عبدالملک شارق، حیدرآباد
بلاک چین کا نظام، بینکوں اور دیگر درمیانی اداروں کی اجارہ داری کے لیے خطرہ
بٹ کوائن (Bit coin) ایک قسم کی الیکٹرانک کرنسی یا کیش ہے۔ اس کو بالکل اسی طرح اپنے فون کے ویلٹ میں رکھا جا سکتا ہے جس طرح ہم کاغذی کرنسی پر مشتمل نقدی کو اپنی جیب یا پرس میں رکھتے ہیں۔ اور یہ عصر حاضر میں روایتی کرنسی کی نقدی کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے۔ امید ہے کہ بہت جلد یہ کاروباری معاملات میں رقمی لین دین کے لیے اسی طرح استعمال ہونے لگے گا جس طرح آج روایتی کرنسی کی نقدی استعمال ہوتی ہے۔ یہ تو بٹ کوائن کا بہت ہی آسان اور مختصر سا تعارف ہے۔ لیکن اسے اچھی طرح سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں تجارت اور رقمی لین دین کے معاملات کس طرح انجام پاتے ہیں اور ان معاملات کی انجام دہی میں لوگوں کو کیا مسائل پیش آتے ہیں۔ اس کے بعد ہم یہ دیکھیں گے کہ بٹ کوائن ان مسائل کو کس طرح حل کرتا ہے۔
عام طور پر دنیا بھر میں لین دین کے معاملات دو ہی طریقوں سے کیے جاتے ہیں جنہیں یہاں دو نکات کی صورت میں درج کیا گیا ہے۔
1۔ پہلا وہ طریقہ ہے جس میں دونوں فریقوں کے درمیان براہ راست لین دین ہوتا ہے، یعنی کاغذی کرنسی پر مشتمل نقدی کی صورت میں یہ معاملہ انجام پاتا ہے اورکوئی تیسرا فریق ان کے درمیان نہیں ہوتا۔
2۔ دوسرا وہ طریقہ ہے جس میں دونوں فریقوں کے درمیان تیسرا فریق یعنی “بینک” یا “مالیاتی ادارہ” ہوتا ہے جس سے گزر کر دوسرے فریق کو رقم کی ادئیگی کی جاتی ہے۔ IMPS, RTGS, UPI اور اس طرح کی ساری چیزیں اسی دوسرے طریقے کے تحت آتی ہیں۔
ان دونوں میں جو دوسرا طریقہ ہے وہ ایک نظام کے تحت چلتا ہے۔ اسی نظام میں وہ مسائل ہیں جنہیں ہم یہاں زیر بحث لائیں گے تاکہ بٹ کوائن کا مقصد اور اس کی افادیت بآسانی سمجھ میں آ جائے۔
رقم کی منتقلی اور لین دین کے اس نظام میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بینک کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور بینک ہی کو تمام معاملات کے فیصلے کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ لین دین کی ساری تفصیلات کا ریکارڈ بھی صرف بینک ہی کے پاس ہوتا ہے۔ یہ نظام ساری دنیا میں بینک پر اعتماد کے اصول پر قائم ہے۔ اس نظام میں بینک پر اعتماد کیے بغیر لین دین کے معاملات کو انجام دینا ممکن نہیں۔ چنانچہ اس اصول کو ساری دنیا میں تسلیم بھی کیا گیا۔ لیکن کئی مرتبہ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ بینکوں نے لوگوں کے اس اعتماد کو بہت پامال کیا۔ آج بھی اس نظام میں انسان کو اپنے مال پر مکمل اختیار نہیں دیا جاتا۔ بینک جس وقت چاہے کسی کا بھی اکاؤنٹ منجمد کرسکتا ہے اور رقم نکالنے کی اجازت سے بھی انکار کر سکتا ہے یا وہ اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ صارف کو ایک حد تک ہی رقم نکالنے کا پابند کرے۔ اس کے علاوہ اس نظام میں معاملت (Transaction) کی فیس اس بنیاد پر طے ہوتی ہے کہ رقم کتنی بڑی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب یہ لین دین بین الاقوامی ہو۔ جتنی بڑی رقم ہوگی اتنی زیادہ فیس ہوتی ہے۔ بہت زیادہ بڑی رقم بھیجنے میں رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر چھوٹے اور معمولی لین دین کرنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ حالاں کہ ان سارے مسائل کا سامنا اس وقت نہیں ہوتا جب لین دین کے معاملات براہ راست یعنی کاغذی کرنسی کی نقدی کی صورت میں ہوں۔
چنانچہ بینک سے لین دین کے دوران پیش آنے والے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پہلی مرتبہ ستوشی ناکا موٹو نامی ایک شخص نے بٹ کوائن کو بطور حل پیش کیا۔ اس نے ۲۰۰۸ میں “Bitcoin: Peer to Peer Electronic Cash System” کے نام سے ایک مقالہ شائع کیا۔ اس مقالے میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح الیکٹرانک کیش کا استعمال کرکے ان تمام مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے اور الیکٹرانک کیش کی مدد سے لین دین میں وہی آزادی حاصل ہو سکتی ہے جو کاغذی کرنسی کے استعمال کرنے میں حاصل ہوتی ہے۔
ستوشی ناکاموٹو نے اس میں تجویز پیش کی کہ اس کے لیے ایک ایسا غیر مرکوز نیٹ ورک (Decentralised Network) ترتیب دیا جائے جس میں کسی کو بھی مرکزی حیثیت حاصل نہ ہو، جو بھی لین دین ہو وہ ثبوت کی بنیاد پر ہو، نہ کہ بینک کی طرح کے کسی ایک مرکزی ادارے پر اعتماد کی بنیاد پر؟ جو بھی فیصلہ ہو وہ اتفاق رائے سے ہو، اس نیٹ ورک کے سارے معاملات شفاف (Transparent) ہوں، لوگوں کو اپنے مال پر مکمل اختیار ہو۔ انہی بنیادی اصولوں کی اساس پر بٹ کوائن کا ایک غیر مرکوز نیٹ ورک Decentralised Network) تشکیل دیا گیا ہے۔ بٹ کوائن اس طرح کے نیٹ ورک (Network) کی سب سے پہلی کرنسی ہے اور اس کی کل تعداد اکیس ملین یعنی 2.1 کروڑ بٹ کوائنس مقرر کی گئی ہے۔ لیکن ابھی تک 19.7 ملین بٹ کوائنس ہی گردش (Circulation) میں ہیں اور باقی تعداد بھی بتدریج گردش میں آجائی گی۔ اس نیٹ ورک کے عملاً نفاذ کے لیے جو لوگ اہم کردار ادا کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر تین قسم کے ہوتے ہیں:
• ایک وہ جو اس نیٹ ورک کو کارکرد بنانے میں اپنے وسائل یعنی کمپیوٹرس سے تعاون کرتے ہیں، انہیں نوڈس کہا جاتا ہے۔ یہ مخصوص سافٹ ویر کے ذریعہ بٹ کوائن کے لین دین (Transactions) کی توثیق و تصدیق کا کام کرتے ہیں۔ یہ کام ان سب کے اتفاق (Consensus)ہی سے انجام پاتا ہے۔ اور اس کام کا بدلہ انہیں بٹ کوائن کی شکل میں ملتا ہے اس لیے اسے بٹ کوائن مائننگ (Bitcoin Mining) بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح سے بٹ کوائنس سرکولیشن میں آتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرانزیکشن فیس بھی انہیں کو ملتی ہے۔ ان کے اختیارات لین دین کی توثیق اور تصدیق تک ہی محدود ہیں۔ لوگوں کے ویلٹس اور ان کے مال پر نوڈس کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
• دوسرے وہ جو اس مخصوص سافٹ ویر کا کوڈ لکھتے ہیں اور اس میں کچھ تبدیلیاں یا اضافے کرتے ہیں۔ یہ کام بھی نوڈس کے اتفاق سے ہی انجام پاتا ہے۔
• تیسرے عام لوگ جو بٹ کوائن ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ یہ استعمال بھی ایک سافٹ ویر کی مدد سے کیا جاتا ہے جسے ویلٹ (Wallet) کہا جاتا ہے۔
اس نیٹ ورک کی کارکردگی میں دنیا کا کوئی بھی شخص اپنا حصہ ادا کر سکتا ہے، چاہے وہ توثیق و تصدیق کا کام ہو یا سافٹ ویر میں اضافہ و تبدیلی کا کام ہو۔ اس میں کسی مخصوص شخص یا کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اس میں سارے نوڈس یکساں ہیں اور سب فیصلے انہی کے باہمی اتفاق سے کیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا نیٹ ورک کس طرح کام کرتا ہے اور اس میں ان بنیادی اصولوں کو عملاً کس طرح نافذ کیا گیاہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے اس نیٹ ورک پر ہونے والے تمام مراحل کو ان کی زمانی ترتیب کے ساتھ اجمالاً بیان کیا جائے گا جو کسی بھی لین دین (Transaction) کی تکمیل کے دوران واقع ہوتے ہیں۔ البتہ اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ماضی میں ہوچکے لین دین (Transactions) کی نقل (Copy) تمام نوڈس کے پاس محفوظ ہوتی ہے۔ ہر نوڈ کو اس کا تو علم ہوتا ہے کہ لین دین کرنے والے فرد کے پاس کتنے بٹ کوائنس موجود ہیں لیکن انہیں ان افراد کی کوئی نجی معلومات نہیں ہوتیں۔ وہ انہیں ان کے مخصوص ویلٹ کے اڈریس (Wallet Address) سے ہی جانتے ہیں۔
اس نیٹ ورک میں لوگ جب بٹ کوائن ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں تو اس لین دین میں واقعات کی ترتیب کچھ اس طرح ہوتی ہے:
1. ایک یا ایک سے زائد لین دین (Transactions) کی درخواست تمام نوڈس کو براڈ کاسٹ کی جاتی ہے۔
2. نیٹ ورک میں موجود تمام نوڈس کو جب یہ درخواست ملتی ہے تو سب اس کی توثیق کرتے ہیں کہ بھیجنے والے کے پاس واقعی اتنی تعداد میں بٹ کوائن ہیں کہ وہ انہیں بھیج سکے۔ اس کے علاوہ کچھ تکنیکی امور کی بھی توثیق کی جاتی ہے جیسے ریکوسٹ سگنیچر، بھیجنے اور وصول کرنے والوں کے ویلٹ اڈریس وغیرہ۔
3۔ جب کوئی نوڈ کامیابی کے ساتھ ٹرانزیکشن کی توثیق کر لیتا ہے تو وہ ان سارے ٹرانزیکشنس کو ایک بلاک میں جمع کرکے دوسرے نوڈس میں برڈکاسٹ کر دیتا ہے۔
4۔ جب دوسرے نوڈس کو یہ بلاک وصول ہوتے ہیں تو وہ اس بلاک (Block) اور اس میں موجود تمام ٹرانزیکشنس کی تصدیق کرتے ہیں۔
5. اگر اس بلاک اور اس میں موجود تمام ٹرانسیکشنس کی تصدیق پر سارے نوڈس کا اتفاق ہوجاتا ہے تب بلاک میں موجود ٹرانزیکشنس کامیاب ہوجاتے ہیں اور سارے نوڈس اس بلاک کو اپنے پاس پہلے سے موجود بلاکس میں منسلک کرلیتے ہیں جس سے بلاک چین (Blockchain) وجود میں آتا ہے۔ اس کے بعد کوئی بھی اس بلاک میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتا۔
6۔ کچھ مواقع پر اگر اس بلاک کی تصدیق میں سب نوڈس کا اتفاق نہ ہو تو اس بلاک میں سے ایسے ٹرانزیکشنس کو فراڈ قرار دے کر نکال دیا جاتا ہے جس پر تمام نوڈس میں اتفاق نہ ہو سکا۔ اس کے بعد دوبارہ اس نئے بلاک کو براڈکاسٹ کیا جاتا ہے اور پھر وہی چیز دہرائی جاتی ہے۔
سارے ٹرانزیکشنس انہیں مراحل سے گزرتے ہیں اور بلاک چین کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ ان مراحل اور اس میں اہم کردار ادا کرنے والے نوڈس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس میں کسی بھی نوڈ کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی کسی مخصوص نوڈ پر اعتماد کی بنیاد پر معاملات انجام پاتے ہیں۔ بلکہ یہاں سارے معاملات نوڈس کے باہمی اتفاق اور ثبوت کی بنیاد پر تکمیل پاتے ہیں۔ اور یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ اس نیٹ ورک میں نوڈ بننے کا حق دنیا کے ہر شخص کو حاصل ہے۔دنیا میں یہ نیٹ ورک اسی وقت مضبوط ہوگا جب اس میں ایمان دار نوڈس کی تعداد زیادہ ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل قریب میں بٹ کوائن کا یہ نظام موجودہ روایتی کرنسی کے مکمل متبادل کے طور پر جاری ہو جائے گا اور کیا لوگوں کو بینکوں کی اجارہ داری سے آزادی مل جائے گی؟ کیا حکومتیں اس نظام کے تحت لین دین کو تسلیم کرکے بین الاقوامی سطح پر ہر قسم کے لین دین کی اجازت دے دیں گی؟ ان سوالات کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔ لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ بٹ کوائن کا یہ نظام بڑی تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔
***
***
سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل قریب میں بٹ کوائن کا یہ نظام موجودہ روایتی کرنسی کے مکمل متبادل کے طور پر جاری ہو جائے گا اور کیا لوگوں کو بینکوں کی اجارہ داری سے آزادی مل جائے گی؟ کیا حکومتیں اس نظام کے تحت لین دین کو تسلیم کرکے بین الاقوامی سطح پر ہر قسم کے لین دین کی اجازت دے دیں گی؟ ان سوالات کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔ لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ بٹ کوائن کا یہ نظام بڑی تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024