ایک تاریخی اضطراب : آرایس ایس اور امبیڈکر کا آئین

موجودہ آئین کی جگہ نئے ہندوتووادی آئین کی تدوین کے لیے رائے سازی

ڈاکٹر ابھئے کمار، دہلی

دیب رائے کا موجودہ آئین ہند کو تبدیل کرنے کا مطالبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہندوتوطاقتوں کے دماغوں میں بھارت کے موجودہ آئین سے کس قدر نفرت بھری ہوئی ہے۔
بھارت میں جب 77واں یوم آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا تب حکم راں جماعت کے ایک نظریہ ساز نے ملک کے ایک معروف اخبار MINT میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ بھارت کے موجودہ آئین کو ایک نئے آئین سے بدلنے میں مزید کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ بھارت کے وزیر اعظم کے اقتصادی مشاورتی کونسل (EAC-PM) کے چیئرمین ببیک دیب رائے لکھتے ہیں کہ آئین میں گنی چنی چند محدود ترامیم سے کام نہیں چلے گا، ہمیں اس کی تمہید بدلنے سے اپنا کام شروع کرتے ہوئے اس کے قدیم بنیادی اصولوں کو ہی ہٹانا ہوگا تاکہ Preamble میں موجود اصطلاحات کی، آج کے بھارت کے تناظر میں تشریح ہو۔ سوشلسٹ، سیکولر، جمہوری، انصاف، آزادی اور مساوات جیسے الفاظ کا مفہوم واضح ہونا چاہیے۔ دراصل بھارتی عوام کو ایک نئے آئین و آئین کی تدوین کی ضرورت ہے۔ دیب رائے کا موجودہ آئین ہند کو تبدیل کرنے کا مطالبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہندوتوا طاقتوں کے دماغوں میں بھارت کے اپنے آئین سے کس قدر سخت نفرت بھری ہوئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دیب رائے کا یہ بیان، ان کی اپنی رائے نہیں ہے بلکہ فاشسٹ طاقتوں کی طرف سے یہ سب کچھ ان کی زبان اور قلم سے اگلوایا جا رہا ہے جو ان شدت پسند ہندو طاقتوں کا دیرینہ خواب بھی ہے۔ چاہے حزب اختلاف کی تمام جماعتیں، ان کی اس مذموم کوشش کے خلاف صف آراء کیوں نہ ہو جائیں، ہندوتوا عناصر ہر صورت میں اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے۔ دیب رائے کے اس مضون کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والوں میں کانگریس کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آخر کار دیب رائے کے اس مضمون کے ذریعے حکم راں بی جے پی اور ہندوتوا طاقتوں نے موجودہ آئین ہند کو جس کے معمار امبیڈکر ہیں، ختم کرنے کا عام اعلان کر ہی ڈالا۔ جینت چودھری، صدر راشٹریہ لوک دل نے بھی دیب رائے کے اس زہریلے مضمون اور ان کے خطرناک خیالات کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے ایک ذمہ دار چیئرمین کو بھارت کے آئین کو بدلنے کے لیے اس طرح اپنی رائے کے اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ سوامی پرساد موریا، قومی جنرل سکریٹری، سماج وادی پارٹی نے کہا کہ موجودہ آئین کی موجودگی میں نئے دستور کی تدوین اور ہندوتوا اصولوں پر مبنی نئے قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جانی چاہیے کیونکہ یہ مطالبہ بذات خود ملک دشمن کارروائیوں کا ایک حصہ ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ دیب رائے کی اس رائے کے خلاف نہایت سخت تنقید، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیب رائے نے درحقیقت موجودہ بھارتی آئین کی اعلانیہ بے حرمتی کا ارتکاب کیا ہے۔ مرکزی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس جرم کے لیے، ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے تاکہ آئندہ کوئی بھی فرد، بلا لحاظ مرتبہ یا سرکاری رتبہ، آئین کی اس طرح تضحیک کرنے کی جراٗت نہ کرسکے۔ مایاوتی نے بجا طور پر کہا کہ بھارت کے موجودہ آئین کو ختم کرنے کا مطالبہ سراسر عوام مخالف ہے جو راست طور پر سرمایہ داروں کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا موجودہ آئین غریب عوام، پچھڑے طبقات، پس ماندہ اقوام اور سماج کے نظر انداز کردہ افراد کے لیے مساوات کی مکمل ضمانت دیتا ہے۔ چند گنے چنے خود غرض، تنگ نظر، ذات پات کی بنیاد پر سماج کو بانٹنے والے فاشسٹ عناصر ہی آئین کو عوام دشمن اور مکمل سرمایہ دارانہ دستاویز میں تبدیل کرنے کی ناپاک مہم میں سرگرم عمل ہیں۔ اب ہر امن پسند بھارتی شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دیب رائے کی اس تجویز کی مخالفت میں مزید کوئی تاخیر کیے، میدان عمل میں اتر پڑے۔ کئی ریاستوں میں بہت جلد انتخابات ہونے والے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں، نریندر مودی کی قیادت میں قائم بی جے پی حکومت کی ناکامیوں کا پردہ فاش کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو رہی ہیں۔ شاید بی جے پی کو قبل از وقت اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ دیب رائے کے اس نظریے کا عوام پر الٹا ہی پڑے گا۔ چنانچہ دیب رائے کے بھارت میں نئے آئین کی تدوین کے مطالبے سے حکومت شاید اپنے آپ کو دور رکھنے کی محض اداکاری کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے اور وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل نے موجودہ آئین کی جگہ نئے آئین کی تدوین سے اپنے آپ کو لا تعلق ظاہر کرنے کے لیے اس بات کو دیب رائے کا ذاتی نظریہ قرار دیا ہے اور کہا کہ وہ ہرگز موجودہ بی جے پی حکومت کی ترجمانی یا عکاسی نہیں کرتے۔ آپ کو ایک مرتبہ اور یاد دلا دیں کہ دیب رائے موجودہ مودی حکومت کے ایک نہایت اہم نظریہ ساز افراد میں سے ایک ہیں۔ وہ تجارتی بنیاد پرست، رجعت پسند عناصر اور قدامت پسند ہندو قوم پرستی کے ایک پرجوش حامی ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے متحرک، فعال عوامی شعبوں، عوامی فلاحی اسکیموں اور غریبوں کے ساتھ انسانی ہمدردی پر مبنی پالیسیوں کی سخت مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ذات پات کی بنیاد پر تحفظات، غریبوں کے مفاد میں جاری اقدامات، خصوصاً اقلیتوں کو دی جانے والی مراعات اور حقوق ان کو سخت ناپسند بھی ہیں اور انتہائی ناگوار بھی۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو آر ایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے کے مطابق ان کے لیے نہایت پسندیدہ ہے۔ آر ایس ایس کی منافقت کا یہ کھلا ثبوت ہے کہ وہ کبھی سودیشی امور اور روحانیت کے اصولوں کی تائید میں بولتی ہے اور پھر اسی منہ سے مادہ پرستی اور سرمایہ داری کی مخالفت بھی کرتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آر ایس ایس، جاگیر داروں، سرمایہ داروں، بڑے تاجروں اور تاجر گھرانوں کے گرگوں کے مفادات کے تحفظ میں ہمیشہ سب سے آگے رہی ہے۔ مختصر سے عرصے میں بھارت کے سیاسی میدان میں ان کو ملنے والی حمایت اس بات کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ہندوتوا نظریے کا مقصد محنت کش طبقات، کسانوں، پس ماندہ ذاتوں اور اقلیتوں کے آئینی حقوق پر غاصبانہ تصرف، اکثریت پرستی اور ان پر محکومیت قائم کرنے کے لیے قوم پرستی کا لبادہ اڑھا دیا جانا ہے۔ بالواسطہ طور پر بھی دیب رائے نے اپنے مضمون میں قوم پرستی سے متعلق یہ استدلال پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ نو آبادیاتی خرابیوں میں لپٹا ہوا یہ آئین ہمیں لت پت حالت میں ملا ہے۔ اپنے اسی نظریے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دیب رائے نے کہا کہ بنیادی طور پر ہمارا موجودہ آئین گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء سے مطابقت رکھتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کا شمار بھی نو آبادیاتی میراث ہی کی صورت میں ہوگا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی قیادت کی ہمیشہ سے یہ حکمت عملی رہی ہے کہ عوامی مفاد کے جو نکات ان کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے انہیں نو آبادیاتی قرار دینے میں وہ لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرتے۔ آئین ہند سے لے کر سیکولرازم، صنفی حقوق اور سوشلزم جیسے نظریات کو تک بھارتی تہذیب کے یکسر خلاف ہونے کا الزام لگا کر ان نظریات کی مخالفت کرنا ان کے لیے ایک فیشن بن گیا ہے۔ آج آر ایس ایس اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ خود ان کا تنظیمی نظریہ اور تنظیم کی بنیادیں، اکثریت پسندی اور ثقافتی قوم پرستی پر قائم ہیں جو صد فی صد ’مخالف ایک ملکی‘ نظریہ ہے۔ عالمی سطح پر کئی معروف تاریخ دانوں نے جرمن قوم پرستی کے نظریات اور آر ایس ایس کے نظریات کے درمیان پائی جانے والی مماثلت کی بنیاد پر ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ ایک جامع نقشہ پیش کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آئین ہند کی بنیاد، تمام بنیادی جمہوری نظریات پرقایم ہے۔ صنفی اورعام مساوات، آزادی، بھائی چارہ، سماجی انصاف، فلاحی ریاست کا قیام، سیکولرزم اور اکثریتی نظام حکومت بھارت کے آئین کی خصوصیات میں شامل ہیں۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اقلیتی حقوق اور وفاقیت کو آر ایس ایس نے محض مراعات پانے والے طبقات کی مکمل بالا دستی قائم رکھنے کے لیے اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔ درحقیقت آر ایس ایس اور مودی بنیادی طور پر پس ماندہ طبقات اور اقلیتوں کو دیے جانے والے آئینی حقوق کے سخت مخالف ہیں۔ محض انتخابی مجبوری نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ اسی پالیسی کی بنیاد پر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کسی بھی مخالف انقلابی ایجنڈے کے اظہار کے لیے کھل کر ہرگز سامنے نہ آئے۔
دیب رائے کا آئین ہند کے خلاف دیا گیا بیان اکثریتی فاشسٹ طبقات کی بیمار سیاسی ذہنی مزاج کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ آر ایس ایس آئین ہند کو غیر قانونی اور بھارت کے عوام کے لیے ناقابل قبول قرار دینے کی مسلسل کوششیں کرتی آرہی ہے۔ جب آئین کا مسودہ تیار کیا گیا تھا تب بھی آر ایس ایس اپنے ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ کے ذریعے اس دستاویز کو قبول کرنے سے گریز کرتی رہی اور اسے رد کرنے میں ہمیشہ آگے رہی ہے۔ جمہوری اور سیکولر بھارت کے آئین کا جشن منانے کے بجائے آر ایس ایس نے منوسمرتی پر تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ عوام اس بات کو کبھی نہیں بھول پائیں گے کہ 25؍دسمبر 1927ء کو مہد میں، امبیڈکر ؔنے منوسمرتی کو سماجی رابطہ کو عدم مساوات کو فروغ دینے پر نذر آتش کردیا تھا۔ بابا صاحب امبیڈکر کے مطابق ’اسمرتی ادب‘ بشمول ’مانو سمرتی‘ نے انقلاب کے خلاف نہ صرف رد انقلاب کو قانونی حیثیت دی تھی بلکہ اس نے پیدائش کی بنیاد پر فرد کو سماجی حیثیت دینے کے معیار ہی کو بدل دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں شودر کو غلامی کے گڑھے میں گرا دیا گیا اور خواتین کو ذات پات کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ بالفاظ دیگر، امبیڈکر نے یہ دلیل دی تھی کہ سماج کے تمام پس ماندہ گروہوں بشمول خواتین اور طبقات کی غلامی کو ’منوسمرتی‘ نے جائز قرار دے دیا ہے۔ مہد کے زمانے سے آج تک سوائے ہندو طاقتوں کے کسی اور سیاسی گروہ نے اس کا دفاع نہیں کیا۔ آر ایس ایس کے ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ کے 30؍نومبر 1949ء کے شمارے میں شائع شدہ ایک اداریے میں نہایت بے باکی کے ساتھ لکھا گیا تھا کہ قدیم بھارت کے ان کے اپنے آئین میں کسی کے انفرادی طور پر ترقی کرنے کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔ منو کے قوانین دراصل Lycurgus of Sparta یا Solon of Persia سے بہت زمانہ پہلے لکھے گئے تھے۔ جیسا کہ منوسمرتی میں لکھا گیا ہے کہ آج بھی اس کے قوانین، انسان کے ذہن میں اطاعت اور حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت، خود بخود پیدا کر دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس! ہمارے دستور کے ان ماہرین یعنی آئینی پنڈتوں کے نزدیک اس نکتے کا کوئی مطلب نہیں۔
آر ایس ایس کی مشتبہ اور مشکوک سیاسی حرکات کا جائزہ لیں تو یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ ان کے قائدین ایک طرف امبیڈکر کے قومی چیمپین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف منوسمرتی کی تعریفوں کے پل بھی باندھتے ہیں ،حالانکہ امبیڈکر نے منوسمرتی کی ساری زندگی مخالفت کی تھی۔ آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک اور اس تنظیم سے وابستہ ایک اہم ماہر نظریات شخصیت نے منوسمرتی کی تعریف کرتے ہوئے اپنی کتاب(Bunch of Thoughts (1966 میں اپنے عقیدے کی تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ بھگوان منو اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا قانون ساز دستاویز ’منوسمرتی‘ ہی ہے۔ بھارت کے آئین پر اپنا حملہ جاری رکھتے ہوئے آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم وشو ہندو پریشد نے اپنے دھرم سنسد (ہندو مذہبی پارلیمنٹ) میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں آئین ہند کو سراسر ہندو مخالف قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد وی ایچ پی نے بھی مطالبہ کیا کہ جتنا جلد ممکن ہو بھارت کے آئین کو ہندو مذہبی اصولوں پر مبنی ایک نیا آئین ترتیب دے کر اسے نافذ کرنے کی فکر کی جائے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے ایک گروپ نے جنہیں مخالف تحفظات بھی کہا جاتا ہے، اگست 2018ء میں پارلیمنٹ کے قریب آئین ہند کی کاپی نذر آتش کی تھی۔ ہندوؤں میں خود کو اعلیٰ ذات کہلانے والی لابی آر ایس ایس کا سماجی بنیادی مرکز بھی تحفظات کا سخت مخالف ہے۔ محض انتخابی کامیابیوں سے محرومی کے ڈر سے اور بی جے پی کے سیاسی کرئیر کے تحفظ کی خاطر یہ ٹولہ، تحفظات کے خلاف خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسی سیاسی صورت حال کے باوجود موجودہ آر ایس ایس سرسنگھ چالک نے تحفظات پر نظر ثانی کرنے کا اپنا مطالبہ پیش کر دیا ہے جس کا مقصد اپنے بنیادی ارکان اور حامیوں کو محض یہ اشارہ دینا ہے کہ آر ایس ایس نے ان تمام خدشات کو دور کرنے کے لیے کسی سے کوئی مفاہمت یا سمجھوتہ نہیں کیا ہے بلکہ آج بھی وہ اپنے اس مطالبے پر سنجیدگی کے ساتھ قائم ہے۔ آر ایس ایس کی رائے کے مطابق بھارت کی موجودہ تحفظات کی پالیسی دراصل ہندو طاقتوں کے لیے ایک منفی اور نقصان دہ پالیسی ہے جو نام نہاد سیکولر کانگریسی حکومت نے ملک پر زبردستی مسلط کر رکھی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج بھی تمام ہندوتوا طاقتیں ان تحفظات کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ تحفظات سے پالیسی ساز اداروں میں پس ماندہ طبقات اور اقلیتوں کے داخلے کی راہیں ہموار ہوں، جو اب تک صرف چند مراعات یافتہ طبقات اور ذاتوں کی جاگیر رہی ہیں۔ دیب رائے کے مطابق ایک عرصہ قبل جن سنگھ کے سابق صدر دین دیال اپادھیائے نے اپنے کتابچے ’’راشٹر چنتن‘‘ میں دستور ہند کے خلاف کئی سوالات اٹھائے تھے جن سے ان کے مطابق دستور میں موجود چند خامیوں کی نشان دہی ہوتی تھی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ آئین ہند دراصل گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی ہوبہو نقل کرکے ترتیب دیا گیا ہے چنانچہ اسی قسم کی دلیل دیب رائے نے بھی کئی بار دہرائی ہے۔ مزید برآں اپادھیائے نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ مغربی علوم کی بنیاد پر یہ آئین ترتیب دیا گیا ہے یعنی یہ امریکہ کے صدارتی نظام حکومت اور برطانوی پارلیمانی نظام حکومت کا امتزاج ہے اور کہیں سے بھی ہمیں اس کے بھارتی ہونے کا شائبہ نہیں ملتا۔ اس میں سب سے پہلے انہوں نے ملک کے ہندی نام ’بھارت‘ کو انگریزی میں ’انڈیا‘ لکھے جانے پر اعتراض کیا اور قومی زبان کے حوالے سے آئین میں موجود دفعات کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ 2000ء میں آر ایس ایس کے سربراہ کے ایس سدرشن نے بھی آئین ہند پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوالیہ نشان کھڑا کیا تھا کہ ہم بھارت میں اقلیتوں کو کسی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اقلیتوں کو بھارت میں رہنا ہے تو انہیں اپنی زندگی میں اکثریت کی ثقافت اور تہذیب کو ہر حال میں قبول کرنا ہوگا۔ اس سے قبل 4؍اگست 2000ء کو کے ایس سدرشن نے بی بی سی کے ایک پروگرام Hard Talk India میں ایک مشہور بھارتی صحافی کرن تھاپر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم بنیادی طور پر کسی قیمت پر نظریہ ’’اقلیت‘‘ اور اس کے تصور کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے۔ اسی موقع پر انہوں نے کہاتھا کہ بھارت کا آئین بھارتی عوام کے اخلاق وکردار کی عکاسی ہی نہیں کرتا۔ اس کے لیے ہمیں اپنا آئین خود تیار کرنا ہوگا۔ جب اٹل بہاری واجپائی برسر اقتدار تھے تب بھی آئین ہند پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
فاشسٹ اور فرقہ پرست طاقتوں کے ایسے زہریلے افکار اور خطرناک ارادوں کے پس منظر میں، بھارت کے تمام امن پسند عوام کو مجوزہ نئے آئین کی تدوین کی انقلابی سازشوں کے خلاف متحدہ طور پر مقابلہ کرنے کے لیے آگے آنے میں مزید کوئی دیر نہیں کرنی چاہیے۔
یہ مضمون انگریزی زبان میں سب رنگ انڈیا نامی نیوز پورٹل پر شائع ہوا تھا.(ترجمہ :سلیم الہندی، حیدرآباد)
***

 

***

 فاشسٹ اور فرقہ پرست طاقتوں کے ایسے زہریلے افکار اور خطرناک ارادوں کے پس منظر میں بھارت کے تمام امن پسند عوام کو مجوزہ نئے آئین کی تدوین کی انقلابی سازشوں کے خلاف متحدہ طور پر مقابلہ کرنے کے لیے آگے آنے میں مزید کوئی دیر نہیں کرنی چاہیے۔۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023