ایمرجنسی کی 50ویں برسی پر سماجواد اور سیکولرزم پر بحث و مباحثہ تیز

یو بی میں پچھڑوں و دلتوں کے شدھی کرن کا نیا طریقہ ایجاد، برہمن خاتون کے پیشاب سے یادو کی "شدھی"

0

محمد ارشد ادیب

بہار میں ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی کا آغاز، ووٹروں کی گھر گھر جا کر تصدیق سے سیاسی ہلچل تیز
مدھیہ پردیش کی عجیب و غریب صورتحال، وزیراعلیٰ کی گاڑیوں میں ملاوٹی تیل، ٹریفک جام سے تین ہلاک
شمالی ہند میں مانسون کی بارشوں کے ساتھ سیاسی بادل بھی منڈلانے لگے ہیں، پہاڑی علاقوں میں بھاری بارش کے ساتھ ساتھ مٹی کے تودے بھی کھسک رہے ہیں، بڑے پیمانے پر سیلاب سے تباہی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں جبکہ حکم راں جماعت ایمرجنسی کی 50ویں برسی کی یادگار منانے میں مصروف ہے۔اس موقع پر ایک بار پھر سے سماجواد اور سیکولرزم پر بحث چھڑ گئی ہے۔ پہلے آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریا ہوسبولے نے ایمرجنسی کے دوران دونوں الفاظ دستور کی تمہید میں بڑھانے پر اعتراض کیا اور بعد میں مرکزی کابینہ میں شامل مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان نے یہ کہہ کر بات کو آگے بڑھا دیا کہ سیکولرزم ہماری ثقافت کا اصل نہیں ہے، بھارت میں سرو دھرم سمبھاؤ یعنی تمام مذاہب کو ماننے کا رواج رہا ہے۔ انہوں نے بھارت کے دستور سے یہ دونوں لفظ ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
راہل گاندھی کا کرارا جواب
کانگریس لیڈر اور حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے اس کا کرارا جواب دیتے ہوئے ایکس پر ٹویٹ کیا ‘آر ایس ایس کا نقاب پھر سے اتر گیا، دستور اسے چبھتا ہے کیونکہ وہ مساوات، سیکولرزم اور انصاف کا علم بردار ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کو آئین نہیں بلکہ منواسمرتی چاہیے۔ آر ایس ایس یہ خواب دیکھنا بند کر دے ہم اسے کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے”۔ وکرم نام کے صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا "کھل کر دستور بدلنے کی بات کرنے لگے ہیں یہ سنگھی” منجیت گھوشی نے لکھا” یہ دستور پر حملہ ہے دھیان رکھیں کہ گلے میں مٹکا ڈالنے والے ہیں یہ لوگ” اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک بار پھر سے دستور پر سیاست تیز ہونے والی ہے۔
یو پی میں شدھی کرن کا نیا طریقہ ایجاد
یوپی کے ضلع اٹاوہ میں مذہبی تعصب اور ذات برادری کی برتری کا پرانا تنازعہ دوبارہ سے تازہ ہو گیا ہے۔ اٹاوا کے داندر پورگاؤں میں یادوؤں کو بھاگوت کتھا کہنے پر سر عام بے عزت کیا گیا، ان کی چوٹی کٹوائی گئی، مارپیٹ کر کے ناک گڑوائی اور آخر میں انسانیت کو شرمسار کرتے ہوئے ایک برہمن عورت کا پیشاب چھڑک کر انہیں "شدھی” کرنے کا ڈھونگ کیا گیا۔ گاؤں والوں نے کتھا سنانے والوں پر خواتین سے بد سلوکی کا الزام لگایا ہے۔ گاؤں کی خواتین کی جانب سے اس سلسلے میں پولیس میں ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ہے۔ اس واقعہ کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پورے صوبے میں برہمنوں اور یادوؤں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔ چند یادو تنظیموں نے گاؤں کے باہر احتجاج کرتے ہوئے گاؤں گھیر لیا اس کے بعد اٹاوا پولیس بیدار ہوئی اور کتھا سنانے والوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے الزام میں 19 لوگوں کو گرفتار کر لیا اور ساتھ میں گھر والوں کی شکایت پر کتھا سنانے والوں پر بھی کراس ایف آئی آر درج کر لی۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے دونوں کتھا سنانے والوں مکٹ منی اور سنت سنگھ یادو کو پارٹی کے دفتر میں بلا کر کتھا سنانے پر ان کا اعزاز کرتے ہوئے پوری مدد کرنے کا یقین دلایا۔
اکھلیش یادو کے ساتھ آر جی ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ اکھلیش یادو نے یوگی حکومت پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ دلت اور اقلیت پی ڈی اے کے استحصال کی مثال ہے، اس واقعے کا بہار الیکشن پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، یہ یادوؤں کو متحد کر سکتا ہے۔ اکھلیش یادو اور تیجسوی یادو کے بیانات سے اس کا اشارہ مل رہا ہے۔ یادو ووٹر آر جے ڈی کے حق میں متحد ہو سکتے ہیں۔ بی جے پی اور جے ڈی یو اس واقعے کو سماجوادی پارٹی اور آر جے ڈی کی ذات پات پر مبنی سیاست کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں جن سے برہمن اور غیر یادو ووٹروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جا سکے۔ بہرحال، سیاسی اثر کچھ بھی ہو اس واقعے نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ شمالی ہند میں ذات پات کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ دستور نے بھلے ہی چھوت چھات کو ممنوع قرار دیا ہو لیکن پوجا پاٹھ اور مذہبی رسومات میں آج بھی برہمنوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ ٹرائبل آرمی نام کے ایکس ہینڈل پر لکھا گیا "دھرم نہیں ذات پوچھی جارہی ہے وہ صرف یو پی میں نہیں مدھیہ پردیش اور اڈیشہ میں بھی” پسماندہ طبقات کو سرعام بدنام کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر لکشمن یادو نے لکھا کہ یہ صرف ایک آدمی کی بے عزتی نہیں ہے پورے پچھڑے سماج کو نیچا دکھانے کی سازش ہے۔
بہار میں ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی کا آغاز ہونے سے سیاسی ہلچل تیز
بہار میں اسمبلی انتخابات سے قبل ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی کے الیکشن کمیشن کے فیصلے نے اپوزیشن جماعتوں کو بر افروختہ کر دیا ہے۔ مہا گٹھ بندھن میں شامل اپوزیشن جماعتوں نے پٹنہ میں پریس کانفرنس کر کے الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے بی جے پی اور جی ڈی او پر الزام لگایا ہے کہ حکم راں اتحاد ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی کی آڑ میں کروڑوں لوگوں سے حق رائے دہی چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 2003 کے بعد پہلی بار گھر گھر جا کر ووٹر تصدیق کرانے کی ہدایت دی ہے جس پر عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس کے تحت بی ایل او گھر گھر میں ایک فارم پہنچائیں گے اور ووٹروں کو یہ فارم شہریت سے متعلق ضروری دستاویزوں کے ساتھ واپس کرنے ہوں گے۔ ان دستاویزوں میں پیدائش سرٹیفیکیٹ سب سے اہم ہے۔ یکم جولائی 1987 کے بعد پیدا ہوئے ووٹروں کو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک کو بھارتی شہری ثابت کرنا ہوگا اور 2003 کے بعد پیدا ہونے والے ووٹروں کے لیے ماں باپ دونوں کا سرٹیفیکیٹ دینا لازمی ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اتنے کم وقت میں یہ کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔ بہار میں برسات کا موسم چل رہا ہے، سیلاب میں ہر سال لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں، کتنوں کے سیلاب کے دوران دستاویز اور پیدائش سے متعلق سرٹیفکیٹ غائب ہو چکے ہیں، وہ نہ تو فارم جمع کر سکیں گے اور نہ ہی سرٹیفکیٹ دے پائیں گے۔ لاکھوں افراد اپنے ووٹ سے محروم ہو سکتے ہیں۔ ایم آئی ایم رہنما بیرسٹر اسدالدین اویسی نے ایکس پر تفصیلی پوسٹ کرتے ہوئے لکھا "الیکشن کمیشن بہار میں خفیہ طریقے سے این آر سی لاگو کر رہا ہے، اس عمل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بہار کے غریبوں کی بڑی تعداد ووٹر لسٹوں سے باہر کر دی جائے گی۔ سپریم کورٹ 1995 کے فیصلے میں اس طرح کے عمل پر سخت سوال اٹھا چکی ہے۔ ہر بالغ شہری کو ووٹر لسٹ میں اپنا نام شامل کرانے کا حق ہے۔ الیکشن کے بالکل قریب اس طرح کی کارروائی شروع کرنے سے عوام کا الیکشن کمیشن پر اعتماد کمزور ہوگا۔” سماجی کارکن یوگیندر یادو نے کہا کہ ایسے تو آدھی یا آدھے سے زیادہ آبادی ووٹر لسٹ سے باہر ہو جائے گی۔ یہ بہت خطرناک معاملہ ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر بہار میں یہ عمل انجام پا گیا تو مغربی بنگال میں بھی اس کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ترنمول کانگریس نے اسے جرمنی کے نازی ہتھکنڈے سے تعبیر کیا ہے۔
مدھیہ پردیش کی عجیب و غریب صورتحال
مدھیہ پردیش ان دنوں عجیب و غریب خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ راجہ رگھونشی کی مبینہ قاتل بیوی سونم کی کہانی ہو یا گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں جنید کی ہجومی تشدد میں موت، سانچی کے مرگاؤں میں پانچ جون کو جنید اور ارمان کو بھیڑ نے گھیر کر مارا تھا۔ اس واقعے کے دو ہفتوں بعد جنید زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا جبکہ ارمان بھوپال کے حمیدیہ ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ اس واقعے میں مارپیٹ کرنے والے تین گئو رکھشکوں کو پکڑا گیا ہے۔ جنید مویشیوں کی تجارت کرتا تھا جبکہ پولیس اور مقامی میڈیا اسے گئو اسمگلر بتا رہے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے اندور سے خبر ملی ہے کہ اندور دیواس شہر کے بائی پاس پر ٹریفک جام سے تین افراد کی موت ہو گئی ان میں سے دو مریض ہارٹ اٹیک سے مر گئے اور ایک نے ایمبولنس میں آکسیجن ختم ہونے کے سبب ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق 32 گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس ٹریفک جام میں تقریباً چار ہزار گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں ۔
اس سے پہلے خبر آئی تھی کہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ موہن سنگھ یادو کے قافلے کی گاڑیوں میں ایک پٹرول پمپ پر پانی ملا ہوا تیل بھر دیا گیا۔ یہ واقعہ رتلام میں پیش آیا۔ پانی کے سبب گاڑیاں بیچ راستے میں ہی بند ہو گئیں۔ ان میں دھکا لگانے کی تصویریں وائرل ہوئیں تو انتظامیہ کو ہوش آیا، گاڑیوں کی چیکنگ سے پتہ چلا کہ بیس لیٹر تیل میں دس لیٹر پانی تھا۔ پٹرول پمپ کو فوری طور پر سیل کر دیا گیا اور اندور سے گاڑیاں منگوا کر وزیر اعلیٰ کے قافلے کو آگے روانہ کیا گیا۔ اندازہ کریں کہ جس ریاست کا وزیر اعلیٰ بدعنوانی سے محفوظ نہ ہو وہاں کے عوام کا کیا حال ہوگا؟ ٹریفک جام میں مرنے والوں والے ہوں یا ہجومی تشدد میں، جواب دہی کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اسی طرح مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے لَو جہاد کے معاملے میں مسلمانوں کو بدنام کرنے سے متعلق ایک عرضی پر سماعت کے دوران خبروں پر روک لگانے یا گائیڈ لائن بنانے سے صاف انکار کر دیا تو آخر یہ لوگ کہاں جائیں اور کس سے انصاف طلب کریں؟
تو صاحبو، یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025