فاشسٹ طاقتوں کو یکساں سول کوڈ میں دلچسپی کیوں ہے؟
عوام پر زبردستی غلبہ کی سیاست ۔ ’ہندوتوا‘ کے نام پرتمام ہندوؤں کومتحد کرنے کی چاہت !
ڈاکٹر جاوید جمیل
چیرمین اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ ینیپویا یونیورسٹی،کرناٹک
گزشتہ چند برسوں سے بھارت میں ہندوتوا فاشسٹ طاقتوں کی طرف سے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا شور مسلسل اٹھ رہا ہے جنہیں خود اپنے نظریات پر عمل آوری کا اعتبار نہیں، جن کی بڑی خواہش، محض ملک کے عوام پرزبردستی غلبہ اور تسلط حاصل کرناہے۔ انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ ان کی مذموم کوششوں میں کئی ہندوتنظیمیں ان کے ساتھ شامل نہیں ہیں۔ اس کے باوجود، وہ چاہتی ہیں کہ تمام ہندوؤں کو ’ہندوتوا‘ کے نام پر، زبردستی یکجا اور متحد کیا جائے تاکہ ملک میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں پرزبردستی ہی سہی، مذہبی اور سیاسی تسلط حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہو۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے وہ مسلسل مذہب اسلام اور دیگر مذاہب کو اور ان کے ماننے والوں کو، ہندوتوا کے لیے بہت بڑا خطرہ بتارہے ہیں۔ وہ اس بات کے بھی متمنی ہیں کہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ہندوؤں کے مقابلے میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر‘ کسی صورت میں، طاقتور بننے یا برتری حاصل کرنے کا کوئی موقع نہ دیا جائے۔ دوسری طرف یہ طاقتیں مذہبی اقدارکی بنیاد پر قائم تمام مذہبی اکائیوں کو اپنی تجارتی ترقی کی راہ میں بھی بہت بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں خصوصاً اسلام کے خلاف ان کے جارحانہ عزائم وقفے وقفے سے ظاہر ہوتے رہتے ہیں کیوں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے، جو حلال اور حرام، جائز و ناجائز کے درمیان فرق کو بالکل واضح کردیتا ہے اور عموماً اسلام کے ماننے والے، اسلامی حدود سے تجاوز کرنے کی جرات نہیں کرتے اور دیگر کسی دنیوی حل کے ساتھ سمجھوتہ کرنابھی پسند نہیں کرتے کیوں کہ مسلمانوں کو اپنے مذہبی اصولوں اور احکامات کی دنیوی و دینی افادیت پر پختہ یقین ہوتاہے۔ آج کے اس مادہ پرست دور میں عام تجارتی ادارے، انسان کی فطری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا خوب جانتے ہیں اور فائدہ اٹھا بھی رہے ہیں۔ تیسرا محاذ،جو بائیں بازو کی طاقتوں پر مشتمل ہے ان کا سماجی اور اقتصادی نظریہ کسی بھی مذہب کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا، بالخصوص اسلام کو۔
بھارت میں یکساں قوانین کی داستان:
بھارت کی مختلف ریاستوں میں آج بھی ان کی خصوصی حیثیت کی بنیاد پر الگ الگ قوانین نافذ ہیں۔ اس میں ممنوعات کی فہرست اور ٹیکس کی شرح بھی ہرریاست میں الگ الگ ہے ۔ مختلف ریاستوں کو الگ درجہ اورالگ آئینی حیثیت دینے والے دفعات بھی موجود ہیں۔ مثلاً دفعہ نمبر 369 کے تحت مرکز کو ریاستوں سے الگ الگ نوعیت سے نمٹنے کا خصوصی حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ نمبر 371 ریاست مہاراشٹر اور گجرات کے لیے لاگو ہوتا ہے۔ دفعہ نمبر 371A ریاست ناگالینڈ کے لیے، دفعہ نمبر 371B ریاست آسام کے لیے، دفعہ نمبر371C ریاست منی پور کے لیے، دفعہ نمبر 371D ریاست آندھرا پردیش کے لیے، دفعہ نمبر 371E ریاست تلنگانہ کے لیے، دفعہ نمبر 371F ریاست سکم کے لیے، دفعہ نمبر 371G ریاست میزورم کے لیے، دفعہ نمبر 371H ریاست اروناچل پردیش کے لیے، دفعہ نمبر 371Iریاست گوا کے لیے۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دیے جانے والی دفعہ 370 کو ابھی ابھی منسوخ کردیا گیا ہے۔
ہندی، قومی زبان ہونے کے باوجود، ملک کی مختلف ریاستوں کی سرکاری زبانیں مختلف ہیں مثلاً آج بھی ریاست کرناٹک، ریاست کیرالا اور ریاست تمل ناڈو میں ہندی کے علاوہ دیگر مقامی زبانیں سرکاری طور پر رائج ہیں۔شراب اور بیف کے ذبیحہ سے متعلق مختلف ریاستوں میں مختلف قوانین لاگوہوتے ہیں۔ مثلاً اروناچل پردیش، میگھالیہ، ناگالینڈ، تریپورہ، سکم، کیرالا اور مغربی بنگال میں گائے کے ذبیحہ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ تعلیم اور ملازمتوں میں تحفظات کی پالیسی، مختلف ریاستوں میں مختلف طبقات کے لیے الگ الگ ہے، حتیٰ کہ سرکاری ٹیکس وصولی کی پالیسی بھی ایک ریاست میں دوسری ریاست سے مختلف ہے۔
رہنمایانہ اصول:
یکساں سول کوڈبھی بنیادی طور پرایک رہنمایانہ اصول ہی ہے جو ملک کے کسی بھی حصے میں ابھی قابل نفاذ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یکساں سول کوڈ سے متعلق دفعہ 44 ہی وہ واحد رہنمایانہ اصول نہیں ہے جسے ابھی تک ملک میں نافذ نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر ایک اصول یہ ہے کہ کسی ریاست کے مقام و حیثیت اورمعاشی عدم مساوات یا معاشی تفریق کو کم کرنے کے لیے ہر ریاست اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔ عدم مساوات کم کرنے کا یہ کام ، اس ریاست میں رہنے بسنے والے ، مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے گروہوں کے درمیان بھی ہوگاکیوں کہ بھارت میں عوام کے مختلف گروہوں کے درمیان، معاشی عدم استحکام کی کیفیت تیزرفتاری کے ساتھ اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔فوربس Forbes کی جانب سے جاری کردہ دنیا کے سو دولت مند افراد کی فہرست سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ بھارت میں دولت صرف چند خاندانوں تک، بالخصوص اونچی ذات کے کہلائے جانے والے ہندوؤں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔
یکسانیت کے نام پر جدیدیت قابل قبول نہیں:
مجوزہ یکساں سول کوڈ کی بنیاد پر جدید نظام حیات ہمیں کسی صورت میں قبول نہیں کیوں کہ یہ نظام حیات، انسانوں کو انسان سمجھنے کے بجائے انہیں تجارتی سامان سمجھتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ عالمی تجارتی منڈیوں میں خواتین کی ضروریات زندگی کی اہم اشیاء بناکر بازار میں فروخت کرنے کے بجائے ان کے لیے غیر ضروری اشیاء تیار کرکے انہیں زبردستی خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے کیوں کہ خواتین کے سامان بنانے والی عالمی تجارت، آج تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس سے خواتین کو بھی اقتصادی طور پر بہت نقصان پہنچاہے۔ حقوق نسواں کے نام پر مردوں نے درحقیقت،عورتوں کا استحصال کرکے ان سے لطف اندوز ہونے اور پھرانہیں استعمال کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر بین الاقوامی قوانین بنائے گئے ہیں۔ دنیا میں خواتین کے لیے ان ترجیحات کوئی اہمیت نہیں۔ نام نہاد حقوق نسواں کے تمام قوانین سے خواتین کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ ہماراسوال یہ ہے کہ ان تجارتی اداروں کی فہرست میں، عالمی معیشت، صحت عامہ یا عالمی امن کے قیام کے لیے ترجیحات جیسے مسائل کیوں شامل نہیں ہیں؟ اس لیے کہ وہ منصوبے ان کے پاس ہیں ہی نہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر بدکاری، ہم جنس پرستی، عورت عورت اور مرد مرد کے درمیان جنسی تعلقات اور عصمت فروشی جیسے خبیث پیشے جنم لیتے ہیں۔ دوسری طرف شراب نوشی، منشیات اور جوے کی لعنت سے انسانی معاشرہ بری طرح تباہ ہورہا ہے۔
جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امراض خبیثہ سے، دنیا میں روزانہ لاکھوں انسان ہلاک ہورہے ہیں۔ ہر سال ستر ملین سے زیادہ بچے، پیدا ہونے سے پہلے ہی رحم مادر میں ہلاک کردیے جاتے ہیں۔یونیورسٹی آف اوٹاہ University of Utah کی ایک تحقیق کے مطابق،امریکہ میں پندرہ سے زیادہ دوستوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے والی خواتین کی تعداد، آبادی کا سات فیصد ہے جوایک معزز، تعلیم یافتہ سماج کے لیے قابل مذمت عمل ہے۔ ان کی آبادی کی غالب اکثریت، مخلوط جنسی تعلقات کی عادی ہوچکی ہے۔ ایک اور تحقیقی ادارے Gallop کے مطابق 7.1 فیصد بالغ امریکی عوام ہم جنس پرست اور مخنث پائے گئے۔ ایک تحقیقی ادارے ChildTrend کے مطابق، امریکہ میں تقریباً چالیس فیصد بچے شادی سے پہلے یا شادی کے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً چوبیس ملین بچے تنہا سرپرست کے ساتھ رہتے ، پلتے اور بڑھتے ہیں اور یہ تنہا سرپرست صرف عورت یعنی ماں ہی ہوتی ہے۔ بھارت میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بعد اگراس قسم کے غیر اخلاقی رجحانات کو جاری رکھنے کی اجازت مل گئی تو بہت جلد بھارت میں برپا ہونے والی اجتماعی تباہی کو کوئی روک نہیں پائے گا۔ وہی مسائل اور جرائم، جن سے آج امریکہ اور مغربی ممالک پریشان ہیں، کل بھارت میں بھی جڑ پکڑ لیں گے۔ ویسے بھی آج کل بھارت میں بھی شادی کے بغیر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، ایک ہی چھت کے نیچے، آزادانہ جنسی تعلقات کی بنیاد پر ، زندگی گزار رہے ہیں۔ اس قسم کی زندگی گزارنے والی خواتین کے دردناک قتل کی داستانیں، ہم روز سنتے، دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔
اسلامی طرز فکر اور جدید طرز فکر میں فرق:
آج کی نام نہاد جدید طرز فکر، معاشی بنیاد پرستی اور عام سماجی ترقی کے نام پر خاندانی نظام حیات کو برباد کرنا چاہتی ہے جب کہ اسلام میں خاندان اور معاشرے کے تمام افراد کی ضروریات اور ترجیحات کے عین مطابق خاندانی مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے ہمیشہ مثبت نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ آج کی جدید طرز زندگی کی نشو و نما میں خاندان ہی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں کیوں کہ خاندان، جنسی بے راہ روی، زنا کاری، بدکاری، بے لگام بے ڈھنگے فیشن، ہوٹل پرستی، شراب نوشی، منشیات کا بے دریغ استعمال اور جوے کی لت سے منع کرتا ہے اسے روکنے کی تمام تر جستجو کرتا ہے۔غیر صحت مند، غیر فطری، غیر قانونی جنسی طریقوں کے ذریعے خواتین کے بے جا استحصال کے خلاف اسلامی خاندانی نظام ہی پر امن پرسکون اور مطمئن زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلام، خواتین کوان کی فطری حیاتیاتی زندگی کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے، بچوں کو نظر انداز کیے جانے یا ان کے ساتھ بدسلوکی سے انہیں محفوظ رکھتا ہے۔ ان فوائد سے ہٹ کر بے شمارمہلک اور خطرناک بیماریوں سے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔جدید طرز معاشرت میں عورت کو پورااختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جسم فروشی یاطوائف کا پیشہ اختیارکرسکتی ہے، بغیر شادی کے کسی بھی آدمی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرسکتی ہے، شادی کے بغیر بچے پیدا کرسکتی ہے، اپنے ناجائز بچے کی تنہا سرپرست ہوسکتی ہے۔
اس کے برخلاف اسلام میں خواتین کو ان تمام خباثتوں سے مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اسلام میں مردوں اور عورتوں کے حقوق، ان کے حیاتیاتی وجود، انسانی کرداراور بچوں کے علاوہ سماج کے دیگر افراد کے تئیں محفوظ ہیں لیکن ان پر کچھ سماجی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں، جب کہ جدید سماج، افراد کو بازار کے جدید تقاضوں کی بنیاد پر زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جدید طرز معاشرت میں ایک مخصوص عمر سے پہلے قانونی شادی پر پابندی ہے لیکن شادی سے پہلے کسی بھی عمرمیں، جنسی تعلقات قائم کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ یاد رہے! اسلام میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات کی کوئی گنجائش نہیں۔۔ہاں! جسمانی طور پر بالغ ہونے کے بعد، بلا تحقیق عمر،ذہنی پختگی اور معاشی استحکام کے پیش نظر ایک لڑکی کو اپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت ہے۔ جدید سماج میں بدکاری کی عام اجازت ہے لیکن تعداد ازدواج پر عمر کے ہر حصے میں پابندی ہے۔ اسلام میں شوہراپنی منکوحہ بیویوں کے ساتھ ازدواجی حقوق سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ان کے اور اپنی اولاد کے لیے تاحیات قیام و طعام، لباس اور طبی نگہداشت کی تکمیل کرنے کاذمہ دار ہے۔ اسلام مرد کو چارمنکوحہ بیویاں رکھنے کی چند پابندیوں کے ساتھ اجازت دیتا ہے۔ جدید سماج میں مالی اور معاشی آزادی کے نام پر خواتین کو بحیثیت ماں ، ساری گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ، ملازمت کرکے خاندان کے لیے زائد آمدنی پیدا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے چنانچہ ایسی خواتین کے بچے ماں کی ممتا اور اس کی تربیت سے دور رہنے کی وجہ سے زندگی بھر ذہنی طور پرمتاثر رہتے ہیں۔
اگرچہ کہ ملازمت یا تجارت مسلمان عورت کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے لیکن اسلام میں خواتین کو ملازمت یا تجارت کے ذریعے دولت کمانے کی پوری آزادی ہے۔ اگر عورت اپنی محنت سے کچھ کمابھی لیتی ہو تب بھی اسلام میں بیویوں اور بچوں کی دیکھ بھال اور ان کے تمام اخراجات کی ذمہ داری شوہروں کے کندھوں ہی پرہے۔
اسلام میں عورت کا مقام:
ایک اہم نکتہ ہمیشہ ذہن میں رہے کہ اسلام متوازن مساوات پر یقین رکھتا ہے یکسانیت پر نہیں۔مرد اور عورت کی جسمانی ساخت، افعال اور ان پر عائد ذمہ داریاں الگ الگ ہیں۔ فطری طور پر خواتین پر بہت زیادہ حیاتیاتی یا جسمانی بوجھ ہوتا ہے جس میں عورت کے بطن میں حمل قرار پانا، بچے کی ولادت، ولادت کے بعد بچوں کو ایک خاص مدت تک دودھ پلانا، ان کی پرورش کرنا جس میں ان کی اخلاقی اور ذہنی تربیت بھی شامل ہے۔ چنانچہ گھر چلانے کے لیے حلال طریقوں سے مناسب معاش پیدا کرنا، مرد کی یعنی صدر خاندان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ شوہر کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اپنے بچوں کی ضروریات زندگی کی خوش دلی کے ساتھ تکمیل کرے جس میں گھر، لباس، غذا، تعلیم اور تربیت شامل ہیں۔ قرآن مجید میں لڑکیوں کے قتل کی سخت مذمت کی گئی ہے اور ایسا کرنے والوں کو بدترین سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔ اسلام نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے یعنی تعلیم حاصل کرنا خواتین کا بھی حق ہے۔ خواتین کو بالغ ہونے کے بعد اپنا شریک حیات خود منتخب کرنے کا بھی پورا اختیار دیا گیا ہے۔ نکاح کے بعد ناگزیر حالات کے تناظر میں، عورت کو شوہر سے طلاق حاصل کرنے کا بھی حق دیا گیا ہے۔ اپنی ساری ازدواجی زندگی میں، عورت کو اپنے خاندانی معاملات میں رائے مشورہ دینے یا مستقبل کی منصوبہ بندی کے حق کے علاوہ شوہر کے ساتھ مل کر عام یا پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرنے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ طلاق کی صورت میں بچوں کی مخصوص عمر تک پرورش کا حق، طلاق یا بیوہ کودوبارہ نکاح کرنے کا حق، وراثت میں حق اور وصیت کرنے کا حق،اسلام نے عطا کیا ہے۔ اسلام میں بحیثیت ماں ایک عورت کا درجہ والد سے کہیں زیادہ ہے۔
طلاق:
قرآنی ہدایات کے مطابق اسلام میں، زوجین کو طلاق دینے یا طلاق حاصل کرنے کا نہایت آسان اور مکمل طریقہ موجود ہے۔ میاں بیوی کے درمیان اختلافات کی
صورت میں، اسلام انہیں آپس میں صلح کرنے کے لیے تین ماہ کی مہلت دیتا ہے جسے عدت کہتے ہیں، یہ نہایت ضروری ہے کیوں کہ قرآنی ہدایات کے مطابق عمل کرنے سے حسب ذیل امور کی حفاظت ہوتی ہے:
فوری طلاق کی صورت میں مطلقہ کے علاوہ عورت کے بطن میں پلنے والے بچے کی حفاظت ہوتی ہے
اگر طلاق کے بعد حمل کا انکشاف ہو تو پیدا ہونے بچے کے باپ کی شناخت ہوجاتی ہے
طلاق کے وقت اگر عورت حاملہ ہو تو بچے کی پیدائش تک اس کی عدت کی مدت بڑھا دی جاتی ہے
عدت کی مدت کا تعین: عدت کے ان مقررہ ایام کی پابندی کرنے سے جنسی بیماریوں سے مکمل حفاظت ہو تی ہے
طلاق کی صورت میں عدت کی مدت تین ماہ۔۔۔ یعنی ایک طلاق شدہ عورت طلاق کے تین ماہ بعد دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے۔
بیوہ ہونے کی صورت میں عدت کی مدت: چار مہینے دس دن۔۔۔یعنی ایک بیوہ عورت ‘ اپنے شوہر کے انتقال کے چار ماہ دس دن بعد دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے
گر کوئی عورت، عدت مکمل کرلینے کے بعد بھی سابقہ شوہر کے بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہے تو اس کے معاوضے میں اسے شوہر سے نفقہ ملتا رہے گا
مطلقہ عورت کے شوہر کے بچوں کی سرپرستی کی صورت میں لڑکے سات سال کی عمر تک اپنی ماں کے ساتھ رہیں گے اور لڑکیاں شادی تک ماں کے ساتھ رہیں گی۔
اس دوران ان بچوں کا حقیقی باپ، اپنے لڑکے اور لڑکیوں، دونوں کی مکمل کفالت کا ذمہ دار ہوگا۔
تعداد ازدواج بمقابلہ زناکاری:
کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ آج سماج کا تعلیم یافتہ اور نام نہاد ترقی یافتہ طبقہ، تعداد ازدواج پر واویلا مچاتا ہے، سخت تنقیدیں کرتا ہے، حد درجہ مخالفت بھی کرتا ہے اوردوسری طرف خودساری دنیا میں بد کاری اور زناکاری کو فروغ دینے میں دن رات مصروف ہے۔ جدید سماج میں کوئی بھی مرد کسی دنیوی قانونی پابندی سے آزاد، ایک سے زیادہ عورتوں سے جنسی تعلقات قائم رکھ سکتا ہے لیکن قانوناً ایک سے زیادہ جائز اور منکوحہ بیوی نہیں رکھ سکتا ۔ کاش ان نادانوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ ایک سے زیادہ شادی کرنے سے خود خواتین کا سماجی رتبہ و مقام اور قانونی حیثیت محفوظ ہوجاتی ہے۔ اس سے بڑھ کر کثرت ازدواج سے زوجین میں کسی بھی قسم کے امراض خبیشہ کے پیدا ہونے کا کوئی شائبہ اور امکان باقی نہیں رہتا۔ بالفاظ دیگر، اس بات کی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ قانونی شادیوں کے بندھن میں بندھے ہوئے خاندان کے افراد، امراض خبیشہ سے زندگی بھرکے لیے محفوظ رہتے ہیں۔ قابل غور بات ہے کہ کسی مرد کی جانب سے دوسری عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی واجبی اور مناسب وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مثلاً پہلی بیوی سے اولاد نہ ہورہی ہو یا وہ کسی مستقل بیماری میں مبتلا ہو۔ اس کے علاوہ غیر شادی شدہ خواتین کی شادی کا مسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہوسکتا ہے، خصوصاً ان ممالک میں جہاں مرد و خواتین کی آبادی کے درمیان خواتین کا تناسب زیادہ ہو۔ دوسری طرف غور کرنے والی بات یہ ہے کہ عورتوں کی جنسی آزادی کی وجہ سے پیدا ہونے والے ناجائز بچوں کی پرورش اور ان کی دیکھ بھال کی ساری ذمہ داری عورت پر ہی عائد ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد سماج میں ایسے بچوں کی ولدیت کے بارے میں مسائل اور الجھنیں پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ایسے ناجائز بچے نفسیاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
ایک اور نہایت سنجیدہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر باالفرض، عورتوں کو بھی ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی قانوناً اجازت دے دی جائے جو درحقیقت بدکاری ہی شمار ہوگی تو اس صورت میں خواتین کے حیض کے ایام میں اور پھر حمل کے دوران، بچے کی پیدائش تک، تمام شوہروں کی جنسی ضروریات کی تکمیل کرنا ایک بیوی کے لیے ناممکن ہے۔ ایسا کرنا ایک عورت کی صحت کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے۔
اسلام تعداد ازدواج کے لیے زیادہ سے زیادہ چار بیویوں کی اجاز ت دیتا ہے پھر بھی ایک وقت میں ایک ہی نکاح کو ترجیح دیتا ہے۔۔ ویسے بھی بھارت میں مسلمانوں میں کثرت ازواج کا رواج برائے نام ہی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت ایک ہی نکاح پر اکتفا کرتی ہے۔
مہر:
اسلام خواتین کو وراثت کے علاوہ نکاح کے ذریعے بھی کئی معاشی حقوق عطا کرتا ہے۔ عورت کا سب سے پہلا حق، حق مہر ہے جو اس کے نکاح کے وقت شوہر کی طرف سے واجب الادا ہوتا ہے۔ یہ مہر، بیوی کو اس کا شوہرنقد رقم یا کسی جنس کی صورت میں ادا کرتا ہے۔ یہ نکاح کے وقت بھی ادا کیا جاسکتا ہے یا نکاح کے بعدبھی کسی وقت اپنی سہولت سے ادا کرنے کے وعدے پر بھی ممکن ہے البتہ نکاح کے وقت ہی مہر ادا کردینا صحیح اور مستحب عمل ہے۔ ویسے بھی بھارت میں، مسلمان عموماً مستقبل میں مہرادا کرنے کے وعدے پر نکاح کرلیتے ہیں اور بیویاں اسے قبول بھی کرلیتی ہیں۔ نکاح کے بعد، عملی زندگی کے دوران، آپس میں اختلافات پیدا ہونے کی صورت میں، طلاق کے بعد، قرآن مردوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ مہر کی طے شدہ رقم کے علاوہ اضافی رقم بھی بطور متاع بالمعروف ، عورت کو ادا کریں۔
اسلام میں حفظان صحت کا جامع نظام:
بیرونی جسمانی حفظان صحت:
استنجا۔۔ ہر شخص کو پیشاب کرنے کے بعد اپنی شرم گاہ کو دھونے کا حکم ہے جس سے انسان کے اعضائے تناسل، بیرونی انفکشن کے اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔
وضو۔۔ وضو کرنے میں جسم کے تمام کھلے ہوئے اعضاء اور چہرے کا دھونا شامل ہے۔ وضو کرنے سے منہ کا انفیکشن‘ قلبی امراض، جلدی امراض، کینسر اور
آنکھوں کے امراض کے خطرات بڑی حد تک کم ہوجاتے ہیں۔
کپڑے۔۔اسلام ہمیشہ صاف ستھرے اور پاک کپڑے پہننے کا حکم دیتاہے۔
مسواک:۔۔رسول اللہ (ﷺ) نے مسواک کرنے کی تاکید کی ہے۔ مسواک کرنے سے دانتوں، مسوڑھوں کے علاوہ جسم کے اندرونی اعضاء میں پیدا ہونے والی
بیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے یعنی مسواک کرنے سے بیشتر جسمانی بیماریوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔
خنزیر کے گوشت پر پابندی اور گھروں میں کتوں کو رکھنے کی حوصلہ شکنی۔۔ سور کا گوشت کھانے سے انسان کی آنتوں میں ایک انتہائی مہلک کیڑا پیدا ہوتا ہے جس سے متاثرہ انسان سسک سسک کر دم توڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم سب جانتے ہیں کہ سوروں کے ذریعے انسانوں میں ایک انتہائی مہلک اور وبائی مرض پیدا ہوتا ہے جسے سوائن فلو کہتے ہیں، اس بیماری سے پچھلی صدی میں کروڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ انسانوں کو کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے ایک خطرناک بیماری پیدا ہوتی ہے جسے Rabiesکہتے ہیں، اس بیماری کی وجہ سے روزانہ بے شمار انسان مر رہے ہیں۔ انہیں وجوہات کی وجہ سے اسلام، سوروں سے دور رہنے اور کتوں کو پالنے سے منع کرتا ہے۔
اندرونی جسمانی حفظان صحت:
اسلام شراب نوشی اور منشیات کے استعمال سے انسانوں کے جسم کوپہنچنے والے نقصانات سے روکتا ہے اور شراب و منشیات پر مکمل پابندی عائد کرتا ہے۔ اس کے
علاوہ انسان کی صحت کی صحیح نگہداشت کے لیے مردہ جانوروں کا گوشت کھانے سے بھی انسانوں کو منع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گوشت کھانے والے حیوانات کا گوشت کھانے اور حلال جانوروں کے خون کے استعمال پر بھی پابندی عائد کرتا ہے۔
جنسی حفظان صحت:
جنسی تعلقات صرف شوہر اور بیوی کے درمیان ہی قائم رکھنے کی اجازت ہے۔
ایام حیض کے دوران اوربچے کی پیدائش کے بعد ایک خاص مدت تک شوہر اور بیوی کے درمیان جنسی تعلقات قائم نہیں کیے جاسکتے۔
شوہر اور بیوی کو ہم بستری کے بعد اپنامنہ اور شرم گاہ، پانی سے دھولینے کا حکم دیا گیا ہے۔ختنہ، تمام امراض خبیثہ مثلاً ایچ آئی وی‘ ایچ پی وی‘ کینسر، سروکس سے تحفظ کا بہترین طریقہ ہے جس پر ہر مسلمان عمل کرتا ہے اور بعض معاملات میں یہ مسلمان کی خاص شناخت بھی تسلیم کی گئی ہے۔
دماغی حفظان صحت:
فحش نگاری،عریانیت، عریاں فلمیں دیکھنے، عریاں لباس زیب تن کرنے سے، اخلاق سے گرے ہوئے لٹریچر کے مطالعے سے اسلام منع کرتا ہے کیوں کہ اس سے انسان کے ذہن میں مخرب اخلاق اور مجرمانہ خیالات جنم لیتے ہیں، جو آگے چل کر مجرمانہ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں شامل ہونے پر اکساتے ہیں۔
روحانی حفظان صحت:
روزانہ وقت مقررہ اور دیگر اوقات میں عبادت کرنا‘ ساری انسانیت کی بہبودی اور ہدایت کے لیے دعائیں کرنا‘ دوسروں کو اچھے کام کرنے کی ترٹیب دینا، ضرورت مندوں کی صدقہ اور خیرات کے ذریعے مدد کرنا، خود اپنے لیے، اپنے اہل خانہ اور سارے خاندان کے لیے دعائیں کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے اطراف کے ماحول کو پاک صاف رکھنے کے لیے ایسا کوئی کام کرنے سے منع کیا گیا ہے جس سے اطراف و اکناف کی فضا اور پانی، آلودہ نہ ہوں۔ گزشتہ ایک سو سالوں کے دوران، دنیا میں مختلف وبائی امراض سے تقریبا دو سو ملین سے زیادہ افراد ہوئے جن میں سوائن فلو، ایڈز، ریبیز اور کوویڈ شامل ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ تمام اموات براہ راست عام اسلامی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے سبب ہوئیں۔ صحت کا معاملہ دراصل، اسلامی طرز زندگی کا ایک لازم و ملزوم جز ہے۔
چنانچہ ایک قابل فکر نکتہ یہ ہے کہ اگر عام انسان بھی اپنی اپنی زندگی میں اسلامی ہدایات کے مطابق عمل کرتے تو اسی ملین سے زیادہ انسانوں کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ اسی مدت میں دنیا میں بیس لاکھ افراد قتل کیے گئے، بائیس لاکھ افراد نے خودکشی کی، پچیس لاکھ افراد ایڈز سے ہلاک ہوئے، بیس لاکھ افراد، شراب نوشی کے نتیجے میں مرے،دو لاکھ افراد جوئے اور منشیات کی لت کے باعث ہلاک ہوئے، ساٹھ ہزار اموات کتوں کے کاٹنے سے ہوئیں اور ستر لاکھ بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی رحم مادر میں ہلاک کردیے گئے۔
بھارتی قوانین میں کی گئیں حالیہ چند ترمیمات اور اس کے اثرات:
اترپردیش کی حکومت نے’لو جہاد‘ کے نام پر ایک قانون پاس کیاہے جس کے تحت کسی ہندو لڑکی کی مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کو، جس سے ہندو لڑکی کے مذہب کی تبدیلی کا باعث بنتا ہو، اسے غیر قانونی اور ایک تعزیری جرم قرار دیاہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندوتوا طاقتیں صرف نام نہاد ’لو جہاد‘ ہی کے خلاف قانون سازی پر کیوں زور دے رہی ہیں۔کیوں یہی ہندوتوا طاقتیں ہندو لڑکوں کی مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادی کے خلاف ایک لفظ نہیں کہتیں؟ بلکہ ہندولڑکوں کے اس طرز عمل کی ہمت افزائی کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں اگرکوئی قانون بنایا گیا ہے تو اس کا اطلاق دونوں طبقات پر ہونا چاہیے۔ شادی کے لیے یہ قانون مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ جنس کی بنیاد پر بننا چاہیے۔ اس دوہرے طرز عمل کے پس پردہ یقینا ہندوتوا طاقتوں کا ایک مذموم منصوبہ زیر ترتیب ہے۔ دراصل انہیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ مختلف ریاستوں میں پیدا ہونے والے بچوں میں لڑکیوں کی آبادی قابل لحاظ اور خطرناک حد تک گھٹ چکی ہے اور مسلسل کم ہو رہی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہندوتوا طاقتیں خود ہندو سماج کی فکر کرتیں، ان لوگوں کے خلاف باضابطہ مہم چلاتیں جہاں لاکھوں ہندو لڑکیوں کو پیدائش سے پہلے رحم مادر میں قتل کیا جارہا ہے۔
شادی کی عمر میں اضافہ:
بھارت میں آپسی رضامندی سے ناجائز جنسی تعلقات کے لیے کم سے کم عمر سولہ سال ہے اور قانوناً شادی کرنے کی عمر اکیس سال ہے۔ اس مضحکہ خیز قانون کے خلاف ہندوتوا طاقتوں نے کیوں آواز نہیں اٹھائی۔ شاید یہ لوگ خود چاہتے ہیں کہ شادی کی قانونی عمر تک پہنچنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ لڑکیاں، جنسی تعلقات میں ملوث ہوجائیں تاکہ خواتین کے لیے تیار کی جانے والی مصنوعات اور مانع حمل ادویات و آلات تیار کرنے والے تاجروں کی بسائی ہوئی تجارتی منڈیوں سے سرمایہ کاروں کو اور عورت کو بظاہر پرکشش بنانے والی مصنوعات سے فائدہ اٹھانے والے تاجروں کومستقل فائدہ پہنچتا رہے۔ دراصل شادی کی عمر میں اضافہ کرنے سے تجارتی اداروں کو راست فائدہ حاصل ہونا یقینی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ رات میں عیاشی کے لیے روشنیوں کے لیے سجائے گئے نائٹ کلبوں، موسیقی کی تیز ترین آوازوں سے مزین ان نائٹ کلبوں کو چار چاند لگانے والے آرائشی ساز و سامان سے تاجروں کو کروڑوں کی آمدنی ہوتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج بھارتی سماج پربھی اس بے لگام کلچر کے مضر اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ بنیادی طور پرعیاشی کے لیے زیادہ سے زیادہ روپے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے حصول کے لیے عیش پرست، فضول خرچ، بیروزگار نوجوان، اپنی ان مجرمانہ خواہشوں کی تکمیل کے لیے، چوری کرنے پر مجبور ہیں، چوری کا ارتکاب کرنے کے بعد پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد جیلوں میں قید کیے جارہے ہیں۔ اخلاقی برائیاں عروج پر ہیں۔ لیو ان ریلیشنس Live in Relations کے تحت نوجوان لڑکے لڑکیاں، شادی کے بغیر آپس میں میاں بیوی کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد جب ایک دوسرے سے طبیعت اکتا جاتی ہے تو لڑکیوں کے یہی نام نہاد دوست، ان کا انتہائی بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے ،نعش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے نالوں میں پھینک کر فرار ہوجاتے ہیں۔ بلاشبہ، ایسے قاتل نوجوان گرفتار بھی ہوتے ہیں، جیلوں میں سزائیں بھی بھگت رہے ہیں۔ جب تک ’’لیو ان ریلیشنس‘‘ والی آزاد جنسی زندگی گزارنے والے نئے نئے جوڑے اس میدان میں آتے رہیں گے اس وقت تک نوجوان لڑکیوں کے قتل کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ہم جنس پرستی:
بھارت میں سپریم کورٹ، ہم جنس پرست مردوں کی آپس میں شادی کو قانونی حیثیت دیے جانے کی درخواستوں پر بہت جلد فیصلہ سنانے کے لیے تیار ہے۔ ویسے بھی سپریم کورٹ ہم جنس پرستی کو قانونی حق قرار دے چکی ہے۔ یاد رکھیے کہ ان زمینی حقائق کو اتنی آسانی کے ساتھ، مکمل طور پر دفن نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا میں رائج تمام جنسی افعال و حرکات میں سب سے زیادہ خطرناک اور مہلک عمل ہم جنس پرستی ہے۔
انسانوں کے ہم جنس پرستی کے حقوق اور ہم جنس پرستوں کے انسانی حقوق میں نمایاں فرق ہے۔ ہم جنس پرستوں کو سماجی اعتبار سے اور طبی نقطہ نظر سے اس نکتہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کا خیال ہے کہ انہیں معاشرے میں، ان افراد سے بچانے کی ضرورت ہے جو انہیں سرے سے پسند ہی نہیں کرتے بلکہ ان سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہم جنس پرستوں کی ان غیر انسانی، غیر اخلاقی اور مذموم حرکات کے خلاف رد عمل کے طور پر انہیں جسمانی سزا دینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور انہیں خود سزا دینے پر بہت جلد آمادہ ہوجاتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ ان افراد کو اپنی ان مذموم، شرمناک، خبیث عادت کو ترک کرنے کے مصمم ارادے کے ساتھ، کسی ماہر نفسیات کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہیے۔
تین طلاق اور فی خاندان دو بچے والی پالیسی:
مودی حکومت کا ایک اور قدم مسلمانوں میں تین طلاق دینے والے شوہروں کو جیل میں سلاخوں کے پیچھے تین سال کی قید کی سزاکا قانون ہے جو مطلقاًغیر انسانی اور متاثرہ خاتون اور اس کے بچوں کے لیے نقصان دہ ہے کیوں کہ اس سے مطلقہ عورت اور اس کے بچوں کو کسی بھی طرح کاکوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اس کے علاوہ فی خاندان دو بچوں والی پالیسی سے بھی ملک کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ اس سے اسقاط حمل کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا خصوصاً جب عورت کے حمل میں لڑکی ہو۔واضح رہے کہ بھارت میں مسلمانوں میں کثرت ازدواج اور طلاق کے واقعات انتہائی کم بلکہ برائے نام ہی ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں پیدائش سے پہلے عورت کے پیٹ میں جنس کی پہچان کارواج سرے سے ہے ہی نہیں۔ چنانچہ مسلمانوں میں رحم مادر میں مادہ جنین کے قتل کا کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ اس کے برعکس ہندو سماج میں رحم مادر میں مادہ جنین کی موجودگی سے، اس سے نفرت کی جاتی ہے اور بیشتر صورتوں میں قبل از پیدائش، اس کا قتل بہت عام بات ہے۔ اس کے علاوہ ہندو دلہنوں کو ان کے سرپرستوں کی جانب سے جہیز اور جوڑے کی مقررہ رقم سے کم ادا کیے جانے پر، سسرال میں رہنے والی بہو کے ساتھ پیدا ہونے والے اختلافات کی صورت میں نوبیاہتا دلہنوں کو مختلف طریقوں سے ہلاک کیے جانے کا سلسلہ ہندو سماج میں آج بھی جاری ہے جسے جہیز اموات کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سے ہٹ کر شراب نوشی اور جوے کی وجہ سے ان خاندانوں میں خلفشار پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن مسلمانوں کے ان گناہوں اور جرائم میں ملوث ہونے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ عام طور پر اسلامی ممالک میں بھی خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کا تناسب مغربی ممالک کے مقابلے میں قابل ذکر حد تک کم ہے۔
مسلمانوں کی خوداپنی ذمہ داریاں:
مسلمانوں کو خود اسلامی شریعت پر حقیقی روح کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ عموماً بلکہ اکثرمسلمان، وراثت میں خواتین کے حقوق کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے، پہلے انہیں نظر انداز کرتے ہیں اور آخر کار انہیں دیدہ دلیری کے ساتھ ان کا حصہ بھی غصب کرلیتے ہیں۔ آج امت مسلمہ کو مہر کی ادائیگی اور طلاق کی صورت میں شرعی احکام کو صحیح طور پر عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔اگر عوام کی مرضی کے خلاف یکساں سول کوڈعوام پر نافذ کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تو یقینا اس کا شدید عوامی ردعمل سامنے آئے گا اور یاد رکھیے کہ امت مسلمہ کو بھی اس قانون کے نفاذ کی مخالفت کے لیے تمام پرامن دستوری طریقے استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس مہم کے لیے دیگر مذاہب کے مشترکہ اخلاقی اقدار کی بنیاد پر تمام مذاہب کے ماننے والوں کو، ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی بھرپور حمایت کی جائے گی اور یکساں مذہبی شناخت کی اساس پر آپس میں نفرت پیدا کرنے والے کسی بھی اقدام کی متحدہ طور پر مخالفت کی جائے گی۔ بنی نوع انسان کو مکمل بربادی سے بچانے کے لیے ہم سب کو اپنے اپنے فلسفوں پر مناسب نظر ثانی کرنی ہوگی۔
ہمیں قانونی، سماجی، طبی، اخلاقی اور معاشی طور پرایک صحت مند، پر امن اور خوش حال معاشرے میں،خاندان کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ معاشرے کے لیے کیا جانے والا کوئی بھی مفید کام، دراصل ایک سماجی سرگرمی ہے جسے نقد کرنسی کےبجائے انسانیت کو پہنچنے والے فوائد کی اساس پر پرکھنا چاہیے۔ مشترکہ طور پر اگر ہم سب کسی کام کو معاشرے کے لیے نقصان دہ اور خطرناک سمجھتے ہیں جس سے صحت، خاندانی امن و سکون یا سماجی تنظیم کے بنیادی ڈھانچے کو خطرہ لاحق ہوتا ہو تو سماج کے سامنے اس کی مناسب تشہیر کی جانی چاہیے۔ اپنے گھرسے باہر، تلاش معاش کے لیے مجبوراًگھر سے باہر نکلنے والی ضرورت مند خواتین کو ان کے لیے موزوں مخصوص پیشوں کی نشاندہی کرنی ہوگی اور خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ انہیں کاموں کو ترجیح دیتے ہوے ملازمت قبول کریں جیسے مختلف قسم کی طبی خدمات، تدریس کا پیشہ اور دیگر سماجی خدمت وغیرہ جہاں خواتین اور بچے بھی رہتے ہوں۔
ترجیحی خطوط پر خواتین کے لیے ایسی اسکیمیں نافذ العمل ہونی چاہئیں جس سے وہ اپنے گھرہی میں رہ کرپنے بچوں کی نگرانی کرسکیں، گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کرسکیں اور گھر پر رہتے ہوئے محنت مزدوری یا کام کرتے ہوئے انہیں معقول آمدنی بھی ہوجائے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہر خاتون ورکنگ وومن Working Woman ہوتی ہے چنانچہ ہر گرہست خاتون کی بحیثیت ایک ’’ ہاوز مینیجر‘‘ House Manager ان کی شان دار پذیرائی ہونی چاہئے۔(ترجمہ: سلیم الہندیؔ حیدرآباد)
***
حاصل کلام
بھارت میں سیکولرازم کا مطلب، کسی مذہب کی نفی نہیں ہے بلکہ کسی بھی مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے لیے عوام کے حق کو قبول کرنا بھی ہوتا ہے۔ دستور کی دفعات 15,16,25,26,27,28 & 29 اسی عنوان پر قائم ہیں۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت، مذہب اور مضبوط خاندانی نظام پر یقین رکھتی ہے اور مخصوص قسم کی خاندانی شناخت اور ثقافت کی تائید بھی کرتی ہے۔
یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کسی بھی کوشش کومسلمانوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ مسلمان ہرگز کسی بھی صورت میں اسے قبول نہیں کریں گےاگر یہ سول کوڈ:
جنسی آزادی کے جدید تصورات پر مبنی ہو
اسلامی خاندانی نظام و معاملات سے متعلق قوانین میں ترمیم یا تبدیلی کرنے کی جرات کرتا ہو جیسے تعداد ازدواج‘ طلاق و خلع کے معاملات پر پابندی
ہم جنس پرستی‘ بدکاری‘ زناکاری اور عصمت فروشی کی تائید کرتا ہو
وراثت کی تقسیم کے اسلامی قوانین میں تبدیلی کرتا ہوجو دراصل عورت اور مرد کی فطری اور معاشی ذمہ داریوں کی اساس پر نہایت متناسب انداز میں ترتیب دیا گیا ہے
خاندانی منصوبہ بندی کے عارضی لیکن محفوظ طریقوں کو تو قبول کرتا ہو لیکن بچوں کی تعداد پر پابندی عائد کرتا ہو
ہندو لڑکوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں کی شادی کو فروغ دینے کے اقدامات کرتا ہو لیکن ہندو لڑکیوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں کی شادی پر پابندی برقرار رکھتا ہو
وقف کی املاک کو امت مسلمہ کے مفاد میں استعمال کرنے والے حقوق متاثر ہوتے ہوں
اگر اذان، نماز، روزہ، قربانی اور حج جیسی بنیادی عبادات میں رکاوٹیں پیدا کرنے یا ان پر پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023