الیکشن کمیشن نے شیوسینا کے ایک ناتھ شندے کی قیادت والے دھڑے کو ’’دو تلواریں اور ڈھال‘‘ کا نشان تفویض کیا
نئی دہلی، اکتوبر 11: الیکشن کمیشن نے منگل کے روز مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے کی قیادت والی پارٹی کے دھڑے بالا صاحبانچی شیو سینا کو ’’دو تلواریں اور ڈھال‘‘ کا نشان الاٹ کیا۔
شندے کی قیادت والے دھڑے نے آج دن کے اوائل میں تین نشانات، پیپل کا درخت، چمکتا ہوا سورج اور ڈھال اور دو تلواریں، پولنگ باڈی میں جمع کرائی تھیں۔
ہفتے کے روز الیکشن کمیشن نے ایک عبوری حکم میں شیو سینا کے دونوں دھڑوں شندے اور سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کی قیادت والوں کو اندھیری ایسٹ اسمبلی کے ضمنی انتخاب کے لیے پارٹی کا نام اور اس کے ’’تیر‘‘ کا نشان استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے پیر کو ٹھاکرے کی قیادت والے دھڑے کو جلتی ہوئی مشعل کا نشان الاٹ کیا اور اسے شیوسینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے) کے طور پر تسلیم کیا۔
پولنگ پینل نے پہلے شندے کی قیادت والے دھڑے کے انتخابی نشان کے لیے ’’ترشول‘‘، ’’گدا‘‘ اور ’’ابھرتا ہوا سورج‘‘ کے نشانات کو مسترد کر دیا تھا۔
شیو سینا جون میں دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی، جب شندے اور پارٹی ایم ایل اے کے ایک گروپ نے سابق مہاراشٹر حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔
ایک ہفتہ سے زیادہ کے سیاسی ڈرامے کے بعد مہا وکاس اگھاڑی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا کیوں کہ ٹھاکرے کا دھڑا ریاستی اسمبلی میں اقلیت میں رہ گیا تھا۔ شندے نے 30 جون کو مہاراشٹر کے وزیر اعلی کے طور پر حلف لیا تھا، جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دیویندر فڈنویس نے ان کے نائب کے طور پر حلف لیا تھا۔
دریں اثنا مہاراشٹر کے وزیر دیپک کیسرکر نے ٹھاکرے کے زیرقیادت دھڑے پر شہریوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا۔
انھوں نے کہا ’’وہ (ادھو ٹھاکرے) کہہ رہے ہیں کہ 40 ایم ایل ایز کی وجہ سے نشان ضبط کر لیا گیا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ وہ ان 40 ایم ایل ایز کی وجہ سے سی ایم بنے تھے۔ ہم چلے گئے کیوں کہ سینا ہندوتوا چھوڑ رہی تھی۔ ایم ایل ایز نے آپ کو خبردار کیا لیکن آپ نے ان کی بات نہیں سنی۔ آپ جو کچھ ہوا اسے روک سکتے تھے۔ لوگوں کے سامنے سچ بولیں۔‘‘
اتوار کو ٹھاکرے نے پارٹی کارکنوں سے ایک خطاب میں کہا تھا کہ شندے کی قیادت والے دھڑے کو اپنی انتخابی مہم میں پارٹی کے بانی بال ٹھاکرے کا نام استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر متوقع ہے تاہم انھوں نے مزید کہا کہ وہ عدلیہ پر یقین رکھتے ہیں۔