فاشست طاقتوں کو روکنے کے لیے حکمت اور سیاسی بصیرت درکار

تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کا مثبت نتیجہ برآمد

محمد مجیب الاعلیٰ

جماعت اسلامی ہند تلنگانہ کی سیاسی کمیٹی کے صدرنشین جناب عبدالمجید شعیب سے انٹرویو
حالیہ منعقدہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے جہاں دو ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کے ہاتھوں اپنا اقتدار گنوایا ہے وہیں تلنگانہ میں دس سال کے وقفے کے بعد بی آر ایس سے اقتدار چھیننے میں اسے غیر معمولی کامیابی ملی ہے۔ یہ کامیابی کئی پہلووں سے اہم ہے لیکن ہندی پٹی میں کمزور مظاہرے نے اس کامیابی کو دھندلا دیا ہے۔ تلنگانہ کے ساتھ اگر کانگریس کو کسی اور ریاست میں کامیابی ملتی تو بی جے پی کے ساتھ اس کا توازن برقرار رہتا اور 2024 کے عام انتخابات میں وہ زبردست ٹکر دینے کے موقف میں نظر آتی۔ تاہم، سیاسی بساط پر ابھی بہت سا کھیل باقی ہے۔ اگر کانگریس کی زیر قیادت انڈیا بلاک موثر حکمت عملی اختیار کرے تو بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس پس منظر میں تلنگانہ کے انتخابی نتیجہ کا تجزیہ اہمیت کا حامل ہے جہاں سہ رخی مقابلہ لڑا گیا۔ جماعت اسلامی ہند حلقہ تلنگانہ نے الیکشن سے بہت پہلے ہی پیش آئند مشکل صورتحال کا اندازہ کرتے ہوئے معاون امیر حلقہ تلنگانہ جناب عبدالمجید شعیب کی زیر قیادت ایک سیاسی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے اپنے سروے، گراونڈ ورک اور مختلف سطحوں پر مشاورت کے بعد جو فیصلہ کیا، نتیجہ اسی کے مطابق برآمد ہوا ہے۔ چنانچہ مختلف گوشوں سے جماعت اسلامی ہند حلقہ تلنگانہ کی اس بر وقت سیاسی رہنمائی کی پذیرائی کی جا رہی ہے۔ سیاسی کمیٹی نے امیدواروں کے سیکولر کردار اور دیگر پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کی صلاحیتوں کا جائزہ لیا۔ مختلف جماعتوں کے امیدواروں کی تعداد، اپنے جائزے، عمومی رائے اور سول سوسائٹی کے گروپس، این جی اوز اور مسلم تنظیموں کے ساتھ مل کر، 69 نشستوں پرکانگریس، 41 پر بی آر ایس، سات اے آئی ایم آئی ایم، ایک سی پی آئی اور ایک بی ایس پی امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ کمیونٹی کی جانب سے حکمت عملی پر مبنی ووٹنگ نے امیدواروں کی کامیابی میں مدد کی اور نتیجہ توقعات کے مطابق رہا۔جماعت اسلامی تلنگانہ کی اس ساری سرگرمی کو سمجھنے کے لیے ہم نے سیاسی کمیٹی کے صدر نشین جناب عبدالمجید شعیب سے بات چیت کی ہے جس کا خلاصہ قارئین کی خد مت میں پیش ہے:
1) تلنگانہ میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں جماعت اسلامی ہند حلقہ تلنگانہ نے بی آر ایس کی حمایت کی تھی لیکن اس بار حکومت سازی کے لیے کانگریس کی تائید کی گئی۔ موقف میں اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟

جماعت اسلامی نے 2016 میں کانگریس کی تائید کی تھی جبکہ 2018 میں ٹی آر ایس کی تائید کی گئی۔ حلقہ کی شوریٰ نے زمینی حقائق کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کیا کہ اس بار کسی ایک پارٹی کی ایک طرفہ تائید نہیں کی جائے گی، نہ پارٹی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا بلکہ امیدواروں کی اہلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر تائید کی جائے گی۔ چونکہ یہاں کئی انتخابی حلقوں میں سہ رخی مقابلہ تھا الحمدللہ، ہمارا فیصلہ تقریباً درست ثابت ہوا۔
2) علیحدہ تلنگانہ تحریک کے وقت اس تصور کو خوب پھیلایا گیا تھا کہ مسلمان علیحدہ ریاست کے حق میں نہیں ہیں لیکن جماعت نے ’تلنگانہ گرجنا‘ کے انعقاد کے ذریعہ اس تصور کی نفی کی تھی اور اس کے بعد ہی تلنگانہ تحریک کامیاب ہوئی تھی۔ اس وقت سے ہی ٹی آر ایس (موجودہ نام بی آر ایس) اور جماعت کے قائدین کے درمیان اچھے مراسم رہے تھے لیکن اس کے باوجود حالیہ انتخابات میں کانگریس کی حمایت کی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک مشکل فیصلہ رہا ہوگا۔ اس تعلق سے آپ کیا کہیں گے؟
یہ بات درست ہے کہ تلنگانہ تحریک کے دوران جماعت کی قیادت اور تلنگانہ تحریک سے وابستہ مختلف سیاسی گروہوں اور قائدین کے درمیان اچھے روابط قائم ہوئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت قیامِ تلنگانہ کے بعد عوام کی امنگوں اور امیدوں کو سرے سے نظر انداز کردے۔ تعلقات یقیناً اہم ہیں لیکن عوام کے جائز مطالبات کی عدم تکمیل کے نتیجہ میں جو رائے عامہ بنی تھی اسی کے پیش نظر شوریٰ نے کانگریسی امیدواروں کی ایک کثیر تعداد کے حق میں تائید کا اعلان کیا۔ شورائی نظام کی یہی خاصیت ہوتی ہے کہ انفرادی اور ذاتی سطح پر قائم کردہ تعلقات ہمارے کسی فیصلے میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔
3) جماعت کی سیاسی کمیٹی نے جہاں زیادہ تر نشستوں پر کانگریس کے امیدواروں کی تائید کی وہیں خاصی تعداد میں بی آر یس کے امیدواروں کی بھی حمایت کی۔ امیدواروں کے انتخاب کا پیمانہ کیا تھا اور حتمی فیصلے پر پہنچنے سے قبل کس طرح کا ورک اوٹ کیا گیا؟

سیاسی کمیٹی نے امیدواروں کی تائید کرنے سے پہلے جن امور کو پیش نظر رکھا وہ اس طرح ہیں:
الف) جس حلقہ اسمبلی میں فرقہ پرست پارٹی کا امیدوار مضبوط تھا وہاں ایسے سیکولر و جمہوریت پسند امیدوار کی تائید کی گئی جو فرقہ پرست امیدوار کو شکست دینے کے بہتر موقف میں تھا۔
ب) تقریباً سبھی مقامی جماعتوں نے ایک عوامی سروے کیا جس کی رپورٹ پیش ہوئی۔
ج) مقامی جماعتوں کے کیڈر کی آراء کو بھی پیش نظر رکھا گیا۔
د) سابقہ حکومت کی کارکردگی اور عوام کے جائز مطالبات کی تکمیل/عدم تکمیل بھی تائید /عدم تائید کی ایک وجہ رہی۔
ح) مقامی امیدوار کی کارکردگی اور سماج کے تمام طبقات میں اس کی مقبولیت بھی ایک اہم عنصر رہا۔
4)جماعت اسلامی ہند کی سیاسی سرگرمی کا ایک اہم ہدف فسطائی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا ہے، لیکن شمالی ہند کی تین ریاستوں کے ساتھ ساتھ تلنگانہ میں بھی بی جے پی اپنی سیٹوں اور ووٹ شیئر کو بڑھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کیا حکمت عملی طے کرنے یا کیڈر کی کوششوں میں کوئی کمی رہ گئی تھی جس کے سبب ایسا ہوا؟

تلنگانہ میں بھاجپا کا ووٹ شیئر بڑھنے کے جو اسباب کارفرما رہے وہ اس طرح ہیں: 
بی آر ایس سے ناراض ووٹروں کی ایک خاصی تعداد نے بھاجپا کو ووٹ دیا
  مودی اور امیت شاہ نے جس شدت کے ساتھ مسلم مخالف ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی اس کے نتیجہ میں بھی ممکن یے کہ بی جے پی کو دو تین فیصدی ووٹ کا فائدہ پہنچا۔
  انتخابات سے چند ماہ قبل بعض اہم کانگریسی لیڈروں نے جن کا اپنا ذاتی اثر بہت اچھا تھا بی جے پی میں شمولیت اختیار کی، انہوں نے بھی جیت درج کرائی جس کے نتیجہ میں بھی بھاجپا کے ووٹ شیئر میں اضافہ ہوا۔
دلتوں کا ایک طبقہ جو دلت تحفظات میں آبادی کے مطابق اپنے حصہ کا مطالبہ کررہا تھا اس کے سب سے اہم لیڈر نے نریندر مودی کی تائید کا اعلان کیا جس کے نتیجہ میں بھاجپا کے ووٹ شیئر میں اندازہ ہے کہ شاید دو تین فیصد مزید اضافہ ہوا ہوگا، اس کے علاوہ ایک اہم فیکٹر یہ رہا کہ جن مقامات میں بی آر ایس کا امیدوار ناکام ہوتا ہوا محسوس ہوا اس نے اپنا ووٹ بی جے پی کو منتقل کیا جیسا کہ نظام آباد اور دیگر مقامات پر دیکھا گیا ہے۔ اس طرح مختلف اسباب کی بناء پر بی جے پی اپنا ووٹ بڑھا پائی ہے جو یقیناً قابل تشویش تو ہے لیکن غیر فطری نہیں ہے ۔
5) تلنگانہ اسمبلی میں فسطائی پارٹی کی عددی طاقت چار سے بڑھ کر آٹھ پر پہنچ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں بھی وہ اس مظاہرے کو دہرا کر اپنی پارلیمانی نشستوں کو بڑھا سکتی ہے۔ اس تعلق سے آپ کا تجزیہ کیا کہتا ہے؟ پارلیمانی الیکشن میں بھگوا پارٹی کے اثر کو محدود کرنے کے لیے کس طرح کی حکمت عملی درکار ہوگی؟

لوک سبھا الیکشن میں فسطائی جماعت کی پیش رفت کو محدود کرنے کے لیے ہمیں نہایت حکمت اور سیاسی بصیرت کا ثبوت دینا ہوگا۔
مسلم جماعتیں کوئی ایسا اعلان نہ کریں یا سوشل میڈیا پر ایسے بیانات اور تقاریر وائرل کرنے سے اجتناب کریں جس سے فسطائیت پسند عناصر پولرائزیشن کی فضا پیدا کر سکیں۔
– عادل آباد نظام آباد اور کریم نگر جیسے مقامات پر سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں اور افراد کے ساتھ اشتراک و تعاون کے ذریعہ مہم چلائی جائے گی اور اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ ہندو مسلم تفریق کی بنیاد پر نہیں بلکہ دس سالہ مرکزی حکومت کی کارکردگی پر مباحثہ ہوسکے اور اسی بنیاد پر خصوصاً نوجوان رائے دہندگان کو بھاجپا کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینے کے لیے راغب کیا جائے گا۔
– بی جے پی کی ناکامی اور ملک کی دولت اور سرکاری ادارہ جات کو چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیے جانے والے حقائق کو ڈاکیومنٹریز اور سوشل میڈیا ویڈیوز کے ذریعہ پیش کیا جائے گا۔
– مناسب امیدواروں کو ٹکٹ دلوانے اور عوامی رجحان سے ’انڈیا الائنس‘ کو واقف کروانے کی بھی کوشش کی جائے گی۔
6) تلنگانہ کی بااثر سمجھی جانے والی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے کھل کر بی آر ایس کی تائید کی اور ملت کے بعض گوشوں بالخصوص جمعیت اہل حدیث نے بھی بی آر ایس اور اس کی حلیف پارٹی کی یکطرفہ حمایت کی تھی لیکن ریاست کے عوام نے جماعت اسلامی ہند حلقہ تلنگانہ کے موقف پر اپنی مہر لگائی ہے۔ اس تعلق سے آپ کیا کہیں گے؟

ایم آئی ایم کا اثر شہر حیدرآباد تک محدود ہے اور ایک دو شہری علاقوں میں وہ منفی رول بھی ادا کرتی ہے۔ عوام الناس باشعور ہیں اور انہوں نے سوچ سمجھ کر ووٹ دیا ہے۔ ان کا جو وفادار ووٹر ہے وہی ان کی بات پر کسی حد تک عمل پیرا ہوتا ہے ورنہ عام مسلمانوں کی غالب اکثریت جماعت اسلامی ہند اور جمیعة العلماء کی رائے پر زیادہ اعتماد کرتی ہے۔
سیاسی معاملات میں دیگر گروہوں کا تو کوئی خاص اثر نہیں ہے۔
7) تلنگانہ کے لیے جماعت نے اپنا عوامی منشور جاری کیا تھا۔ کیا کانگریس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس پر عمل کرے گی؟

عوامی منشور پر کانگریس کہاں تک عمل کرے گی اس پر کچھ کہنا مشکل ہے البتہ بہت سے امور پر کانگریس نے اپنے مینی فیسٹو میں وہی موقف اختیار کیا ہے جو جماعت کا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ حکومت اسی منشور کے مطابق اپنی پالیسی مرتب کرے اور اسی پر عمل کرے۔
***

 

***

 لوک سبھا الیکشن میں فسطائی جماعت کی پیش رفت کو محدود کرنے کے لیے ہمیں نہایت حکمت اور سیاسی بصیرت کا ثبوت دینا ہوگا۔مسلم جماعتیں کوئی ایسا اعلان نہ کریں یا سوشل میڈیا پر ایسے بیانات اور تقاریر وائرل کرنے سے اجتناب کریں جس سے فسطائیت پسند عناصر پولرائزیشن کی فضا پیدا کر سکیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023