یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے بے چینی و اضطراب بڑھے گا

مسلم پرسنل لا خطرے میں لیکن اسلام ہرگز خطرے میں نہیں

ڈاکٹر ساجد عباسی

مصنوعی یکسانیت سے کبھی یکجہتی پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ اقلیتوں اور معاشرہ کے کچھ طبقات میں بے چینی اور احساس عدم تحفظ ہی پیدا ہوگا۔
بھارتی لا کمیشن نے 14 جون 2023 کو عوام اور مذہبی جماعتوں سے کہا ہے کہ وہ یونیفارم سول کوڈ سے متعلق اپنی آراء ایک ماہ کے اندر یعنی 13 جولائی تک پیش کریں۔ اس سے قبل 9 دسمبر 2022 کو یونیفارم سیول کوڈ کے حق میں ایک خانگی بل، Uniform Civil Code in India Bill 2022 کے نام سے راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا تھا جس پر اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیا تھا۔ راجیہ سبھا کے اجلاس میں اس بل کو 23 کے مقابلے 63 ووٹوں سے پاس کیا گیا۔ اس طرح اس بل کے لیے راہیں ہموار کردی گئیں۔ اسے جب لوک سبھا میں پیش کیا جائے گا تو یہ قانون بن سکتا ہے۔
عائلی امور، جیسے شادی بیاہ، وراثت، طلاق اور گود لینے جیسے معاملات میں ملک کے سارے باشندوں کے لیے ایک قانون لاگو کرنا حکومت کی جو دیرینہ خواہش رہی ہے تو آخر اس کا مقصد کیا ہے؟ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے ملک میں یکجہتی پیدا ہوگی، تو کیا واقعی اس سے یکجہتی پیدا ہوگی؟ ہمارا ملک کئی مذاہب، نسلوں، طبقات و زبانوں اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ پرسنل لاز، تمام مذہبی گروہوں کی مذہبی و سماجی امور میں ان کی اقدار و روایات کا لحاظ رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں تاکہ ملک کے ہر باشندے کو اپنے مذہب کے مطابق عائلی معاملات میں مکمل آزادی حاصل ہو، مثال کے طور پر 1955 کا ہندو میریج ایکٹ، 1956 کا ہندو succession ایکٹ اور 1937 کا مسلم پرسنل اپلیکیشن ایکٹ وغیرہ اسی مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یونیفارم سیول کوڈ کے آجانے کے بعد یہ سارے ایکٹس بیک وقت کالعدم ہو جائیں گے۔
مسلم پرسنل لا کا تعلق اسلامی شریعت سے ہے۔ اس پر حملہ دراصل دینِ اسلام اور مسلمانوں کے مذہبی حقوق پر حملہ ہے۔یونیفام سیول کوڈ (یو سی سی) سے ملک میں قطعا یکجہتی پیدا نہیں ہوگی جیسا کہ کہا جا رہا ہے بلکہ الٹا اس سے عوام میں بے چینی و اضطراب بڑھے گا۔ یہ انتہائی غیر عقلی و غیر منطقی فیصلہ ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ملک میں یکجہتی پیدا کرنے کے لیے ایک ہی طرح کے لباس (یونیفارم) اور ایک ہی طرح کے کھانے (menu) پر سارے ملک کے باشندوں کو مجبور کردیا جائے۔ ایسا کرنے سے بے چینی و اضطراب ہی بڑھے گا نہ کہ یکجہتی و امن قائم ہو گا؟
اصل یکجہتی اس وقت پیدا ہو گی جب مختلف تہذیبوں اور مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں اور اختلاف کے باوجود متحد رہنا سیکھیں۔ یہ ہے اصل ملکی اتحاد و یکجہتی، اور صدیوں سے ملک میں لوگ اسی طرح رہتے آئے ہیں۔ مصنوعی یکسانیت سے کبھی یکجہتی پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ اقلیتوں اور معاشرہ کے کچھ طبقات میں بے چینی اور احساس عدم تحفظ ہی پیدا ہوگا۔
بی جے پی حکومت یونیفارم سیول کوڈ کے سلسلے میں اس لیے جلدی میں ہے کہ وہ اس کے ذریعے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی نے 2014 میں عوام سے ایسے وعدے کیے ہیں جو مسلمانوں کے لیے باعثِ اذیت ہیں۔ ان انتخابی وعدوں پر عمل درآمد کے لیے حکومت ہمیشہ مستعد رہی ہے۔ ان میں سے جو وعدے مکمل ہوئے ہیں ان میں کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئینی آرٹیکل 370 کو ختم کرنا، بابری مسجد کے معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعے فیصلہ کے بجائے تصفیہ تھوپ کر رام مندر کی تعمیر کا آغاز کرنا، شہریت ترمیمی ایکٹ کو پاس کروانا اور تین طلاق کو غیر قانونی اور قابل سزا جرم قرار دینا ہے۔ ایک انتخابی وعدہ باقی رہ گیا ہے جو یونیفارم سول کوڈ سے متعلق ہے جس کو 2024 کے عام انتخابات سے قبل نافذ کرکے اکثریتی طبقہ کے ووٹ بنک کو مستحکم کرنا مقصود ہے۔ ملک میں بہت اہم ایشوز ایسے ہیں جو فوری توجہ کے محتاج ہیں جس میں بے روزگاری، مہنگائی، چین کی مسلسل دراندازی اور قومی اداروں کو نجی بنا کر ان پر سے عوام کی گرفت کو کمزور کرنا شامل ہیں۔ ملک میں میڈیا کو خرید کر میڈیا کے ذریعے عوام الناس کو گمراہ کیا جا رہا ہے تاکہ اپنی سنگین کوتاہیوں پر پردہ ڈالا جاسکے اور نا کارکردگی کے باوجود 2024 کے عام انتخابات میں پھر جیت حاصل کی جائے۔ یو سی سی کا تعلق الیکشن میں جیت سے ہے نہ کہ عوام کی فلاح و بہبود سے؟
یو سی سی کو نافذ کرنے کے لیے آرٹیکل 44 کا سہارا لیا جاتا ہے کہ اس میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی کہ ہر ممکنہ کوشش کے ذریعے ملک کے تمام باشندوں کے لیے سیول معاملات میں ایک ہی قانون بنایا جائے تاکہ معاشرہ کے کمزور فریقوں کو استحصال سے محفوظ رکھا جا سکے۔ آرٹیکل 44 ایک رہنمایانہ اصول (directive principle) ہے جس کے سلسلے میں بتدریج کوشش کی جاسکتی ہے لیکن اس کو جبراً یا یکلخت نافذ نہیں کیا جا سکتا جبکہ دوسرے رہنمایانہ اصول سرد خانے میں پڑے ہوئے ہیں جیسے آرٹیکل 47 کے تحت صحتِ عامہ کے لیے شراب پر پابندی لگائی جانی چاہیے تھی لیکن آج تک یہ کاغذ پرلکھا ہوا ایک اصول ہی ہے، اس پر عمل نہیں ہوا۔ آزادی کے بعد سے ملک میں شراب کا کاروبار وسیع پیمانے پر چل رہا ہے۔ آرٹیکل 39 کے مطابق دولت کا ارتکاز ملک میں نہیں ہونا چاہیے لیکن اس رہنمایانہ اصول پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ آکسفام (Oxfam) کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ جو مال داروں پر مشتمل ہے وہ پورے ملک کی معیشت کے 40.5 فیصد حصے پر قابض ہے۔ یہ 2021 کا ڈیٹا ہے جبکہ 2023 میں یہ فیصد یقیناً بڑھ گیا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ رہنمایانہ اصولوں میں ان سب کو چھوڑ کر آرٹیکل 44 ہی پر ساری توجہ آکر رک کیوں جاتی ہے؟
آج تک یو سی سی کا مسودہ یا blueprint منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔ اس ساری تگ و دو میں اسلام و مسلم دشمنی کا عنصر کام کرتا ہوا صاف نظر آرہا ہے جیسا کہ پچھلے بلوں کو پاس کروانے میں کام کرتا رہا ہے۔اس معاملہ میں بھی مسلمانوں کو تنگ و ہراساں کرنا مقصود ہے تاکہ ہندو اکثریت کے سامنے "کامیابی کا مژدہ” سنایا جاسکے کہ دیکھو! ہم مسلم اقلیت کو قابو میں رکھنے میں ایک اور قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔ بلکہ اس کو ہندو راشٹر کے قیام میں ایک پیش رفت کے طور پر دیکھا جائے۔ ان کو یہ یقین ہے کہ اس سے ہندو ووٹ بینک مزید مستحکم ہو گا۔
یو سی سی سے خود ہندو قبائل میں کتنے مسائل پیدا ہوں گے اس سے بے فکر ہو کر مودی حکومت صرف مسلم اقلیت کو ہراساں کرنے کے ارادے سے جلد بازی سے کام لے رہی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت ایسی قانون سازی کرے جس سے ہندو قبائل کو اس یکساں قانون سے استثنا حاصل ہو۔
جو اثرات اس بل سے مسلم پرسنل لا پر پڑنے والے ہیں وہ یہ ہیں: مسلم مرد ایک سے زائد شادی نہیں کرسکے گا چاہے اس کے لیے کتنی ہی معقول وجوہات موجود ہوں۔ طلاق کی صورت میں شوہر کو اپنی جائیداد میں سے قابلِ قدر حصہ بیوی کو دینا پڑے گا اور وہ تاحیات اسے نان و نفقہ دینے کا پابند ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ جب عورت طلاق لے لے گی تو وہ دوسرا نکاح کرنے کے لیے آزاد ہو گی تو ایسی صورت میں وہ اپنے سابقہ شوہر سے نفقہ کس بنیاد پر حاصل کرے گی؟ کام سیول کوڈ کے تحت جیسا مرد کو طلاق دینے کا حق ہے، عورت بھی طلاق لے سکتی ہے۔ اس طرح تو طلاق کی شرح بہت بڑھ جائے گی۔ اسلام میں عورت خلع لے سکتی ہے اور فسخ نکا ح کا بھی اسلام میں دروازہ کھلا رکھا گیا ہے اگر شوہر ہراساں کرنے سے باز نہ آئے۔ کامن سیول کوڈ کی رو سے منہ بولے بیٹے اور بیٹی کو بھی وراثت میں سے حصہ ملے گا جیسا صلبی اولاد کو ملتا ہے، علاوہ ازیں وراثت میں بیٹے اور بیٹی کو یکساں حصہ ملے گا جبکہ شریعت میں بھائی کے مقابلے میں بہن کا آدھا حصہ اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ مرد پر گھر کے اخرجات اٹھانے کی ذمہ داری ہوتی ہے، عورت پر نہیں ہوتی۔
آج امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں میں ہر ریاست کا الگ سول اور تعزیری کوڈ ہے لیکن اس کے باوجود وہاں یکجہتی ہے اور وہ دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے۔ بھارت کی اب تک سارے عالم میں یہ خصوصیت تھی کہ یہاں تنوع میں وحدت (unity in diversity) پائی جاتی ہے۔ ایک چمن میں حسن تبھی پیدا ہوتا ہے جب اس میں مختلف قسم کے پھول لگے ہوں۔ بھارت کے اس فطری تنوع کو جبری یکسانیت forced uniformity میں بدلنا نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ الٹا یکجہتی کے لیے مضر ہے۔
کیا ہندو اکثریت یو سی سی کے لیے تیار ہے؟کہنا بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل آوری بہت دشوار ہے۔ ہر ریاست میں ہندو قوم کے اندر طور طریقوں، زبان، رنگ و نسل اور caste کا بے حد اختلاف پایا جاتا ہے، خود ہندو قوم کے لیے یو سی سی ایک مصیبت بن جائے گی۔ حکومت مسلم دشمنی میں یو سی سی لانا چاہتی ہے لیکن اس کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ ملک کے لیے کس قدر نقصان دہ اور نا قابل عمل ہے۔
”ایک ملک-ایک قانون“ کا نعرہ سننے میں بہت اچھا لگتا ہے۔ اس منطق کے لحاظ سے ملک میں نہ ریاستی حکومتوں کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ ہی ریاستی سطح پر قانون سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس ایک گورنر کو مرکز سے مقرر کرکے ریاست کا نظم چلایا جاسکتا ہے۔ ریاستی سطح پر قانون سازی اس لیے کی جاتی ہے کہ ہر ریاست کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ یونین لسٹ، اسٹیٹ لسٹ دو الگ الگ بناکر مرکز اور ریاستوں کے دائرہ کار کو متعین کیا گیا ہے۔ جس طرح ریاستوں کی ضروریات مختلف ہوسکتی ہیں اسی طرح مختلف مذاہب و طبقات کے افراد کی بھی عائلی زندگی اور مسائل مختلف ہوتے ہیں۔
ہم سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ دستورِ ہند اس سلسلے میں کیا کہتا ہے۔ دستور کی دفعہ 44 میں یہ کہا گیا ہے کہ بھارت کے سارے شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ لانے کی کوشش کی جائے گی۔ یہاں پر یہ نہیں کہا گیا ہے کہ لازماً لایا جائے گا بلکہ کوشش کی جائے گی۔ یہ بھی نہیں کہا گیا ہے کہ یکلخت یہ کام کیا جائے گا، یہ کام بتدریج بھی کیا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ریاستیں یو سی سی لاگو کر سکتی ہیں؟ کچھ ریاستوں کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ ان کے ہاں یو سی سی لاگو کیا گیا ہے جیسے گوا، لیکن وہ برائے نام یونیفارم ہے جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے الگ الگ قوانین ہیں۔ اس کوڈ کے مطابق اگر بیوی کو شادی کے بعد 25 سال کی عمر تک اولاد نہ ہو تو شوہر کو اجازت ہے کہ وہ دوسری شادی کرے۔
2018 میں جب یو سی سی پیش کیا گیا تو لا کمیشن نے یہ بیان دیا تھا کہ بھارت کی متنوع آبادی میں یہ نہ مطلوب ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔
مسلم پرسنل لا اسلامی شریعت کے مطابق ہے جس میں مسلم خواتین کے حقوق کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ چودہ سو سال پہلے ہی اسلام نے مسلم خواتین کو خلع کا حق، طلاق یا بیوہ ہونے پر دوسری شادی کا حق اور میراث میں حق عطا کیا ہے جبکہ ہندو خواتین کو یہ حقوق پہلی مرتبہ اس وقت ملے جب 1856 میں Hindu Widow Remarriage Act بنا اور 1874 میں Married Women’s Property Act اور 1928 میں Hindu Inheritance Act پاس ہوئے۔
جب یونیفارم سیول کوڈ کو لاگو کیا جائے گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح یہ کوڈ اقلیتوں کو اور سماج کے تمام طبقات کو بیک وقت مطمئن کر سکے گا؟ یقینی طور پر ایسا کوڈ دستور کے آرٹیکل 25 سے متصادم ہو گا جس میں مذہب کو اختیار کرنے، عمل کرنے اور اس کو پھیلانے کی مکمل آزادی ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت کے سماج کے کچھ حصے خوش ہوں گے تو کچھ حصے ناراض ہوں گے جن کے اندر احساس محرومی پیدا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آرٹیکل 44 ایک غیر فطری اور غیر ضروری امر کی طرف حکومت کو متوجہ کرتا ہے اور یہ دستور کے آرٹیکل 25 سے بھی متصادم ہے۔ دستور کے اس تناقض کو دور کرنے کے بجائے آرٹیکل 44 پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ آرٹیکل 44 دستورِ ہند کے ایک اور آرٹیکل نمبر 29 سے بھی ٹکراتا ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت ہے۔ دستورِ ہند کے آرٹیکل 29 کے مطابق کسی بھی اقلیتی فرد کو اس کی زبان، کلچر یا شناخت سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ یو سی سی کے نفاذ میں قبائلی گروپس کی طرف سے بھی مزاحمت ہوگی جیسے ناگالینڈ میں قبائلی رسوم کو انجام دینے کی اب تک آزادی ہے۔
رسول اللہ (ﷺ) نے جب مدینہ ہجرت کی اور میثاقِ مدینہ بنایا گیا اور ریاست کا نظم اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق قائم ہوا تو اس وقت مسلمانوں کے ساتھ یہودی قبائل بھی مدینے میں آباد تھے۔ یہودیوں کے درمیان جب بھی نزاع ہوتی تو آپ پوچھتے کہ توراۃ میں اس بارے میں کیا حکم تھا اور پھر آپ اسی کے مطابق فیصلہ فرماتے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے اقلیتوں کو ان کے پرسنل لا سے محروم نہیں کیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمان کیا کریں؟ آج بھی کئی ممالک میں عائلی معاملات میں ایک ہی قانون جاری ہے اور وہاں جس حد تک مسلمان مکلف ہیں اسلام پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔ جب تک ایک مسلمان کی خواہش ہوگی کہ وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارے اللہ تعالیٰ اس کی نیت کے مطابق اس کی عبادات و اعمالِ صالحات کو قبول کرے گا اور اس کے لیے مستقبل میں مزید عمل کے لیے راہیں ہموار کرے گا۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوگا جہاں ایک مسلمان مرد یا عورت شرعی قوانین کے مقابلے میں غیر اسلامی فیصلے کروانے کے لیے سرکاری عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائیں گے۔ اس میں مسلمانوں کی آزمائش ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ کون اللہ کے قانون پر چلنا چاہتا ہے اور کون طاغوت کے قانون پر۔ ایسے ماحول میں مسلم علماء وقائدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی عائلی قوانین کے بارے میں مسلمانوں کو واقف کروائیں اور ان کی تربیت کریں۔ ان کے ایمان و یقین کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کے روایتی ایمان کو حقیقی ایمان میں بدلنے کی کوشش کریں۔ غیر اسلامی نظریات، باطل عقائد اور توہم پرستی کے ماحول میں مسلمانوں کے اندر توحید کی شمع کو جلائے رکھنے کا عزم پیدا ہو۔ یہ اسی وقت ہوگا جب آخرت کی زندگی کو دنیاوی زندگی پر ترجیح دی جائے۔ جمعوں کے خطبوں کے ذریعے مسلمانوں کی تربیت و تزکیہ کا موثر اہتمام کیا جائے۔ خطباتِ جمعہ کو مسلکی دنگل نہ بنایا جائے بلکہ امت مسلمہ کو ان کے مقصدِ وجود سے واقف کروایا جائے اور اس مقصد کے حصول کو اتحاد امت کا ذریعہ بنایا جائے۔ ان کو یاد دلایا جائے کہ ہمارا کام اکثریتی فرقہ سے حقوق کی بھیک نہیں مانگنا ہے بلکہ ان کے سامنے اسلام کا حیات بخش پیغام پیش کرنا ہے اور علم و تحقیق کی روشنی میں اسلامی قانون کی افادیت کو ثابت کرنے میں اپنا زورِ استدلال صرف کرنا ہے۔ اغیار کو ہمیں یہ بتانا ہو گا کہ اسلام انسانوں کا بنایا ہوا دین نہیں ہے بلکہ ان کے رب کا بھیجا ہوا دین ہے اور اسی کی پیروی میں سارے انسانوں کی بھلائی ہے اور اسی میں تمام انسانی مسائل کا حل ہے۔
آج مسلم پرسنل لا خطرے میں ہے لیکن اسلام ہرگز خطرے میں نہیں ہے۔ مسلمانوں پر اچھے و برے حالات آسکتے ہیں لیکن اسلام وہ دین ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے۔ اسلام سچائی پر مبنی دین ہے جو انسانی فطرت سے عین مطابقت رکھتا ہے۔ اس سے اگر لوگ اس سے انحراف کریں گے تو انہی کو نقصان ہوگا۔ ایسے حالات میں جب کہ مسلم پرسنل لا پر خطرات منڈلا رہے ہیں، ہم کو پہلے سے زیادہ شریعت پر عمل کرنا ہوگا اور اسلام کی خوبیوں کو ملک کے عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا، یہاں تک کہ سارے ملک کا قانون شریعت سے قریب ترین قانون بن جائے۔
***

 

***

 اگر مسلم دشمنی میں یو سی سی لایا بھی گیا تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ سمجھیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے۔ شریعت کو جبراً قانون کے دائرہ سے باہر تو کیا جا سکتا ہے لیکن اگر شریعت ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن بن جائے تو کوئی طاقت مسلمانوں کو شریعت سے دور نہیں کر سکتی۔ سچی بات یہ ہے کہ وسیع پیمانے پر ہم قانون دانوں اور قانون ساز افراد کے سامنے اسلام کی خوبیوں کو پیش کرنے میں ناکا م رہے۔ قرآن میں تعدد ازواج کی حکمتوں کو، قرآن کے طریقہ طلاق کی خوبیوں کو اور اسلام کے معتدل و متوازن قانونِ وراثت کو مدلل طریقے سے ہم پیش کرنے میں کامیاب نہیں رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جولائی تا 08 جولائی 2023