الیکشن کمیشن، کب لے گا ایکشن ؟
!وزیر اعظم کے منہ سے نکلنے والے جملے اقتدار سے بے دخلی کے ڈر کا نتیجہ تو نہیں
شہاب الرحمٰن فضل،لکھنؤ
مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر عوامی مسائل پر کہنے کے لیے کچھ نہ ہو تو پھر ہندو-مسلم اور شمال و جنوب ہی آخری حربہ رہ جاتا ہے
لوک سبھا انتخابات کی تشہیری مہم میں جہاں مختلف جماعتوں کے لیڈر الزامات اور دعوؤں کی جھڑی لگائے ہوئے ہیں اس میں مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی اور اس کے حلیفوں کے امیدواروں کے لیے اس مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک الگ طرح کا انداز اپنا رکھا ہے جو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ عالمی میڈیا میں بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے اور یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان شخص کو انتخابی ضابطہ اخلاق کے حوالے سے کچھ خاص مراعات حاصل ہیں یا انہیں کچھ بھی کہنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے؟
گزشتہ دنوں راجستھان میں ایک انتخابی ریلی کے دوران وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کے لیے واضح طور پر ایسی زبان کا استعمال کیا جس پر غیر جانبدار حلقوں نے سخت اعتراضات کیے۔ وزیر اعظم نے مسلمانوں کو در انداز کہا اور ان پر طنزیہ تیر برسائے۔ عوامی پلیٹ فارم پر وزارت عظمیٰ جیسے ذمہ دار عہدے پر براجمان شخص کی زبان اگر زہر آلود اور آتشیں ہوگی تو پھر دیگر عوامی نمائندے بھی پبلک پلیٹ فارموں پر زہر اگلنے اور نفرت پھیلانے کا حوصلہ دکھائیں گے۔ اسی پہلو سے بین الاقوامی میڈیا میں وزیر اعظم کے جملوں اور ان کے لب و لہجہ کو نفرت انگیز قرار دیا گیا، کیوں کی اس سے نفرت اور مزید اشتعال انگیزی کو ہوا مل سکتی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اب ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ انہوں نے پچھلے دنوں پورو آنچل یعنی مشرقی اتر پردیش کے ضلع جونپور میں ایک انتخابی ریلی کے دوران یہ الزام لگایا کہ کانگریس، سماجوادی پارٹی اور ان کی حلیف جماعتوں یعنی انڈیا اتحاد کے رہنماؤں نے جنوبی ہند میں اپنی انتخابی تقریروں میں پوروآنچل کے لوگوں کی توہین کی ہے۔ پی ایم مودی نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اتحاد کے رہنما تشٹی کرن یعنی منہ بھرائی میں لگے ہوئے ہیں، وہ یہاں تو آپ سے ووٹ مانگتے ہیں اور دوسری طرف جنوبی ہند میں اتر پردیش کے لوگوں کو اور سناتن دھرم کو گالی دیتے ہیں۔ وزیر اعظم اسی پر نہیں رکے بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا ’’ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کا جو ریزرویشن آپ کو ملا ہوا ہے، انڈیا گٹھ بندھن کے لوگ اس پر ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہیں اور انہوں نے کرناٹک میں ایسا کر بھی دیا ہے۔ کرناٹک میں جتنے مسلمان تھے چاہے جتنے بھی خوش حال ہوں یا پڑھے لکھے ہوں، انہوں نے راتوں رات سبھی مسلمانوں کو ایک حکم سے او بی سی بنا دیا۔ اس ماڈل کو یہ پورے ملک میں لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہاں آکر آپ سے ووٹ مانگتے ہیں اور جنوبی ہند میں جا کر اتر پردیش کے لوگوں کی توہین کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں۔ یہ لوگ سناتن دھرم کو گالیاں دلواتے ہیں۔ ان کے ساتھی، ڈی ایم کے، کے لوگ ہوں، کیرالا میں لیفٹ کے لوگ ہوں، کرناٹک اور تلنگانہ میں کانگریس کے لوگ ہوں، جب یہ یوپی کے لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں تو سپا اور کانگریس والے یہاں اپنے کان میں روئی ڈال لیتے ہیں‘‘۔
وزیر اعظم کی ایسی تقریروں کو دروغ گوئی اور بوکھلاہٹ کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان کا کہنا ہے کہ پی ایم نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ کے منصب اور عہدے کے وقار کو جتنا گرایا ہے اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا ’’وزیر اعظم کو اشاروں اور کنایوں میں بھی ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جس سے وزیر اعظم کے عہدے کا وقار مجروح ہو، مگر یہ اصول ان لوگوں کے لیے ہیں جنہیں اصولوں کا کچھ پاس و لحاظ ہو۔ کرسی کو حاصل کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں، چنانچہ یہ نفرت کی آگ میں ملک کو وہاں لے جائیں گے جہاں سے واپسی نہایت مشکل ہوگی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ دروغ گوئی میں نریندر مودی نے ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ ’’کرناٹک کے پچھلے اسمبلی الیکشن میں انہوں نے بہت ہندو-مسلم کیا اور عوام کے ذہنوں کو مسموم کرنے اور انہیں گمراہ کرنے کی پوری کوشش کی مگر ناکامی ہی ہاتھ آئی۔ اور اب وہی سلسلہ لوک سبھا انتخابات میں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ انتخابات کے دوسرے اور تیسرے مرحلہ کی پولنگ کے بعد شاید پی ایم مودی اور ان کی پارٹی کو اندازہ ہوگیا ہے کہ ہوا کا رخ ان کے موافق نہیں ہے، لہٰذا وہ بھڑکاؤ انداز میں عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنا چاہتے۔ وہ ہندو مسلم اور ساؤتھ-نارتھ اسی لیے کر رہے ہیں کیوں کہ ان کے پاس مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر عوامی مسائل پر کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
پوروآنچل کے ضلع جونپور سے تعلق رکھنے والے مسٹر فیضان نے کہا کہ قانونی پہلو سے وزیر اعظم انتخابی ضابطہ اخلاق سے مبرا نہیں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس وقت بی جے پی کا ایک وِنگ ہوکر رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح کی تقریر اگر اپوزیشن کا کوئی لیڈر کر دے تو اس کی شامت آجائے گی مگر پی ایم مودی، ایچ ایم امیت شاہ اور سی ایم یوگی کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور یہ ملک میں گرتے ہوئے معیارات و ضوابط کا ایک ثبوت ہے جس پر روک لگنی چاہیے۔
سپریم کورٹ کے وکیل نے کہا کہ خاص طور سے مسلمانوں کے دل میں چبھنے والی اور جذبات کو مجروح کرنے والی باتیں اسی لیے کہی جا رہی ہیں تاکہ ووٹر اصل مسائل سے بھٹک جائیں۔
یاد رہے کہ حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے محض سو برس بعد ہی ہندوستان میں مسلمانوں کے قدم پڑ گئے تھے اور آج اتنی صدیاں گزر گئی ہیں مگر مسلمان یہاں صرف اٹھارہ فیصد ہی ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی اور اس کی حاشیہ بردار تنظیموں کے لوگ باربار یہ کہ کر عوام کو ورغلاتے ہیں کہ مسلمان چند برسوں میں یہاں اکثریت میں ہوجائیں گے۔ زیڈ کے فیضان کے بقول مسلمانوں کے خلاف بیانات یا نارتھ-ساؤتھ کے بہانے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش وزیر اعظم مودی اور ان کی ٹیم کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے، اس میں کرسی جانے کا ڈر صاف دیکھا جاسکتا ہے ۔
اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر اور سماجی کارکن محمد طارق شمیم نے کہا کہ پی ایم مودی کی پالیسی ہی ڈیوائیڈ اینڈ رول (تقسیم کرو اور راج کرو) کی پالیسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس و بی جے پی کی پالیسی منفی ذہنیت پر مبنی ہے، لوگوں کو لڑانا اور اس سے فائدہ اٹھانا ان کی پرانی روش ہے، لہٰذا جنوب میں شمال کے لوگوں کو گالی دینے کا الزام اپوزیشن کے لوگوں پر ڈالنا اور انہیں بھڑکانا اسی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بھاجپا کے پاس ملک کے ہندو عوام کو دینے کے لیے اصل میں کیا ہے؟ سوائے شمشان، قبرستان، پاکستان اور مسلمان کے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، ان کا مقصد مسلمانوں کو اشتعال دلانا اور ہندوؤں کو گمراہ کرنا ہے، کیونکہ ان کے پاس روٹی، کپڑا، مکان اور تعلیم و علاج کے محاذ پر عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ طارق شمیم نے رواں لوک سبھا انتخابات میں زمینی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت بی جے پی کی زمین کھسکی ہوئی ہے اور مودی، امیت شاہ اور ان کی پارٹی کو اس کا اندازہ ہو چکا ہے ۔اب بپھرے ہوئے ووٹروں کو ایک بار پھر یہ پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی جھلّاہٹ میں کبھی رام مندر اور دفعہ 370 کی دہائی دیتے ہیں تو کبھی جنوبی ہند میں اتر پردیش کے لوگوں کو اپوزیشن کے لیڈروں کے ذریعہ گالی دیے جانے کی بات کہہ کر بھڑکاتے ہیں۔ اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اگلنا تو ان کے لیے معمول کی بات ہو چکی ہے۔ مسلمانوں کو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خاموشی اور صبر کے ساتھ ووٹوں کے ذریعہ اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔
لکھنؤ کے سماجی کارکن اور غیر سرکاری تنظیم ’ایشو‘ کے بانی سکریٹری محمد خالد نے نارتھ-ساؤتھ کے حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان کو عام ووٹروں کو اپنے سے باندھنے کا ایک حربہ قرار دیا۔انہوں نے کہاکہ بھاجپا کی حالت نہایت ہی نازک ہو چکی ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اسی لیے وزیر اعظم کی زبان سے ایسی ایسی باتیں نکل رہی ہیں جو مضحکہ خیز ہیں اور حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ووٹروں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے انتخابی تشہیر کے نام پر جھوٹ اور سچ کا فرق ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عوامی عہدوں پر فائز افراد کی ایسی جرأت اور عوام کی ایسی سادہ لوحی ملک کی جمہوریت کو کمزور کر دے گی۔ الیکشن کمیشن کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور اشتعال انگیز بیانات کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی گردانتے ہوئے اپنی سطح پر کارروائی کرنی چاہیے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024