ایک شخص سار ے شہر کو ویران کرگیا
جماعت اسلامی ہند کے بزرگ قائد نصیر الدین خان کی وفات،قوم وملت کے لیے عظیم خسارہ
محمد خالد اعظمی (حال مقیم کویت)
۶؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو علی الصباح سوشل میڈیا میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ ایک معروف تحریکی، سماجی اور تعلیمی شخصیت سے علاقے کے لوگ محروم ہو گئے ہیں۔ ایک ہر دلعزیز شخصیت نصیر الدین خان جنہیں لوگ ’’ماما‘‘ کے نام سے پکارتے تھے وہ اپنے چاہنے والوں کو یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ خوش رہو اہل چمن ہم تو سفر کرتے ہیں۔ انا للہ و انآ الیہ راجعون۔
لگن کے سچے، دھن کے پکے اورقوم وملت کے لیے کچھ کرنے والے پچاسی سالہ نصیرالدین خان ضلع گیا کے زرخیز، مردم خیز اور علم دوست گاؤں کلونامیں ۱۴ جولائی ۱۹۳۹ء کو پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں ان کے والدکا انتقال ہو گیا، یتیمی اور مفلوک الحالی کی وجہ سے بچپن میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ کچھ کرنا ہے، اللہ نے مدد کی اور ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے وہ کام کیے جو صدقہ جاریہ کے طور پر ہمیشہ جاری و ساری رہیں گے اور جس کا اجر تاقیامت انہیں ملتا رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
مرحوم نصیر الدین خان کا تعلیمی سفر اپنے آبائی گاؤں کلونا سے شروع ہوا۔ ان کی چوتھی سے ساتویں درجہ تک کی تعلیم یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی میں ہوئی۔ مزید تعلیم جاری رکھنے کے لیے انہوں نے شہر گیا کا رُخ کیا۔ قاسمی ہائی اسکول سے میٹرک، گیا کالج سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کیا۔ ۱۹۶۲ء میں بہار یونیورسٹی مظفر پور سے اردو زبان وادب میں ایم اے اور ۱۹۶۳ء میں پٹنہ ٹیچرس ٹریننگ کالج سے بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔
جناب نصیرالدین خان بہت سارے تعلیمی ورفاہی اداروں کے بانی، ممبراور ذمہ دار تھے۔ ان میں سے چند کا تذکرہ کرنا مناسب ہو گا تاکہ ان کی تعلیمی اور سماجی خدمات کا اندازہ ہو سکے۔ چیرکی ہائی اسکول کے بانی ملت اسپتال گیا کے فاؤنڈر و ممبر، مرزا غالب کالج گیا کے فاؤنڈر ممبر، گیا کے اقراء ہائی اورشتابدی اسکولوں کے بھی فاؤنڈر و ممبر، بورڈ آف اسلامک ایجوکیشن بہار (جماعت اسلامی ہند) کے ۱۹۹۸ء تا۲۰۰۰ ڈائرکٹر، یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی کے چیئرمین رہ چکے ہیں ۔
یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی
۱۹۵۴ء میں یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی کی ذمہ داری نصیر الدین خان کے سپرد کی گئی۔ اس وقت وہ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم تھے۔ یتیم خانہ ایک پھوس کے مکان میں تھا اور یتیم طلبہ کی تعداد تقریباً ۲۵ تھی اور تیسری جماعت تک کی تعلیم کا نظم تھا۔
جامعۃ البنات کھنڈیل
مرحوم کو تعلیم و تعلم کے میدان کا کافی تجربہ تھا۔ یتیم خانہ کی ذمہ داری سے سبک دوش ہونے کے بعد لڑکیوں میں دینی تعلیم کا شعور بیدار کرنے کے لیے انہوں نے جامعۃ البنات کے نام سے ایک اقامتی درس گاہ قائم کی۔ چیرکی میں ایک کرایہ کے مکان میں چند بچیوں سے اس کا آغاز ہوا۔ پھر اللہ کی رضا سے ۱۹۸۶ء میں چیرکی سے قریب کھنڈیل میں لب سڑک پانچ ایکڑ زمین اس ادارے کے لیے خریدی گئی اور ادارہ وہاں منتقل ہوگیا۔ وہ اس ادارہ اس کے بانی تھے اور اس ادارہ کے تا حیات چیئرمین رہے۔
انہوں نے اپنی کوششوں سے جامعۃ البنات کھنڈیل کوبہار میں لڑکیوں کا ایک بڑا اقامتی ادارہ بنادیا۔یہ بہار ،جھارکھنڈ اور نیپال کی مسلم طالبات کی اعلیٰ تعلیم کے مرکز کی حیثیت سے معروف ہے۔ انہوں نے اس وقت کے گورنر بہار ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کو جامعۃ البنات مدعو کیا اور ان کے ہاتھوں جامعہ کے کیمپس میں لائبریری کا سنگ بنیاد بھی رکھوایا تھا۔
ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر عبدالمغنی (سابق وائس چانسلر للت نرائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ) پر دھاندلیوں کے بعض الزامات عائد کیے گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں وائس چانسلرکا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ اوراسی کے تحت ان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ تاہم وہ جلد ہی سبھی الزامات سے بری ہو گئے۔ الزامات کا تعلق مالی بدعنوانی سے نہیں تھا بلکہ انہوں نے بی ایڈ کے اکیڈمک سیشن کو درست کرنے کے لیے دو سیشن کا امتحان ایک ساتھ لینے کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف ان کے سیاسی و نظریاتی مخالفین نے اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر تفتیشی جانچ کمیٹی قائم کروادی۔ ڈاکٹر عبدالمغنی اس آزمائش کے دنوں میں کئی مہینوں تک جامعۃ البنات کھنڈیل میں مقیم رہے اور اپنے معمول کے علمی کاموں کو انجام دیتے رہے۔ جامعۃ البنات کھنڈیل کے بانی وچیئرمین نصیر الدین خان سے ان کے گہرے تعلقات تھے اور دونوں ایک دوسرے کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔
چیرکی ہائی اسکول کا قیام
جناب نصیرالدین خان نے ۱۹۶۲ تا ۱۹۹۵ چیرکی ہائی اسکول میں درس وتدریس کی خدمت دی ہے۔ جب لالو پرساد یادو بہار کے وزیر اعلیٰ بنے تو حکومت نے بہار کے تمام اساتذہ کا تبادلہ کر دیا۔ اسی زد میں محترم نصیرالدین خاں بھی آگئے اور ان کا تبادلہ ۱۹۹۵ء میں ضلع نوادہ کے وارث علی گنج کے مشہور بی کے ساہو (B.K.SAHU) ہائی اسکول میں ہو گیا جہاں سے وہ۱۹۹۹ء میں ریٹائر ہوئے۔
بوائز اسکول
جناب نصیرالدین خان اور دیگر لوگوں کی کوششوں سے تیس سال پہلے جامعۃ البنات کھنڈیل سے قریب لڑکوں کے اسکول کے لیے تین ایکڑ زمین خریدی گئی تھی لیکن اپنوں کی نااہلی اور لاپروائی کی وجہ سے یہ زمین اب تک بیابان کا منظر پیش کر رہی ہے۔
تعلیم سے موصوف کو جنون کی حدتک لگاؤ تھا۔ متعدد تعلیمی اداروں کے قیام وانصرام کے ساتھ وہ تعلیم کے لیے سرگرم تنظیموں سے بھی وابستہ رہے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں وہ آل انڈیا مسلم تعلیمی کانفرنس سے منسلک ہوئے اور اس کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ جماعت اسلامی ہند حلقہ بہار کے تحت قائم اسلامک ایجوکیشن بورڈ کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ نیز، بہار ریاستی اقلیتی کمیشن کے رکن بھی رہے ہیں۔
جماعت اسلامی ہندسے تعلق
۱۹۵۵ء۔۱۹۵۶ء کا واقعہ ہے۔ شہر گیا میں نصیر الدین خان جس مکان میں رہ کر انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے حسن اتفاق سے اسی مکان میں جماعت اسلامی سے متعلق کچھ لوگ بھی رہتے تھے۔ ان لوگوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے کتابچے ایسی جگہوں پر رکھ دیا کرتے تھے جہاں اس مکان میں رہنے والے طلبہ کی نظر پڑ جائے۔ اس طرح ان لوگوں نے یہ بھی کیا کہ وہ طلبہ سے کہتے کہ ان کتابچوں کا مطالعہ کرکے بتائیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ اس طرح وہ کتابچے پڑھنے لگے اور جماعت اسلامی سے قریب ہوتے چلے گئے۔
بہار میں جماعت اسلامی ہندسے منسلک جن شخصیات سے وہ کافی متاثر تھے ان میں ڈاکٹر سیدضیاء الہدیٰ پٹنہ،سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی بہار،جناب انیس الدین احمد، سابق امیر حلقہ بہار، سہسرام سے تعلق رکھنے والے مولانا ارتضاء الدین حاذق ضیائی اورقمرالدین خان سہدیوکھاپ گیا کا نام خاص طور پر قابل ذکرہے۔
خاں صاحب ۱۹۶۸ء میں جماعت اسلامی ہند کے باقاعدہ رکن بنے۔ تحریکی سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش اور کافی سرگرم رہتے تھے۔ وہ تا حیات تحریک سے عہد وفا نبھاتے رہے۔ اس کی راہ میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
اہم واقعات
۲۵؍جون ۱۹۷۵ء میں اندراگاندھی نے ملک میں ایمرجنسی لگا دی اور جے پرکاش آندولن میں شریک تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو نظر بند کر دیا۔ اس کے ساتھ جماعت اسلامی ہندپر بھی پابندی لگا دی اور جماعت کے ارکان کو بھی قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے مرکزی اور صوبائی ذمہ داروں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ ساتھ ہی دیگر ارکان جماعت بھی اس کی زد میں آئے۔
مرحوم نصیر الدین خان اس وقت گیا میں تھے اور ان کے روابط سرکاری افسروں سے اچھے تھے۔ ابتدا میں سرکاری افسروں نے نرمی برتی۔ سب سے پہلے امیر مقامی شہر گیا جناب محمد الیاس صاحب کو جیل بھیجا گیا، دو ماہ بعد نصیرالدین خان، الیاس اورنگ آباد ، انیس الرحمن سہدیو کھاپ اور آزاد سوپ فیکٹری گیا کے مالک سلیمان صادق کے نام وارنٹ جاری ہوا۔ مقامی پولیس انسپکٹر سے نصیرالدین خان کے تعلقات اچھے تھے، ان کے کہنے پر انسپکٹر نے وقتی طور پر صرف چار ارکان جماعت اسلامی کے نام وارنٹ جاری کیا۔ نصیرالدین خان کے سامنے انسپکٹر نے ایس پی سے پوچھا کہ FIR میں کیا درج کیا جائے تو ایس پی نے کہا کہ جو کہا گیا ہے کرلو ،ہم لوگ مجبور ہیں۔ انسپکٹر صاحب کی آفس کے قریب مدرسہ قاسمیہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انیس الرحمن خان ناظم علاقہ یہ تقریر کر رہے تھے کہ اندرا گاندھی کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جائے۔
ان تمام لوگوں نے نماز ظہر ادا کی، آزاد سوپ فیکٹری میں کھانا کھایا، پھر انسپکٹر صاحب کی آفس میں حاضر ہوئے۔ اس کے بعد ان لوگوں کو ایس ڈی او کورٹ میں لے جایا گیا اور اخیر میں گیا جیل کی مہمان نوازی کے لیے بھیج دیا گیا۔
گیا جیل پہنچنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ پہلے ہی سے رانچی اورجمشید پور کے تقریباً پچاس ارکان وہاں موجود ہیں اور بہت خوش گوار موڈ میں نظر آرہے ہیں۔ تحریک اسلامی کے ارکان کے علاوہ تقریباً چھ سو دیگر سیاسی پارٹیوں کے افراد بھی موجود تھے۔ جیلر نے ان کی رہ نمائی کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیل میں گھوم پھیر کر دیکھ لیں کہ کون سا وارڈ اچھا لگ رہا ہے تاکہ وہی وارڈ آپ لوگوں کو دے دیا جائے۔ ان لوگوں نے وارڈ نمبر ۷ کو پسند کیا تو جیلر نے اس وارڈ کی صفائی ستھرائی کروائی اور تمام تحریکی افراد اس وارڈ میں منتقل ہوگئے، جن کی تعداد ساٹھ تھی۔ آرام وسکون کے ساتھ روز مرہ کی زندگی گزارنے لگے۔
میسا وارڈ
ایک دودنوں کے بعد گیا جیل میں بند جماعت اسلامی کے افراد کو پتہ چلا کہ ڈاکٹر بسنت نارائن سنگھ (رام گڑھ) کے چھوٹے بھائی بھی وہاں ہیں اور نوادہ کے ڈاکٹر منظور سابق ایم ایل اے اور آرایس ایس کے دو سینئر پروفیسر بھی ہیں۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد جماعت کے لوگ جیل میں بند سیاسی قیدیوں سے ملاقات کرنے کی غرض سے نکلے۔ اسی وارڈ میں شہاب الدین صاحب پٹنہ سابق ایم ایل اے، بسنت نارائن سنگھ جو اس وقت جنتا دل یو کے صدر اور راجیہ سبھا کے ممبر تھے اور جے پرکاش کے قریبی سمجھے جاتے تھے اور ایوب خان بھی موجود تھے۔ گویا جیل کی چہار دیواری ان لوگوں کے لیے بہت خوش گوار اور سود مند ثابت ہو رہی تھی۔
جیل کی زندگی
جیل کی زندگی کا سب بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مختلف مکاتب فکر کے سیاسی اور سماجی لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ایک دوسرے کے افکار وخیالات سے واقفیت ہوئی اور بہت سی غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں۔ آر ایس ایس کے افراد ان سے قریب ہوئے اور انہیں اسلام کا باضابطہ تعارف کرانے کا موقع ملا۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے قرآن پاک کا ہندی زبان میں ترجمہ برادران وطن کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مرحوم نصیرالدین خان ایک سال تک جیل میں رہے۔ اس کے بعد وہ ضمانت پر رہا ہو کر جیل سے باہر آگئے۔
یہ بات افسوس ناک تھی کہ جیل میں آننت مارگیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ تحریک اسلامی کے افراد نے اس موقع پر ان کا ہر طرح سے تعاون کیا۔
جمعہ کے روز جب جماعت اسلامی کے افراد نماز پڑھنے جاتے تو وارڈ کھلا ہی رہتا تھا اور اس کی نگرانی اوستھی صاحب کرتے تھے۔ ان کا تعلق فتح پور یو پی سے تھا لیکن وہ جمشید پور سے گیا جیل منتقل کیے گئے تھے۔ وہ تمام وارڈ کی نگرانی کرتے تھے اور قرآن مجید کا مطالعہ بھی کرتے، ان کو دیکھ کر ان کے دوسرے ساتھی بھی قرآن کا مطالعہ کرنے لگے تھے۔
گیا جیل میں رمضان میں افطار کا با قاعدہ نظم ہوتا تھا۔لوگ خود بھی افطار سے لطف اندوز ہوتے اور دیگر مذاہب کی اہم شخصیات کو بھی مدعو کرتے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر بسنت نارائن سنگھ نے خوش ہو کر کہا کہ ہم لوگ آپ تمام لوگوں کو افطار کروائیں گے اور باضابطہ ایک دن ان لوگوں نے افطار کا اچھا خاصا نظم کیا ۔آٹھ دس آدمی اپنے سر پر اٹھا کر افطار کا سامان لائے اور لوگوں کے سامنے پیش کیا۔
جیل میں تحریکی اور دیگر سیاسی قیدیوں کو جہاں بہت ساری سہولیات میسر تھیں،وہیں کچھ قیدی ایسے بھی تھے جو محتاج اور بے بس تھے۔ جماعت کے لوگوں نے ان کے درمیان کپڑے وغیرہ بھی تقسیم کیے۔
ایمرجنسی کا خاتمہ
۲۱ مارچ ۱۹۷۷ء میں ایمرجنسی کا جب خاتمہ ہوا تو اس کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں بحال ہوئیں اور ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس میں کانگریس کو زبردست شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ ملک کی وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی الیکشن ہار گئیں۔ اس الیکشن میں اپوزیشن پارٹیوں کی جیت ہوئی اور جنتا سرکار میں مرارجی دیسائی وزیر اعظم منتخب ہوئے اور صوبہ بہار میں کرپوری ٹھاکر وزیر اعلیٰ بنے۔
نصیر الدین خان گورنمنٹ ہائی اسکول میں ٹیچر تھے۔ دوران ایمرجنسی ۱۹۷۵ تا ۱۹۸۰ ملازمت سے معطل رہے اور مرارجی دیسائی کی حکومت میں تمام ملازمین کی معطلی ختم ہونے کا فرمان جاری ہوا تو ان کی ملازمت بھی بحال ہوئی۔
جماعت اسلامی کی ذمہ داری
جناب نصیر الدین خان کو جیل سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ۱۹۸۰ ء میں جماعت اسلامی ہند حلقہ بہار کی جانب سے سیاسی امور کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس وقت بہار کے امیر حلقہ ڈاکٹر ضیاءالہدیٰ اور ان کے معاونین میں جناب احمد علی اختر اور جناب سید محمد جعفر صاحبان تھے۔ اس وقت کے نازک حالات میں اس ذمہ داری کو انہوں نے بحسن وخوبی نبھایا۔آپ ضلع اورنگ آباد کے ناظم اور حلقہ بہار کی شوریٰ کے رکن بھی رہے۔
بقول مرحوم نصیر الدین خان ان کی زندگی کا سب سے زیادہ خوشی کاموقع ۱۹۵۴ء میں اس وقت شروع ہوا جب انہیں یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس وقت وہ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم تھے اور یتیم خانہ ایک پھوس کے دو منزلہ مکان میں چل رہا تھا۔ یتیم طلبہ کی تعداد پچیس رہی ہوگی اور تیسری جماعت تک تعلیم کانظم تھا۔ اس وقت سے انہوں نے اپنی پوری محنت اور جدوجہد یتیم خانہ کو پروان چڑھانے اور ترقی دینے میں لگا دی۔ ان کے ساتھ مقامی افراد میں مولوی عبداللہ، ان کے صاحب زادے عبدالستار، عبد الغفار، عبدالجبار اور چھوٹے بھائی عبدالباری اور اختر صاحبان کے ہمراہ ماسٹر توفیق احمد خان پیش پیش تھے۔ اس وقت بانی یتیم خانہ منشی عنایت خان فالج کے شکار اور صاحب فراش تھے۔ ان کے بچے کلکتہ میں زیر تعلیم تھے۔ ڈاکٹر عبدالمجید اس وقت ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ۱۹۶۵ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے گیا میں پریکٹس شروع کر دی اور اپنے مستقبل کو تابناک اور روشن بنانے میں لگے رہے اور ان کے باقی دیگر اہل خانہ اسکول کی تعلیم میں لگے ہوئے تھے۔
مرحوم نصیر الدین خان اور دیگر احباب کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں ۱۹۸۰ء تک یتیم خانہ میں یتیم طلبہ کی تعداد ۱۵۰ کے لگ بھگ ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے اس کی مالی حالت کو درست کرنے کے لیے پورے ہندوستان میں اس کی آمدنی کا ذریعہ پیدا کر لیا تھا۔
مولانا مودودیؒ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے لاہور کا سفر :
۲۲؍ ستمبر ۱۹۷۹ء کی شب عالم اسلام کے عظیم مفکر، جماعت اسلامی کے مؤسس اور اولین داعی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا انتقال ہوگیا۔ ان کی نمازہ جنازہ میں شرکت کے لیے ہندوستان سے ۲۴؍ ستمبر ۱۹۷۹ء کی شب میں تین قافلے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔
جماعت کے ایک معتدبہ تعداد کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔ ایسی حالت میں کیا کیا جائے؟ اس وقت چودھری چرن سنگھ وزیر اعظم اور ایس این مشرا وزیر خارجہ تھے جن کا تعلق ریاست بہار سے تھا۔ جماعت کے لوگوں نے ان سے ملاقات کی اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ ان لوگوں سے ملاقات کے بعد انہوں نے کہا کہ جتنے لوگ جا سکتے ہوں جائیں کسی طرح کی کوئی پریشانی اور رکاوٹ نہیں ہو گی۔ الحمد للہ ویسا ہی ہوا۔
ہند و پاک کے ذمہ داروں کے تعاون سے ۲۴؍ ستمبر ۱۹۷۹ء کی شب میں تین قافلے لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔ ایک قافلہ مولانا محمد یوسف صاحب امیر جماعت اسلامی ہند، سابق امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی اور دیگر حضرات پر مشتمل تھا۔ جب کہ دوسرا قافلہ ۲۳ افراد پر مشتمل تھا جس کی قیادت جماعت کے سکریٹری مولانا سید حامد علی کر رہے تھے اور تیسرا قافلہ ۲۵؍ستمبر کی دوپہر واگھا پہنچا۔ پچاس افراد پر مشتمل یہ قافلہ جماعت کے دوسرے سکریٹری جناب سید حامد حسین صاحب کے ساتھ روانہ ہوا۔ اس قافلہ میں مولانا صدرالدین اصلاحی اور دیگر ارکان مرکزی مجلس شوریٰ اور امرائے حلقہ جات تھے۔ یہ قافلہ بذریعہ ٹرین دہلی سے لاہور گیا تھا۔
اس وقت مرحوم نصیرالدین خان بھی مرکز جماعت اسلامی چتلی قبر میں مقیم تھے۔ وہ بھی لاہور جانے والوں میں شامل ہوگئے تاکہ اپنے قائد کا آخری دیدار کرسکیں۔
یہ تینوں قافلے بخیر و خوبی لاہور پہنچ گئے اور مولانا مودودیؒ کے جنازے میں شریک ہوئے اور ان کا آخری دیدار بھی کیا۔
اس موقع پر بین الاقوامی تحریکی اجتماع تھا۔ پوری دنیا کے تحریکی نمائندے لاہور میں جمع تھے۔ تمام لوگوں کو قریب سے دیکھنے اور بالمشافہ ان سے ملنے کا موقع ملا۔
جناب نصیر الدین خان زندگی بھر مختلف سماجی، ملی اور تعلیمی سرگرمیوں میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ آخری عمر میں بیماری کی وجہ سے وہ زیادہ متحرک نہیں رہے لیکن اپنے قیمتی تجربات اور عملی رہ نمائیوں سے لوگوں کو فیض پہنچاتے رہے۔ ان کے انتقال سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے اور ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ان کی تحریکی، تعلیمی اور سماجی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
(مضمون نگار سے رابطہ: [email protected])
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024