کے ذریعے فروغBIMSTEC علاقائی اقتصادی تعاون کا

UPI سے لے کر ڈیزاسٹر مینجمنٹ تک: بھارت کے جامع اقدامات

اسد مرزا، سینئر سیاسی تجزیہ نگار

تھائی لینڈ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات: بھارت کی Look East پالیسی کو تقویت
سارک کی ناکامی کے بعد بھارت کا BIMSTEC پر فوکس: علاقائی تعاون کی نئی حکمت عملی
حالیہ BIMSTEC سمٹ 2025 میں مختلف رکن ممالک کے رہنما علاقائی تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے پر امید نظر آئے، جس کے لیے BIMSTEC چیمبر آف کامرس کے قیام کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے BIMSTEC چوٹی کانفرنس میں علاقائی تعاون کو فروغ دینے، خطے کی ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے 20 سے زیادہ تجاویز کی نشاندہی کی تھی۔
اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ BIMSTEC جامع ترقی اور اجتماعی سلامتی کا ایک نمونہ ہے اور یہ محض ایک علاقائی تنظیم نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پچھلے دنوں BIMSTEC چوٹی کانفرنس کے دوران 20 سے زیادہ تجاویز کی نشاندہی کی، جن کے ذریعے علاقائی سلامتی سے متعلق وزرائے داخلہ کے ملنے کے طریقہ کار سے لے کر UPI سے منسلک ادائیگی کے طریقہ کار تک، توانائی کے فروغ کے لیے نئے منصوبے اپنانے سے لے کر ایک نئے چیمبر آف کامرس کے قیام تک کی تجاویز شامل تھیں۔
بنکاک میں چھٹویں BIMSTEC چوٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ایم مودی نے کہا کہ ’’BIMSTEC جنوبی ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا کے درمیان ایک اہم پل کے طور پر کام کرتا ہے اور علاقائی رابطے، تعاون اور مشترکہ خوشحالی کو آگے بڑھانے کے لیے ایک طاقتور پلیٹ فارم کے طور پر ابھر رہا ہے۔ یہ انتہائی اطمینان کی بات ہے کہ BIMSTEC چارٹر گزشتہ سال نافذ ہوا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ بنکاک ویژن 2030 جسے ہم آج اپنا رہے ہیں، ایک خوشحال، محفوظ اور جامع خلیج بنگال کے خطے کی تعمیر کے لیے ہمارے مشترکہ عزم کو آگے بڑھائے گا۔ یہ بتاتے ہوئے کہ ’BIMSTEC سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا پرایاس’ کے جذبے کو یکجا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "یہ ہمارے مشترکہ وعدوں اور ہمارے اتحاد کی مضبوطی کا ثبوت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر یکجہتی، تعاون اور باہمی اعتماد کے جذبے کو مضبوط کرتے رہیں گے اور BIMSTEC کو مزید بلندیوں تک لے جائیں گے۔”
اس کے ساتھ ہی آگے بڑھنے کا ایک اور اقدام کرتے ہوئے ہندوستان نے تھائی لینڈ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو اسٹریٹجک سطح تک بڑھانے کا اعلان کیا اور اس طرح خلیج بنگال کے علاقائی فورم یعنی BIMSTEC کو ایک نئی تحریک بھی دی۔ہند-تھائی تعلقات کو اس فروغ کے ساتھ، وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان کی ایکٹ ایسٹ پالیسی کو مضبوط کیا ہے اور بین علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے ہندوستان کے اقدامات کو مزید مضبوط کیا ہے۔
ہندوستان نے 2016 میں سارک سربراہی اجلاس منسوخ ہونے کے بعد BIMSTEC کو بحال کیا تھا۔ اڑی، کشمیر میں پاکستان کی سرپرستی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان نے سارک سربراہی اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ پاکستان BIMSTEC گروپ کا رکن نہیں ہے جس میں بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، میانمار، نیپال، سری لنکا اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جو خلیج بنگال سے وابستہ ہیں۔
یہاں جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ تھائی لینڈ کے ساتھ ہندوستان کے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانا ہے کیونکہ یہ BIMSTEC فورم کے احیاء کی ایک اچھی علامت ہے کیونکہ سارک تقریباً معدوم ہونے کے بعد سے پاکستان نے علاقائی تعاون کے فورم سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کے رویے نے مودی حکومت کو BIMSTEC کو دوبارہ شروع کرنے اور ایک چارٹر کی شکل میں BIMSTEC کو زیادہ سے زیادہ ادارہ جاتی بنانے کی راہ ہموار کرنے اور مختلف شعبوں میں زیادہ مخصوص تعاون کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔ BIMSTEC کے بنکاک سربراہی اجلاس میں سمندری حمل و نقل کے تعاون کے معاہدے کے اختتام اور فورم میں ایک ویژن دستاویز کو اپنایا گیا۔ تجارت اور کاروبار پر مودی نے BIMSTEC چیمبر آف کامرس کے قیام کی تجویز پیش کی۔ مزید برآں، زیادہ سے زیادہ اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک سالانہ BIMSTEC بزنس سمٹ منعقد کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔
انہوں نے ہندوستان کے یونیفائیڈ پیمنٹس انٹرفیس (UPI) اور BIMSTEC کے رکن ممالک کے ادائیگی کے نظام کے درمیان رابطہ قائم کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔ مودی نے ہندوستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لیے ایک BIMSTEC سنٹر آف ایکسیلنس کے قیام کی تجویز بھی پیش کی۔ یہ مرکز آفات کی تیاری کے علاوہ راحت رسانی کی کوششوں میں تعاون میں سہولت فراہم کرے گا۔ مزید برآں، BIMSTEC ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے درمیان چوتھی مشترکہ مشق اس سال کے آخر میں ہندوستان میں منعقد کی جائے گی۔
مودی نے BIMSTEC کے آنے والے نئے چیئرمین کے طور پر بنگلہ دیش کا پرتپاک خیر مقدم بھی کیا۔
سربراہی اجلاس نے چھٹویں BIMSTEC سربراہی اجلاس کا اعلامیہ بنکاک وژن2030‘‘ کو اپنایا، جو BIMSTEC کے رکن ممالک کے درمیان مستقبل کے تعاون کے لیے ایک جامع اور عملی روڈ میپ فراہم کرنے والا پہلا وژن دستاویز ہے۔ اجلاس نے ’’BIMSTEC میکانزم کے طریقہ کار کے قواعد‘‘ کو بھی اپنایا جس نے چارٹر کے ساتھ مل کر BIMSTEC کے تحت علاقائی تعاون کے لیے ادارہ جاتی فریم ورک کی بنیاد رکھی ہے۔
علاقائی رہنماؤں نے BIMSTEC کے مستقبل کی سمت طے کرنے کے لیے ماہرین کے گروپ کی رپورٹ کو بھی اپنایا۔ دستاویز میں آزاد تجارتی معاہدوں (FTAs) کے ذریعے تجارت کو بڑھانے، تجارتی سہولت کاری کے اقدامات، سنگل ونڈو سسٹم کو لاگو کرنے اور ملٹی موڈل کنیکٹیویٹی حکمت عملی تیار کرنے کی سفارشات شامل ہیں، جن کا مقصد علاقائی تجارت کو ہموار کرنا ہے۔
سنٹر فار پالیسی ڈائیلاگ کے ایک معزز فیلو پروفیسر مستفیض الرحمان نے کہا ’’اگر اس دستاویز کو اپنایا جاتا ہے تو یہ علاقائی تعاون کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے بہت اہم ثابت ہو گا۔‘‘بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر کے پریس سیکرٹری شفیق العالم نے کہا کہ’’چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس علاقائی تعاون، اقتصادی ترقی اور عوام سے عوام کے رابطے کے لیے ایک بہترین وکیل ہیں۔ وہ تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور تمام علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کو ترجیح دیں گے۔‘‘
تاہم، خارجہ پالیسی کے تجزیہ کاروں اور اقتصادی ماہرین کے مطابق، BIMSTEC نے اپنے 27 سال کے سفر میں کچھ زیادہ حاصل نہیں کیا ہے۔ BIMSTEC کے اراکین کا مشترکہ اقتصادی حجم تقریباً 4.7 ٹریلین ڈالر ہے جو بین ملکی تجارت کو فروغ دینے کے لیے بلاک کی وسیع صلاحیت کو اجاگر کرتا ہے، لیکن اس کی علاقائی تجارت اس کی کل تجارت کا صرف 7 فیصد ہے جو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن (آسیان) کا صرف 25 فیصد ہے۔
پروفیسر مستفیض الرحمان نے کہا کہ BIMSTEC کے فریم ورک معاہدے پر 2004 میں دستخط ہوئے تھے لیکن ابھی تک آزاد تجارتی معاہدے (FTA) پر دستخط نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک اہم تجارتی مسائل خاص طور پر اشیاء خورد و نوش اور خدمات میں اصل اور تجارت کے اصولوں کے بارے میں اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر سیلم ریحان نے کہا کہ BIMSTEC کے لیے ایک اہم رکاوٹ رکن ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے سیاسی عزم کی کمی ہے۔ کیونکہ بڑے ممالک نے مستقل طور پر سیاسی عزم کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی ضرورت ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے درکار ہے، اسی طرح چھوٹے ممالک نے بھی BIMSTEC کو خاطر خواہ ترجیح نہیں دی ہے۔‘‘
پروفیسر رحمان نے ٹرمپ انتظامیہ کے عالمی سطح پر زیادہ محصولات عائد کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اراکین کے درمیان سیاسی یا دو طرفہ مسائل کے باوجود تجارتی اور اقتصادی تعاون جاری رہ سکتا ہے۔ علاقائی انضمام پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے کیونکہ تجارتی جنگ عروج پر ہے۔‘‘
مجموعی طور پر جس طریقے سے پوری دنیا میں اس وقت تجارتی اتھل پتھل مچی ہوئی ہے، اس پس منظر میں علاقائی تنظیموں یا اتحاد کے ذریعے کاروبار اور معیشت کو فروغ دینا مختلف رہنماؤں کی اولین ترجیح بن گئی ہے۔کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کسی ایک بڑے ملک پر انحصار کرکے آپ اپنی معیشت کو زیادہ کامیاب نہیں بنا سکتے ہیں بلکہ اس کے لیے پہلے علاقائی سطح پر متحد اور کامیاب ہونا زیادہ اہم ہے اور یہی پی ایم مودی کی Look East Policy کا محور ہے۔

 

***

 پوری دنیا میں اس وقت تجارتی اتھل پتھل مچی ہوئی ہے، اس پس منظر میں علاقائی تنظیموں یا اتحاد کے ذریعے کاروبار اور معیشت کو فروغ دینا مختلف رہنماؤں کی اولین ترجیح بن گئی ہے۔کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کسی ایک بڑے ملک پر انحصار کرکے آپ اپنی معیشت کو زیادہ کامیاب نہیں بنا سکتے ہیں بلکہ اس کے لیے پہلے علاقائی سطح پر متحد اور کامیاب ہونا زیادہ اہم ہے اور یہی پی ایم مودی کی Look East Policy کا محور ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025