یکساں سِول کوڈ، ون نیشن ون الیکشن اور سیکولر سِول کوڈ
عوامی جلسوں میں حساس موضوعات پر وزیراعظم کے دعوے خلافِ منصب اشاریے
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآباد
عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹا کر انہیں گمراہ کرنے کی دانستہ کوشش
پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے اکثریت کہاں سے لائی جائے گی؟
ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک کو کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے وزیر اعظم نریندرمودی ملک کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے موضوعات پر اظہار خیال کر رہے ہیں جو نہ عوام کے لیے فائدہ مند ہیں اور نہ اس سے ملکی مسائل کا کوئی حل نکل سکتا ہے۔ متنازعہ اور غیر ضروری مباحث میں عوام کو الجھائے رکھنا دراصل وزیر اعظم کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ لیکن یہ انداز حکم رانی زیادہ دن نہیں چل سکتا۔ ملک کی عوام مہنگائی اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل سے پریشان ہے اور وہ مودی حکومت سے امید لگائے بیٹھی ہے کہ کم از کم اس تیسری معیاد کے دوران عوام کو ان مسائل سے چھٹکارا دلانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کرے گی۔ اس کے برعکس وزیراعظم ایک قوم ایک انتخاب اور یکساں سِول کوڈ جیسے شوشے چھوڑ کر عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے ہٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی149ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ مرکز کی این ڈی اے حکومت بہت جلد ایک قوم ایک انتخاب کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن میں اس ضمن میں بل پیش کیا جائے گا۔ ان کا ادعاہے کہ ایک قوم ایک انتخاب سے جمہوریت مستحکم ہوگی۔ وزیرا عظم نے اس عزم کا بھی اظہار کیاکہ ملک میں سیکولر سِول کوڈ بھی عنقریب نافذ کر دیا جائے گا۔ مودی حکومت سرادر پٹیل کے یوم پیدائش کو "راشٹر یہ ایکتا دیوس” کے طور پر مناتی آرہی ہے۔ گجرات میں سردار پٹیل کا ایک قوی ہیکل مجسمہ بھی تیار کیا گیا جس کا نام "Statue of Unity” یعنی مجسمہ اتحاد رکھا گیا۔ وزیر اعظم نے اسی مقام سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ون نیشن ون الیکشن اور یو سی سی بہت جلد حقیقت بن جائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعظم ملک کے ایک قد آور سیاستداں کی یوم پیدائش کے موقع پر جس کو "یوم قومی اتحاد” کے طور پر منانے کا خود مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا، اس دن کم از کم اتحاد اور یکجہتی کا پیغام قوم کو دیتے۔ ملک سے فرقہ واریت اور تعصب کو ختم کرنے کی عوام کو تلقین کرتے۔ اس کے برعکس وزیر اعظم نے اس یادگار موقع پر ایسی باتیں کہی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں ملک کے ایک مخصوص طبقہ کے تعلق سے نفرت اور عناد بھرا ہوا ہے۔ اسی لیے وہ ایسے موقعوں پر متنازعہ باتیں کر کے ملک کے اکثریتی طبقہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ راشٹریہ ایکتا دیوس کے موقع پر اتحاد و اتفاق کی بات کرنے کے بجائے وزیر اعظم نے "یونٹی اسٹیچو” پر خطاب کرتے ہوئے ون نیشن ون الیکشن اور یکساں سِول کوڈ کا ذکر کرکے مستقبل کے ہندوستان کی جھلک بتانے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ان کی تقریر سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کس قسم کے بھارت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے بھارت کو ابھرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جہاں ایک مخصوص مذہب اور ایک مخصوص تہذیب کا ہی بول بولا ہو اور ملک کے تمام شہری اسی کو اپنانے پر مجبور ہوجائیں۔ وزیراعظم کی تقریر کے بین السطور سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ الیکشن کو سامنے رکھتے ہوئے اظہار خیال کررہے ہیں۔ مہاراشٹرا اور جھارکھنڈکے الیکشن کے تناظر میں انہوں نے یکساں سِول کوڈ اور ون نیشن ون الیکشن کا مسئلہ چھیڑ دیا۔
ون نیشن ون الیکشن پر اصرار کیوں؟
ملک کے موجودہ منظر نامے کو دیکھتے ہوئے کیا یہ ممکن ہے کہ سارے ملک میں بیک وقت تمام ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ لوک سبھا کے انتخابات بھی منعقد کیے جائیں۔ ہندوستان جیسی وفاقی جمہوریت میں کیا یہ عمل ریاستوں کے لیے فائدہ بخش ثابت ہوگا؟ بی جے پی کا یہ دعویٰ اگرچہ کہ بظاہر بڑا خوشنما اور پرُ کشش معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلیوں اور لوک سبھا کے بیک وقت الیکشن سے انتخابی اخراجات میں کمی آئے گی اور رائے دہندوں کو بھی بار با ر ووٹ ڈالنے کی زحمت سے چھٹکارا مل جائے گا۔ لیکن کیا بی جے پی حکومت نے اس میں حائل قانونی اور دستوری رکاوٹوں پر قابو پالیا ہے؟ ایک ملک ایک الیکشن کو نافذ کرنے کے لیے دستور میں ترمیمات ضروری ہیں۔ اس کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت ضروری ہے۔ اس وقت مرکز میں ایک مخلوط حکومت ہے۔ بی جے پی کے پاس معمولی اکثریت بھی نہیں ہے۔ اس کو دوسروں کے سہاروں پر حکومت بنانی پڑی۔ ایک ایسی حکومت جو بیساکھیوں پر چل رہی ہو، اس کے وزیراعظم بیک وقت ریاستی اسمبلیوں اور لوک سبھا کے الیکشن کی باتیں کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا کہ وزیر اعظم جان بوجھ کر عوام کی توجہ کو حقیقی مسائل سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں خود اندازہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں یہ ناممکن ہے کہ ایک ملک ایک الیکشن کے نظریے کو نافذ کیا جاسکے۔ بی جے پی نے اپنے 2024 کے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ تیسری مرتبہ اقتدار پر آتی ہے تو ملک میں ایک قوم ایک الیکشن کے نظریہ کو عملی شکل دے گی۔ اس ضمن میں گزشتہ معیاد کے دوران ہی بی جے پی حکومت نے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی۔ 18ستمبر کو مرکزی کابینہ نے اس کی منظوری بھی دے دی۔ اب پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کو یقین ہے کہ یہ بل پارلیمنٹ میں بھی منظور ہوجائے گا۔ اسی لیے انہوں نے دعویٰ کیا کہ بہت جلد یہ ایک حقیقت بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ون نیشن ون الیکشن پر مودی حکومت کا اتنا اصرار کیوں ہے۔ وزیر اعظم ملک میں ایک ایسے نظام کو لانا چاہتے ہیں جہاں اختیارات غیر مرکوز نہ رہیں بلکہ سارے اختیارات مرکز کو حاصل ہوجائیں۔ چنانچہ بیک وقت انتخابات سے علاقائی پارٹیوں کی اہمیت اور معنویت محدود ہوجائے گی۔ پورے الیکشن میں قومی مسائل چھائے رہیں گے۔ علاقائی مسائل پرکوئی سنجیدہ گفتگو نہیں ہوگی۔ قومی پارٹیاں قومی ایجنڈے کو لے کرعوام کے درمیان جائیں گی اور ووٹ بٹورلیں گی۔
علاقائی پارٹیاں بی جے پی کے لیے خطرہ :
بی جے پی کو اس بات کا خدشہ ہے کہ ملک کی علاقائی پارٹیاں اس کے اثر و نفوذ کو کم کرنے میں اہم رول ادا کریں گی۔ 2024 کے لوک سبھا کے الیکشن میں بی جے پی کی امیدوں پر علاقائی پارٹیوں نے ہی پانی پھیر دیا۔ بی جے پی نے 400پار کا نعرہ لگایا تھا لیکن 240پر آکر سمٹ گئی۔ بی جے پی کا خواب اس لیے پورا نہیں ہو سکا کہ مختلف ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کی غیر معمولی جیت ہوئی۔ خاص طور پر اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی، بہار میں جنتا دل ( یو) آندھراپردیش میں تیلگو دیشم اور بنگال میں ترنمول کانگریس نے بی جے پی کے اندر سیندھ لگادی۔ بی جے پی مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ منصوبہ بنارہی کہ ریاستی اسمبلیوں اور لوک سبھا کا الیکشن ایک وقت ہوتو علاقائی پارٹیاں اپنا زور نہیں بتا سکیں گی اور بی جے پی کے لیے قومی مسائل پر الیکشن جیتنا آسان ہوجائے گا۔اسی لیے ایک قوم ایک الیکشن کا نعرہ دیا گیا۔
یکساں سِول کوڈ کیا ملک کی اہم ضرورت ہے؟
وزیراعظم نریندرمودی کا اہم مشن ملک میں یکساں سِول کوڈ کا نفاذ ہے۔ یوم قومی اتحاد کے موقع پر انہوں نے اس مسئلہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یو سی سی بھی بہت جلد حقیقت بن جائے گا۔ 2024 کے انتخابی منشور میں بھی بی جے پی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یو سی سی کے نفاذ میں بی جے پی حکومت پیش قدمی کرے گی۔ وزیراعظم نے یکساں سِول کوڈ کے ساتھ "سیکولر” کا لفظ بھی جوڑ دیا۔ یعنی ملک میں سیکولر سِول کوڈ نافذ ہو گا۔ یہ کس نوعیت کا ہوگا اس کے تعلق سے کوئی تفصیل ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ ملک کو آزاد ہوئے 77 سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے آوازیں اٹھتی رہیں لیکن اس کا کوئی مسودہ (ڈرافٹ) ملک کی عوام کے سامنے آج تک نہیں پیش کیا گیا۔ اتر اکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے تو یکساں سِول کوڈ نافذ کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ ابھی پارلیمنٹ میں اس پر قانون سازی بھی نہیں ہوئی تو پھر ایک ریاستی حکومت اپنے یہاں یکساں سِول کوڈ کیسے نافذ کر سکتی ہے؟ دستور کی دفعہ 44 میں ریاست کے رہنمایانہ اصولوں کے تحت یکساں سِول کوڈ کی بات کی گئی۔ مرکزی حکومت ہی تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر اس پر قانون سازی کرسکتی ہے۔ یہ سوال ہمیشہ گردش کرتا رہا کہ بھارت جیسے ہمہ مذہبی، ہمہ تہذیبی اور ہمہ لسانی ملک میں یکساں سِول کوڈ کا نفاذ ممکن ہے؟ ملک کے سارے لوگوں کو کیسے ایک سِول کوڈ کے تحت لایا جاسکے گا۔ آئین ساز اسمبلی میں بھی اس پر کافی مباحث ہو چکے ہیں اور آزادی کے بعد سے بھی دفعہ 44 موضوع بحث بنتی رہی ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ یکساں سِول کوڈ کا نفاذ حکومت کے لیے لازمی نہیں ہے۔ یہ رضاکارانہ حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے باوجود ہر تھوڑے دن کے بعد اس کے نفاذ کے لیے بعض مخصوص گوشوں سے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں۔
یکساں سِول کوڈ کے نفاذ کے پس پردہ عزائم:
مودی حکومت کو یکساں سِول کوڈ سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ کیا ملک کے سارے سنگین مسائل حل ہوگئے یا اب صرف یہی ایک مسئلہ باقی رہ گیا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت یکساں سِول کوڈ کو اپنے لیے ایک انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس وقت مہاراشٹرا کے علاوہ جھارکھنڈ میں ریاستی اسمبلیوں کا الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی زمین کھسک رہی ہے۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی نے گز شتہ اسمبلی انتخابات کے بعد جو سیاسی پینترے آزمائے تھے اس سے ریاست کی عوام بدظن ہوگئی ہے۔ بی جے پی نے اقتدار کی خاطر شیو سینا میں پھوٹ ڈالی اور نیشنلسٹ کانگریس کو بھی توڑا۔ اب بی جے پی کو کانگریس، این سی پی (شردپوار) اور شیوسینا (ادھو ٹھاکرے گروپ) سے زبردست مقابلہ ہے۔ آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ مہاراشٹرا میں مہا وکاس اکھاڑی میں شامل پارٹیوں کی حکومت بنے گی۔ مہاراشٹرا میں مسلم ووٹ کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ وزیر اعظم نریندرمودی کے لیے مہاراشٹرا کا الیکشن ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہندو ووٹ کے حصول کے لیے انہوں نے گجرات میں ون نیشن ون الیکشن کے ساتھ یکساں سِول کوڈ کا مسئلہ بھی چھیڑ دیا ہے۔ جمہوریت کا اصول ہے کہ پہلے پارلیمنٹ میں مسئلہ کو رکھا جاتا اس کے بعد عوامی پلیٹ فارم پر اس پر گفتگو کی جاتی ہے۔ اس کے بجائے وزیر اعظم عام جلسوں اور ریالیوں میں حساس موضوعات کو زیر بحث لا رہے ہیں تاکہ ملک میں ایک ہیجانی ماحول پیدا کرکے اس سے سیاسی فائد ہ اٹھایا جاسکے۔ سردار پٹیل کی یوم پیدائش پر یکساں سِول کوڈ اور ایک قوم ایک الیکشن کی وزیر اعظم کی باتوں کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
***
وزیراعظم نریندرمودی کا اہم مشن ملک میں یکساں سِول کوڈ کا نفاذ ہے۔ یوم قومی اتحاد کے موقع پر انہوں نے اس مسئلہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یو سی سی بھی بہت جلد حقیقت بن جائے گا۔ 2024 کے انتخابی منشور میں بھی بی جے پی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یو سی سی کے نفاذ میں بی جے پی حکومت پیش قدمی کرے گی۔ وزیراعظم نے یکساں سِول کوڈ کے ساتھ "سیکولر” کا لفظ بھی جوڑ دیا۔ یعنی ملک میں سیکولر سِول کوڈ نافذ ہو گا۔ یہ کس نوعیت کا ہوگا اس کے تعلق سے کوئی تفصیل ابھی تک سامنے نہیں آئی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024