ای ڈبلیو ایس کوٹہ : عدالت عظمیٰ کا فیصلہ مستقبل میں ریزرویشن کی سیاست کو فروغ دے گا
مستحق افراد کو ریزرویشن کا فائدہ پہچانے کیلئے مؤثر نظام بنانے کی اشد ضرورت
احتشام الحق آفاقی
سماجی جبر اور معاشی طور پر کمزور افراد کو ریزرشن نے تقویت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا
معاشی طور پر پسماندہ طبقہ کو دس فیصد کوٹہ برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہندی اور انگریزی اخبارات کی رائے
اگرچہ ملک کی عدالتوں میں لاکھوں مقدمے برسہا برس سے زیر التوا ہیں اس کے باوجود کچھ معاملے ایسے ہوتے ہیں جن پر پورے ملک کی نگاہ رہتی ہے کہ نہیں معلوم عدالت اس سلسلہ میں کیا فیصلہ سنائے گی۔ ایسے ہی مقدموں میں ایک مقدمہ ای ڈبلیو ایس(Economically Weaker Sections) کو دس فیصد کوٹہ کی فراہمی کا بھی تھا۔ اس سلسلہ میں پورے ملک کی نگاہ عدالت عظمی پر ٹکی ہوئی تھی کہ آیا وہ ای ڈبلیو ایس ریزرویشن کو برقرار رکھتی ہے یا ختم کر دیتی ہے۔ بالآخر عدالت عظمیٰ نے اسے برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا ہی دیا۔ چیف جسٹس یو یو للت کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ میں خود جسٹس للت اور آئینی بنچ کے رکن جسٹس ایس رویندر بھٹ نے 103ویں آئینی ترمیم سے اختلاف کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق یہ امتیاز سے پر اور آئین کی اصل روح کے خلاف ہے۔ مگر جسٹس دنیش مہیشوری، جسٹس بیلا ایم ترویدی اور جسٹس جے بی پاردی والا نے اسے برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا۔ جسٹس مہیشوری کے مطابق یہ کوٹہ آئین کے اصل ضابطے اور روح کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ جسٹس ترویدی نے بھی معاشی طور پر کمزور افراد کو ملنے والے دس فیصد ریزرویشن کو درست قرار دیا، البتہ یہ غور کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ ریزرویشن کب تک ضروری ہے۔ ان کے مطابق سماجی اور معاشی اعتبار سے نابرابری ختم کرنے کے لیے ریزرویشن کوئی آخری حل نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ ’جن ہت ابھیان‘ تنظیم کے ذریعہ دائر کردہ عرضیوں پر سنایا ہے۔ حکومت نے اس سلسلہ میں دعویٰ کیا تھا کہ دس فیصد ای ڈبلیو ایس ریزرویشن پہلے سے درج فہرست ذاتوں/ درج فہرست قبائل (ایس سی/ایس ٹی) دیگر پسماندہ ذاتوں (او بی سی) اور عام زمروں کو دیے گئے پچاس فیصد ریزرویشن سے مختلف ہے۔ اس تناظر میں ہندوستان کے مؤقر انگریزی اور ہندی اخبارات نے اس فیصلے پر اداریے شائع کیے ہیں۔
دی ہندو نے کہا کہ ’’یہ قابل اعتراض ہے، کیونکہ یہ صرف آمدنی کے پیرامیٹرز پر مبنی ہے اور اس میں دیگر وجوہات شامل نہیں ہیں۔‘‘ اداریہ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ ’’حکومت ای ڈبلیو ایس کا دائرہ باقی طبقوں کے لیے بھی وسیع کرے اور آمدنی کی حد کو کم کرے۔ ای ڈبلیو ایس کو اس سطح پر لانے کی کوشش کی جائے جس سطح سے حکومت عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے۔ اسی طرح کریمی لیئر کی نشان دہی میں ان غریب طبقات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جو او بی سی اور ایس سی؍ ایس ٹی طبقوں میں شامل تو ہیں لیکن کسی طرح کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں، ان کو ای ڈبلیو ایس کوٹے کے تحت مستفید ہونے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔‘‘
ٹائمس آف انڈیا نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ ’’سپریم کورٹ کے ذریعہ ای ڈبلیو ایس کوٹہ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ عدالت نے معاشی ریزرویشن کو موزونیت کی مہر لگا دی ہے‘‘ لیکن اخبار نے متنبہ کیا کہ ’’فیصلے کے اقلیت اور اکثریت کے درمیان پچاس فیصد کی حد کے سوال پر گہرے اختلاف نے مستقبل میں تنازعات کی راہ ہموار کی ہے‘‘ ٹائمس آف انڈیا نے مزید کہا کہ ’’او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی کو ای ڈبلیو ایس کوٹے سے باہر کرنا سیاسی نقطہ نظر سے ضروری سمجھا گیا تھا، کیونکہ حکومت نے غیر محفوظ طبقوں کے درمیان کافی ناراضگی محسوس کی تھی۔ لیکن جیسے جیسے انتخابی پروگرام مصروف ترین ہوتا جائے گا ویسے ہی ای ڈبلیو ایس کے فیصلہ کے بعد اور ایک طرح کی سیاست شروع ہو سکتی ہے‘‘
انڈین ایکسپریس نے اس سلسلہ میں جارحانہ رخ اختیار کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ ’’برادریوں کے ساتھ ساتھ طبقے کو شامل کرنا ایک نئے فلاحی فریم ورک بنانے کی مرکز کی کوششوں کا حصہ ہے‘‘ اداریہ میں کہا گیا کہ ’’حکومت کو اختلاف رائے کے فیصلے میں اٹھائے گئے خدشات کو دور کرتے ہوئے دلتوں کے ساتھ ساتھ سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کے خوف کو دور کرنا چاہیے۔ تاہم امتیازی سلوک کے ایک عنصر کے طور پر غربت کو شامل کرنا اور اس کے ازالے کی تجویز خوش آئند ہے، لیکن اب بھی اس معاشی حصہ داری کی توسیع ہی اہم ضرورت ہے‘‘
ٹیلی گراف نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے ’’ای ڈبلیو ایس کوٹہ خوشگوار ہے لیکن یہ غیر اطمینان بخش بھی ہے‘‘ کیونکہ یہ یقینی طور پر ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو تحفظات کی دوسری چھتری کے نیچے آتے ہیں‘‘ اداریہ میں کہا گیا ’’اب جب کہ 2024 قریب آ رہا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلیٰ ذات کی اکثریتی برادری شکر گزار ہو گی جبکہ نچلی ذات کی آبادی اس طرف کم متوجہ ہو سکتی ہے۔ یہاں تک کہ ان میں جو غریب ہیں انہیں بھی اکثر
ریزرویشن کا فائدہ ملتا ہے۔‘‘ اداریہ میں کہا گیا کہ جب یہ مشکل ہو جاتا ہے تو وہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اگلی ذاتوں کو سرکاری طور پر ایک اضافی فائدہ دیا جا رہا ہے۔ وسیع پیمانے پر دلت بائیکاٹ کی اس ناقص مفاداتی پالیسی کی اہمیت کو سمجھنے میں ناکام ہو سکتے ہیں‘‘
سپریم کورٹ کے فیصلے پر امرا اجالا نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ ’’سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ نے اکثریت سے جنرل طبقہ کے معاشی اعتبار سے کمزور لوگوں کے لیے دس فیصد ریزروشن کو درست قرار دے کر ایک اہم قانونی مسئلے کا تصفیہ کر دیا ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہونا یقینی ہے‘‘ اخبار نے لکھا کہ ’’بلا شکوک و شبہات ہندوستان ان جمہوری ممالک میں سر فہرست ہے جس نے سماجی طور پر زبوں حال اور استحصال کا شکار طبقات کو مرکز سے جوڑنے کے لیے ریزرویشن کا انتظام کیا تھا اور ریزرویشن نے ان کی حالت میں سدھار لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ معاشی اعتبار سے ریزرویشن اس سلسلہ کو مزید مضبوط کرے گا۔ لیکن یہ بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس کا ذرا بھی غلط استعمال نہ ہو‘‘
دینک جاگرن نے ’’ریزرویشن پر اہم فیصلہ‘‘ کے عنوان سے لکھا کہ ’’سپریم کورٹ نے معاشی طور پر کمزور افراد کے لیے تعلیم اور نوکریوں میں دس فیصد ریزرویشن کو درست قرار دے کر نہ صرف حکومت کو بلکہ اس سماج کو بھی ایک بڑی راحت دی ہے‘‘ اخبار نے بعض سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کے ذریعہ عدالت کے اس فیصلہ کی مخالفت کرنے پر سوال بھی اٹھایا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ ’’سمجھنا مشکل ہے کہ کچھ سیاسی پارٹیاں معاشی ریزرویشن پر سپریم کورٹ کے فیصلہ سے غیر متفق کیوں ہیں؟ ایسے نظریات کے حامل افراد کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کا مذکورہ فیصلہ سماجی انصاف کی لڑائی کو کمزور کرنے والا ہے‘‘ اخبار نے اس سلسلہ میں کئی سوالات بھی قائم کیے ہیں کہ ’’آخر کمزور افراد کو راحت دینا سماجی انصاف کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا سماجی انصاف صرف مخصوص ذاتوں کو ریزرویشن کا فائدہ پہنچانے سے قائم ہوتا ہے؟‘‘ آخر میں اخبار نے لکھا کہ ’’کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں کیا ہو گا، لیکن بہتر یہی ہے کہ ایسا کوئی نظام بنے جس سے تمام ہی مستحق افراد کو ریزرویشن کا فائدہ پہنچے۔ بلا شبہ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہمارے پالیسی ساز، معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ریزرویشن کے نظام کو مزید موثر اور مساوی بنانے کے لیے نئے سرے سے سوچیں گے، جیسا کہ اقتصادی ریزرویشن پر فیصلہ سنانے والی بنچ کی جسٹس بیلا ترویدی نے کہا۔
‘‘ہندوستان ہندی نے اس موضوع پر اداریہ میں چند سوالات اٹھائے ہیں مثلا ’’کیا ریزرویشن کو عدم اطمینان سے دور کیا جا سکتا ہے؟ کیا ریزرویشن کے بڑھتے ہوئے مطالبات کو مسترد کیا جا سکتا ہے؟ اس فیصلے میں جسٹس پاردی والا نے کہا ہے کہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ریزرویشن کب تک ضروری ہے؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریزرویشن عدم مساوات کو دور کرنے کا حتمی حل نہیں ہے۔ یہ صرف ایک شروعات ہے۔ یعنی ریزرویشن کا سوال بہت وسیع ہے اور ہمیں اس کے فوائد اور نقصانات پر غور کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے کہ اگر ہم پسماندہ ذاتوں، قبائل اور غریب اونچی ذاتوں میں سے محروم لوگوں کو فائدہ پہنچا سکیں۔ ہمارے ملک میں اب بھی پسماندہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جنہیں مدد کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو اپنی سطح پر کوشش کرنی چاہیے کہ کاغذ پر کسی طبقے کو ریزرویشن دینے سے زیادہ ضروری ہے کہ اس طبقے کے ضرورت مندوں تک پہنچا جائے، لیکن کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے؟‘‘ اخبار نے مزید لکھا کہ ’’جب او بی سی طبقے کو زیادہ ریزرویشن دینے کی بات آتی ہے تو اندرا ساہنی کیس میں پچاس فیصد کی اوپری حد کا حوالہ دیا جاتا ہے، لیکن جب غریب اونچی ذاتوں کو دس فیصد ریزرویشن دیا جائے گا تو ریزرویشن کی حد ساٹھ فیصد تک پہنچ جائے گی۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ریزرویشن کی پچاس فیصد کی حد کا اب کوئی عملی معنی نہیں ہے۔ ایسے میں آبادی کے تناسب سے دیگر پسماندہ ذاتوں یا او بی سی کو زیادہ ریزرویشن دینے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ یہ پیغام کسی پسماندہ ذات یا سماج تک نہ جائے کہ غریب اونچی ذات کو ریزرویشن ملنا شروع ہوا لیکن ہمیں نہیں ملا‘‘
جن ستا نے عدالتی فیصلہ پر لکھا کہ ’’سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو خوش آئند سمجھا جانا چاہیے، کیونکہ آئینی بنچ نے اس مسئلے کی بنیادی روح کو مرکز میں رکھتے ہوئے اسے ترجیح دی اور اقتصادی طور پر کمزور طبقے کو عام زمرے میں لانے اور اس سمت میں حکومت کی کوششوں سے اتفاق کیا۔ تاہم، ریزرویشن ہمیشہ سے ایک حساس مسئلہ رہا ہے اور اس سے تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں۔ ایسے میں اس پر اتفاق یا اختلاف ہونا بھی فطری امر ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سال 2019 میں مرکزی حکومت نے 103ویں آئینی ترمیم کو لاگو کر کے معاشی طور پر کمزور طبقات کے لیے ریزرویشن نافذ کیا تھا، لیکن اس آئینی ترمیم کو آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اس کے جواز کی خلاف ورزی کے طور پر چیلنج کیا گیا ہے‘‘
٭٭٭
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022