یکساں سول کوڈ بہانہ ،مسلمان نشانہ!

غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ہم وطنوں کے سامنے اسلامی تعلیمات کی تفہیم ضروری

محمد اسداللہ اعظمی

یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ملک میں دو قانون ہیں، جب کہ پورے ملک میں ایک ہی دستور نافذ ہے۔ ہاں بنیادی حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کوالگ الگ سماجی طور طریقوں کے مطابق سول کوڈ میں چھوٹ دی گئی ہے۔
کسی بھی ایک ایسے ملک میں جہاں مذاہب، بولیاں، رسومات، کھانے پینے، شادی بیاہ اور لباس پہنے اوڑھنے کے الگ الگ طور طریقے پائے جاتے ہوں وہاں کے عوام پر کبھی بھی ایک جیسا قانون یعنی یکساں سول کوڈ نہیں تھوپا جا سکتا۔
یہ ایک بالکل غیر فطری اور ملک کی یکجحتی کو توڑنے والا عمل ہے۔
ملک عزیز بھارت میں باقاعدہ طور پر تسلیم شدہ نو مذاہب ہیں جن میں ہندو، اسلام، عیسائی، سکھ، بودھ، جین، پارسی، یہودی اور بہائی کے نام درج ہیں۔
ملک میں 1652 طرح کی مادری زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہزاروں طرح کے رسم و رواج، کھان پان اور شادی بیاہ کے طور طریقے پائے جاتے ہیں۔
انہیں چیزوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دستور میں درج ارٹیکل 371(A) کے تحت پارلیمنٹ ناگا مذہب سے جڑی سماجی روایات اور رائج قاعدوں کے لیے قانون نہیں بنا سکتی، اس کے علاوہ پارلیمنٹ ناگا روایتوں کے ذریعے کیے جانے والے انصاف اور ناگاوں کی زمین کے معاملے میں قانون نہیں بنا سکتی۔ اسی آرٹیکل کے تحت ناگالینڈ کے توانسانگ ضلع کو بھی خاص درجہ ملا ہوا ہے۔
اسی طرح آرٹیکل 371 (G) کی بات کریں تو اسے صوبے میزورم کے لیے بنایا گیا ہے۔ سال 1986 میں دستور کے 53ویں ترمیم کے بعد میزورم کے لیے اس آرٹیکل کو جوڑا گیا تھا۔ اس آرٹیکل کی وجہ سے پارلیمنٹ میزو سمودائے سے جڑے نئے قانون میزورم ودھان سبھا کی منظوری کے بغیر نہیں بنا سکتی۔
پارلیمنٹ میں میزو سموداے کے رسم و رواج ان کے نظم ونسق اور انصاف کے طور طریقوں اور زمینوں کے لیے نئے قانون بنانے سے پہلے صوبے کی اسمبلی سے منظوری لینی پڑے گی۔
یہ کچھ نمونے ہیں جو دستور ہند میں دیے گئے ہیں۔ ان سب کے رہتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے ایک تنظیمی اجلاس میں طنزیہ سوال کیا کہ ’’کیا ایک خاندان میں دو طرح کے قانون ہو سکتے ہیں؟‘‘ اس طرح کے بیانوں سے وزیر اعظم لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، جس طرح خاندان میں کچھ قانون سب کے لیے ایک ہوتے ہیں اور کچھ خاص حالات کو سامنے رکھتے ہوئے خاندان کے سبھی لوگوں کے لیے الگ الگ بھی ہوتے ہیں جیسے کس کو لال رنگ پسند ہے تو کسی کو سفید کس کو ہرا پسند ہے تو کسی کو زعفرانی، کھانے میں کسی کو بریانی پسند ہے تو کسی کو سبزی کسی کو ساؤتھ انڈین پسند ہے تو کسی کو چائنیز۔
اسی طرح الگ الگ مذہبی رسومات، کلچر اور طور طریقوں کو سامنے رکھتے ہوئے دستور ساز کمیٹی نے ملک کو یکجہتی کی لڑی میں پرونے کے لیے دستور میں اس طرح کی گنجائش رکھی ہے۔ واضح رہے کہ پینل کوڈ سب کے لیے ایک ہے، اس لیے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ملک میں دو قانون ہیں، جب کہ پورے ملک میں ایک ہی دستور نافذ ہے۔ ہاں بنیادی حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں الگ الگ سماجی طور طریقوں کے مطابق سول کوڈ میں چھوٹ دی گئی ہے۔ میں یکساں سیول کوڈ کو مذہبی آزادی پر حملے کے بجائے بنیادی حقوق پر حملہ مانتا ہوں۔
بی جے پی کا مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ جگ ظاہر ہے۔ جیسا کہ بی جے پی کے لیڈر صرف مسلم پرسنل لا بورڈ کا حوالہ دے رہے ہیں، گویا دستور کے سول کوڈ میں صرف اور صرف مسلمانوں کو ہی چھوٹ ملی ہوئی ہو۔ عوام میں مسلم پرسنل لا کو اس طرح عام کر رہی ہے جیسے یہ دستور کے خلاف ہو اور ملک میں بیک وقت ایک ساتھ دو دستور چل رہے ہوں۔
شہریت ترمیمی بل (CAA) کی طرح مسلمانوں کے سوا دوسرے مذاہب کے لوگوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی تھی۔ ٹھیک اسی طرح یونیفارم سول کوڈ کے معاملہ میں صرف مسلمان ہی نشانے پر ہیں اور اس کا اثر بھی صرف مسلمانوں پر ہی پڑے گا۔ کسی قانونی چور دروازے سے دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے راستہ نکال لیا جائے گا۔ بی جے پی آنے والے 2024 کے عام انتخابات میں اس کے ذریعے کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ ہر محاز پر ناکام ثابت ہو چکی ہے۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، بدعنوانی اور عورتوں کے خلاف ظلم و زیادتی کے ساتھ ساتھ مذہبی تعصب اپنے عروج پر ہے۔
بر صغیر کے ایک عالمی شہرت یافتہ مفکر و عالم دین مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے ازادی سے کچھ قبل مدراس میں منعقدہ ایک جلسے میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے آگاہ کیا تھا تھا کہ ’’کوئی قومی اسٹیٹ اپنے اندر کسی دوسری ایسی قوم کے وجود کو گوارا نہیں کرتی جو حکمراں قومیت سے الگ اپنی مستقل قومیت کی مدعی ہو اور پھر اس قومیت کے دعوے کے ساتھ اپنے مخصوص قومی مطالبات بھی رکھتی ہو۔ یہ چیز صرف اسی وقت تک چل سکتی تھی جب تک ملک پر عملاً ایک بیرونی طاقت یعنی انگریز قوم کا قبضہ تھا۔ ہندو اور مسلمان دونوں اس کے محکوم تھے۔ صرف اسی وقت یہ ممکن تھا کہ اقلیت بھی اکثریت کی طرح اپنی الگ قومیت کا دعوی کرے اور کم و بیش اپنے کچھ مستقل حقوق منوا لے، مگر جب جمہوری اصولوں پر اہل ملک (اکثریت) کی ازاد حکومت بن جائے گی، تو ہندو ہندوستان اکثریت کا قومی اسٹیٹ بن کر رہے گا اور اس میں کسی اقلیت کی جداگانہ قومیت اور مخصوص قومی مطالبات کے لیے کوئی گنجائش نہ ہوگی۔ قومی اسٹیٹ ایسی کسی قوم کو تسلیم کر کے اس کے مطالبات کبھی پورے نہیں کیا کرتا بلکہ وہ پہلے تو یہ کوشش کرتا ہے کہ اسے تحلیل کر کے اپنے اندر ضم کر لے۔ پھر اگر وہ اتنی سخت نکلتی ہے کہ ہضم نہ ہو سکے تو اسے اتنا دبا دینا چاہتا ہے کہ جداگانہ قومی وجود اور اس کی بنا پر مستقل قومی مطالبات کی اواز بلند ہونے نہ پائے اور بالآخر اگر وہ قومیت کے دباؤ کے نیچے بھی چیخے ہی چلی جائے تو پھر قومی اسٹیٹ اسے باقاعدہ فنا کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ (جو NRC کے طور پر ہمارے سامنے آ چکا ہے)‘‘۔
مولانا مودودی کی پوری تقریر خطباتِ مدراس کے نام سے کتابی شکل میں یکجا کر دی گئی موجودہ حالات کے پس منظر میں مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے یہ کتاب بہت ہی سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔
وقت کے رہتے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیت مادی ذرائع وسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اپنی توجہ اپنے مستقبل اور نئی نسلوں کو سنوارنے اور مذہبی، معاشی تعلیمی و سیاسی بیداری پر مرکوز کریں۔ اس کے ساتھ ہی عام مسلمانوں اور ان کی دینی، ملی اور سیاسی تنظیموں کو باہمی و مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قرآن اور سیرت کی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے ملک کے تمام شہریوں کے سامنے اسلام کی روحانی، سماجی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی اصولوں کی تفہیم کو بلا جھجھک رکھنا چاہیے تاکہ اسلامی تعلیمات کی غلط تفہیم کرنے والے سماجی و امن کے دشمنوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔
***

 

***

 ’’کوئی قومی اسٹیٹ اپنے اندر کسی دوسری ایسی قوم کے وجود کو گوارا نہیں کرتی جو حکمراں قومیت سے الگ اپنی مستقل قومیت کی مدعی ہو اور پھر اس قومیت کے دعوے کے ساتھ اپنے مخصوص قومی مطالبات بھی رکھتی ہو۔ یہ چیز صرف اسی وقت تک چل سکتی تھی جب تک ملک پر عملاً ایک بیرونی طاقت یعنی انگریز قوم کا قبضہ تھا۔ ہندو اور مسلمان دونوں اس کے محکوم تھے۔ صرف اسی وقت یہ ممکن تھا کہ اقلیت بھی اکثریت کی طرح اپنی الگ قومیت کا دعوی کرے اور کم و بیش اپنے کچھ مستقل حقوق منوا لے، مگر جب جمہوری اصولوں پر اہل ملک (اکثریت) کی ازاد حکومت بن جائے گی، تو ہندو ہندوستان اکثریت کا قومی اسٹیٹ بن کر رہے گا اور اس میں کسی اقلیت کی جداگانہ قومیت اور مخصوص قومی مطالبات کے لیے کوئی گنجائش نہ ہوگی۔ قومی اسٹیٹ ایسی کسی قوم کو تسلیم کر کے اس کے مطالبات کبھی پورے نہیں کیا کرتا بلکہ وہ پہلے تو یہ کوشش کرتا ہے کہ اسے تحلیل کر کے اپنے اندر ضم کر لے۔ پھر اگر وہ اتنی سخت نکلتی ہے کہ ہضم نہ ہو سکے تو اسے اتنا دبا دینا چاہتا ہے کہ جداگانہ قومی وجود اور اس کی بنا پر مستقل قومی مطالبات کی اواز بلند ہونے نہ پائے اور بالآخر اگر وہ قومیت کے دباؤ کے نیچے بھی چیخے ہی چلی جائے تو پھر قومی اسٹیٹ اسے باقاعدہ فنا کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ (جو NRC کے طور پر ہمارے سامنے آ چکا ہے)‘‘۔
(مولانا مودودیؒ ، خطبہ مدراس )


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023