ایک رپورٹ جس نے کاروباری دنیا کود ہلا دیا
اڈانی گروپ کا انحصار قرضوں پر ہے۔ قرض زیادہ تر شیئروں کو گروی رکھ کر لیے جاتے ہیں۔ شیئروں کی قیمتوں میں گراوٹ آنے پر قرض دینے والے بینک بھی پریشانی میں آسکتے ہیں۔
ڈاکٹر فرحت حسین
کاروباری اداروں کے مالی معاملات کی تفتیش کرنے والی ایک امریکی کمپنی کی حالیہ رپورٹ نے تہلکہ مچادیا ہے۔ ہنڈن برگ ریسرچ Hindenburg Research نامی اس کمپنی کی تازہ رپورٹ کا تعلق بھارت کے امیر ترین کاروباری گوتم اڈانی اور ان کے گروپ سے ہے ۔ ہنڈن برگ ریسرچ نے الزام لگایا ہے کہ اڈانی گروپ نے کھاتوں میں گڑبڑی کر کے کمپنیوں کے شیئروں کی قیمتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ اس کو کمپنی نے اکاونٹنگ فراڈ (Accounting fraud) کیا ہے ۔ اڈانی گروپ نے اس رپورٹ اور اس کے الزامات مسترد کرتے ہوئے ریسرچ کمپنی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا انتباہ دیا ہے۔
امریکی ریسرچ کمپنی کی اس رپورٹ میں کتنی صداقت ہے یہ تو گہرائی سے جانچ کرنے پر ہی معلوم ہوسکے گا مگر اتنا ضرور ہے کہ اس رپورٹ نے کاروباری اور سیاسی حلقوں میں ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ شیئر بازار بے حد متاثر ہوا ہے۔ یہ تحریر لکھے جانے تک اڈانی گروپ کے شیئروں کی قیمتوں میں بھاری گراوٹ درج ہوئی۔ ہفتہ کے آخری دن دو تین کمپنیوں کے شیئروں کی قیمتوں میں کچھ بہتری دیکھی گئی ۔ اس کا اثر گوتم اڈانی کی دولت پر بھی پڑا ہے وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں دوسرے یا تیسرے مقام سے کھسک کر بہت نیچے آگئے اور اب غالباً ٹاپ بیس میں بھی نہیں ہیں۔ اس رپورٹ کے جاری ہونے سے پہلے ان کے اثاثے (Net worth)۔120ارب ڈالر کے تھے جس میں 40فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوچکی ہے۔ شیئر مارکٹ کے اتار چڑھاو کی وجہ سے یہ اعداد و شمار مسلسل تبدیل ہورہے ہیں۔ شیئر مارکٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو بھی شیئروں کی قیمتوں میں گراوٹ سے بہت نقصان ہورہا ہے۔
ہنڈن برگ ریسرچ کیا ہے؟
ہنڈن برگ ریسرچ ایک امریکی کمپنی ہے۔ یہ 2017 میں قائم کی گئی ۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا که یه شیئر بازار میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے مفادات کی حفاظت کا کام انجام دیتی ہے اور پتہ لگانے کی کوشش کرتی ہے کہ شیئر مارکٹ میں غلط طریقوں کا استعمال تونہیں ہورہا ہے اور اکاؤنٹ میں گڑبڑی کر کے خود کو اصل کے مقابلہ بڑھا چڑھا کر تو پیش نہیں کیا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ کمپنی شیئروں کی قیمتوں میں آئی گراوٹ فائدہ اٹھاتی ہے۔ حالیہ رپورٹ سے قبل بھی یہ کمپنی دنیا کے کئی بڑی کمپنیوں پر اپنی رپورٹ جاری کرچکی ہے جس کے نتیجہ میں ان کمپنیوں کو کافی بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔
رپورٹ میں کیا ہے ؟
24جنوری کو ہنڈن برگ ریسرچ نے اڈانی گروپ کے بارے میں 32ہزار الفاظ پر مبنی 106صفحات کی رپورٹ جاری کی جس میں 88سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اڈانی گروپ کئی دہائیوں سے شیئروں کی مالیت میں گڑبڑی میں ملوث ہے۔ گروپ کے بانی گوتم اڈانی اور چیرمین کی دولت (Net Worth) جو تقریباً120بلین ڈالر ہے اس میں 100بلین ڈالر کا اضافہ گزشتہ تین برسوں میں زیادہ تر شیئروں کی قیمتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس دوران سات رجسٹرڈ (Listed) کمپنیوں کے شیئروں میں اوسطاً 819فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
امریکی ریسرچ فرم نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس گروپ کا انحصار قرضوں پر ہے۔ قرض زیادہ تر شیئروں کو گروی رکھ کر لیے جاتے ہیں۔ شیئروں کی قیمتوں میں گراوٹ آنے پر قرض دینے والے بینک پریشانی میں آسکتے ہیں۔ گروپ کی سات میں سے پانچ کمپنیوں کا کرنٹ ریشیو (Current Ratio)معیار سے کم ہے یعنی ان کی ادائیگی current liabilitiesان کے اثاثوں (Net worth)سے زیادہ ہیں جو اچھی علامت نہیں ہے۔ ریسرچ کمپنی نے یہ بھی بتایا کہ گروپ اپنے شیئروں کی مانگ خود پیدا کراتی ہے اس کے لیے اس نے مورشس اور دوسرے ممالک میں دکھاوے کی (shell) کمپنیاں بنارکھی ہیں۔ اڈانی گروپ کی ٹیم کے کچھ اہم لوگوں کے تعلق سے ہنڈن برگ نے منفی رائے ظاہر کی ہے ۔رپورٹ میں بہت سے اعداد و شمار کو پیش کیا گیا ہے۔
اڈانی گروپ کی طرف سے ان الزامات کو قطعی طورپر مسترد کرتے ہوئے 413صفحات پر مبنی وضاحت جاری کردی ہے جس میں واضح کیا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد اور الزامات غلط ارادہ سے لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی فراڈ نہیں کیا۔ ہنڈن برگ لوگوں کو غلط معلومات کے ذریعہ گمراہ کررہی ہے۔ گروپ ’’اچھائی کے ساتھ ترقی‘‘ (Growth with Goodness) کے اپنے عزم پر قائم ہے ۔ اڈانی گروپ نے سوالات کے جوابات بھی دیے مگر ہنڈن برگ اپنے موقف پر قائم ہے ۔
رپورٹ کے اثرات
رپورٹ میں پیش کی گئی باتیں ابھی الزامات ہی ہیں ان کی تحقیق ہونا ہنوز باقی ہے مگر جیسا کہ عرض کیا گیا رپورٹ آنے کے بعد اسٹاک ایکسچینج بہت متاثر ہوا۔ اڈانی گروپ کے شیئروں کی قیمتیں گرگئیں۔ اڈانی انٹر پرائز نے بیس ہزار کروڑ کے جو نئے شیئر مارکٹ میں ڈالے جسے EPOکہتے ہیں اس میں پہلے دو دن رقم لگانے کے لیے بہت کم سرمایہ کار آگے آئے۔ آخری دن کچھ بڑے بزنس مین اور بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کی خریدی کی وجہ سے EPOپورا ہوا۔ اس میں ابو ظہبی کی IHCکمپنی کی 400ملین ڈالر کی سرمایہ کاری قابل ذکر ہے۔ یکم فروری کو اس EPOکی واپسی کا اعلان کردیا گیا۔ ظاہر ہے یہ بھی رپورٹ کے زیر اثر ہی ہوا ۔
اسی درمیان امریکہ کے نیویارک اسٹاک ایکسچینج ڈاو جونس (Dow Jones) نے اڈانی گروپ کی کچھ کمپنیوں کو اپنے انڈیکس سے باہر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ سوئزرلینڈ کی بنک نے اڈانی گروپ کے بونڈ کو ضمانت کے لیے نامنظور کرنے کا اعلان کردیا۔ اڈانی گروپ کے شیئروں کی درجہ بندی (Rating) کو بھی کچھ ایجنسیوں نے کم کرنا شروع کردیا۔ یہ سب عوامل اڈانی گروپ کے شیروں میں گراوٹ کا باعث بنے۔ سرمایہ لگانے والوں (Investors) کے اعتماد میں کمی آنی شروع ہوگئی۔ شیئر بازار کو کنٹرول کرنے والے ادارہSEBIنے اڈانی گروپ کی کچھ کمپنیوں کے شیئروں کی خرید و فروخت کو خصوصی نگرانی (ASM) کے زمرہ میں ڈالدیا۔ جن کمپنیوں اور بنکوں نے اڈانی گروپ میں سرمایہ لگارکھا ہے یا قرض دے رکھا ہے ان کے شیئروں کی قیمتوں میں بھی گراوٹ ہوئی۔ خبروں کے مطابق لائف انشورنس کارپوریشن LICکو 65400کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔ حالانکہ LICنے وضاحت کی ہے کہ ہماری کل سرمایہ کاری میں اڈانی گروپ میں کی گئی سرمایہ کاری کا تناسب کم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے گاہکوں یا پالیسی ہولڈروں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک اور دوسرے بنکوں نے بھی اڈانی گروپ کو قرض دے رکھا ہے۔ رپورٹ آنے کے بعد ریزرو بنک نے ان کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
معاشی معاملات سے سیاست بھی اچھوتی نہیں رہتی۔ ملک کی اپوزیشن پارٹیاں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر یہ مانگ کررہی ہیں کہ ہنڈن برگ ریسرچ کے ذریعہ لگائے گئے الزامات کی جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی یا سپریم کورٹ کی نگرانی میں قائم کمیٹی کے ذریعہ تحقیقات کرائی جائیں ۔ اس رپورٹ نے اپوزیشن کو یہ موقع فراہم کردیا ہے ۔ اخبارات ، نیوز چینل اور سوشل میڈیا پر یہی موضوع زیر بحث ہے ۔
کیا ر پورٹ ایک سازش ہے ؟
اڈانی گروپ نے رپورٹ کو گمراہ کن اور ملک کے خلاف سازش قرار دیا ہے ۔ گروپ کی حمایت کرنے والوں کا موقف یہ ہے ہنڈن برگ ریسرچ کی نیت اور منشا ٹھیک نہیں ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہنڈن برگ کی ساکھ بہت اچھی نہیں ہے اور یہ بھی ماننا پڑ ے گاکہ یہ کمپنی شیئروں کی قیمتوں کی گراوٹ سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔ اڈانی گروپ کی برق رفتار بلکه نا قابل یقین تیز رفتاری نے بھی لوگوں کو متوجہ کیا اور اس میں کاروباری رقابت کا عنصر بھی پایا جا سکتا ہے ۔
خود ہمارے ملک میں بھی اڈانی اور ان کے کاروبار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ اڈانی گروپ کے حمایتی لوگوں کا موقف یہ ہے ملک اور بیرون ملک اڈانی گروپ کی ترقی کو دیکھ کر ان سے مسابقت Competitionکرنے والے لوگ گروپ کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ کاروباری دنیا میں ایسی مسابقت اور ایسی رقابتیں انوکھی بات نہیں ہیں ۔ رپورٹ کے لانے کے پیچھے یہ سب یا ان میں سے کچھ عوامل ہوبھی سکتے ہیں مگر مسئلہ رپورٹ میں پیش کئے گئے دلائل اور اعداد و شمار کا ہے، جن کی تحقیق ضروری ہے۔
گذشتہ برسوں میں پوری دنیا کورونا اور کساد بازاری سے متاثرہوئی ہے۔ روس یوکرین جنگ نے بھی اثرات ڈالے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی بیروزگاری، مہنگائی اور غربت جیسے مسائل ہیں۔ اڈانی گروپ کی سرمایہ کاری ملک کے اکثر سیکٹرس میں ہے۔ اس لیے گروپ کے متاثر ہونے پر ملک کا ہر سیکٹر متاثر ہوگا اور ملک کی معیشت پر بہت برا اثر ہوگا ۔ اسی کے ساتھ بینکنگ سیکٹر میں گاہکوں کے اعتماد کو قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد سردست تو کوئی بڑی بحرانی کیفیت پیدا نہیں ہوئی تو ہے مگر یہ قضیہ ان الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ اگر دراز ہوگا اور شیر مارکٹ نارمل نہیں ہوگی تو پریشانی کی بات تو ہے ہی- اس کا جتنی جلد تدارک ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے
ہنڈن برگ کی اس رپورٹ سے تشویش ہوئی ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال پرگزشتہ برسوں کی کو رونا کی بیماری اور عالمی کساد بازاری پھر روس اور یوکرین جنگ کے اثرات ہماری معیشت پر بھی بڑے ہیں ۔ ملک میں جہاں عام آدمی کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا و ہیں گنے چنے کاروباریوں کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ان میں اڈانی گروپ سر فہرست ہے۔ اگر ہنڈن برگ کے دعووں میں کچھ بھی صداقت ہے تو یہ یقیناً تشویش کی بات ہے ۔ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اسٹاک مارکٹ پر اس کا منفی اثر سب کے سامنے ہے حالانکہ فی الحال کوئی بحرانی کیفیت پیدا نہیں ہوئی ہے ۔ تشویش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اڈانی گروپ نے گذشتہ چند برسوں میں ملک کی معیشت کے ہر میدان میں سرمایہ کاری کی ہے ۔ اس لیے اس گروپ کی کارکردگی کے دور رس
نتائج ظاہر ہوں گے ۔ لائف انشورنس کارپوریشن (LIC) اور اسٹیٹ بینک جیسی پبلک سیکٹر کمپنیوں نے اس گروپ میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے ۔ دوسرے بینکوںنے بھی بڑے قرض دے رکھے ہیں۔ ان کے بھی اثر انداز ہونے کا پھر خدشہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شیئر بازار کو کنٹرول کرنے والی ایجنسی SEBI، مرکزی بنک RBIاور حکومت سبھی چیزوں کا جائزہ لیں اور ملک کی معیشت کی مضبوطی کے لیے ضروری اقدامات کریں ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023