فیس بک بھارت میں مسلم مخالف مواد سے آگاہ ہے، لیکن ’’سیاسی تحفظات‘‘ کے سبب کارروائی نہیں کرتا، فیس بک کی سابق ملازمہ نے امریکی قانون سازوں کو بتایا
نئی دہلی، اکتوبر 6: دی وائر کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کا راز افشا کرنے والی کمپنی کی سابق ملازمہ فرانسس ہیوگن نے یونائیٹیڈ اسٹیٹس انتظامیہ کو بتایا کہ فیس بک بھارت میں اپنے پلیٹ فارم پر مسلم مخالف بیانیے کو فروغ دینے کے بارے میں بخوبی آگاہ تھا۔
ہیوگن نے کمپنی کے اندرونی دستاویزات کا بھی حوالہ دیا جو ’’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یوزرز، گروپس اور پیجز‘‘ کے ذریعے فروغ دیے جانے والے ’’خوفناک مواد‘‘ سے متعلق ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’’سیاسی تحفظات‘‘ نے فیس بک کو ’’اس گروپ‘‘ کے خلاف کارروائی سے روک دیا۔
ہیوگن نے ہندوستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز مواد کے اندرونی ریکارڈ کا حوالہ دیا۔ انھوں نے ایک کمپنی کی دستاویز کے حوالے سے کہا ’’مسلمانوں کو ‘خنزیر’ اور ‘کتوں’ سے تشبیہ دینے والی بہت سی غیر انسانی پوسٹیں تھیں اور قرآن میں غلط معلومات کا دعویٰ کیا گیا تھا کہ مرد اپنے خاندان کے ممبروں کے ساتھ زیادتی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
دستاویز میں مبینہ طور پر کہا گیا ہے کہ اس مواد کو شیئر کرنے والوں میں سے بیشتر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی کیوں کہ کمپنی میں ’’ہندی اور بنگالی کلاسیفائرز‘‘ کی کمی ہے۔ کلاسیفائرز سے مراد وہ الگورتھم ہیں جو نفرت انگیز تقریر کا پتہ لگاتے ہیں۔
سی بی ایس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ہیوگن نے اپنے وکلا کے ذریعے فیس بک کے خلاف کم از کم آٹھ شکایات دائر کی ہیں۔ شکایات ایس ای سی کے ساتھ فائلنگ، یو ایس کانگریس کی شہادتوں، آن لائن بیانات اور میڈیا آرٹیکلز کے ذریعے سرمایہ کاروں کو ’’مادی غلط بیانی اور بیانات میں کمی‘‘ سے متعلق ہیں۔
مبینہ طور پر اس نے اپنی شکایات کی بنیاد ہزاروں دستاویزات پر رکھی جو کہ اس نے مئی میں فیس بک چھوڑنے سے پہلے خفیہ طور پر کاپی کی تھی۔ دی وائر کے مطابق ان میں سے کم از کم چار شکایات ہندوستان کے حوالے سے ہیں۔
ہیوگن کے وکیل نے کمپنی کی اندرونی دستاویزات کا حوالہ دیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ہندوستان کو ٹائر-0 ملک کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنی اہم انتخابی چکروں کے دوران ملک پر زیادہ توجہ دے گی۔ ہندوستان کے علاوہ، صرف امریکہ اور برازیل کو اس زمرے میں درجہ بند کیا گیا ہے۔
تاہم غلط معلومات کے بارے میں ایک علاحدہ سیکشن بتاتا ہے کہ امریکہ کو اس مقصد کے لیے دستیاب وسائل کا 87 فیصد ملتا ہے، جب کہ باقی دنیا کو صرف 13 فیصد۔
سی بی ایس نیوز کے مطابق ہیوگن نے امریکی حکام کو یہ بھی بتایا کہ فیس بک اور انسٹاگرام کو 2019 میں معلوم تھا کہ یہ پلیٹ فارمز انسانی سمگلنگ اور گھریلو غلامی کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
اس نے یہ بھی الزام لگایا کہ فیس بک 2020 کے امریکی انتخابات اور دارالحکومت میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں غلط معلومات کی تشہیر اور پرتشدد انتہا پسندی کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے میں ناکام رہا۔
دریں اثنا فیس بک کی ڈائریکٹر پالیسی کمیونیکیشن لینا پیٹش نے چینل کو بتایا کہ ٹیموں کو ’’اپنے پلیٹ فارم کو محفوظ اور مثبت جگہ رکھنے کی ضرورت کے ساتھ کھلے عام اظہار کرنے کے اربوں لوگوں کے حق کے تحفظ میں توازن رکھنا ہوگا۔‘‘
پیٹش نے کہا کہ کمپنی جعلی خبروں اور نقصان دہ مواد کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے بہتری لا رہی ہے۔
دریں اثنا منگل کو ہیوگن نے امریکی کانگریس کے سامنے یہ بھی کہا کہ فیس بک کی مصنوعات ’’بچوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور ہماری جمہوریت کو کمزور کرتی ہیں۔‘‘
رائٹرز کے مطابق ہیوگن نے امریکی قانون سازوں کو بتایا کہ ’’کمپنی کی قیادت فیس بک اور انسٹاگرام کو محفوظ بنانا جانتی ہے، لیکن ضروری تبدیلیاں نہیں کرے گی کیوں کہ وہ اپنے منافع کو لوگوں پر ترجیح دیتی ہے۔‘‘
امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر ایڈورڈ مارکی نے کہا کہ کانگریس اس معاملے میں کارروائی کرے گی۔
ہیوگن نے کہا کہ فیس بک غیر انگریزی بولنے والوں کے لیے غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے کافی وسائل مختص نہیں کرتا۔ اس نے کہا کہ وسائل کا یہ فرق ایتھوپیا جیسی جگہوں پر تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔