیا گیا؟ گاؤں کے لڑکے کمانے کے لیے بڑے شہر جا رہے ہیں اور وہ شوٹر و کریمنل بن کر بڑے لوگوں کا قتل آسانی سے کر رہے ہیں، جبکہ زیادہ عمر کے لوگ ان کا سامنا کرنے سے کانپتے اور ڈرتے ہیں۔ جو عمر پڑھنے لکھنے، کمانے اور شادی کرنے کی ہوتی ہے، اس میں وہ کریمنل بن کر دوسروں کی جان لے رہے ہیں اور اپنی زندگی بھی خراب کر رہے ہیں، کیونکہ ایسے واقعات کو انجام دینے کے بعد وہ تو جیل چلے جائیں گے، پھر کسی کام کے نہیں رہیں گے۔ وہ مقتول کے کنبے کو جتنا درد دیں گے، اس سے کم اپنے کنبے کے سامنے پریشانی نہیں کھڑی کریں گے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جتنی مصیبت مقتول کے اہل خانہ پر آتی ہے، اتنا ہی قاتلوں کے گھر والے پریشان ہوتے ہیں۔ ان کا سکون چھین جاتا ہے۔
گاؤں کے سیدھے سادے کم عمر کے نوجوان اگر شوٹر بن رہے ہیں اور ٹارگیٹ کلنگ کر رہے ہیں، تو یہ بہت خطرناک صورت حال ہے اور تشویش کی بات ہے۔ اس طرح کے واقعات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے سے تیسرے شہر میں شوٹر بڑے لوگوں کا قتل کر رہے ہیں۔ ایسے واقعات کی تہہ میں جانے کی ضرورت ہے، تبھی چھوٹی عمر میں قتل جیسے سنگین جرائم کو روکا جا سکتا ہے۔ گاؤں کے نوجوانوں کا جرائم کی دنیا میں داخل ہونا فکرمندی کی بات ہے۔
اداریہ روزنامہ سہارا، مورخہ 14؍ اکتوبر 2024
***
گاؤں کے سیدھے سادے کم عمر کے نوجوان اگر شوٹر بن رہے ہیں اور ٹارگیٹ کلنگ کر رہے ہیں، تو یہ بہت خطرناک صورت حال ہے اور تشویش کی بات ہے۔ اس طرح کے واقعات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے سے تیسرے شہر میں شوٹر بڑے لوگوں کا قتل کر رہے ہیں۔ ایسے واقعات کی تہہ میں جانے کی ضرورت ہے، تبھی چھوٹی عمر میں قتل جیسے سنگین جرائم کو روکا جا سکتا ہے۔ گاؤں کے نوجوانوں کا جرائم کی دنیا میں داخل ہونا فکرمندی کی بات ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024