!عریانیت کے فروغ پر خاموشی اور لباس پر تنازعہ

بے حیا کلچر اور جنسی بے راہ روی سماجی بگاڑ کا اصل سبب

نور اللہ جاوید، کولکاتا

نسلِ نو کے ذہنوں پر منفی اثرات۔ خاندانوں میں انتشار۔ خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں اضافہ
ہندومسلم سیاست کی بدولت اصل مسائل منظر سے غائب۔ مذہبی و سیاسی قائدین اور میڈیا کا حقیقی مسائل کو موضوع بنانے سے گریز
2022 کا اختتام اور نئے سال کا آغاز ملی جلی یادوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ سال رفتہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے جو اس وقت ملک کے سامنے بنیادی سوالات بن کر کھڑے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں ہر ایک سوال کو سیاست سے جوڑ دیا جاتا ہے نتیجتاً بنیادی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ شاہ رخ خان کی آنے والی فلم ’’پٹھان‘‘ کے گانے پر جاری ہنگامہ آرائی ہو یا پھر ٹی وی اداکارہ تنو شرما کی خودکشی اور اس کے بوائے فرینڈ زین خان کی گرفتاری کے بعد جاری بحث، یہ سب اسی کی مثالیں ہیں۔ پٹھان فلم کے ’’بے شرم‘‘ گانے کے مناظر کی عریانیت اور اس کے ذریعہ فروغ دی جانے والی فحاشی پر بات کرنے کے بجائے ہیروئن کے ذریعہ استعمال کیے گئے کپڑے کا رنگ تنازع کا سبب بن گیا۔ ٹی وی چینلز اس بہانے ہندو مسلم کرنے لگے اور مسلمانوں کے خلاف ماحول بناتے ہوئے شاہ رخ خان کو مسلمانوں کا نمائندہ بناکر پیش کیا جانے لگا۔ اداکارہ نتاسنگھ کی خودکشی کو بھی نام نہاد لو جہاد سے جوڑ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے ایجنڈے پر عمل شروع کردیا گیا، جبکہ ضرورت اس بات کی تھی سماجی مصلح، مذہبی رہنما فنون ولطیفہ کی آڑ میں عریانیت کی ترویج پر بات کرتے کہ عریاں مناظر اور اشتہا انگیز الفاظ کس طرح نوجوانوں کے ذہن و دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔اسی طرح نتاسنگھ اور زین خان یا پھر شردھا اور آفتاب کے معاملے میں بھی بنیادی سوال پر غور نہیں کیا گیا کہ شادی سے قبل ’لیوان ریلیشن شپ‘ کے نقصانات کیا ہیں اور بین المذاہب شادی کیا سماج کے لیے مفید ہے؟ اس کے سماج پر منفی اثرات کس طرح مرتب ہوتے ہیں؟ بین المذاہب شادی کی آڑ میں چونکہ مسلمان اور اسلام کو مطعون کیا جاتا ہے اس لیے اس سوال پر بھی غور کیا جانا چاہیے تھا کہ کیا اسلام بین مذاہب شادی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا حوصلہ شکنی؟ یہ سوال دنیا سے اس لیے پوچھنا ضروری ہے کہ جب اسلام ماورائے شادی جنسی تعلقات، میل ملاپ اور اختلاط کی اجازت دیتا ہی نہیں ہے تو ’لیوان ریلیشن شپ‘ اور بین المذاہب شادی کا سوال کہاں سے پیدا ہو گیا؟ فحاشی و بے حیائی سے جہاد جیسے مقدس فریضہ کا تعلق کیسے ہو گیا؟
’’ہفت روزہ دعوت‘‘ کے انہی صفحات میں تین ہفتے قبل ہم نے ’’جنسی بے راہ روی‘‘ کے نتیجے میں معاشرہ کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ پیش کیا تھا۔ آج ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ ملک جنسی بے راہ روی کے دلدل میں کیوں دھنستا جا رہا ہے؟ خاندان انتشار کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟ نئی نسل شادی جیسی ذمہ داریوں سے گریز کرتے ہوئے لیو ان ریلیشن شپ (بغیر شادی کے جسمانی تعلقات) بندش سے آزاد جنسی رشتہ (No Strings attacched) دوستی اور فائدے کا تعلق (Friends with benefit ) ایک رات کی مہمان نوازی (ONs- One Night Stands) اور ہم جنسی جیسی متبادل راہیں کیوں اختیار کر رہے ہیں؟ دراصل شادی کے بغیر ان تمام تعلقات کی جڑ میں صرف ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے ’جنسی ہوس‘ کی تکمیل۔ اس بات پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ مندر اور کلیساوں میں خواتین کے استحصال کے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں اس کے عوامل کیا ہیں؟ عریانیت اور فحاشی کو اگرچہ جدیدیت و ترقی پسندی کا نام دے دیا گیا ہے مگر اس کے سماج و معاشرے پر منفی اثرات کا اعتراف دبے لفظوں میں ہر ایک کرتا ہے مگر کوئی اس پر کھل کر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب انڈین پینل کوڈ کے تحت 292/293/294 اور 505 جیسی دفعات عریانیت و فحاشی کی روک تھام کے لیے شامل کیے گئے ہیں تو اس کے باوجود پورنوگرافی کھلے عام بآسانی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ فحش مواد (پورنو گرافی) دیکھنے والے ممالک میں بھارت تیسری پوزیشن پر ہے۔ او ٹی ٹی کے پلیٹ فارمس سے کس طرح کی فلمیں نشر کی جارہی ہیں؟ حیا باختہ اور اخلاقیات سے عاری مواد کے سماجی و معاشرتی اثرات کیا مرتب ہونے والے ہیں؟ بھارت میں عصمت دری اور خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں تیزی سے اضافے کے اسباب کیا ہے؟ ان مسائل پر سنجیدہ غور وخوض کی ضرورت ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے نام نہاد سماجی مصلحین صرف اپنی پسند کے اور چنندہ ایشوز پر بات کرتے ہیں۔ یہ دوہرا رویہ بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ سے اہم ایشوز تنازعہ کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف رنویر سنگھ کی ایک میگزین کے لیے ننگی تصویر کھچوانے پر ایف آئی آر درج کر دی جاتی ہے تو دوسری طرف مندروں او دیگر عوامی مقامات پر قدیم روایات کے نام پر عریاں مورتی لگائی جاتی ہیں ۔اسی طرح سپریم کورٹ نے بھی عریانیت اور فحاشی کی تشریح دو مختلف مواقع پر الگ الگ کی ہے، ایسے میں کیا یہ عدالت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں مذکورہ قوانین کی جامع تشریح کرے اور اس پر ایماندرانہ عمل آوری کو یقینی بنائے؟
فحاشی اور عریانی بھارت کے آئین کے تناظر میں
اگرچہ بھارت کے آئین میں عریانیت اور فحش کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے مگر آئی پی سی کی دفعہ 292/293 اور 294 کے تحت ایسے مواد کی اشاعت کو قابل جرم قرار دیا گیا ہے کہ جو اخلاقیات سے ماورا ہو اور دوسرے کے جذبات کو مجروح کرنے والے ہوں۔ 294 کے تحت تین ماہ کی سزا کا بھی انتظام ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی فحاشی کی روک تھام کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 67 کے تحت جو کوئی بھی فحش مواد الیکٹرانک شکل میں شائع یا منتقل کرتا ہے اسے سزا دی جا سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ فحش اور عریانیت کی تعریف کیا ہے؟ یہ سوال وکلا کے درمیان ہمیشہ موضوع بحث رہا ہے۔ آکسفورڈ کی ڈکشنری میں فحش کو اخلاقیات اور شائستگی کے معیار سے جوڑ کر دیکھا گیا ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ 294 میں عوامی مقامات پر فحش حرکات یا الفاظ دہرانے پر تین ماہ کی سزا دی جا سکتی ہے۔ 292 کے تحت فحش کتابوں اور ویڈیوز کی اشاعت کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ 1965 میں سپریم کورٹ نے رنجیت ادیشی کیس میں فحاشی کی تعریف کے لیے وکٹورین دور کے ہیکلن ٹیسٹ کو معیار بنایا۔ اس میں فحش کا دائرہ کار کافی وسیع رکھا گیا مگر 2014 میں ٹیلی گراف، اے بی پی گروپ کے اویک سرکار بنام حکومت بنگال کیس میں، سپریم کورٹ نے برطانوی ہیکلن ٹسٹ کے معیار کو ختم کرتے ہوئے امریکی روتھ ٹسٹ کو اختیار کیا گیا۔ اس میں فحاشی کی تعریف کو محدود کر دیا گیا اور اس میں کسی بھی مواد کے فحش ہونے کا طے کرنے سے قبل اس کی اشاعت کے مقاصد اور مصنف یا فلم ساز کی نیت کو بھی دیکھنے کی ہدایت دی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وقت کے ساتھ فحاشی کے معیار بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ چناں چہ 1965 سے فحاشی کے زمرے میں جس چیز کو شمار کیا جاتا تھا آج وہ چیز عام ہو گئی ہے اور اس کو برائی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 19 جو اظہار رائے کی آزادی کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ مگر یہ آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ چند معقول پابندیاں بھی ہیں۔ آزادی اظہار اخلاقیات اور معاصر معاشرتی معیارات کے ساتھ متوازن ہونی چاہیے۔ تاہم بھارتی عدالتوں نے اخلاقیات اور اظہار رائے کی آزادی کے معاملے میں فنکار کی آزادی کو ترجیح دی ہے۔ 2008 کے ایم ایف حسین کیس اور 2016 کے پیرومل مروگن کیس میں سپریم کورٹ نے فرد اور فنکار کی آزادی کو ترجیح دی۔ ’’آرٹ اکثر اشتعال انگیز ہوتا ہے مگر ہر کسی کے لیے نہیں ہوتا‘‘ مواد کو صرف اس لیے فحش نہیں کہا جا سکتا کہ یہ معاشرے کے ایک طبقے کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ پونم پانڈے کی ضمانت کی عرضی پر عدالت نے کہا کہ کوئی چیز کچھ لوگوں کے لیے فحش ہو سکتی ہے مگر دوسروں کے لیے فنکارانہ مواد ہو سکتا ہے اس لیے اس بنیاد پر کسی کو جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔
مذکورہ قانونی تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ فحاشی کے بارے میں عدالتوں کے تبصرے اور رائیں تضادات کا شکار ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی اور اخلاقیات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔یہ صحیح ہے کہ آرٹ اور فنون لطیفہ سماج کی عکاس ہوتی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بیداری عامہ اور لوگوں کے ذہن و دماغ پر اثر مرتب کرنے اور لوگوں کی رائے تبدیل کرنے میں سنیما، ٹی وی اور دیگر فنون لطیفہ اہم کردار کرتے ہیں، لہٰذا کسی بھی آرٹسٹ کے کام کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ وہ آرٹ کے نام پر جو کچھ پیش کر رہا ہے اس سے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
دراصل یہ قانونی بحث اس لیے کی جارہی ہے کہ ملک کی نئی نسل فحش مواد دیکھنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ پورنوگرافی کا کاروبار تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔پورنوگرافی بچوں کے ذہن و دماغ کو کس طر ح متاثر کرتے ہیں اس کے لیے عالمی ادارہ یونیسیف کے ویب سائٹ کا یہ حصہ ضرور پڑھنا چاہیے ’’کم عمری میں فحش مواد کو دیکھنے سے دماغی نشو ونما متاثر ہوتی ہے۔ جنس پرستی، جنسی تشدد اور دیگر منفی نتائج کا باعث بنتی ہے۔ دیگر خطرات کے علاوہ جب بچے فحش نگاری دیکھتے ہیں جس میں جنسی بد سلوکی ہوتی ہے تو وہ اس طرح کے رویے کو عام اور قابل قبول سمجھنے لگتے ہیں اور کبھی خود اسے عملی طور پر بھی انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔فحش نگاری، عریانیت اور شہوت انگیز مناظر کی کثرت نے خواتین کے تقدس اور ان کی سماجی اہمیت کو نظر انداز کر کے صرف سیکس ازم کی علامت بنا دیا ہے۔ بھارتی معاشرے میں خواتین کے استحصال کو نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی یہ رپورٹ ملاحظہ کرلیں۔
’’ملک میں ہر 22 منٹ پر کسی نہ کسی خاتون کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہے اور ہر 72 منٹ میں کسی نہ کسی کمسن دوشیزہ ریپ کا شکار ہوتی ہے۔ ہر 25 منٹ پر چھیڑ خوانی کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ ایک جائزہ کے مطابق 92 فیصد وہ عورتیں جو مختلف حلقوں میں نائٹ شفٹ میں کام کرتی ہیں اپنی ڈیوٹی کے درمیان خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ (گزشتہ اسٹوری میں ہم نے ملٹی نیشنل کمپنیوں میں خواتین کے استحصال پر روشنی ڈالی تھی) ان اعدادو شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ریپ کے واقعات تشویشناک حد تک عام ہو رہےہیں۔
گلوبل میڈیا جرنل نے ہریانہ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے کالجوں میں زیر تعلیم طلبا پر سروے کیا ہے جس میں آن لائن پلیٹ فارم جاری ہونے والے سیریز کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دراصل ویب سیریز او ٹی ٹی پلیٹ فارم ٹیلی ویژن کی جگہ لے رہی ہیں اور ہندوستان میں آن لائن اسٹریمنگ اور ویب سیریز کے مواد کی مقبولیت میں تیزی آئی ہے۔ اس سروے میں واضح کیا گیا ہے کہ اوٹی ٹی پلیٹ فارم پر نشر ہونے والے مواد کے سنسرشپ کا کوئی قانون نہیں ہے اس لیے او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے بے دھڑک گالی گلوج اور فحش گفتگو کو نشر کیا جاتا ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق او ٹی ٹی پلیٹ فارم تک رساسی زیادہ تر اٹھارہ سے تیس برس کے نوجوان کی زیادہ ہے۔
اصل مسئلہ فحاشی ہے یا اداکارہ کا لباس
ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ اصل ایجنڈا کیا ہے؟ فحش ہے یا پھر فحش کے لیے استعمال کیا گیا کپڑے کا رنگ ہے؟ ہندو مذہبی رہنما بھارگپ اچاریہ نے جو کولکاتہ کے ایک مشہور مندر میں پجاری ہیں اور ہندو مذہبی رہنماوں کی ایک تنظیم کے ذمہ دار بھی ہیں ’’ہفت روزہ دعوت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سناتن دھرم میں کسی بھی رنگ کو ہندوؤں کا مذہبی رنگ نہیں قرار دیا گیا ہے نہ ہی کوئی مخصوص لباس ہے۔ لباس صرف ستر ڈھانپنے کے لیے ہوتا ہے۔معاشرہ میں انفرادی شناخت قائم کرنے کے لیے پنڈتوں اور پجاریوں نے بھگوا رنگ کے کپڑے کو اختیار کیا اور پھر دھیرے دھیرے یہ ان کا لباس بن گیا جبکہ یہ لباس ہندو مذہب کی روایات کا حصہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندو مذہب میں بہت سارے رواج، روایات کا حصہ بن گئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت ساری رواج تصوراتی ہیں۔ان میں ایک ’’کرشن بھگوان‘‘ سے متعلق گوپیوں کی کہانی بھی ہے۔ کیا کوئی ’بھگوان‘ اس طرح کرسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر اس کہانی کی جانچ کی جائے تو حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہ ایک بناوٹی اور تصوراتی کہانی ہے جس سے نقصان ہندو مذہب کو ہوا ہے۔ آج بہت سارے آشرم میں خواتین جنسی تشدد اور استحصال کا شکار ہو رہی ہیں۔اس گناہ میں ملوث پجاری خود کو بھگوان کرشن کا روپ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اپنے ارگرد خواتین کو جمع کرتے ہیں اور اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں اس کی وجہ سے تمام پجاری کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اچاریہ کہتے ہیں کہ ہندو مذہب میں بھی مردو خواتین کا اس طرح سے اختلاط کسی بھی وید کا حصہ نہیں رہا ہے مگر اپنی سہولتوں کے اعتبار سے کئی لوگوں نے اس کی شروعات کی جو بعد میں رواج بن گئیں۔ بھارگپ اچاریہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک جو جنسی بے راہ روی پائی جاتی ہے اس میں فلم، ٹی وی سیریز اور دیگر میڈیا پروگراموں کا اہم رول ہے۔ یقینا انہیں اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے، ملک کے تمام باشندوں کو اپنی پسند وناپسند کے کپڑے اور کھانے کے انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے مگر کوئی بھی حق کبھی بھی مطلق نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر لکشمن ریکھا پار کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہیروئن کے کپڑے کو لے کر جو بحثیں چل رہی ہیں وہ سیاسی پولرائزیشن کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ماضی میں کئی اداکاروں نے بھگوا رنگ کے کپڑے پہن کر اداکاری کی ہے مگر اس وقت کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا تھا۔
مردو خواتین کا آزادانہ اختلاط برائی کی اصل جڑ
جنسی درندگی اور جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے کے اسباب میں جہاں فحش اور عریانیت پر مبنی مواد کی تشہیر اور اشتہارات کے ذریعہ شہوت انگیزی کو فروغ دینا شامل ہے وہیں جنسی درندگی میں اضافہ کی دیگر وجوہات میں مرد وزن کا آزادانہ اختلاط اور تعلیم گاہوں اور عوامی مقامات پر لڑکوں اور لڑکیوں کا بے محابا میل جول ہے۔ مخلوط کلچر ہمارے معاشروں کو تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ معاشرے میں جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں غیر معمولی تاخیر ہے۔ بے پردگی اور خواتین کی فیشن زدہ زندگی بھی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کوئی مرد اداکار عریاں تصویر کشی کراتا ہے تو اس پر مرد حضرات چراغ پا ہو جاتے ہیں اور خواتین اداکاروں کی شہوت انگیز اور عریاں تصاویر کو آرٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔ معاشرے کا یہ دہرا رویہ سب سے زیادہ خطرناک ہے اور اسی سوچ نے سب سے زیادہ معاشرتی تباہی مچائی ہے۔ اخلاقی پولسنگ کو جرم بنا دیا گیا ہے۔
یقیناً جو حقوق مردوں کو حاصل ہیں وہی حقوق خواتین کو بھی حاصل ہیں مگر جس طریقے سے اظہار رائے کی آزادی مطلق نہیں ہے اسی طرح سے لباس پہننے کی آزادی بھی مطلق نہیں ہے وہ معاشرے کے اخلاقی معیار سے وابستہ ہے۔
مردو زن کے آزادانہ اختلاط کے فتنے مذہبی مقامات گرجا گھر، مندر اور دیگر مذہبی مقامات بھی محفوظ نہیں ہیں۔مذہبی مقامات پر خواتین کے استحصال سے متعلق کوئی سروے رپورٹ ہمارے سامنے نہیں ہے مگر تسلسل کے ساتھ آنے والی خبریں بتاتی ہیں کہ مذہبی مقامات پر بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔گزشتہ برسوں میں بڑے پیمانے پر مندروں، آشرموں اور اناتھ آشرموں میں خواتین کے استحصال کی خبریں آتی رہی ہیں۔ اس وقت ملک کی جیلوں میں کئی سوامی اور پنڈت، خواتین کے ساتھ جنسی استحصال کے معاملات میں بند ہیں۔ یہی صورت حال چرچوں کی بھی۔دو سال قبل فرانس کے کیتھولک چرچوں میں بڑے پیمانے پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات سامنے آئے تھے۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ منصوبے بند طریقے سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی شکایات چھپائی گئی تھیں اور پادریوں کو الزامات کی زد میں آنے سے بچانے کے لیے چرچ کے ذمہ داروں نے مدد کی۔ جب Baylor University نے 2008 میں ایک مطالعہ کیا تو تین فیصد سے زیادہ خواتین نے کہا کہ وہ اپنی بالغ زندگی میں کسی وقت پادریوں کے جنسی استحصال کا نشانہ بنی ہیں، ان میں سے 92 فیصد پیش رفت خفیہ طور پر کی گئی اور 67 فیصد مجرموں نے کسی اور سے شادی کی۔ آٹھ فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ وہ پادریوں کے جنسی بد سلوکی کے بارے میں جانتے ہیں جس میں وہ شریک ہوئے تھے۔ Baylor’s School of Social Work کی ڈین ڈیانا گارلینڈ کہتی ہیں کہ وہ اس مسئلے کی شدت سے حیران رہ گئی تھیں اور انہوں نے اس کی حد تک کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ تمام فرقوں میں رائج ہے۔ 1,500 کینیڈینوں کے 2017 کے Abacus سروے میں پایا گیا کہ 53 فیصد خواتین ناپسندیدہ جنسی دباؤ محسوس کرتی ہیں۔ تقریباً 12 فیصد نے کہا کہ کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنا بہت عام ہے اور 44 فیصد نے کہا کہ یہ کبھی کبھار ہوتا ہے، لیکن ہوتا ہے۔
مشہور ماہر تعلیم و نفسیات ایس امین الحسن نے ’’دور جدید میں شادی کے متبادلات ایک جائزہ‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے نوجوانوں میں شادی جیسے مقدس رشتے سے بندھنے کے بجائے جنسی تسکین کے لیے دیگر راستے اختیار کرنے کے اسباب پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے لکھا کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان صرف جنسی خواہشات کی تکمیل انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’’انسان اس دنیا میں اکیلا نہیں رہ سکتا کیوں کہ وہ سماجی تعلقات کے بندھن میں بندھا ہوا ہوتا ہے اور ہر تعلق باہمی انحصار پر ہوتا ہے، خواہ وہ ماں باپ اور بچوں کا رشتہ ہو یا شوہر اور بیوی کا۔‌ فکر و خیال اور جذبہ و احساس کے ساتھ مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ کارگاہ حیات میں مشترک مشغلوں میں منہمک ہونا پڑتا ہے، اس لیے ہر رشتے میں ایک کمٹمنٹ کا عنصر ہوتا ہے۔ خوشگوار اور کارآمد زندگی کے لیے رشتوں کے بندھن میں بندھ جانا آفاقی طور پر تسلیم شدہ ایک حقیقت ہے۔ اس میں نفسیاتی معاشی اور حیاتیاتی زاویے شامل ہیں۔ Abraham Maslow ابرہم ماسلو ایک ماہر نفسیات گزرا ہے اس نے بتایا ہے کہ انسان کی بہت سی ضرورتیں ہوتی ہیں ان میں سے ایک ضرورت ایک دوسرے سے وابستگی ہے، جسے need fulfillment کہا جاتا ہے۔ رشتے شادیاں، بچے، سماجی تعلقات سب انسان کی وابستگی کی ضروریات کے تقاضے کے تحت سر انجام پاتے ہیں‘‘۔
امین الحسن نے لکھا ہے کہ شادی اور خانہ آبادی کا یہ تصور انسانی تاریخ کے روز اول سے لے کر یوروپ میں کارخانوں کے انقلاب سے ماقبل تک محفوظ رہا۔ غذا کی پیداوار، زمینوں کا انتظام سماجی زندگی، تعلیم وغیرہ میں خاندان کا اہم رول ہوا کرتا تھا۔ خاندانوں کی بنیاد پر افراد کا سماجی مقام بھی طے ہوتا تھا۔ حکومت کی سہولیات کی عدم دستیابی میں علاج معالجے اور اور بوڑھوں اور بڑوں کے سہارے کا انتظام بھی خاندانوں ہی میں ہوتا تھا‘‘۔ صنعتی انقلاب نے مردو عورت کے رشتے کو تبدیل کر دیا۔خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے لگیں اس طرح خواتین پر دوہرا بوجھ پڑ گیا۔چناں چہ ترقی یافتہ ممالک میں مرد و خواتین دونوں ہی شادی جیسے مقدس بندھن میں بندھنا نہیں چاہتے بلکہ شادی سے بچنے کے لیے لیو ان ریلیشن شپ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ذمہ داریوں سے فرار کے جو نقصانات مرتب ہوتے ہیں اس سے متعلق امین الحسن لکھتے ہیں کہ: ان سب تعلیمات کے شاخسانے ہیں جو آج ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں، ان نظریات نے سماج کو کڑوے کسیلے پھل دیے جس سے خاندانی نظام انتشار کی سرحد پر پہنچ چکا ہے۔ جنسی بے راہ روی اور آزادی کا خمیازہ اب مغرب بھگت رہا ہے۔ وہاں کے باشندے جنسی آزادی و لذت چاہتے ہیں مگر اس سے وابستہ ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے ہاں شادیوں کا رواج کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ بچوں کی پیدائش بھی اس حد تک کم ہو گئی ہے کہ اب بہت سے ممالک میں وہاں کی معیشت کو باقی رکھنے کے لیے باہر سے لوگوں کو درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔ بہت سے ممالک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آئندہ چالیس سال کے بعد وہ اپنے ہی ملک میں اقلیت بن کر رہ جائیں گے اور جو باہر سے آئے ہوئے ہیں اور جو وہاں کے باشندے ہو چکے ہوں گے ان کی غالب اکثریت ہوگی۔ اس دردناک صورت حال کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود لوگ حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کا انکار کرنے پر مصر ہیں۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ جنسی بے راہ روی اور جنسی تشدد سے بچنے کا راستہ کیا ہے؟ خاندان کو بکھراو سے کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ چوں کہ ہم سب کا تعلق اسلام سے ہے اس لیے یہ بات کہی جارہی ہے بلکہ سچائی یہی ہے کہ معاشرتی وخاندانی بکھرا اور جنسی بے راہ روی سے بچانے کے لیے اسلام نے جو ہدایات دی ہیں اس پر چل کر ہی انسانوں کو بے راہ روی سے بچایا جا سکتا ہے اور انسانی معاشرہ جنسی برائیوں سے پاک ہو سکتا ہے، کیوں کہ مذہب اسلام شادی سے ماورا دو اجنبی مرد اور عورت کے درمیان کسی بھی قسم کے تعلقات کا سخت مخالف ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسلام نے جنسی بے راہ روی کے اسباب کی راہ پر ہی ضرب کاری کی ہے اور اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کی ذہنی تربیت بھی کی ہے۔ نوجوانوں کو خواہشات کا اسیر بننے سے روکا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد آیات موجود ہیں جن میں خواہشات نفسانی کو پورا کرنے کے لیے معاشرتی و سماجی تقاضوں اور جواب دہی کو بالائے طاق رکھنے سے سختی سے روکا ہے۔
اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَه هَوٰىهُ وَ اَضَلَّهُ اللٰهُ عَلٰى عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰى سَمْعِه وَ قَلْبِه وَ جَعَلَ عَلٰى بَصَرِه غِشٰوَةً-فَمَنْ یَّهْدِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللٰه-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ (الجاثیہ:23)
بھلا دیکھو تو وہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا ٹھہرا لیا اور اللہ نے اُسے باوجود علم کے گمراہ کیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا تو اللہ کے بعد اُسے کون راہ دکھائے تو کیا تم دھیان نہیں کرتے۔
دوسری جگہ فرمایا:
وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللٰهِ‘‘(قصص:50)
اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو اللہ کی طرف سے ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔
اتَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللٰهِؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ‘‘(ص:26)
اور نفس کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی بے شک وہ جو اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اس بنا پر کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے۔
قرآن کریم کی یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ نفسانی خواہشات کی اندھا دھند پیروی سے اس کائنات کے خالق نے کس طرح روکا ہے۔ جنسیت انسانی فطرت کا حصہ ہے اور انسان کی خمیر میں شامل ہے۔ خود قرآن کریم میں کہا گیا کہ ہم نے جوڑے میں پیدا کیے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ماورائے نکاح جنسی تسکین کے لیے تعلقات قائم کیے جائیں۔
الَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ. إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ. فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ. (المؤمنون 5تا7)
جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بے شک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں۔ پھر جو شخص ان کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں۔
مشہور عالم دین ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام نے جنسی ضرورت اور تقاضے کو تسلیم کرتے ہوئے تفصیلی احکامات دیے ہیں۔ سورۃ نسا اور سورۃ مائدہ میں واضح کردیا گیا ہے کہ شادی کے بغیر کسی بھی قسم کی جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح شادی کے معیارات کو بھی طے کر دیا گیا ہے۔ شادی کے لیے انتخاب کا معیار کیا ہو گا اس کو بھی واضح کردیا ہے۔ سماجی ومعاشرتی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے قران کریم نے بین المذاہب شادی کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ صرف اہل کتاب کی خواتین سے مسلم مرد کو شادی کرنے کی اجازت دی گئی مگر مسلم خواتین کی اہل کتاب سے شادی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بے مہار مردو عورت کا اختلاط چاہے وہ کسی بھی عنوان سے کیا جائے اس کے منفی اثرات ضرو مرتب ہوتے ہیں۔ چناں چہ قرآن کریم میں برائی کے دروازے کو ہی بند کردیا گیا ہے۔ خواتین کو اکیلے سفر سے منع کیا گیا اور ہر اس جگہ جانے منع کیا ہے جہاں اس کی عزت و عصمت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
لو جہاد کے نام پر جو جھوٹا پروپیگنڈہ شروع کیا گیا ہے دراصل اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ حکومت کے پاس اس سے متعلق نہ کوئی اعداد وشمار ہے اور نہ ہی ایسے کوئی شواہد ہیں جس سے وہ ثابت کرسکے کہ مسلم علماء مسلم لڑکوں کو غیر مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ یہودی اور عیسائی جو اہل کتاب ہیں ان کی لڑکیوں سے شادی کی اجازت ہے۔ دیگر مذاہب ہندو، سکھ، جینی اوربدھ مت تو اہل کتاب نہیں ہے اس لیے ان کی خواتین سے مسلم لڑکوں کو شادی کی اجازت ہی نہیں ہے تو پھر لو جہاد کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔
حیدرآباد کی سماجی کارکن خالدہ پروین نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت میں کہا کہ فحاشی، عریانیت اور جنسی تسکین جیسے بنیادی مسائل پر بھارتی معاشرہ تضادات کا شکار ہے۔ایک طرف مسلمانوں کے خلاف نام نہاد لو جہاد کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جارہی تو دوسری طرف مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے اور انہیں محبت کے دام میں پھنسا کر ان کا استحصال کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے اور یہ واویلا مچایا جا رہا ہے کہ مسلم لڑکے مذہبی فریضہ سمجھ کر غیر مسلم لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں۔اگر ہندتوادی بین مذاہب شادی کے خلاف ہیں تو وہ مسلم لڑکیوں سے شادی کی ترغیب کیوں دے رہے ہیں اور ایسے لوگوں کی مدد کے لیے سامنے کیوں آتے ہیں؟ نتاشا سنگھ اور شردھا قتل کیس کے متعلق انہوں نے کہا کہ لیو ان ریلیشن شپ سماجی و معاشرتی پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔ یہ دو واقعات ہمارے سامنے آئے ہیں اور اتفاق ہے کہ ان دونوں میں ایک فریق کا تعلق رسما ہی سہی اسلام سے ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ محبت میں ناکامی، دھوکہ دہی اور ایک سے زائد مردوں یا پھر عورتوں سے جنسی تعلقات کی وجہ سے ہر دن خودکشی اور موت کی خبریں آتی رہتی ہیں، اس پر توجہ نہیں دی جارہی ہے جبکہ آج اصل مسئلہ یہی ہے۔ناتجربہ کاری، فلمی دنیا کے اثرات اور اس کے ذریعہ مسمرائز کیے جانے کی وجہ سے خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ مغرب جیسے حالات پیدا نہ ہوں تو پھر اس کو واضح موقف اپنانا ہو گا۔مشرقیت اور مغربیت کو ایک ساتھ لے کر نہیں چلا جا سکتا ہے۔

 

***

 ’’ سناتن دھرم میں کسی بھی رنگ کو ہندوؤں کا مذہبی رنگ قرار نہیں دیا گیا ہے نہ ہی کوئی مخصوص لباس ہے۔ لباس صرف ستر ڈھانپے کے لیے ہوتا ہے۔معاشرہ میں انفرادی شناخت قائم کرنے کے لیے پنڈتوں اور پجاریوں نے بھگوا رنگ کے کپڑے کو اختیار کیا اور پھر دھیرے دھیرے یہ ان کا لباس بن گیا جبکہ یہ لباس ہندو مذہب کی روایات کا حصہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندو مذہب میں بہت سارے رواج، روایات کا حصہ بن گئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے رواج تصوراتی ہیں۔ان میں ایک ’’کرشن بھگوان‘‘ سے متعلق گوپیوں کی کہانی بھی ہے۔ کیا ’بھگوان‘ اس طرح کرسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر اس کہانی کی جانچ کی جائے تو حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہ ایک بناوٹی اور تصوراتی کہانی ہے جس سے نقصان ہندو مذہب کو ہوا ہے۔ آج بہت سارے آشرم میں خواتین جنسی تشدد اور استحصال کا شکار ہو رہی ہیں۔اس گناہ میں ملوث پجاری خود کو بھگوان کرشن کا روپ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اپنے ارگرد خواتین کو جمع کرتے ہیں اور اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں ‘‘۔(پجاری بھارگپ اچاریہ)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 جنوری تا 21 جنوری 2023