یکسانیت قوموں کے زوال کی طرف اشارہ کرتی ہے:گولوالکر

23 اگست 1972 کو آر ایس ایس کے سرسنچالک گرو گولوالکرکا آر ایس ایس کے انگریزی اخبار ’’آرگنائزر‘‘ میں انٹرویو شائع ہوا۔ اس انٹرویو کو آر ایس ایس کے حامی مشہور صحافی کے آر ملکانی نے لیا تھا۔یکساں سول کوڈ کے حوالے سے انہوں نے اس انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا اس کو پڑھ کر کوئی بھی یقین نہیں کر سکتا ہے کہ یہ انٹرویو آر ایس ایس کے کسی سرسنچالک کا ہوسکتا ہے۔ اس انٹرویو سے واضح ہو جاتا ہے کہ ملک میں یکجہتی کے لیے یکساں سول کوڈ نافذ نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ آر ایس ایس اور بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر تہذیبی و ثقافتی غلبے کا یہ اہم ذریعہ ہے۔انٹرویو ملاحظہ کریں۔
ملکانی: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ قوم پرستی کے احساس کو پروان چڑھانے کے لیے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی ضرورت ہے؟
گولوالکر: مجھے ایسا نہیں لگتا۔ اس مسئلے پر میں جو کچھ کہتا ہوں وہ آپ کو اور بہت سے لوگوں کو حیران کر سکتا ہے، لیکن یہ میرا خیال ہے۔ اور مجھے سچ بولنا چاہیے جیسا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔
ملکانی: کیا آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے یکسانیت کی ضرورت ہے؟
گولوالکر: ہم آہنگی اور یکسانیت دو مختلف چیزیں ہیں۔ ہم آہنگی کے لیے یکسانیت ضروری نہیں ہے۔ ہندوستان میں ہمیشہ لا محدود تنوع رہا ہے۔ اس کے باوجود ہماری قوم زمانہ قدیم سے مضبوط اور منظم رہی ہے۔ اتحاد کے لیے ہم آہنگی کی ضرورت ہے، یکسانیت کی نہیں۔
ملکانی: لیکن کیا مغرب میں قوم پرستی کا عروج یکساں قوانین کے نفاذ کے ساتھ وابستہ نہیں ہے؟
گولوالکر: یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عالمی منظر نامے پر یورپی قوم پرستی کی آمد ایک حالیہ واقعہ ہے۔ یورپی تہذیب بھی ایک نئی چیز ہے۔ اس کا وجود پہلے بھی نہیں تھا اور شاید آئندہ بھی نہیں رہے گا۔ میری نظر میں فطرت کو ضرورت سے زیادہ یکسانیت پسند نہیں ہے۔ لہٰذا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ضرورت سے زیادہ یکسانیت پر مبنی مغربی تہذیب کا مستقبل کیا ہوگا؟ میں سمجھتا ہوں کہ تنوع اور اتحاد ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور وہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔
ملکانی: کیا آپ کو یقین نہیں ہے کہ مسلمان یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ اپنا الگ وجود برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟
گولوالکر: میرا کسی بھی ذات، برادری یا طبقے سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ جو اپنی انفرادی شناخت یا وجود کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، جب تک کہ علیحدہ وجود کی خواہش انہیں قوم پرستی کے احساس سے دور کرنے کا سبب نہ بن جائے۔ میرے خیال میں، بہت سے لوگوں کو یکساں سول کوڈ کی ضرورت کا احساس ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی غیر متناسب طریقے سے بڑھ رہی ہے کیونکہ ان کے مردوں کو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ مجھے سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ کو دیکھنے کا ایک منفی طریقہ ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کا فقدان ہے۔ یہاں تک کہ اپنے آپ کو سیکولر کہنے والے بھی اپنے تمام خیالات کو اس عقیدے پر قائم کرتے ہیں کہ مسلمان ایک الگ کمیونٹی ہیں۔ انہوں نے یقینی طور پر مسلم ووٹ بینک پر قبضہ کرنے کے لیے خوشامد کی پالیسی اختیار کی ہے۔ جو لوگ خوشامد کی اس پالیسی کے مخالف ہیں وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ مسلمان ایک الگ کمیونٹی ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی الگ شناخت مٹ جائے اور وہ یکسانیت میں سما جائیں۔خوشامد کے حامی اور یکسانیت کے حامیوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ مسلمان الگ ہیں اور انضمام نہیں چاہتے۔ میرا نقطہ نظر بالکل مختلف ہے۔ جب تک مسلمان اس قوم اور اس کی ثقافت سے پیار کرتے ہیں، انہیں اپنے طرز زندگی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔
ملکانی: کیا ہماری مسلمان بہنوں کو پردہ اور تعدد ازدواج کا شکار ہونے دینا مناسب ہے؟
گولوالکر: اگر مسلمانوں کے رسوم و رواج پر آپ کا اعتراض انسانیت کے وسیع نظریات پر مبنی ہے تو یہ مناسب ہے۔ ان معاملات میں اصلاحی نقطہ نظر اختیار کرنا خوش آئند ہے۔ لیکن قوانین کو تبدیل کرکے مساوات لانے کی کوشش کرنا مناسب نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ مسلمان خود اپنے فرسودہ قوانین اور رسم و رواج کی اصلاح کریں۔ مجھے خوشی ہوگی اگر وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ تعدد ازدواج ان کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن میں ان پر اپنے خیالات مسلط نہیں کرنا چاہوں گا۔
کے آر ملکانی کو اس طرح کے جوابات کی امید نہیں تھی اس لیے وہ آخری سوال میں کہتے ہیں کہ یہ سوالات زیادہ فلسفیانہ ہو گئے ہیں؟
گولوالکر: یقیناً، یہ گہرے فلسفیانہ ہیں۔ میرا پختہ یقین ہے کہ یکسانیت قوموں کے زوال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ فطرت یکسانیت کو قبول نہیں کرتی۔ میں زندگی کے متنوع طریقوں کے تحفظ کے حق میں ہوں۔ ساتھ ہی ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ یہ تنوع قوم کے اتحاد کو پروان چڑھائے۔ انہیں قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔
(نوٹ: مشہور صحافی خشونت سنگھ کو 17 نومبر 1972 میں جو اس وقت The Illustrated Weekly of Indiaکے ایڈیٹر تھے اور 1971 میں صحافی اور عربی اسکالر ڈاکٹر سیف الدین جیلانی کو دیے گئے انٹرویو میں گولوالکر نے مسلمانوں کے متعلق جو باتیں کہی تھی وہ بہت ہی اہم ہیں اور ان کے یہ انٹرویوز آج کے آر ایس ایس قائدین کے لیے تازیانہ بھی ہیں۔)

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023