ایمرجنسی جماعت اسلامی ہند کے لیے قیدوبند کے بھیس میں ایک نعمت تھی

بھارتی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم نے75 سالہ جدوجہد کے دوران کئی کارہائے نمایاں انجام دیے

محمد نوشاد خان

مولانا محمد جعفر سابق نائب امیر جماعت اسلامی ہند سے انٹرویو
مولانا محمد جعفر نے گزشتہ چار میقاتوں کے دوران 2007 تک جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جنرل (قیّم جماعت) کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس سے قبل وہ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے اوّلین صدر رہے۔ میقات برائے 1986-1990 کے دوران انہوں نے امیر حلقہ، جماعت اسلامی ہند ریاست بہار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ مولانا مسلم مجلس مشاورت کے بھی نائب صدر رہے۔ مولانا نامور تنظیموں ’’ہیومن ویلفیر ٹرسٹ‘‘ ، ’’ہیومن ویلفیر فائونڈیشن‘‘ ، ’’دعوت ٹرسٹ‘‘ ، ’’بورڈ آف اسلامک پبلکیشن‘‘ کی گورننگ کونسل اور جنرل باڈی کے نائب صدر بھی ہوئے (جس کے تحت ’’ریڈینس ویکلی‘‘ ‘‘ویوز ویکلی‘‘کی اشاعت عمل میں آتی ہے)وہ ’’سہولت مائیکروفینانس سوسائیٹی‘‘ کے صدر رہے نیز’’انڈین سنٹر فار اسلامک فینانس‘‘ ’’اسلامک اکیڈمی ٹرسٹ‘‘ اور ’’اشاعت اسلام ٹرسٹ‘‘ کے اساسی ٹرسٹی ہیں۔ مولانا 1990 ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘ کے رکن رہے اور’’الشفاء ملٹی اسپیشالٹی ہاسپٹل، نئی دہلی ‘‘ کے چیرمین ہیں۔ ذیل میں جماعت اسلامی ہند کی جدوجہد کے 75 برسوں کے تناظر میں مولانا سے لیے گئے ایک انٹرویو کا خلاصہ پیش ہے۔

’’اپنی پہچان آپ‘‘ کی اساس پر جماعت اسلامی کے 75 سالہ سفر کوآپ کس طرح پیش کرنا پسند کریں گے؟
جہاں تک جماعت اسلامی کے 75 سالہ سفر کا تعلق ہے، اسے دو زاویوں سے دیکھا جانا چاہئے، سب سے پہلے تنظیم جماعت کی توسیع اور دوسرے گزشتہ 75 برسوں میں جماعت کی طرف سے کیے گئے اس کے مختلف کاموں کے سماج پر مرتب اثرات۔ اگر ہم تنظیمی طاقت کا جائزہ لیں گے تو اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جماعت اسلامی ، ملک میں ایک منظم کیڈر پر مبنی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ چنانچہ تنظیمی طاقت اپنی سرگرمیوں اور نقطئہ نظر کا تعین بذات خود کرتی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے اہداف، اغراض و مقاصد‘ تنظیمی طاقت اور تربیت یافتہ کیڈر کے اعلی اوصاف کو ذہن میں رکھتے ہوئے زندگی کے بیشتر شعبوں میں تعمیری کام کیے ہیں اور اس تنظیمی طاقت اور تربیت یافتہ کیڈر کے علاوہ جماعت اسلامی کے نقطئہ نظر سے اتفاق رکھنے والے متفقین اور ہمدرد، جماعت اسلامی ہند کی ان مثبت سماجی اور مذہبی سرگرمیوں کو موثر انداز میں سماج تک وسعت دینے میں بہترین معاون ثابت ہوئے ہیں۔ اس دوران ہم سے کچھ کوتاہیاں بھی سرزد ہوئی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی، ہم نے بہت سے شعبوں میں متاثر کن اور بامعنی کام انجام دیے ہیں۔ مثال کے طور پر شروعات میں جماعت اسلامی نے الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا محتاط انداز میں استعمال کیا لیکن آج پرنٹ میڈیا اورالکٹرانک میڈیا کا بہت وسیع پیمانے پر استعمال ہورہا ہے۔ انگریزی، اردو ، ہندی اور بیشتر ریاستوں کی تمام مقامی زبانوں میں جماعت اسلامی کا لٹریچر موجود ہے ۔ یہی اشاعتیں جماعت اسلامی ہند کے نقطہ نظرکی ترجمان ہیں اور اسی کے ذریعے جماعت اسلامی کا بھارت میں رہنے والے ہر فرد کے لیے انصاف کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ دراصل پرنٹ میڈیاکے استعمال کا بنیادی مقصد، اللہ کے بندوں کی اصلاح کرنا، صحت مند معاشرہ تشکیل دینے کے لیے عوام میں شعور بیدا کرنااور عام لوگوں کوبحیثیت انسان ان کے فرائض منصبی سے آگاہ کرنابھی ہے۔ انہیں اشاعتوں کے ذریعے ،جماعت اسلامی، خواتین، نوجوانوں، طلباء و طالبات کے مسائل حل کرنے میں مصروف کارہے۔ تعلیم کی اہمیت اور سماجی بہبود کے مختلف شعبوں میں جماعت اسلامی کی سرگرمیاں حسب معمول جاری ہیں۔ تربیت یافتہ اور تنظیمی طاقت نے ہمیشہ جماعت کے بنیادی اغراض و مقاصد پر بامعنی طور پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جماعت اسلامی نے گزشتہ 75 برسوں میں سماجی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت کچھ کیا گیا۔ سماجی کاموں کو بہتر سے بہترانداز میں کرنے کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔، جماعت اسلامی نے ہرکام کو بہترین انداز میں کرنے کی کوشش کی ہے اورانشاء اللہ سال بہ سال، اس میں مزیدبہتری لانے کی کوشش کی جائے گی۔
جب جماعت اسلامی قائم ہوئی تھی تب کیا چیلنجز تھے اور کیا آج بھی وہی چیلنجزموجود ہیں یا ان سے مختلف ہیں؟
بھارت کی آزاد ی کے بعد 16؍اپریل 1948 ء کو جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا تھا اور الحمدللہ اپریل 2023ء کو، اس نے اپنے قیام کے 75سال مکمل کرلیے ہیں۔ اوروں کی بات چھوڑئیے، جماعت کے قیا م کے وقت، خود امت مسلمہ، دین اسلام کے مطلوبہ معیار اور اندازفکرسے ناواقف تھی ۔ دین اسلام سے دور اور دین کے اصولوں سے ناواقف مسلم سماج میں، قرآن اور سنتؐکے اصولوں پر مبنی زندگی گذارنے کا شعور پیدا کرنا‘ اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج تھا۔ اس وقت اشاعت دین اور تبلیغ دین کے میدان میں کچھ ادارے کام کررہے تھے۔ چند مخصوص علاقوں تک کچھ علمائے کرام بھی اس کام میں مصروف تھے لیکن ان کے کام میں جماعت اسلامی جیسی نظریاتی سوچ اور عملی تحریک نہیں تھی۔ چنانچہ جماعت کے قیام کے ساتھ ہی جماعت نے خالق کائنات کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کے لیے مسلمانوں میں شعور بیداری مہم کا آغاز کردیا۔ جماعت اسلامی نے نہ صرف مسلمانوں تک صحیح اسلامی پیغام پہنچایا بلکہ دیگر انسانوں کو بھی اس کی دعوت دی کہ وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں‘ صرف اسی کی عبادت کریں اور زندگی کے تمام امور اور پہلوئوں میں اپنے آپ کورب کے سپرد کردیں۔ اس وقت سماج کے، مختلف نظریات کے حامل فرقوں کو ان کی مرضی کے خلاف ،اور رب کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دینا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس مہم کے دوران، جماعت کو دیگر مذہبی رہنمائوں کی طرف سے بھی کئی طرح کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ کا شکر ہے کہ رفتہ رفتہ قلیل تعداد میں ہی سہی، کچھ جماعتیں اور کچھ شخصیتیں،جماعت اسلامی کی نظریاتی تحریک سے متاثر ہوئیں۔ مزیدلوگ جماعت اسلامی کی تحریک سے متاثر ہوئے اور الحمدللہ، آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
کیا ایمرجنسی کو جماعت اسلامی کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ کہا جاسکتا ہے؟
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایمرجنسی صرف جماعت اسلامی کے لیے ہی لاگو نہیں کی گئی تھی بلکہ یہ پورے ملک میں نافذ تھی۔ ہاں! اس وقت بھی حکومت کے ذہن میں جماعت اسلامی کے بارے میں غلط فہمیاں موجود تھیں اور آج بھی کئی شکوک و شبہات موجود ہیں۔ البتہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں آج حکومت ،جماعت اسلامی کے طریقہ کار اور اس کے نظریات سے زیادہ بہترانداز میں واقف ہوچکی ہے۔ ماضی میں ان دنوں جماعت اسلامی ہند کے ذمہ داران اور حکومت کے درمیان، تال میل اور بات چیت کا رجحان نہیں تھا لیکن آج وہ معاملہ نہیں رہا، حالات بد ل چکے ہیں۔ ان دنوں حکومت، جماعت اسلامی ہند کوبھی آر ایس ایس کی طرح ایک مسلم فرقہ پرست تنظیم سمجھتی تھی، اسی لیے جماعت اسلامی کو آر ایس ایس اور اس جیسی دیگر تنظیموں کے ساتھ ہمیشہ جوڑ کر دیکھا جاتا تھا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایمرجنسی کا نفاذ صرف جماعت اسلامی کے خلاف نہیں ہوا تھا اور نہ حکومت کا یہ کوئی بنیادی ہدف تھا کہ جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی جائے۔ یہ اور بات ہے کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران چند مخصوص شرائط کی اساس پر جماعت اسلامی کے بعض ارکان کو جیل میں قیدکیا گیا تھا۔ یہ جان کر شاید آپ کو بھی حیرت ہوگی کہ ایمرجنسی کی شکل میں جماعت اسلامی کو قدرتی طور پر ایک نعمت ملی تھی کیوں کہ جیلوں میں جماعت اسلامی کے ارکان کو ان لوگوں سے میل جول کا موقع ملا جو بعد میں ملک کے رہنما، قائدین اور حکومت کا حصہ بنے۔ جیلوں میں ان سے ملاقاتوں کے ذریعے ان سے میل جول بڑھا، بات چیت کا موقع ملا اور ان تک جماعت کی صحیح تصویر پہنچی،جس کے بعد وہ لوگ بھی جماعت کو اچھی طرح جان گئے۔ سب سے بڑھ کر ، بنیادی طور پر جماعت کے تعلق سے ان کے ذہنوں میں جوشکوک و شبہات پائے جاتے تھے، وہ دور ہوگئے۔ اس طرح یہ کہنا درست ہوگا کہ ایمرجنسی کے دوران جماعت اسلامی نے کچھ زیادہ نہیں کھویا بلکہ لوگوں کے ذہنوں سے جماعت اسلامی کے بارے میں شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں دور کرنے کا موقع ملا۔ جیلوں میں جماعت کے قائدین‘ آر ایس ایس کے ارکان، سوشلسٹ اور کمیونسٹ لیڈروں کے علاوہ اپوزیشن کے دیگر لیڈروں کے ساتھ رہے سوائے کانگریس کے ، کیوں کہ اس وقت کانگریس برسر اقتدار تھی۔ جیل میں موجود بہت سے شہری اور پارٹیوں کے رہنما حیران تھے کہ جماعت اسلامی ہند کے لوگ جیل میں کیوں ڈالے گئے ہیں؟ وہ اچھی طرح جان گئے تھے کہ جماعت اسلامی ہند کا حکومت سے کوئی براہ راست تصادم نہیں ہے۔ یہاں تک کہ سروودیہ گروپ کے لوگ، جنہیں جئے پرکاش نارائین کی حمایت حاصل تھی وہ بھی حیران تھے اور کہتے تھے کہ وہ لوگ جیل میں اس لیے ہیں کیوں کہ انہوں نے جے پرکاش نارائین کی حمایت کی تھی۔ آگے چل کر انہوں ازراہ مذاق کہنا شروع کیا کہ چوں کہ جماعت اسلامی نے حکومت کی مخالفت کی تھی نہ جئے پرکاش نارائین کی حمایت کی تھی، شائد اسی لیے انہیں جیل میں قید رکھا گیا ہے۔ پٹنہ جیل میں اسی گروپ کے ایک لیڈر سدھ راج جھنڈا Everyman’s Science کے ایڈیٹر تھے، میرے ساتھ ہی تھے۔ انہوں نے مجھے اس خط کے بارے میں بتایا جو انہوں نے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو لکھا تھا کہ محترمہ! آپ نے ہمارے ساتھ جیل میں ان لوگوں کو بھی بلاوجہ ڈال رکھا ہے جن سے آپ کو، آپ کی پارٹی کو ، ملک کویا حکومت کوکسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے بلکہ بلا وجہ حکومت نے انہیں اپنا دشمن بنالیا ہے (ان کا اشارہ جماعت اسلامی ہند کی طرف تھا)۔
کہا جاتا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد، بھارت میں پیچھے رہ جانے والے مسلمان سمجھتے تھے کہ ان کے لیے اپنی مسلم شناخت برقرار رکھتے ہوئے، یہاں رہنا ناممکن ہوگا۔کیا جماعت اسلامی ہند نے ایسے لوگوں کو مطمئن کرنے اور ان کے درمیان اعتمادپیداکرنے کی کوشش کی؟ آج بھی مسلمان‘ خوف، پریشانی اور انتشار کی حالت میں زندگی گذار رہے ہیں
ان حالات میں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں اعتماد بحا ل کرنے لیے جماعت اسلامی کو اپنا کردار نبھانا چاہیے؟
یہ صحیح ہے کہ بھارت کی آزادی کے بعد جو مسلمان اپنی مرضی سے بھارت میں رہ گئے تھے‘ وہ واقعتاً بہت پریشان اور خوف زدہ تھے، ان پر اپنے عدم تحفظ کا احساس غالب تھا۔ اس وقت جماعت اسلامی کے پاس ان کوعد م تحفظ کے خوف سے دور کرنا اور ان میں خود اعتمادی پیدا کرنا ایک بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں تھا۔ جماعت اسلامی نے اس چیلنج کو قبول کیا اورالحمدللہ، ایسے مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے میں جماعت کا مشن کامیاب رہا۔ جماعت اسلامی نے انہیں سمجھایا کہ ہم اللہ تعالی کو اپنا رب مانتے ہیں، اللہ تعالی ہی ہمارا محافظ ہے۔ ہمیں اپنی حفاظت کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجانا ہرگز مناسب نہیں لگتا۔ یاد رکھئے کہ اگر اللہ تعالی ہماری حفاظت کرنا چاہتا ہے توبھارت میں بھی ہماری حفاظت کرے گا اور اگر وہ ہماری حفاظت نہ کرنا چاہے تو انسان کہیں بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ہم نے مسلمانوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کروانے اورسمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی شخص جب کسی ملک میں پیدا ہوتا ہے تووہ ملک اس کا وطن کہلاتا ہے اس کے بعد اس انسان کی فطری ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اپنے وطن کی عزت کرے احترام کرے۔ انہیں بتایا گیا کہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق مسلمان اپنے وطن اور اپنے وطن کے لوگوں سے محبت کرتا ہے، وہاں رہنے والے افراد کی فلاح و بہبود کی کوشش کرتا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ تقسیم ہند کے بعدہی ملک کے بیشتر علاقوں میںفرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس مشکل وقت میں جماعت اسلامی نے بہت سے امدادی کام انجام دئیے جن میں طبی امداد بھی شامل تھی تاکہ متاثرہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ایسے مشکل وقت میں ان کے دکھ درد اور پریشانیوں میں ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں رہا۔ فسادات کے دوران اور فسادات کے بعد، جماعت اسلامی مختلف قسم کے امدادی کاموں کے ذریعے، عوام کے ساتھ کھڑی رہی۔ ان فلاحی کاموں کے ذریعے جماعت اسلامی نے مسلمانوں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی۔ اس دورا ن جو لوگ پاکستان جانا چاہتے تھے انہوں نے بھارت چھوڑ دیالیکن مسلمانوں کی اکثریت نے دیگر لوگوں اور ملک کے تئیں اپنی ذمہ داری کے احساس کے تحت یہیں رہنے کا فیصلہ کیا اور یہیں کے ہورہے۔ رفتہ رفتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، حالات میں بہتری پیدا ہوئی اور پھر لوگ خود بخوداپنے آپ کو محفوظ محسوس کرنے لگے۔ یہ اور بات ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو بگاڑنے کے لیے یہاں بے شمار فرقہ پرست عناصر موجود ہیں جن کی وجہ سے وقتاً فوقتاً مسلم مخالف فسادات برپا ہوتے رہتے ہیں اور جماعت اسلامی ہر مشکل گھڑی میں عوام کی خدمت اور مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہی اور آج بھی اسی جذبے کے ساتھ موجود ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ دیگر تنظیمیں بھی مسلمانوں کی تائید میں کھڑی ہوئیں۔ ہم نے فسادات سے متاثرہ مقامات کا دورہ کیا ، حسب ضرورت ریلیف کا کام‘ امن کی بحالی اور بازآبادکاری کا کام بھی کیا ۔ حسب ضرورت، متاثرہ مسلمان خاندانوں کی نمایندگی بھی کی جاتی رہی تاکہ حکومت کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔ اسی پس منظر میں جماعت اسلامی نے سدبھائونا منچ قائم کیا، جس کی نمائندگی مختلف مذہبی رہنما، مختلف عقائد کے قایدین کرتے ہیں تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مناسب ڈھنگ سے کام کیا جاسکے۔ جماعت اسلامی ہند ہی کی پہل سے آل انڈیا مجلس مشاورت کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا کام ہی ایسے نامساعد حالات سے نمٹنا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک میں آج بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت، تشدد، مسلم شناخت، مذہبی مقامات کے علاوہ ان کے عقیدوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے‘ اسلام سے وابستگی کی وجہ سے ان کو تشدد اور لنچنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ نفرت اور تفرقہ انگیز سیاست، نہ صرف مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ پورے ملک کے عوام کے لیےخطرناک مہلک زہر ہے۔ جماعت اسلامی ہند، فرقہ وارانہ ماحول کو ختم کرنے اور نفرت کی فضاء کو محبت کے ماحول میں بدلنے کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنے میں مسلسل مصروف ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان آج بھی خوف اور پریشانی کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کئے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ سے مسلمانوں کو اور خاص طور پر مسلم نوجوانوں کو ہدایت دے رکھی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں، کسی کے اشتعال دلانے پر، ہرگز مشتعل نہ ہوں۔
گزشتہ 75 سال میں وہ کیاکام تھے جو جماعت اسلامی کرنا چاہتی تھی لیکن کسی وجہ سے نہ کرسکی ہو؟
الحمدللہ جماعت اسلامی ہند کی پالیسی اور پروگرام نہایت جامع ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے بارے میں خود ہمارا یہ تاثرہے کہ اگر سیاست کو مذہب سے الگ کیا جائے تو دین ادھورا رہ جاتا ہے۔ چنانچہ سیاست بھی ہماری پالیسی کا ایک اہم پہلو ہے۔ دین اسلام یقیناً انسانی زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے تودوسرے طرف وہ سیاست میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے ہمیشہ اقدار پر مبنی سیاسی کی وکالت کی ہے۔ دراصل جماعت اسلامی ہند جس قسم کی سیاسی بیداری پیدا کرنا چاہتی ہے ابھی تک اس کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس موضوع پر جماعت اسلامی ہند کو مستقبل قریب میں غوروفکر کرکے مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ ہمارے لیے ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا نظریہ، جسے بڑے پیمانے پر عوام نے قبول کیا ہے اسے عمودی اور افقی، دونوں سطحوں پر زیادہ سے زیادہ اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سماجی مسائل ہیں جن میں جماعت اسلامی ہند، اسلامی اصولوں کے مطابق اور قانونی طور پر کوئی خاطر خواہ مداخلت نہ کرسکی مثلاً ہم جنس پرستی جیسی قبیح جدید تہذیب، بغیر شادی کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا ایک ساتھ میاں بیوی کی طرح زندگی گزارنااور ہم جنسوں کے درمیان شادی کا رواج۔ ایسے تمام غیر انسانی ، گمراہ کن طورطریقوںکے خلاف مناسب اور موثرسماجی مزاحمت نہ کرسکی، جتنا کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوانوں کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ بے لگام جنسی آزادی نے خود انہیں اور پورے سماج کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ملک میں بے حیائی کی باڑھ آنے والی نسلوں اور پوری انسانیت کے لیے نقصا ن دہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے خطرات سے عوام میں آگہی اور شعور بیداری لائی جائے اور ایسا ماحو ل پیدا کیا جائے کہ لوگ غیر اخلاقی اور فحش کاموں سے دور رہیں اور ایک صاف ستھرا مہذب انسانی معاشرہ تشکیل پائے۔ ( بشکریہ :ریڈینس ویوز ویکلی نئی دلّی ، ترجمہ: سلیم الہندیؔ حیدرآباد)

 

***

 اگر ہم تنظیمی طاقت کا جائزہ لیں گے تو اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جماعت اسلامی ، ملک میں ایک منظم کیڈر پر مبنی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ چنانچہ تنظیمی طاقت اپنی سرگرمیوں اور نقطہ نظر کا تعین بذات خود کرتی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے اہداف، اغراض و مقاصد‘ تنظیمی طاقت اور تربیت یافتہ کیڈر کے اعلی اوصاف کو ذہن میں رکھتے ہوئے زندگی کے بیشتر شعبوں میں تعمیری کام کیے ہیں-


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023