ای وی ا یم کا تنازعہ۔بےضابطگیوں کے واضح اشارے

متعدد مقامات پر پولنگ شدہ ووٹوں اور نتائج میں فرق سے الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

سول سوسائٹیوں اور دیگر افراد کی جانب سے شفاف انتخابات کی جدوجہد میں تعاون ضروری
لوک سبھا انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں اور حکومت سازی کا کام بھی مکمل ہوچکا ہے، مودی نےتیسری بار وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھالیا ہے، ان کے ساتھ جملہ بہتّر وزراء نے بھی حلف اٹھالیا ہے، لیکن انتخابی عمل سے متعلق تنازعات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ای وی ایم کے ذریعے پول ہونے والے ووٹوں اور ای وی ایم مشینوں میں گنے گئے ووٹوں کی تعداد کے درمیان تضاد پایا گیا تھا یعنی جتنے ووٹ ڈالے گیے تھے مشینوں میں ان سے زیادہ ووٹ پائے گئے۔ اس معاملے پر ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم نے 2019 میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، اس معاملے پر 2024 سے سماعت جاری ہے۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے وقت الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دوران متعدد پارلیمانی حلقوں میں پائے جانے والے ان تضادات کے تمام دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار اور میڈیا نے الیکشن کمیشن کی ایپ پر شائع ہونے والے ووٹوں کی تخمینی تعداد کا حساب لگایا ہے اسی وجہ سے ان کا ڈیٹا گننے والے ووٹوں کی اصل تعداد سے میل نہیں کھاتا ہے۔ 2019 کی طرح اس بار کے لوک سبھا انتخابات میں تقریباً تمام ہی پارلیمانی حلقوں کے اعداد و شمار میں تضادات پائے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن 543 حلقوں کا جو ڈیٹا پیش کیا ہے اس پر بغور نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ کیرالا کے اٹنگل، دمن اور دیو اور لکشدیپ جیسے چند حلقوں کو چھوڑ کر سارے حلقوں میں ای وی ایم میں ڈالے گئے ووٹ جب گنے گئے تو ان کی تعداد مختلف تھی۔ 140 سے زیادہ حلقوں میں ای وی ایم میں جتنے ووٹ ڈالے گئے تھے، گنتی کے وقت ان کی تعداد اسی ای وی ایم میں زیادہ بتائی گئی۔ کسی جگہ یہ فرق دو ووٹوں کا تھا تو کسی جگہ چار ہزار ووٹوں کا فرق پایا گیا۔
یہ بھی ایک عجیب کیس ہے، جس وقت پولنگ ہوئی اس وقت ووٹوں کی جو تعداد تھی بعد میں جب ووٹ گنے گئے تو ووٹوں کی تعداد کم ہوگئی، جب دباؤ ڈالا گیا اور دوبارہ ووٹ گنے گئے تو ووٹ برابر ہوگئے۔ ایسے حلقے جہاں گنتی کے وقت ای وی ایم میں پول ہونے والے ووٹوں کی تعداد پہلے سے کم تھی، انہیں دوبارہ گنا گیا، اور جب فرق دیکھا گیا تو کسی حلقے میں یہ فرق سترہ ہزار ووٹوں کا بھی پایا گیا۔ آپ اندازہ لگائیے کہ انصاف کے ساتھ الیکشن کرانے والا ادارہ ہی بے ایمانی کرے تو کس سے توقع کی جا سکتی ہے؟ تین ایسے حلقوں کا یہاں تذکرہ پیش ہے جہاں پولنگ سے زیادہ ووٹ گنے گئے۔
کریم گنج: پولنگ شدہ ووٹنگ 11 لاکھ 36 ہزار 5 سو38 تھے مگر جو ووٹ گنے گئے ان کی تعداد 11 لاکھ 40 ہزار 3 سو 49 تھی یعنی 3 ہزار 8 سو 11 ووٹ زیادہ پائے گئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جتنے ووٹ ڈالے گئے اس سے زیادہ گنے جائیں؟ شاید الیکشن کمیشن بھی مودی کے اے پلس بی اسکوائر کے ایکسٹرا بریکٹ والے فارمولے پر عمل کر رہا ہوگا۔ دوسری مثال انگول آندھراپردیش: یہاں پر بھی پولنگ شدہ ووٹوں کی تعداد 13 لاکھ 99 ہزار 7 سو 7 تھی اور جب گنتی ہوئی تو 14 لاکھ 1 ہزار 1 سو 74 ووٹ نکلے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈالے گئے ووٹوں سے چودہ، پندرہ سو ووٹ زیادہ نکل جائیں؟ تیسری مثال مانڈیا مدھیہ پردیش: یہاں بھی 15 لاکھ 30 ہزار 8 سو 61 ووٹ پول ہوئے تھے اور جب گنتی ہوئی تو 15 لاکھ 31 ہزار 9 سو 50 ووٹ پائے گئے، یعنی تقریباً ایک ہزار ووٹ زیادہ۔ جب کہ کئی حلقے ایسے ہیں جہاں جیت اور ہار کے فیصلے فقط سو دو سو ووٹ سے ہوئے ہیں۔
کوئی کہ سکتا ہے کہ شاید یہ پوسٹل بیلٹ ہوں گے؟ نہیں جناب! الیکشن کمیشن پوسٹل بیلٹ کو الگ سے درج کرتا ہے، یہاں ہم صرف ای وی ایم مشین میں پائے جانے والے فرق کو بتا رہے ہیں۔اب چند ایسے حلقوں کا جائزہ لیتے ہیں جہاں پولنگ شدہ ووٹوں سے کم ووٹ گنتی میں شمار کیے گئے۔ یعنی جب ای وی ایم ووٹ پول ہوئے اس وقت تعداد زیادہ تھی اور جب گنتی ہوئی تو ووٹ کم نکلے۔
تریولور، تمل ناڈو: پولنگ شدہ ووٹ 14 لاکھ 30 ہزار 7 سو 38 تھے اور جب گنتی ہوئی تو یہی ووٹ کم ہو کر 14 لاکھ 13 ہزار 9 سو 47 ہوگئے یعنی تقریباً 17 ہزار ووٹوں کا فرق پایا گیا۔ دوسری مثال، کوکراجھار، آسام: 12 لاکھ 40 ہزار 3 سو 6 ووٹ پول ہوئے تھے جو کم ہوکر 12 لاکھ 29 ہزار 5 سو 46 ہوگئے، یعنی تقریباً 11 ہزار ووٹ کم۔ تیسری مثال، دھن کنال، اڑیسہ جہاں 11 لاکھ 93 ہزار 4 سو 60 ووٹ پول ہوئے اور جب گنے گئے تو 11 لاکھ 84 ہزار 33 ووٹ ہوگئے، یعنی تقریباً 10 ہزار ووٹوں کی کمی واقع ہو گئی۔ یہ سارے ایسے معاملات ہیں جن کے متعلق الیکشن کمیشن کی جوابدہی بنتی ہے اور ای وی ایم پر لوگوں کے جو شکوک وشبہات ہیں اس طرح کے واقعات سے مزید بڑھ جاتے ہیں۔
ایک بات یہاں غور کرنے کی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے پہلے پانچ مرحلوں کا صرف ووٹنگ فیصد جاری کیا تھا، جب سیاسی پارٹیوں (این ڈی اے کو چھوڑ کر) اور سیول سوسائٹی کے اراکین کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تب جا کر ووٹوں کی قطعی تعداد جاری کی گئی ورنہ الیکشن کمیشن تو صرف ووٹوں کے فیصد ہی میں اپنا کام ختم کرنے والا تھا۔ پانچ مرحلوں تک الیکشن کمیشن یہی کہتا رہا کہ ’پولنگ شدہ ووٹوں کی تعداد میں کوئی ردوبدل ممکن ہی نہیں ہے۔‘ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں ان کے کھیل سمجھ میں آ رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے پریس نوٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ ڈیٹا میں پوسٹل بیلٹس کی تعداد شامل نہیں کی جاتی ہے، یعنی ای وی ایم میں جتنے ووٹ ریکارڈ کیے جاتے ہیں بس وہی ووٹ گنے جاتے ہیں، پوسٹل بیلٹ کو علیحدہ گنا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے اتر پردیش کے چیف الیکٹورل آفیسر نے ٹویٹر پر کہا کہ’’ کمیشن کے اعداد و شمار میں کمی ہوسکتی ہے، کیونکہ کچھ معاملات میں ووٹوں کی گنتی بعض پولنگ اسٹیشنوں پر کمیشن کے جاری کردہ پروٹوکول کے تحت اور مختلف ضابطوں کی وجہ سے شمار نہیں کی جاتی ہے۔‘ اور انہوں نے اس کی دو وجوہات بتائیں:
پہلی وجہ، جہاں پریسائیڈنگ آفیسر اصلی پولنگ شروع کرنے سے پہلے جو موج پولنگ کی جاتی ہے اس کا ڈیٹا کنٹرول یونٹ سے صاف نہیں کرتا ہے وہاں وی وی پیاٹ سے ووٹ میچ نہیں کرتے ہیں۔دوسری وجہ، ای وی ایم کنٹرول یونٹ میں پول ہونے والے کّل ووٹ اور پریسائیڈنگ آفیسر کی جانب سے تیار کردہ فارم 17-C میں جو ووٹ درج کیے جاتے ہیں ان کا ریکارڈ الگ سے ہوسکتا ہے۔ یہ دو طرح کی کیٹیگریز ہوتی ہیں۔
ووٹوں کی گنتی کے اختتام پر صرف یہ دونوں ووٹوں کا اس صورت میں شمار کیا جاتا ہے جب ایسے تمام پولنگ اسٹیشنوں میں پول ہوچکے ووٹوں کی جملہ تعداد پہلے اور دوسرے امیدوار کے درمیان مارجن کے برابر یا اس سے زیادہ ہو۔ اگر یہ مارجن سے کم ہے تو ووٹوں کو بالکل بھی شمار نہیں کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے ای وی ایم کے ذریعہ پول ہوئے کّل ووٹ اور گنے گئے ووٹوں میں فرق پیدا ہوتا ہے۔
لیکن الیکشن کمیشن نے اس بارے میں کوئی وضاحت جاری نہیں کی ہے کہ 150 سے زائد حلقوں میں پولنگ والے دن جتنے ووٹ ڈالے گئے تھے، گنتی کے وقت ای وی ایم مشینوں میں زیادہ ووٹ کیوں نکلے یا پھر جتنے ووٹ پول ہوئے تھے، گنتے وقت ای وی ایم مشینوں میں کیوں ان کی تعداد کم ہوئی؟ پولنگ ختم ہونے کے بعد جادوئی طریقے سے ای وی ایم مشینوں میں زیادہ ووٹ کیسے آ گئے؟ اس بارے میں الیکشن کمیشن کم مارجن ہونے کی بات کر رہا ہے، اس کی وضاحت تسلی بخش نہیں ہے، اس غیر مطمئن جواب سے ذہنوں میں اور الجھنیں پیدا ہوئی ہیں۔ اب ان چار حلقوں پر غور کریں جہاں جیتنے کا مارجن بہت کم تھا۔
سب سے پہلے ممبئی کے شمال مغربی مہاراشٹر کے حلقے کو دیکھتے ہیں، یہاں جملہ 9 لاکھ 51 ہزار 5 سو 80 ووٹ پول ہوئے، لیکن جب ای وی ایم سے ووٹ گنے گیے تو 9 لاکھ 51 ہزار 5 سو 82 ووٹ نکلے اور دو ووٹ بڑھ گئے۔ یہاں پر شیوسینا کے رویندر دتارام وائیکر نے محض اڑتالیس ووٹوں کے قلیل فرق سے شیو سینا (یو بی ٹی) کے امیدوار امول گجانن کو شکست دے دی۔
دوسرا، راجستھان کے جے پور رورل میں، جملہ 12 لاکھ 38 ہزار 8 سو 18 ووٹ پول ہوئے لیکن گنتی کے وقت ای وی ایم میں 12 لاکھ 37 ہزار 9 سو 66 ووٹ نکلے، یعنی 8 سو 52 ووٹ کم گنے گئے۔ یہاں پر بی جے پی کے راؤ راجندر سنگھ 1 ہزار 6 سو 15 ووٹوں کے قلیل فرق سے سیٹ جیت گئے۔
تیسرا، چھتیس گڑھ کے کانکیر کا معاملہ دیکھیے، یہاں پر 12 لاکھ 61 ہزار 1 سو 3 ووٹ پول ہوئے، لیکن ای وی ایم میں 12 لاکھ 60 ہزار 1 سو 53 ووٹوں کی گنتی ہوئی، یعنی 950 ووٹوں کی گنتی نہیں کی گئی۔ یہاں بھی بی جے پی کے بھروراج ناگ نے 1 ہزار 8 سو 84 ووٹوں کے فرق سے جیت حاصل کی۔
چوتھا، اتر پردیش کے فرخ آباد میں، 10 لاکھ 32 ہزار 2 سو 44 ووٹ پول ہوئے، لیکن ای وی ایم میں 10 لاکھ 31 ہزار 7 سو 84 ووٹ نکلے، یعنی 4 سو 60 ووٹوں کی گنتی ہی نہیں ہوئی۔ یہاں بھی بی جے پی کے مکیش راجپوت نے محض 2 ہزار 6 سو 78 ووٹوں کے فرق سے جیت گئے۔
اوپر والے کیسوں میں جیت کا مارجن، جو ووٹ کم گنے گئے اس سے زیادہ ہے۔ لہٰذا کچھ کا خیال ہو سکتا ہے کہ دوبارہ گنتی کرواکر کیا فائدہ کیوں کہ جیت کا مارجن زیادہ ہے اور ویسے بھی یوپی کے سی ای او نے کہا ہے کہ جب جیت کا مارجن کم گنے گئے ووٹوں سے کم ہوگا تو ہی آپ دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اوپر والی تین صورتیں کافی اہم ہیں، اہم اس لیے ہیں کیونکہ یہ پورے عمل کی شفافیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ ان نشستوں اور دیگر نشستوں سے بھی جو امیدوار ہارے ہیں ان کو سو فیصد ووٹوں کی گنتی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اگر ای وی ایم میں خرابی ہے یا پریسائیڈنگ آفیسر کے ذریعہ کوئی غلطی ہوئی ہے تو وی وی پیٹ سلپس کے ذریعے واضح ہو جائے گا۔
ایسے معاملات میں الیکشن کمیشن کو صاف اور واضح موقف اپنانا چاہیے اور شکوک وشبہات کو ختم کرنا چاہیے، کیونکہ اس وقت کئی سنگین سوالات ہیں جن کے الیکشن کمیشن کو جوابات دینے ہوں گے جو یہ ہیں:
پہلا سوال یہ ہے کہ پول ہوچکے ووٹوں اور ای وی ایم میں کیوں فرق ہے؟
دوسرا: الیکشن کمیشن عمومی بیان دینے کے بجائے ای وی ایم میں ووٹوں کی تعداد زیادہ یا کم ہونے پر ہر پارلیمانی حلقہ کی واضح رپورٹ دے، وہ کیوں نہیں دے رہا ہے؟
تیسرا: الیکشن کمیشن اس نتیجے پر کیسے پہنچا کہ پولنگ اور گنتی کے ووٹوں میں فرق فرضی پولنگ یعنی موج پولنگ کے ڈیٹا کو حذف نہ کرنے کی وجہ سے ہے؟
چوتھا: کیا الیکشن کمیشن اس بات کو قبول کر رہا ہے کہ کچھ حلقوں میں کنٹرول یونٹس میں ریکارڈ ہوچکے ووٹوں کی تعداد اور پولنگ شدہ ووٹوں کی تعداد میں تضادات ہیں جیسا کہ فارم 17 سی میں دیا گیا ہے۔
پانچواں: اوسطاً ایک ای وی ایم مشین میں سات سے آٹھ سو ووٹ ریکارڈ ہوتے ہیں۔ پھر کچھ حلقوں میں ووٹوں کی تعداد بیس تا تیس تک کیوں کم ہے؟
چھٹا: الیکشن کمیشن ای وی ایم میں ڈالے گئے تمام ووٹوں کی گنتی کیوں نہیں کیا اور ایسے حلقوں میں جہاں جیت کا مارجن کم تھا ان مقامات پر وی وی پیٹ کو کیوں نہیں گنا گیا؟
ساتواں: کیا الیکشن کمیشن عوام کو یہ بتائے گا کہ کتنی ای وی ایم مشینوں کو ایک طرف رکھ دیا گیا اور کیوں رکھا گیا؟
یہ چند ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات الیکشن کمیشن کو ضرور دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے غیر جانبدار ہونے کا ثبوت پیش کرسکے، ورنہ اگر صورت حال یہی رہی تو اس کا وقار مٹی مل جائے گا، ویسے بھی حالیہ لوک سبھا انتخابات میں اس کا وقار اپنی تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ کیوں اس نے پہلے راؤنڈ کے انتخابات میں پولنگ شدہ ووٹوں کی قطعی تعداد کو بتانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور دس گیارہ دن کے بعد اس نے صرف فیصد ہی بتایا اور وہ بھی چھ فیصد بڑھا کر اعداد و شمار پیش کیے۔ ہم تمام کو اس بارے میں الیکشن کمیشن کو باضابطہ طور پر سوال کرنا چاہیے، اگر جواب اطمینان بخش نہیں آتا ہے تو پھر ایک طویل احتجاج کے لیے ہمیں تیار ہونا چاہیے، اور جو سیول سوسائٹیاں اس بارے میں کام کر رہی ہیں انہیں اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو بھی ان کا ساتھ دینا چاہیے۔
***

 

***

 وہ سوالات جن کے جواب نہیںمل سکے
ڈالے گئے ووٹوں اور ای وی ایم سے برآمد ووٹوں میں کیوں فرق ہے؟
الیکشن کمیشن عمومی بیان دینے کے بجائے ای وی ایم میں ووٹوں کی تعداد زیادہ یا کم ہونے پر ہر پارلیمانی حلقہ کی واضح رپورٹ دے، وہ کیوں نہیں دے رہا ہے؟
الیکشن کمیشن اس نتیجے پر کیسے پہنچا کہ پولنگ اور گنتی کے ووٹوں میں فرق فرضی پولنگ یعنی موج پولنگ کے ڈیٹا کو حذف نہ کرنے کی وجہ سے ہے؟
کیا الیکشن کمیشن اس بات کو قبول کر رہا ہے کہ کچھ حلقوں میں کنٹرول یونٹس میں ریکارڈ ہوچکے ووٹوں کی تعداد اور پولنگ شدہ ووٹوں کی تعداد میں تضادات ہیں جیسا کہ فارم 17 سی میں دیا گیا ہے۔
اوسطاً ایک ای وی ایم مشین میں سات سے آٹھ سو ووٹ ریکارڈ ہوتے ہیں۔ پھر کچھ حلقوں میں ووٹوں کی تعداد بیس تا تیس تک کیوں کم ہے؟
الیکشن کمیشن نے ای وی ایم میں ڈالے گئے تمام ووٹوں کی گنتی کیوں نہیں کی اور ایسے حلقوں میں جہاں جیت کا مارجن کم تھا ان مقامات پر وی وی پیٹ کو کیوں نہیں گنا گیا؟
کیا الیکشن کمیشن عوام کو یہ بتائے گا کہ کتنی ای وی ایم مشینوں کو ایک طرف رکھ دیا گیا اور کیوں رکھا گیا؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024