عریانیت کو تجارت بنانے سے خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ
شراب نوشی ’ام الخبائث ‘۔ جرائم کی اصل جڑ ۔ حکومتی سطح پر سختی سے ممانعت لازمی
ڈاکٹر جاوید جمیل
عصمت ریزی اور خطرناک جرائم پرقابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اور سخت سزاؤں کا نفاذضروری
ہمارے وطن بھارت میں، خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات میں آج کل خوفناک اضافہ دکھائی دے رہا ہےجس کے لیے انتظامیہ، قانون اور سماج میں پیدا کردہ اشتعال انگیز ماحول بھی ذمہ دار ہیں۔
خواتین کے خلاف وقوع پذیر ہونے والے عصمت ریزی کے گھناؤنے جرم کے مرتکب مجرمین کے لیے اللہ کا ڈر اور قانون کا خوف کوئی معنی نہیں رکھتا کیوں کہ آج آزادانہ جنسی تجارت نے اس جرم کے گھناؤنے پن کو بے معنی کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں شہر کولکاتا کے ایک ہسپتال میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ عصمت ریزی اور پھر اس کے بے دردانہ قتل کے واقعے نے ملک کے ہر باشعور شہری کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس جرم کی ہولناکی کا اثر اس وجہ سے تیزی سے پھیلا کیوں کہ یہ حادثہ ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ پیش آیاجودواخانے میں مسلسل اپنی ڈیوٹی انجام دے رہی تھی۔ اس حادثے کے خلاف ڈاکٹرس ملک کے کونے کونے میں احتجاجی مظاہرے منظم کررہے ہیں جو آج بھی جاری ہیں۔ ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ ملک میں ہر روزکسی نہ کسی جگہ عصمت ریزی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اخباروں سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کے جرائم ہمارے سماج میں روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ چنانچہ جس ریاست میں یہ واقعات پیش آتے ہیں اس ریاست کی حکومت اور انتظامیہ کو ٹی وی چینلوں کے ذریعے مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔ چند دنوں تک اس واقعے کے خلاف عوامی احتجاج کے بعد تحقیقات کا اعلان ہوتا ہے۔ بعد میں تحقیقات کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ طویل تفتیش کے بعد عدالتوں میں مقدمات بھی درج کیے جاتے ہیں، جو اگلے کئی برس تک چلتے رہتے ہیں۔ ان مقدمات کے دوران ایک طویل عرصے تک متاثرین کے رشتہ داروں اور فریقین کو سوائے تاریخوں کے بعد نئی تاریخوں کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دانشوران‘ سیاسی قائدین اور صحافی اپنی اپنی دانست میں ایسے گھناؤنے جرائم پر قابو پانے میں بری طرح ناکام‘ غیر مؤثرقوانین کو مؤثر بنانے کی وکالت کرتے ہیں۔ مختلف ذرائع سے شائع ہونے والی عام رپورٹوں اور خود بھارت کی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NRCB) کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 2022میں خواتین کی عصمت ریزی کے روزانہ اوسطاً 90 واقعات وقوع پذیر ہوئے، حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ اس جرم کے حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں کیوں کہ اس جرم سے متاثرہ خاندانوں کو پولیس میں رپورٹ درج کروانے پر انتقامی کارروائیوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ایسے کئی متاثرہ خاندان، پولیس میں رپورٹ درج نہیں کرواتے اور کچھ خاندان سماج میں اپنی بدنامی کے خوف کے علاوہ پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کی وجہ سے بھی رپورٹ درج نہیں کرواتےہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر سال تقریباً 32 ہزارعصمت ریزی کے واقعات کی شکایات پولیس میں درج نہیں کروائی گئیں۔ ساری دنیا میں ہر سال تقریباً چار لاکھ پچاس ہزار خواتین کی عصمت ریزی ہوتی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اقوام متحدہ یا دیگر کسی عالمی ادارے میں اس جرم پر قابو پانے کی تدابیر کے لیے آج تک کوئی بات چیت یا مباحثہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اور دیگر بااثر عالمی قوتیں نہیں چاہتیں کہ وہ ان موضوعات پر بحث کرکے اپنا وقت اور جنسیات سے منسلک اپنا کاروبار تباہ کریں جو عموماً جنسی جرائم کے نتیجے میں پھلتا پھولتا ہے۔
میں گزشتہ 25 برس سے زیادہ عرصے سے، شراب‘ ڈرگس، نشہ، جوا اور تجارتی سطح پر بہت بڑے پیمانے پر منظم شدہ جنسی تعلقات کے خلاف بولتا رہا ہوں اور لکھتابھی رہا ہوں اور مجھے اکثر مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جب مذہبی امور کے ماہرین اور مذہبی شعور رکھنے والے دانشور حضرات بھی اس جرم پر قابو پانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے حالانکہ زوجین کے علاوہ، اجنبی عورتوں اور مردوں کے درمیان ناجائز جنسی تعلقات کسی بھی مذہب میں ناجائز ہی کہلاتے ہیں، کسی نے بھی انہیں جائز نہیں کہا۔ افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب باشعور سیاسی و مذہبی قائدین اور حساس دانشوران اس جرم پر قابو پانے کے لیے منصوبہ بندی کے کسی مباحثے میں حصہ نہیں لیتے۔افسوس اس وقت بھی ہوتا ہے جب عصمت ریزی کے گھناؤنے جرم کو محض ایک جرم سمجھا جاتا ہے اورسب اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ اس جرم کے ساتھ ساتھ ملک سے دیگر جرائم کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔
میں یہاں تین اہم عوامل کا ذکر کروں گا جودانستہ یا نادانستہ اس جرم کی سنگینی کو جرم نہیں سمجھتے:
1) جرائم پر قابو پانے میں بین الاقوامی سطح پر قائم عدالتی نظام کی مسلسل ناکامی
2) زنا کاری کے سماج پر تباہ کن اثرات ظاہر ہونے کے باوجود زناکاری کو بڑے پیمانے پر تجارت کا درجہ دیا جانا
3)شراب نوشی اور منشیات کے بآسانی حصول نے خواتین کی عصمت ریزی کو بڑھاوا دیا ہے
آج ہم اس دنیا میں جی رہے ہیں جہاں کسی ملک کا عدالتی نظام جتنا زیادہ جدید، ماڈرن اور وسیع مانا جاتا ہے، اس ملک میں جرائم کے اعداد وشمار اتنے ہی خوفناک ہوتے ہیں۔یہ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور دیگر تمام ترقی یافتہ ممالک کا کڑوا سچ ہے۔ ان ممالک میں اللہ کا خوف اور قانون کا خوف اس قدر کمزور ہوچکا ہے کہ جرائم کی تیزرفتاری پر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ نام نہاد جدید عالمی شخصی آزادی کا تصور ہر قدم پر نظر آتا ہے۔ جدید نام نہاد ترقی کی بنیاد پر آزادی کے اصول و ضوابط، غیر سنجیدہ قوتوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ گئے ہیں، جنہیں انسانیت کی بہبود سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہ صرف عالمی طاقتوں کی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں جو ایک بہت بڑے عالمی مالیاتی ادارے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہ وہ طاقتیں ہیں جن کی تشکیل کا مقصد دراصل انسانیت کی فلاح و بہبود اور امن کا قیام ہے لیکن بجائے اپنے اہداف کے حصول کے وہ دولت سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی فاش غلطیوں اور عبرت ناک ناکامیوں کے باوجود ان کے ارد گرد ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ان کے گھٹیا منصوبوں پر بھروسا کرتے ہوئے ان کی تائید کرتے ہیں۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ آج عالمی سطح پر بشمول امریکہ، یورپ، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا میں خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات میں حیرت انگیز اضافہ ہو رہا ہے۔ خواتین کی عصمت ریزی جیسے جرم میں ملوث ممالک کی فہرست میں مغربی ممالک سرفہرست ہیں جہاں ہر ایک منٹ میں ایک سے زیادہ مرتبہ‘ ایک گھنٹے میں 78 مرتبہ‘ دن میں 1871 مرتبہ، لڑکیوں اور خواتین کے علاوہ کمسن نابالغ بچوں کے ساتھ یہ جرم کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں ہر سال 90 ہزار سے زیادہ عصمت ریزی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب زدہ آزاد، لاپروا، قانونی عدالتی نظام سے آج خود بھارت کا عدالتی اور قانونی نظام بھی متاثر ہوچکا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں بھی جنسیت‘ ایک محور بن چکی ہے جس کی بنیاد پر ہماری معیشت کا پہیہ گھوم رہا ہے۔تاجر طبقہ چاہتا ہے کہ ہر جگہ مرد اور خواتین‘ اپنی عصمت، عزت و آبرو کی حفاظت کی پرواہ کیے بغیر، اسی محور کو گھماتے رہیں۔ تاجروں کا یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ جسم فروشی، فحاشی اور عصمت ریزی کو ایک روزمرہ کی ضرورت ثابت کرتے رہیں گویا جسم فروشی‘ فحاشی اور عصمت ریزی، سرے سے کوئی جرم یا گناہ نہیں ہے بلکہ آج تمام انسانوں کی ضرورت ہے۔آج کے انسانی معاشرے میں جنسی تشدد کی سطح، کئی عوامل پر منحصر ہے جن میں تین عوامل نہایت اہم ہیں:
(1) خدا کا خوف (2) قانون کا خوف (3) معاشرے کا خوف
آج کے جنس زدہ سماج کے افراد کی اکثریت ان تینوں عوامل سے عاری ہے، جس کی وجہ سے سماج میں جنسی تشدد بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ آج ان تینوں وجوہات میں سے قانون کا خوف سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خدا کا خوف ہی افراد کو جرائم سے دور رکھ سکتا ہے کیوں کہ تمام مذاہب میں عصمت ریزی کے لیے سخت سزائیں مقرر ہیں۔ قانونی عدالتی سزائیں بھی اتنی ہی سخت ہونی چاہئیں جتنی کہ مذہبی اصول مرتب کرتے ہیں۔ دوسری طرف مذہبی سزائیں، دنیوی قانونی سزاؤں کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ جدید مغربی نظام حکومت نے خدا کے خوف کو یکسر ختم کر دیا ہے جس سے قانون کے احترام میں بہت بڑے پیمانے پر روک لگا دی گئی ہے۔ مزید افسوس کا مقام یہ ہے کہ بعض گھناؤنے جرائم کو بھی معاشرے میں قابل قبول اور ناقابل سزا قرار دیا گیا ہے جس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ دولت کے انبار اور مضبوط دنیوی‘ قانونی انتظامات کے باوجود، مغربی عدالتی نظام کا موجودہ ماڈل جس کی ہمارے ملک بھارت میں پیروی اور وکالت کی جاتی ہے، اس قسم کے جرائم کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا ہے۔
آئیے! اب ہم خواتین پر ہونے والے جنسی تشدد کے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ مسئلہ خاص طور پر بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ نام نہاد جدید مغربی نظریات‘ معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو بلند ترین مقام تک پہنچانے کا دعویٰ اور فخر کرتے ہیں۔ جنسیت کو تجارتی منافع خوری سے جوڑنے کے بعد پیدا ہونے والے سماجی و معاشرتی طرز زندگی کے پیچیدہ مسائل، ان نام نہاد جدید ترقی یافتہ سماج کے افراد نے سماجی ڈھانچے کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس سے عالمی سطح پر ہر قسم کے جرم اور تشدد میں اضافہ ہی ہوا ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ خواتین کی عصمت ریزی کے بعد ان کا قتل، اپنے ہی افراد خاندان کے ساتھ گھریلو تشدد، بدسلوکی، مارپیٹ اور گالی گلوچ اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ جہاں کوئی اپنے آپ کو مہذب کہلانے کے لائق نہیں سمجھ سکتا۔ وہ حالات، قوانین یا ہدایات، جو ایک نام نہاد مہذب مغربی معاشرہ لاگو کرتا ہے، اس میں خواتین کی عصمت ریزی نہ صرف یہ کہ کوئی بداخلاقی نہیں ہے بلکہ قانوناًبھی جرم نہیں۔
خواتین کو کسی جسمانی اور اخلاقی تحفظ کے بغیر بااختیار بنانے کی وجہ سے وہ اب جنسی مجرموں کا آسانی سے شکار ہونے لگی ہیں۔ اپنے آپ کو گھر کے علاوہ کسی بھی جگہ کو محفوظ نہیں سمجھتیں، چنانچہ وہ کسی کام کے لیے یا ملازمت کے لیے گھروں سے دن کے اول اوقات میں گھر سے باہر نکلتی ہیں، واپسی پر اندھیرا چھا جانے کے بعد تو وہ اپنے آپ کو بالکل محفوظ نہیں سمجھتیں۔ ان اوقات میں ان کے ساتھ ان کا نہ کوئی رشتہ دار ہوتا ہے نہ کوئی محافظ۔ ایسی تنہا عورت کے لیے حالات مزید سنگین ہوجاتے ہیں جب انہیں دور دراز کے مقامات تک جانا پڑے۔عموماً سنسان راستوں سے پیدل گزرناہی پڑتا ہے یا سواری کے انتظار میں سنسان سڑکوں پر کھڑا ہونابھی ضروری ہوتا ہے جہاں بعض اوقات دور دور تک انسان نظر نہیں آتے۔ کسی ناگہانی صورت حال کے پیش نظر، کسی کو مدد کے لیے پکارنے، چیخنے چلانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیوں کہ کوسوں دور تک کوئی سننے والا نہیں ہوتا، یعنی ایسی تنہا خواتین کا ان حالات میں کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوتا۔
جہا ں تک عصمت ریزی کے واقعات میں مسلسل اضافے کا سوال ہے اس کے دو بنیادی عوامل ہیں: پہلا، غیر موثر طریقے سے نافذ کردہ قوانین اور دوسرا میڈیا ہے جو انٹرنیٹ پر مختلف ذرائع سے جنسی اشتعال انگیز تصاویر‘ فلمیں، ویڈیو اور عریاں تحریریں عوام تک پہنچاتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر سماج میں جنسی تشدد بری طرح پھیل رہا ہے۔ بہرحال معاملہ جو بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں ہی عوامل حتمی طور پر جرم کے ذمہ دار ہیں۔ اس گھناؤنے جرم کے پس پردہ مجرمین کے پیش نظر، انہیں کسی خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا نہیں ہوتا بلکہ کسی تنہا خاتون کو زیر کرنے کی خواہش ہی عصمت ریزی کا محرک بنتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج عصمت ریزی کے مرتکب مجرمین کے خلاف نافذ قوانین برائے نام رہ گئے ہیں جن سے عموماً متاثرہ خاتوں کو انصاف نہیں مل پاتا۔
امریکی محکمہ انصاف کے مطابق، امریکہ میں عصمت ریزی کا شکار ہونے والے دو میں سے ایک کی عمر 18 سال سے کم اورچھ میں سے ایک کی عمر 12 سال سے بھی کم ہوتی ہے۔ جدید ترین قانونی، سماجی اور آزاد خیال نظام حیات بتانے والے بیشتر ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ میڈیا میں اکثر ایسے واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ جہاں عصمت ریزی کا شکار ہونے والے 6 سال سے کم عمر بچے بھی ہوتے ہیں۔آپ خود ہی سوچیے کہ کس طرح عصمت ریزی نے خواتین کی آزادی اور خوداختیاری کے حقوق پر تعمیر ہونے والی عمارت کو منہدم کردیا ہے۔ آپ ہی سوچیے کہ کس طرح دنیا کے مہذب ممالک میں خواتین کی عصمت ریزی کے وقوع پذیر واقعات‘ خواتین کی خود اختیاری اور آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اداروں کے کھوکھلے نعروں کی اصلیت کو ظاہر کرتےہیں۔ اس کا اندازہ ان خوفناک اعداد و شمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں اوسطاً ہر گیارہویں عورت اور جنوبی افریقہ میں ہر چوتھی عورت کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آج بھی امریکہ میں ہر چوتھی عورت کے ساتھ اور جنوبی افریقہ میں ہر دوسری عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ زیادہ تر یوروپی ممالک میں بھی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بہت عام ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام مقدمات میں سے صرف 6 فیصد مجرمین کو ہی عدالت کی طرف سے سزا دی گئی، جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے سرکاری اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کی بڑی تعداد ان کے اپنے رشتہ داروں اور ان کے بوائے فرینڈس کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے عموماً ان جرائم کی پولیس میں رپورٹس درج نہیں کروائی جاتیں۔
گزشتہ اعداد و شمار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 6فیصد سے زیادہ واقعات، بنیادی طورپر کسی سزاکا باعث نہیں بنتے۔ لندن کے ہوم آفس اسٹڈی آف ریپ کی رپورٹ کے مطابق، پولیس کی تفتیش کے دوران دو تہائی سے زیادہ مقدمات کسی نہ کسی شخصی وجہ سے‘ نامکمل چھوڑ دیے جاتے ہیں۔آدھے مقدمات جن پر پولیس نے فرد جرم عائد کرکے تفتیش کا آغاز کیا تھا، ان پر بھی کوئی قانونی کاروائی آگے نہیں بڑھتی۔ اسی رپورٹ کے مطابق 12فیصد مقدمات میں فریقین ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہوتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جن مقدمات کی عدالتی کارروائی آگے بڑھتی ہے ان میں عصمت ریزی کے مرتکب مجرم اور متاثرہ خواتین کے درمیان کوئی خاندانی رشتہ ہوتا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر کوئی مقدمہ فیصلے کے مرحلے تک پہنچ بھی جائے تو مجرم کو کیا سزا ملتی ہے؟ صرف چند سال کی قید۔ آپ خود سوچیے کہ ساری دنیا میں ہر سال لاکھوں خواتین کی عصمت ریزی ہوتی ہے، انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ شاید چند ہزار کو قید کی سزا بھی دی جاتی ہو، ان میں سے چند کو سخت سزا بھی دی جاتی ہو۔ بالفاظ دیگر ایک جنسی مجرم کوجو اپنے شیطانی عمل سے جنسی لذت حاصل کرتا ہے اس کے لیے یہ سزا کچھ بھی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ کوئی نوجوان، جس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی ہو اور اس کی شادی میں تاخیربھی ہورہی ہو، وہ جب نیم عریاں لباس میں ملبوس خواتین کو دیکھتا ہے، نیم عریاں تصویریں، فحش فلمیں اور لٹریچر کا مطالعہ کرتا ہے یا سماج میں ہونے والی غیرمعمولی شان و شوکت والی شادیاں دیکھتا ہے تو اس کے دماغ میں ایسا جرم کرنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے اور موقع ملتے ہی ایسے نوجوان عصمت ریزی جیسا جرم کربیٹھتے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ شراب، منشیات (ڈرگس) کے استعمال سے جنسی جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً عصمت ریزی کے واقعات کا رونما ہوناعام معمولی گناہ سمجھا جانے لگتا ہے۔
اس بات کو بھی بڑی حد تک تسلیم کیا گیا ہے کہ شراب نوشی کی وجہ سے غیر صحت مند جنسی تعلقات کے خطرات کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ دوسرے ممالک میں مثلاً تھائی لینڈ وغیرہ میں، مرض ایڈس کے پھیلنے کی وجوہات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ شراب نوشی سے جنسی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے مردانہ جنسی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ طوائفوں سے مسلسل جنسی تعلقات قائم رکھنے اور کنڈوم کا مستقل استعمال کرنے کی وجہ سے مردانہ جنسی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ شراب خوری اور ایچ آئی وی کے خطروں کے درمیان بہت گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔یہ اسی درجہ کا عمل ہے جیسے پیشہ ور طوائفوں کے پاس جانا یا کسی اجنبی خاتون سے بلا کنڈوم جنسی تعلقات قائم کرنا۔ اسی قسم کے جنسی خطرات میں گنے کے رس سے بنائی جانے والی ایک قسم کی شراب بھی شامل ہے جس میں MESCAL اور SOTOL جیسے زیریلے، نقصان دہ کیمیائی عناصرشامل کئے جاتے ہیں۔
عصمت ریزی اور شراب نوشی کے درمیان تعلق سے رپورٹس کے مطابق چند دلچسپ نتائج، یہ ہیں:
عموماً جان پہچان والے مرد و خواتین کے درمیان عصمت ریزی کے جرائم ہوتے ہیں بعد میں یہی دونوں آپس میں بیٹھ کر شراب نوشی بھی کرتے ہیں۔
مجرم اور متاثرہ خاتون کے درمیان عصمت ریزی کا جرم، شراب نوشی کے بعد ہی کیا جاتا ہے جو عموماً آپس میں جان پہچان والے یا رشتہ دار ہوتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق زیادہ تر مجرمین شراب پینے کے بعد ہی عصمت ریزی کا جرم کرتے ہیں۔
اسی جرم سے متعلق ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ شراب کے اثرات مرد اور خواتین دونوں پر یکساں مرتب ہوتے ہیں۔ شراب پینے کے بعد ایک مرد اپنے آپ کوجنسی طور پر بہت زیادہ طاقتور سمجھنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں مرد، عورت کے زبانی یا اشارے کنایوں میں انکار اور ہچکچاہٹ کو بھی اس بات کا ثبوت سمجھتے ہیں کہ عورت اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، لہٰذا زبردستی جنسی تعلقات استوار کرلیتے ہیں جسے قانون کی زبان میں عصمت ریزی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو ایک قابل سزا جرم ہے۔ عورت کے ساتھ ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ ایک شراب کی عادی عورت، کسی کے بھی جنسی حملے سے اپنے آپ کوآسانی سے بچا نہیں پاتی۔اس نکتے میں بھی کوئی وزن نہیں ہے کہ عصمت ریزی کے مرتکب کسی مجرم کو اس وجہ سے معاف کردیا جائے کہ وہ جرم کرتے وقت حالت نشہ میں تھا۔ ہرگز نہیں۔
البتہ اس موقع پر یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ہمیں شراب نوشی کے خلاف ملک گیر مہم چلانی ہوگی۔ جہاں تک ہمارے ملک بھارت کا تعلق ہے، کسی بھی صورت میں حالت نشہ میں عصمت ریزی کے مرتکب مجرم کو کبھی معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہماری خواتین کی واضح اکثریت شراب نوشی نہیں کرتی۔
آخر میں اہم بات یہ ہے کہ عصمت ریزی کے خلاف کسی بھی مہم میں تین عناصر یا اجزاء کا تسلیم کیا جانا ضروری ہے:
(۱) عصمت ریزی کے مرتکب مجرم کو قتل کے مساوی جرم کی روشنی میں سزا دی جائے کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عصمت ریزی اور قتل، دونوں ہی ایک درجے کے جرم ہیں۔ اگر ہمیں بھارت کے سماجی حالات کو بدلنا ہو تو ہمیں مجرموں کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آنا ہوگا تاکہ انہیں ان کے جرم کی ایسی سزا دی جائے جو دیگر مجرموں کے لیے سبق ہو۔ اتنا یاد رہے کہ سو مجرمو ں کو معاف کیا جاسکتا ہے لیکن ایک بھی بے گناہ کو سزا نہیں ملنی چاہیے ۔
(2) ایک مہذب معاشرے میں جنسیت اور عریانیت کو تجارت کا درجہ دینے کی تمام تر کوششوں پر روک لگائی جانی چاہیے۔ اس کے خلاف ایک باضابطہ مہم کا اہتمام کیا جائے ۔
(3) سماجی یا کسی مسئلے پر اختلاف رائے کی صورت میں عوام کے درمیان اشتعال انگیزی کرنے والے شرپسند عناصر پر کڑی نظر رکھی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ ان تمام عوامل پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو آگے چل کر سماج میں عصمت ریزی جیسے جرائم کا سبب بنتے ہیں۔ معاشرے کے ہر فرد کو اخلاقی طور پر بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔
ترجمہ: سلیم الہندی،حیدرآباد
***
ساری دنیا میں ہر سال تقریباً چار لاکھ پچاس ہزار خواتین کی عصمت ریزی ہوتی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اقوام متحدہ یا دیگر کسی عالمی ادارے میں اس جرم پر قابو پانے کی تدابیر کے لیے آج تک کوئی بات چیت یا مباحثہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اور دیگر بااثر عالمی قوتیں نہیں چاہتیں کہ وہ ان موضوعات پر بحث کرکے اپنا وقت اور جنسیات سے منسلک اپنا کاروبار تباہ کریں جو عموماً جنسی جرائم کے نتیجے میں پھلتا پھولتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024