We want— Deisel Engineایک یادگار سفر
محمد نذیر احمد ، حیدرآباد
کل ہند اجتماع 1974 کے تواریخ کا اعلان ہوا کہ وہ 8 تا 10 نومبر کو دہلی کے گاندھی درشن میدان میں منعقد ہوگا۔ اجتماع میں شرکت کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ یہ ایک طویل سفر تھا۔ جماعت اسلامی حلقہ آندھرا پردیش کی جانب سے اعلان ہوا کہ آندھرا پردیش کے شرکاء و مندوبین کے لیے ایک پوری ٹرین ریزرو کی جائے گی اور تمام شرکاء کو ہدایت دی گئی کہ جو شرکاء اس ٹرین سے سفر کا ارادہ رکھتے ہوں وہ اپنے قریبی اسٹیشن کو مطلع کریں اور اس اسٹیشن تک مقامی جماعت کے نظم کے ساتھ یا خود اپنے طور پر پہنچیں۔ ناظم سفر جناب حفیظ خان صاحب مالک منشی بھائی بیڑی مقرر ہوئے۔
طے پایا کہ یہ ٹرین نامپلی اسٹیشن حیدرآباد سے 5؍ نومبر آٹھ بجے شب کو روانہ ہوگی اور 7؍ نومبر کی شام دہلی پہنچے گی تاکہ شرکاء ایک مکمل رات آرام کر سکیں۔ چند دنوں کے اندر خبر آئی کہ ٹرین کی ساری بوگیاں ریزرو ہوگئیں۔
اس وقت میں جامعہ دارالہدیٰ کریم نگر میں جماعت ہشتم کا طالب علم تھا۔ میں اپنے چچا ڈاکٹر بشیر احمد مرحوم اور چچا زاد بھائی نثار احمد کے ساتھ اس اجتماع میں شریک ہوا۔ کریم نگر کے شرکاء کے لیے اس ٹرین میں سوار ہونے کے لیے دو آپشن تھے کہ وہ قاضی پیٹ جنکشن یا پداپلی اسٹیشن سے سوار ہو سکتے ہیں۔ کریم نگر کے ناظم سفر غالباً مولانا عبد الخالق لطیفی تھے، انہوں نے طے کیا کہ شرکائے کریم نگر قاضی پیٹ ورنگل سے سوار ہوں گے اور شیڈیول کے مطابق ٹرین رات کے دو بجے قاضی پیٹ پہنچے گی۔ غرض ہم لوگ بذریعہ ریزرو آر ٹی سی بس کریم نگر سے روانہ ہوئے اور دس بجے کے قریب قاضی پیٹ اسٹیشن پہنچے۔ وہاں پہنچنے کے بعد اطلاع ملی کہ ٹرین نامپلی سے بہت تاخیر سے روانہ ہوئی۔ اب ٹرین کا انتظار شروع ہوا۔ ایک بجے کے قریب ریلوے اسٹیشن سے اعلان کیا گیا کہ "جماعت اسلامی ہند کل ہند اجتماع دہلی کے لیے جانے والی اسپیشل ٹرین دو گھنٹے تاخیر سے قاضی پیٹ پہنچے گی”۔ میں، نثار احمد اور علی رضا جاوید اسٹیشن پر گھومتے رہے اور بہت محظوظ ہوتے رہے۔ پھر دو گھنٹے بعد اعلان ہوا کہ ٹرین مزید دو گھنٹے تاخیر سے پہنچے گی۔ غرض ہم نے فجر کی نماز اسٹیشن پر ہی ادا کی۔ ٹرین تقریباً ساڑھے سات بجے قاضی پیٹ پہنچی۔ ہم سب دوڑ دوڑ کر سوار ہوئے۔ ٹرین وہاں سے روانہ ہوئی۔ ٹرین کے روانہ ہوتے ہی مولانا عبد الخالق لطیفی صاحب نے ہماری بوگی میں تذکیر پیش کی۔ ٹرین میں ہر نماز کے بعد کبھی درس قران کبھی درس حدیث اور کبھی تذکیر پیش کی جاتی رہی۔اس طرح ہمیں ایک نئے قسم کے سفر کا تجربہ ہوا۔ٹرین پدا پلی، راما گنڈم، گوداوری کھنی، سرپور کاغذ نگر اور منچریال کے شرکاء کو لیتے ہوئے اپنی منزل کی طرف سست رفتاری سے رواں دواں ہوئی کیوں کہ ٹرین کو اسٹیم انجن کھینچ رہا تھا جس کی رفتار بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اور ان دنوں ڈیزل انجن فاسٹ ٹرین اور ایکسپریس ٹرینوں میں استعمال ہوتا تھا۔ ٹرین بلہار شاہ اسٹیشن سے مہاراشٹرا میں داخل ہوئی، اب ٹرین کسی اسٹیشن پر رکنے والی نہیں تھی۔ جہاں نماز ادا کرنا ہوتا یا پھر طعام کرنا ہوتا اور انجن میں کوئلہ اور پانی ڈالنا ہوتا وہاں وہاں ٹرین کو روکتے رہے۔ بعض شرکاء نے اسٹیشن سے طعام کا انتظام کرنا تھا۔
ہم لوگوں نے دوران سفر مطالعہ کے لیے راہ عمل کے علاوہ کچھ بنیادی لٹریچر، دینیات ‘ سلامتی کا راستہ’ بناو بگاڑ وغیرہ اور رسائل جیسے نور، الحسنات، حجاب اور ہمارے دوست نے ابن صفی کے ناولز رکھ لیے۔ کھانے کے لیے گھر سے ہی انتظام کرکے چلے تھے جس میں بغیر چھلے ہوئے ابلے ہوئے انڈے، پوریاں، تلا ہوا گوشت، پراٹھے شامل تھے جو ہم جمعرات کی صبح تک کھاتے رہے۔ ہم تینوں وقت گزاری کے لیے، ندیوں کے نام، اسٹیشن کے نام ڈائری میں نوٹ کرتے رہے۔ خاص طور پر چنبل کی وادی میں ہم ڈاکوؤں کو تلاش کرتے رہے لیکن کوئی ڈاکو تو دور کی بات کوئی گھوڑا تک نظر نہیں آیا۔ خیر، جس دلچسپ سفر کے ہم بے چینی سے منتظر رہے، انجن کی سست رفتاری کی وجہ سے طبیعت میں اکتاہٹ ہوتی جا رہی تھی۔ ٹرین بلہار شاہ، چندرا پور اور ناگپور سے ہوتی ہوئی بھوپال پہنچی تو ناظم سفر اور دیگر ذمہ داران آندھرا کو یہ یقین ہوگیا کہ اگر اسی رفتار سے سفر جاری رہا تو ہم وقت مقررہ پر نہیں پہنچ پائيں گے۔ چنانچہ ریلوے حکام سے گفت شنید کی گئی اور انہوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ اسٹیشن پر اس سے تیز رفتار انجن سے بدل دیں گے۔ اگلا اسٹیشن جھانسی تھا، وہاں انہوں نے انجن تبدیل کیا۔پھر ٹرین روانہ ہوئی۔ لیکن سست رفتاری کا وہی عالم رہا۔ غرض ہم بہت تاخیر سے گوالیار پہنچے۔ یہاں ذمہ داران سفر اور ریلوے حکام کے درمیان گفت شنید ہوئی لیکن حکام نے انجن کو تبدیل کرنے سے انکار کیا۔ تب ٹرین سے بہت سارے شرکاء اتر آئے اور کسی ذمہ دار نے We want deisel engine کا نعرہ بلند کیا۔ شرکاء کی اس نعرہ بازی پر ریلوے حکام نے اس بنیاد پر ڈیزل انجن مہیا کرنے سے معذرت کی کہ ان کے پاس کوئی اضافی ڈیزل انجن دستیاب نہیں ہے۔انہوں نے آگرہ کے ریلوے حکام سے بات کی اور آگرہ میں ڈیزل انجن مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔ اب بھی ہم وقت مقررہ سے بہت پیچھے تھے۔ رنجور دل اور شکستہ دل سے پھر سفر جاری ہوا۔ اس سفر کی بڑی خصوصیت رہی کہ ہم نے نعرے بازی کی وہ بھی جماعت کے ذمہ داروں کے ساتھ۔ شاید صبح فجر کے قریب ہم آگرہ پہنچے اور وہاں پر بھی کچھ دیر We want deisel engine کے نعرے لگے۔ گفت و شنید کے بعد ڈیزل انجن مہیا کیا گیا۔ اور ہم تقریباً ساڑھے نو بجےنئی دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ پروگرام کے مطابق اجتماع کا آغاز نومبر 8 جمعہ کے دن بعد فجر درس قرآن سے ہونا تھا۔ پھر امیر جماعت کے افتتاحی کلمات اور ناظم اجتماع کی ہدایات ہونی تھیں۔ صبح کے ان تینوں پروگرام سے ہم محروم رہے۔ اجتماع گاہ پہنچتے ہی نہا دھو کر ناشتہ گاہ پہنچے جہاں چائے اور توسٹ سے ہماری تواضع ہوئی۔
بعد نماز جمعہ ہم اجتماع میں شریک ہوئے۔ پہلی مرتبہ ہم نے اتنا جم غفیر کو دیکھا۔ وسیع میدان پر پھیلے ہوئے قیام گاہوں کو دیکھا۔ اس بات پر تعجب ہوا کہ یہاں پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف کا شعبہ بھی تھا جس کے ناظم جناب عباداللہ صاحب تھے۔ انہوں نے دوسرے اور تیسرے دن’ لنچ اور آرام کے اوقات میں پوسٹ کارڈس’ خطوط اور رسائل کی تقسیم کا کام میرے ذمہ کیا۔ خطوط اور رسائل پر قیام گاہ لکھی ہوئی ہوتی تھی جس کی وجہ سے تقسیم ممکن ہو پائی۔
اس اجتماع کے دوران مجھے امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی، مولانا افضل حسین صاحب، مولانا یوسف اصلاحی مدیر ذکریٰ، مولانا ابو سلیم عبد الحئی مدیر الحسنات، مولانا مائل خیر آبادی مدیر حجاب، مولانا عامر عثمانی ایڈیٹر تجلی، مولانا یوسف صدیقی مدیر ریڈیئنس اور مولانا سید احمد عروج قادری، مدیر زندگی کو دیکھنے اور ان سے مصافحہ کرنے کا موقع ملا۔ تمام ذمہ داروں اور اکابرین کے سینے لگے نام کے بیجز سے شناخت میں آسانی ہوئی۔
امیر حلقہ آندھرا پردیش جناب عبدالرزاق لطیفی مرحوم کینسر جیسے موذی مرض میں شدید علیل ہونے کے باوجود اجتماع میں شریک رہے۔ ان کا قیام ایک مخصوص کمرے میں تھا جہاں میڈیکل equipment بھی تھے۔
اس اجتماع میں تقاریر سے زیادہ میری توجہ مقررین پر مرکوز رہی البتہ ایک شعر مولانا محمد عبدالعزیز صاحب امیر حلقہ تمل ناڈ کی تقریر سے یاد رہ گیا ۔
زنداں میں تو مجھ کو ڈال دیا اے حاکمِ زنداں تو نے مگر
پرواز کو میری روک سکے ایسی بھی کوئی دیوار بنا
شعبہ نشر و اشاعت کے ذمہ دار یا معاون جناب عبد الخالق لطیفی صاحب تھے، ان کو اعلانات کرتے ہوئے دیکھ کر دل میں یہ خواہش جاگی کہ کاش میں بھی اس شعبہ کا حصہ ہوتا۔ اللہ تعالٰی نے اس خواہش کو یوں پورا کیا کہ چھٹا کل ہند اجتماع وادی ہدیٰ میں ابتدائی اعلانات میں نے ہی کیے اور ان اعلانات کا آغاز اس جملے سے کیا کہ "بسم اللہ الرحمان الرحیم، محترم شرکاء اجتماع ندائے ہدیٰ سے میں آپ سے مخاطب ہوں۔ اس کے بعد کچھ اعلانات کرتا رہا۔ میرے ساتھ دو احباب بھی تھے۔ تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ناظم نشر و اشاعت جناب لطیف الدین صاحب مرحوم تشریف لائے اور میں نے مائیک ان کے حوالے کیا۔
شیڈیول کے مطابق 11 نومبر کو ارکان کا اجتماع مقرر تھا۔ چنانچہ اس دن ہم نے دہلی کے تمام تاریخی اور اہم مقامات کی سیر کی جس میں لال قلعہ، جامع مسجد، چاندنی چوک، قطب مینار، فیروز شاہ میدان، انڈیا گیٹ، ہمایوں کا مقبرہ۔ پارلیمنٹ ہاوس، راشٹرپتی ہاوز اور پی ایم ہاوز وغیرہ شامل تھے ۔
12 نومبر کو واپسی کے سفر کے لیے روانہ ہوئے۔ آگرہ اسٹیشن پر ٹرین تقریبا بارہ گھنٹوں کے لیے روکی گئی تاکہ آگرہ اور فتح پور سیکری کے تمام تاریخی مقامات کی سیر کی جاسکے۔ ان تاریخی مقامات میں آگرہ کا قلعہ، سنگ مرمر سے تعمیر کردہ مقبرہ اعتماد الدولہ، مقبرہ شہنشاہ اکبر فتح پور سیکری اور تاج محل شامل رہے۔ مقبرہ اکبر کی سیر کراتے ہوئے گائیڈ نے یہ بتایا کہ شہنشاہ اکبر کو اس طرح تدفین کی گئی کہ ان کا سر مشرق کی طرف اور پیر مغرب کی جانب رکھے گئے۔آخر شام پانچ بجے ہم تاج محل میں داخل ہوئے۔ رات میں چاند کی روشنی چھانے تک وہیں رکے رہے تاکہ چاندنی میں تاج محل کا نظارہ کریں۔ وہیں ایک ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا کھائے۔ وہاں کی مشہور مٹھائی "پیٹھے کی مٹھائی” خریدی۔ تقریباً رات دس بجے ہم ٹرین میں سوار ہوئے جن تاریخی مقامات کو ہم سماجی علم پڑھتے آئے تھے، انگریز اور مسلم بادشاہوں کی فن تعمیر کی تصاویر دیکھتے آئے تھے۔ اس سفر میں ان کا بنفس نفیس مشاہدہ کیا۔ اس اجتماع کا انعقاد نہ ہوتا تو شاید ہم ان مقامات کو اتنی جلدی دیکھ نہ پاتے۔ یاد کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سفر ہم نے کچھ دن پہلے کیا۔ واپسی کا سفر زیادہ تر وقت سونے میں گزرا۔ واپسی میں ہم پداپلی اسٹیشن پر اتر گئے۔ وہاں سے بذریعہ بس کریم نگر واپس ہوئے۔ اس طرح ایک تاریخی اور یادگار سفر کا اختتام ہوا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024