فارسی ادب میں محمد تقی میرؔ کی خدمات

(تحقیقی و تنقیدی جائزہ)

0

تبصرہ: ڈاکٹر سید تنویر حسین

’اردو بک ریویو‘ کے گزشتہ شمارہ میں ’میرؔ کا دیوانِ سوم و چہارم‘ کے تبصرہ میں میں نے پروفیسر شہاب الدین ثاقب کا مختصر تعارف پیش کیا تھا، جس میں یہ اضافہ ضروری ہے کہ وہ اردو اور فارسی دونوں میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے لسانیات اور ترکی زبان میں ڈپلوما بھی کیا۔ اس تعارف میں زیر تبصرہ کتاب کا بھی ذکر موجود تھا۔ اس کا پاکستانی ایڈیشن 2021 میں شائع ہوا تھا جس کا تفصیلی ذکر پروفیسر ثاقب نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے (ص20:، 21) ۔ یہ ایڈیشن ترمیم و اضافہ شدہ ہے جو میرؔ کی 300 ویں سالگرہ کی مناسبت سے شائع کیا گیا ہے۔ فارسی شعر و ادب سے متعلق میر کی مجموعی خدمات کے سلسلہ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا تحقیقی و تنقیدی کام ہے۔ میر کی ریختہ گوئی یعنی اردو شاعری پر معتدبہ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ جن لوگوں نے اس موضوع پر مکمل کتاب تحریر کی ان میں سیّد عبداللہ، خواجہ احمد فاروقی، نثار احمد فاروقی، گوپی چند نارنگ، صفدر آہ، جمیل جالبی، شمس الرحمٰن فاروقی، قاضی افضال حسین، احمد محفوظ، ابوالکلام عارف خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ میر کے اردو کلام کے کئی انتخاب بھی شائع ہوئے جن کے مرتبین مولوی عبدالحق، اثر لکھنوی، سید حسین بلگرامی، حسرت موہانی، محمد حسن عسکری، مولوی فضل اللہ اناوی، مولوی نوراللہ، محمد حسن، حامدی کاشمیری، قاضی افضال حسین، فردوس جہاں ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر ثاقب نے اس موضوع پر برسوں کام کیا ہے اور موضوع کے جملہ پہلوؤں پر خوب غور و خوض کرکے کتاب تیار کی ہے۔ آج صرف مسلمانوں کے درمیان بولی جانے والی زبان کے اعداد و شمار کی بات کی جائے تو عربی کے بعد دوسرے نمبر پر بنگلہ زبان آتی ہے۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب فارسی برصغیر پاک و ہندسے لے کر افغانستان ایران اور وسط ایشیا تک بولی، سمجھی اور پڑھی جاتی تھی۔ علمی، ادبی، انتظامی اور تہذیبی زبان کا درجہ رکھتی تھی۔ آج فارسی زبان ایران تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ہندوستان میں انگریزی کے غلبہ کے بعد فارسی زبان رفتہ رفتہ دم توڑ گئی۔ ایسے وقت میں ریختہ کے عظیم شاعر میر تقی میر کی فارسی خدمات کا جائزہ لینا بہت بڑی علمی خدمت ہے۔ میر فارسی کے ایک قابل ذکر اور قابل قدر شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی۔ فارسی شعر و ادب سے متعلق ان کی درج ذیل تصانیف موجود ہیں:
(۱) دیوان فارسی (۲) نثر دریائے عشق و مثنوی دریائے عشق (۳) ذکر میر (۴) فیض میر (۵) نکات الشعرا۔
’فارسی ادب میں محمد تقی میر کی خدمات‘ سے متعلق یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ ’مقدمہ‘ میں پروفیسر ثاقب لکھتے ہیں کہ باب اوّل میں میر کے سوانحی حالات بیان کیے گئے ہیں تاکہ میر کی زندگی کے اہم واقعات ایک نگاہ میں سامنے آجائیں۔ باب دوم میں میر کے زمانہ کے شعری و ادبی منظرنامہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب سوم میں میر کی ریختہ گوئی کی بنیادی خصوصیات بیان کرتے ہوئے زبان میر پر فارسی اثرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ باب چہارم میر کی فارسی شاعری کے تحقیقی و تنقیدی مطالعہ سے متعلق ہے۔ باب پنجم میر کی فارسی نثر کے مطالعے اور جائزے پر مشتمل ہے۔ اسے تین ذیلی ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصہ (الف) میر کی تذکرہ نگاری سے متعلق ہے جس میں تذکرہ ’نکات الشعراء‘ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ شامل ہے۔ حصہ (ب) حکایات و قصص کے عنوان سے ہے جس میں حکایت کی تعریف اور صنفی خصوصیات کی وضاحت کے ساتھ ساتھ فارسی نثر و نظم میں حکایات نگاری کے ارتقا کا ایک مجمل خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد میر کی حکایات نگاری، بالخصوص ’فیض میر‘ کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حصہ (ج) میر کی خودنوشت سوانح سے متعلق ہے جس میں ’ذکر میر‘ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ شامل ہے۔ باب ششم ’اسالیب میر کا تفصیلی جائزہ‘ کے عنوان سے ہے جس میں نکات الشعرا؛ نثر دریائے عشق؛ فیض میر اور ذکر میر کا اسلوبیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ میر کے شعری اسلوب پر بھی اس باب میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب ہفتم میں میر کی ادبی خدمات پر مجموعی تبصرہ شامل ہے۔
تمام ابواب بہت محنت سے لکھے گئے ہیں۔ ان ابواب میں جس موضوع کو بھی زیربحث لایا گیا ہے، اس پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ مباحث کو مثالوں اور حوالوں سے واضح کیا گیا ہے۔ مصنف کی پوری کوشش رہی کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔ یہاں میں صرف دو باب سوم و چہارم سے چند اقتباس پیش کرتا ہوں جن سے ان کی تحقیق و تنقید کا نچوڑ سامنے آجائے گا۔
’’میر نے ’نکات الشعرا‘ میں ریختہ کی چھ اقسام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’… اوّل آں کہ یک مصرعش فارسی و یک ہندی‘… اور اس نوع مثالیں کلام میر میں جس کثرت سے ملتی ہیں ان سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فارسی کا کتنا اثر ان کی اردو شاعری میں موجود ہے۔‘‘ (ص94:)
’’اس لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میر نے فارسی الفاظ و تراکیب کو لطیف پیرائے میں بکثرت استعمال کیا ہے۔ اس کے ساتھ ان کی اردو شاعری میں مضمون کی صفائی، طرز بیان کی دل کشی اور فصاحت و بلاغت کا جو کمال دکھائی دیتا ہے وہ فارسی کے ذخیرۂ الفاظ پر ان کی غیر معمولی دسترس اور اس کے تخلیقی استعمال کا نتیجہ ہے۔‘‘ (ص105:)
’’گزشتہ صفحات میں فارسی الفاظ و تراکیب کی جو فہرست پیش کی گئی ہے اور جن اشعار میں یہ تراکیب استعمال ہوئی ہیں ان کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کلام میر کا تمام تر حسن اور معنی آفرینی کا سارا دار و مدار فارسی الفاظ و تراکیب کے فنی استعمال پر ہی منحصر ہے اور میر کی بہت سی تراکیب نے اردو غزل کے کلیدی الفاظ کی جگہ لے لی ہے۔ میرؔ سے پہلے کے شعرا (قلی قطب شاہ، ولی، سراج، فائز، آبرو وغیرہ) کے یہاں ایسی نادر تراکیب اتنی کثیر تعداد میں شاید ہی دیکھنے کو مل سکیں گی۔‘‘ (ص111:)
’’مجموعۂ نیاز، اگر واقعی میر کی تالیف ہے تو اس کی بنیاد پر یہ امر بھی یقینی ہے کہ میر نے اپنا فارسی دیوان ’نکات الشعرا‘ کی تالیف (1165ھ) سے قبل تیار کرلیا تھا، اس لحاظ سے اب تک یہ جو کہا جاتا رہا ہے کہ میر کی فارسی شاعری ان کی اردو شاعری کا چربہ ہے، اس قسم کی عمومی تنقیدی فیصلے پر بھی نظرثانی کی ضرورت لازم آئے گی۔‘‘ (ص163:)
آخر میں ضمیموں کی شمولیت کے سبب کتاب کی تحقیقی اور تنقیدی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ ضمیموں کی کل تعداد آٹھ ہے۔
پروفیسر شہاب الدین ثاقب کی یہ کتاب میرؔ اور میریات کے باب میں ایک اہم اضافہ ہے۔ امیدِ قوی ہے کہ ان کی دیگر کتابوں کی طرح اس کتاب کی بھی بھرپور پذیرائی اور خیرمقدم ہوگا۔ کتاب بہت خوبصورت چھپی ہے۔ ضخامت اور کاغذ کی کوالٹی کے اعتبار سے قیمت مناسب کہی جائے گی۔
مبصر کا پتہ: اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی 110025- موبائل نمبر 9717471994:

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025