کسان مانسون اجلاس کے دوران نئے زرعی قوانین کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر روزانہ مظاہرے کریں گے
نئی دہلی، جولائی 5: دی ہندو کے مطابق کسانوں نے اتوار کے روز مانسون اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کے باہر تینوں نئے قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا، جو ممکنہ طور پر 19 جولائی کو شروع ہوگا اور 13 اگست کو ختم ہوگا۔
40 کسان یونینوں کی مشترکہ تنظیم سنیکت کسان مورچہ نے کہا کہ 22 جولائی سے ہر تنظیم کے پانچ ارکان اور کم سے کم 200 مظاہرین پارلیمنٹ کے باہر ہر روز مظاہرے کریں گے۔ کاشتکاروں نے پہلے پارلیمنٹ تک مارچ کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اب اس منصوبے کو بدل دیا گیا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق کسان یونینوں نے بتایا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہونے سے دو دن قبل اپوزیشن کے تمام اراکین پارلیمنٹ کو ایک خط بھیجا جائے گا جس میں ان سے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کی اپیل کی جائے گی۔
بھارتیہ کسان یونین کے ایک گروہ کی قیادت کرنے والے بلبیر سنگھ راجیوال نے کہا ’’ہم اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ سے یہ مسئلہ ایوان کے اندر ہر روز اٹھانے کو کہیں گے جب کہ ہم احتجاج میں باہر بیٹھیں گے۔ ہم ان سے کہیں گے کہ ایوان سے باہر نکل کر مرکز کو فائدہ نہ پہنچائیں۔ جب تک حکومت اس مسئلے پر توجہ نہیں دیتی اجلاس کو نہ چلنے دیں۔
کسان یونین نے کہا کہ وہ اپنے احتجاج کو تیز کریں گے، دہلی کی سرحدوں سے مظاہرین کو اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ پارلیمنٹ کے قریب منتقل کریں گے اور ملک گیر مظاہروں کا اہتمام کریں گے۔ کسان لیڈر گرنام سنگھ چدونی نے کہا ’’یہ ایک الٹی میٹم ہے۔ ہم ہمیشہ کے لیے انتظار نہیں کرسکتے ہیں اور ہمیں دارالحکومت میں جانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔‘‘
دی ہندو کے مطابق سنیکت کسان مورچہ نے کہا ’’ابھی تک حکومت نے ایک بھی وجہ نہیں بتائی ہے کہ ان قوانین کو کیوں منسوخ نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم صرف یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں منتخب حکومت اپنے شہریوں-کسانوں کے سب سے بڑے حصے کے ساتھ انا کا کھیل کھیل رہی ہے۔ اور ملک کے ’’انّ داتا‘‘ (کسانوں) کے مقابلے میں متکبر سرمایہ داروں کے مفادات کا انتخاب کرنے کو ترجیح دے رہی ہے۔‘‘
کسان یونینوں اور مرکزی حکومت کے مابین تعطل کو حل کرنے کے لیے بات چیت کے کئی دور ناکام رہے ہیں۔ آخری بار دونوں فریقین نے 22 جنوری کو ملاقات کی تھی۔