نئے زرعی قوانین: کسانوں اور حکومت کے درمیان تعطل کو حل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے ذریعے مقرر کردہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی
نئی دہلی، مارچ 31: این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں اور حکومت کے مابین تعطل کو حل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی مقرر کردہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے۔
کمیٹی کے رکن انل گھنوت نے این ڈی ٹی وی کو بتایا ’’یہ رپورٹ 19 مارچ کو پیش کی گئی تھی۔‘‘
تاہم انھوں نے اس رپورٹ کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں کیوں کہ یہ ایک ’’خفیہ عمل‘‘ تھا۔
گھنوت نے دی ہندو کو بتایا کہ اس رپورٹ کو جو سیل بند لفافے میں جمع کرائی گئی تھی، اس کیس کی سماعت کی اگلی تاریخ کو منظرعام پر لایا جائے گا۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق سپریم کورٹ اس معاملے پر 5 اپریل کو اگلی سماعت کرے گی۔
کسان یونینوں اور مرکز کے مابین متعدد دور کے مذاکرات اس تعطل کو حل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے جنوری میں چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ عدالت نے قوانین کے نفاذ کو بھی معطل کردیا تھا اور کمیٹی کو تینوں قوانین کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے یونینوں اور دیگر مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کرنے کا حکم دیا تھا۔
آل انڈیا کسان رابطہ کمیٹی کے سربراہ بھوپندر سنگھ مان، انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے جنوبی ایشیاء کے ڈائریکٹر پرمود جوشی، زرعی ماہر معاشیات اشوک گلاٹی اور مہاراشٹر شیتکاری سنگٹھن کے ممبر انل گھنوت کو کمیٹی کے ممبران کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے مطابق پینل نے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کل 12 دور میں مشاورت کی جن میں کسان گروپس، کسان پروڈیوسر تنظیمیں، خریداری ایجنسیاں، پیشہ ور افراد، ماہرین تعلیم، نجی اور ریاستی زراعت کی مارکیٹنگ بورڈ وغیرہ شامل تھے۔ اس نے رپورٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے نو مرتبہ آپس میں ملاقاتیں بھی کیں۔
معلوم ہو کہ کسانوں نے اس پینل سے بات چیت کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ کمیٹی کے تمام ممبران زرعی قوانین کے حامی ہیں اور ’’حکومت نواز‘‘ ہیں۔ اس تنازعے کے دوران 14 جنوری کو کمیٹی کے ایک ممبر بھوپندر سنگھ مان نے خود کو اس پینل سے الگ کرلیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ پنجاب اور ملک کے کسانوں کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے۔