
ایک صدی پر محیط ذائقہ، تہذیب اور خدمت کی علامت بننے والا مشروب
روح افزا کے خلاف منفی مہم کا مثبت نتیجہ: نئی نسل کی دلچسپی میں اضافہ
مشتاق عامر
ہمدرد میں بلا تفریقِ مذہب کاریگروں کی شمولیت مشترکہ ثفاقت کی عکاس
مقبول عام مشروب روح افزا کے خلاف رام دیو نے ایک بار پھر زہر افشانی کی ہے۔اپنے تازہ بیان میں پتانجلی کے مالک رام دیو نے اس معاملے کو مذہبی منافرت کا رنگ دینے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ انہوں نے نے روح افزا کو ’شربت جہاد‘ کا نام دیا ہے۔متھرا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میں نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن روح افزا والوں نے خود ہی ’شربت جہاد‘ کو اپنے اوپر لے لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ’جہاد‘ کر رہے ہیں۔ اگر وہ اسلام کے لیے وقف ہیں اور مسجدیں و مدرسے بنا رہے ہیں تو پھر انہیں اس پر خوش ہونا چاہیے۔ لیکن یہ بات سناتنیوں کو اچھی طرح سمجھنی چاہیے۔ اگر کسی کو اس سے مسئلہ ہے تو ہونے دو‘‘ اپنے اس بیان میں انہوں نے صرف ہمدرد کمپنی کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ معروف دوا ساز کمپنی ’ہمالیہ‘ کو بھی نام نہاد ’جہاد‘ سے جوڑ دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار رام دیو نے روح افزا کے خلاف اس طرح کی زہر افشانی کی ہے۔اس سے پہلے بھی انہوں نے روح افزا کے خلاف نفرت انگیز ویڈیو جاری کیا تھا۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا تھا جب انہوں نے پتانجلی گلاب شربت لانچ کرنے کا اشتہاری ویڈیو جاری کیا تھا۔ویڈیو میں رام دیو نے کہا تھا کہ ایک شربت کمپنی ہے جو شربت تو بیچتی ہے لیکن اس سے جو منافع آتا ہے وہ مدارس اور مسجدیں بنانے میں خرچ کیا جاتا ہے۔ یہی ان کا مذہب ہے۔ اگر آپ وہ شربت پیتے ہیں تو اس سے مسجدیں اور مدرسے بنیں گے۔ لیکن اگر آپ پتانجلی کا گلاب شربت پیتے ہیں تو گروکل، آچاریہ کل، پتانجلی یونیورسٹیز اور بھارتی شکچھا ترقی کرے گی۔ اسی لیے میں کہتا ہوں جس طرح لو جہاد، ووٹ جہاد جاری ہے، اسی طرح یہ شربت جہاد بھی جاری ہے۔ اگر آپ اس شربتی جہاد سے بچنا چاہتے ہیں تو پتانجلی کا گلاب شربت پیئیں‘‘ ۔ اس کے بعد وہ پتانجلی کے شربت کا گھونٹ لیتے ہیں اور اس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں۔
رام دیو کی طرف سے لگاتار روح افزا اور ہمدرد کو مذہبی منافرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے روح افزا کی آڑ میں جس طرح مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ منافرت کی اس سیاست میں رام دیو کو ایک سیاسی مہرے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے پس پردہ منصوبہ یہ ہے کہ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ماحول کو گرم رکھا جائے ۔لیکن جہاں ایک طرف روح افزا کو ’شربت جہاد‘ کا نام دیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب روح افزا کی حمایت کرنے والے اس کے پس پردہ مذموم مقاصد کے خلاف اب کھل کر بول رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو روح افزا کی حمایت کرنے والوں کا باقاعدہ ایک طبقہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ ان میں اکثریت ہندوؤں کی ہے۔روح افزا اب ایک مشروب نہیں رہ گیا ہے بلکہ یہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی ایک علامت بن چکا ہے۔ روح افزا کی مخالفت کی پیچھے جو ذہنیت کار فرما ہے اس کو با شعور عوام اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منافرت کی اس مہم میں رام دیو کو ابھی تک خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ اب یہ لڑائی ایک شربت سے آگے نکل کر جمہوری قدروں اور آئینی حقوق کے تحفظ کی لڑائی میں تبدیل ہو گئی ہے ۔اس معاملے میں ان آزاد صحافیوں کی کوششیں قابل ذکر ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے رام دیو کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ملک کے نامور صحافی اور یو ٹیوبر اجیت انجم نے گراؤنڈ زیرو پر جاکر جو لائیو رپورٹنگ کی ہے اس نے روح افزا کی آڑ میں نفرت پھیلانے والوں کی پرتیں کھول کر رکھ دی ہیں۔اجیت انجم نے مانیسر میں واقع ہمدرد کے پلانٹ سے لائیو رپورٹنگ کرکے رام دیو کے چھوٹے دعوؤں کی پول کھول دی ہے۔ انہوں نے کیمرے کے سامنے ہمدرد پلانٹ کی سچائی دکھائی اور رپورٹنگ کے دوران انہوں نے پایا کہ روح افزا بنانے والے اس پلانٹ میں ٹاپ رینک پر کام کرنے والے تمام افسر ہندو ہیں۔اجیت انجم نے ہمدرد پلانٹ کے چیف آف پلانٹیشن (آپریشن) سلیش تیواری، مینیجر کوالٹی ڈپارٹمنٹ ڈاکٹر سنجیو ترپاٹھی، سچن پنڈھیر، پون کمار اور کرن کمار سے بات کی۔ یہ سب ہمدرد پلانٹ میں ہائی رینک عہدوں پر فائز ہیں۔ ہمدرد پلانٹ کے سلیش تیواری کا کہنا ہے کہ ہمدرد پلانٹ میں ساٹھ فیصد سے زیادہ ہندو کام کرتے ہیں۔ سیلیش تیواری کا کہنا ہے کہ ہمدرد پلانٹ میں اعلیٰ سے نچلی سطح تک کسی بھی طرح کا بھید بھاؤ نہیں ہوتا۔ یہاں سبھی طبقے کے ملازمین کو مساوی طریقے سے کام کرنے اور ترقی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہمدرد کو مسلمانوں کی کمپنی کہنا ایک گمراہ کن بات ہے۔ہمدرد پلانٹ میں اعلیٰ عہدے پر فائز کوالٹی ڈپارٹمنٹ کے مینیجر ڈاکٹر سنجیو ترپاٹھی رام دیو کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمدرد پلانٹ میں جو بھی سلیکیشن ہوتا ہے وہ میرٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔اس معاملے میں کسی طرح کا بھید بھاؤ نہیں برتا جاتا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہمدرد میں کام کرنے کا ماحول دوستانہ ہے اور یہاں کام کرنے کی پوری آزادی ہے ۔پلانٹ میں کام کرنے والے دوسرے اعلیٰ افسران سچن پنڈھیر اور پون کمار کا بھی کہنا ہے کہ یہاں کام کرنے والے ہندوؤں کو اپنے عقیدے کے مطابق تہوار منانے اور کلچرل سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پوری آزادی ہے۔ہمدرد کمپنی میں کہیں بھی ہندو مسلم نام کی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی۔ہمدرد پلانٹ میں کام کرنے والے ہندو ملازمین اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ یہاں کسی طرح کا کوئی ’شربت جہاد‘ چل رہا ہے ۔
اس ضمن میں ہمدرد فوڈس انڈیا کے سی ای او حامد احمد نے روح افزا پر جاری تنازعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے ’’ادارہ ہمدرد گزشتہ ایک صدی سے عوام کی خدمت کر رہا ہے، ہماری کوئی مذہبی سرگرمی نہیں ہے اور نہ ہی ہم مذہبی کاموں پر اپنا فنڈ خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہمدرد اپنے منافع کا پچاسی فیصد حصہ فلاحی کاموں پر خرچ کرتا ہے اس فنڈ سے ہم نے یونیورسٹی، اسکول،ڈیولپمنٹ اسکول اور کلچرل انسٹی ٹیوٹ بنائے ہیں۔جامعہ ہمدرد ۹۲ ایکڑ کے رقبے پر پھیلی ہوئی عالمی سطح کی یونیورسٹی ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات ملک اور بیرون ملک اپنی بہترین طبی اور تحقیقی کار کردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔یہاں کا فارمیسی کالج ملک میں اول درجے کا کالج ہے۔اس کے علاوہ اہم میڈیکل سائنس، یونانی طب، انجینئرنگ اور قانون کے نئے نئے کورسز بھی چلا رہے ہیں‘‘۔
روح افزا پر کھڑے کیے گئے تنازعہ سے کئی مثبت پہلو بھی نکل کر سامنے آ رہے ہیں۔ نئی نسل از سر نو روح افزا سے متعارف ہو رہی ہے اور روح افزا کے ساتھ ساتھ ہمدرد کو جاننے اور اس کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ رام دیو کے منفی پروپیگنڈے نے ایک طرح سے روح افزا کو تجارتی فائدہ ہی پہنچایا ہے۔یہ شربت ایک بار پھر نئی نسل میں مشہور ہو رہا ہے۔ روح افزا کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش ناکام گئی ہے۔مذہبی منافرت کے خلاف انصاف پسند افراد کا ایک بڑا طبقہ سامنے آیا ہے ۔اس تنازعہ کے درمیان جو بات ابھر کر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ روح افزا صرف ایک شربت نہیں بلکہ ایک تاریخ اور ایک تہذیب کا بھی نام ہے۔ایک صدی پر محیط اس کی تاریخ میں صرف شربت کی مٹھاس ہی نہیں ہے بلکہ عوامی خدمات اور مشترکہ تہذیب کی پوری ایک داستان پوشیدہ ہے
تاریخی پس منظر
روح افزا کا آغاز 1906 میں دہلی میں ہوا، جب یہاں کے حکیم عبدالمجید نے ایک ایسا شربت تیار کیا جو صرف پیاس بجھانے والا مشروب نہیں تھا بلکہ جسم کو طاقت، طبیعت کو تازگی اور دل کو راحت بخشے والا تھا۔ بعد کے دنوں میں یہ مشروب ہمدرد دواخانہ کی پہچان بن گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکیم محمد سعید نے کراچی میں’’ہمدرد پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی اور روح افزا کو یہاں بھی متعارف کرایا۔ یہ مشروب دیکھتے ہی دیکھتے ہر گھر کی ضرورت بن گیا۔’’روح افزا‘‘ کے معنی ہیں ’’روح کو تازگی بخشنے والا‘‘۔ یہ نام خود ہی اس کے مقصد کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک ایسا مشروب جو نہ صرف جسمانی پیاس بجھاتا ہے بلکہ ذہنی سکون، راحت اور تازگی کا باعث بھی بنتا ہے۔
اجزاء اور فوائد
طب یونانی میں موسموں کی مناسبت سے غذا اور مشروبات کی اہمیت پر خاص زور دیا گیا ہے۔ گرمیوں میں جسم کو ٹھنڈک پہنچانے والے مشروبات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ روح افزا کو اسی نسخے پر تیار کیا گیا ہے۔ اس میں موجود اجزاء جیسے گلاب، کیوڑہ، نیلوفر، لیموں، سیب، نارنج اور دیگر قدرتی پھول و جڑی بوٹیاں جسم میں تری اور ٹھنڈک پیدا کرتی ہیں جو گرمی کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ مشروب نہ صرف گرمیوں میں ٹھنڈک دیتا ہے بلکہ معدے کو فرحت، دماغ کو سکون اور بدن کو تازگی فراہم کرتا ہے۔
ثقافتی پہچان
روح افزا صرف ایک مشروب نہیں، یہ بر صغیر کی مشترکہ تہذیب کا حصہ بھی ہے۔ رمضان میں افطاری کی میز ہو یا عید کی خوشی، روح افزا کا گلاس موجود ہوتا ہے۔ بعض گھروں میں یہ دہی یا دودھ کے ساتھ، تو کہیں فالودہ، لسی یا قلفی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ روح افزا نے نہ صرف پیاس بجھائی بلکہ اس نے لوگوں کے دلوں کو بھی جوڑا ہے۔ یہ ماضی کی خوشبو، حال کی ضرورت اور مستقبل کی روایت ہے۔
جدید دور میں روح افزا
اگرچہ آج کل مارکیٹ میں طرح طرح کے مشروبات دستیاب ہیں، مگر روح افزا کی افادیت اور اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ اب یہ صرف برصغیر تک محدود نہیں رہا بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں برآمد کیا جاتا ہے۔ ہمدرد کی جانب سے اس کی پیکنگ اور تشہیر میں جدت لائی گئی ہے، مگر ذائقہ آج بھی وہی ہے جو ایک صدی پہلے تھا۔یہ گرمیوں کی دوپہر میں ماں کے ہاتھ سے دیا ہوا ٹھنڈا گلاس ہے، یہ افطار کے وقت سب کے چہروں پر آنے والی مسکراہٹ ہے، یہ بچپن کی یادیں اور مہمان نوازی کی علامت ہے۔ بلاشبہ روح افزا ایک مشروب سے بڑھ کر روح کی افزائش ہے۔
دنیا میں بعض اشیاء ایسی ہوتی ہیں جو صرف چیزیں نہیں ہوتیں بلکہ وقت کے دھارے میں تہذیبوں، ثقافتوں اور ذائقوں کی نمائندہ بن جاتی ہیں۔روح افزا صرف ایک برانڈ نہیں، یہ ایک روایت ہے جو وقت کے ساتھ اور نکھرتی جا رہی ہے۔ جب کوئی شے تہذیب، صحت، ذائقے اور جذبات کی حسین امتزاج بن جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے دلوں میں جگہ بنا لیتی ہے۔ روح افزا بھی ایک ایسی ہی خوبصورت علامت ہے جو جسم کو راحت اور روح کو تازگی بخشتی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں برصغیر کی کمیونٹیز آباد ہیں، وہاں روح افزا بھی موجود ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک کی مارکیٹوں میں روح افزا کی طلب اس کی عالمی شناخت کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔
***
روح افزا پر کھڑے کیے گئے تنازعہ سے کئی مثبت پہلو بھی نکل کر سامنے آرہے ہیں۔ نئی نسل از سر نو روح افزا سے متعارف ہورہی ہے اور روح افزا کے ساتھ ساتھ ہمدرد کو جاننے اور اس کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ رام دیو کے منفی پروپیگنڈے نے ایک طرح سے روح افزا کو تجارتی فائدہ ہی پہنچایا ہے۔ یہ شربت ایک بار پھر نئی نسل میں مشہور ہو رہا ہے۔ روح افزا کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش ناکام گئی ہے۔ مذہبی منافرت کے خلاف انصاف پسند افراد کا ایک بڑا طبقہ سامنے آیا ہے۔ اس تنازعہ کے درمیان جو بات ابھر کر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ روح افزا صرف ایک شربت نہیں بلکہ ایک تاریخ اور ایک تہذیب کا بھی نام ہے۔ایک صدی پر محیط اس کی تاریخ میں صرف شربت کی مٹھاس ہی نہیں ہے بلکہ عوامی خدمات اور مشترکہ تہذیب کی پوری ایک داستان پوشیدہ ہے
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025