مفتی محمد صادق حسین، کریم نگر
نئے عزم و ارادے کے ساتھ اس نئے سال کا آغاز کریں
40 سالہ زندگی گزارنے کے بعد حد سے زیادہ محتاط ہوجانے کی ضرورت کیوں؟
سال 2023 ختم ہو کر سال 2024 کا آغاز ہوچکا ہے۔ ماہ وسال کی تبدیلی دنیا کا ایک نظام ہے جسے خالق کائنات نے بنایا ہے۔ اسی سے انسانی عمروں میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی کے ذریعہ زمانہ اپنے انجام کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ نئے سال کی آمد پر دنیا میں لوگ خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں اور نوجوان بہت سے خرافات اور خلاف ِتہذیب وروایات کاموں کو انجام دینے میں لگے رہتے ہیں۔ سال کی تبدیلی جشن ومسرت کی چیز نہیں ہے بلکہ عبرت ونصیحت کا موقع ہے۔ انسان اپنی مقررہ مدتِ حیات کی طرف بڑھ رہا ہے، اسے غور وفکر کرنے اور زندگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر دن کا سورج جب غروب ہوتا ہے تو وہ انسانی زندگی کے ایام کو ختم کر دیتا ہے، جانے والی تاریخ، رخصت ہونے والا دن، ختم ہونے والا مہینہ اور پورا ہونے والا سال پھر لوٹ کر کبھی واپس آنے والا نہیں ہے۔ جو چلا گیا وہ ماضی کا حصہ بن گیا۔ جو باقی اور موجود ہے وہی انسانی زندگی کے لیے قیمتی اور غنیمت ہے۔
اللہ تعالی نے زندگی کی نعمت عطا فرما کر انسانوں پر بڑا احسان کیا ہے۔ اسی زندگی کے ذریعہ وہ اپنی آخرت کو سنوارسکتا ہے اور دنیا کو بہتر بناسکتا ہے۔ مسلمانوں کو مرنے کے بعد کی زندگی کا ایک بنیادی عقیدہ دیا گیا ہے۔ اس کا اس پر ایمان ہے کہ مجھے دوبارہ اٹھایا جائے گا اور رب کے حضور پیش کیا جائے گا اور مجھے اپنی زندگی کا حساب دینا ہوگا۔ ایسے انسان کو دنیا میں رہ کر غفلت میں جینا اور لاپروائی میں زندگی بسر کرنا کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ قرآن وحدیث میں بہت اہتمام کے ساتھ انسانوں اور ایمان والوں کو اس جانب متوجہ کیا گیا کہ تم دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ نہ سمجھو بلکہ آخرت کی زندگی بھی تمہارے پیشِ نظر ہونا چاہیے اور وہاں کی کامیابی کے لیے اس دنیا میں رہ کر محنت اور کوشش کرنا چاہیے ۔دنیا بنائی ہی اس لیے گئی کہ انسان یہاں اچھے اعمال کرے۔ موت وحیات کا نظام ہی حسنِ عمل کوانجام دینے کے لیے رکھا گیا ہے۔ قرآن میں ارشاد فرمایا گیا: (ترجمہ) ’’یقین جانو کہ روئے زمین پر جتنی چیزیں ہیں،ہم نے انہیں زمین کی سجاوٹ کا ذریعہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ’’جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے اور وہی مکمل اقتدار کا مالک، بہت بخشنے والا ہے۔(الملک:۲)
دن رات کی تبدیلی سے مہینہ پورا ہوتا ہے اور مہینوں کی تکمیل سے سال بنتا ہے۔ اس طرح انسان کی زندگی پوری ہوتی ہے۔ دن رات کی تبدیلی عقل مندوں کے لیے پیغام ونصیحت ہے۔ اللہ تعالٰی نے سورہ فرقان میں فرمایا: (ترجمہ) ’’اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایسا بنایا کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے چلے آتے ہیں مگر یہ ساری باتیں اس شخص کے لیے کارآمد ہیں جو نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو یا شکر بجا لانا چاہتا ہو۔‘‘ سورہ آل عمران میں اس حقیقت کو مزید اجاگر کرتے ہوئے بیان کیا گیا: (ترجمہ) ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے ہرحال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔آپ ایسے فضول کام سے پاک ہیں۔پس ہمیں دوزخ کےعذاب سے بچالیجیے۔‘‘(آل عمران:۱۹۰۔۱۹۱)
دنیا میں انسان صرف ایک بار کے لیے آیا ہے۔ یہاں سے جب وہ چلا جائے گا تو پھر واپسی نہیں ہوگی۔ اگر اس نے بُری زندگی گزاری ہو گی اور جب آخرت کی ہولناکیوں کو دیکھ لے گا تو ہزار التجائیں کرے گا کہ دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ وہ اچھے اعمال کرے، لیکن اس کے لیے واپسی کی کوئی راہ نہیں ہوگی۔ اس کو اپنے انجام کو بھگتنا ہی پڑے گا۔ اس لیے قرآن کریم میں باربار اس کی تلقین کی گئی کہ وہ اس زندگی کو غنیمت جانیں اور اچھے اعمال انجام دینے کی فکر میں رہے۔ سورہ فاطر میں فرمایاگیا: (ترجمہ) ’’اورجن لوگوں نے کفر کی روش اپنالی ہے ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔ نہ تو ان کا کام تمام کیا جائے گا کہ وہ مرہی جائیں اور نہ ان سے دوزخ کا عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ ہر ناشکرے کافر کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ اور وہ اس دوزخ میں چیخ و پکار مچائیں گے کہ: ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں باہر نکال دے تاکہ ہم جو کام پہلے کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑکر نیک عمل کریں‘‘ ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ بھلا کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی کو اُس میں سوچنا سمجھنا ہوتا وہ سمجھ لیتا؟ اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی آیا تھا۔اب مزہ چکھو، کیوں کہ کوئی نہیں ہے جو ایسے ظالموں کا مددگار بنے۔‘‘( الفاطر:۳۶۔۳۷) سورہ سجدہ میں فرمایاگیا: (ترجمہ) ’’اور کاش تم وہ منظر دیکھو جب یہ مجرم لوگ اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے کھڑے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ‘‘ہمارے پروردگار !ہماری آنکھیں اور ہمارے کان کھل گئے ہیں، اس لیے ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج دیجیے تاکہ ہم نیک کام کریں،ہمیں اچھی طرح یقین آچکا ہے۔‘‘( السجدۃ:۱۲)
نبی کریم ﷺ نے بھی احادیث میں زندگی کی قدر واہمیت کو بیان فرمایا اور انسانوں کو آگاہ کیا کہ وہ اس زندگی کی قدر کرلیں تاکہ آخرت میں کامیاب ہوجائیں ۔آپ کا ارشاد مبارک ہے: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: اپنی زندگی کو موت سے پہلے، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے، اپنی فراغت کو مصروفیت سے پہلے، اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے اور اپنی مال داری کو محتاجی سے پہلے۔ ایک حدیث میں فرمایا: قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے ہل نہ سکے گاجب تک کہ وہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے دے۔ عمر کہاں گزاری؟ جوانی کس کام میں کھپائی؟ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے ایسے آدمی سے عذر ختم کر دیا ہے جس کی موت کو مؤخر کردیا، یہاں تک کہ اسے ساٹھ سال تک پہنچادیا۔ یعنی ساٹھ سال عمر اتنی طویل ہے کہ اس میں بندہ نیک اعمال انجام دے سکتا ہے،اگر اس کے باوجود بھی وہ نیک کام نہ کرے تو اس کے لیے اللہ تعالٰی کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی عذر نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آدمی کو معذور جانتے ہیں کہ جب آدمی کی عمر ساٹھ سال کی ہوگئی تو اب یہ نہیں کہہ سکے گا کہ کاش! میری عمر زائد ہوتی تو میں نیک اعمال کرلیتا۔ نیز اس حدیث میں تنبیہ بھی ہے کہ ساٹھ سال کے بعد آدمی کو غفلت اور گناہوں سے باز آجانا چاہیے ،کیوں کہ اس کے بعد موت کا زمانہ قریب ہوجاتا ہے۔( روضۃ الصالحین :۱؍۳۳۰)
نبی کریم ﷺ سے لوگوں میں سب سے بہتر انسان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:جس کی عمر لمبی اور عمل اچھے ہوں۔
انسان کی زندگی کےجیسے جیسے سال بڑھتے رہتے ہیں آخرت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت بھی زیادہ بڑھ جانی چاہیے، تاکہ وہ اچھے اعمال کو کثرت سے انجام دے سکے۔امام حسن بصری ؒ، امام کلبی ؒ اور امام مسروق ؒ فرماتے ہیں کہ :جس کو چالیس سال زندہ رہنے کا موقع ملا گویا اس کو دنیا میں اتنی عمر ملی ہے کہ وہ اپنے احوال درست کرسکتا ہے۔ اور یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ مدینہ والوں میں سے جب کسی کی عمر چالیس سال ہوجاتی تھی وہ اپنے آپ کو اللہ تعالی کی عبادت کے لیے فارغ کرلیتے تھے۔ امام قرطبی نے نقل کیا ہے کہ ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا اور غروب ہوتا ہے توملک الموت آواز دیتا ہے کہ: ’’اے چالیس سال کی عمر والو! یہ توشہ تیار کرلینے کا زمانہ ہے، تمہارے ذہن حاضر ہیں، تمہارے اعضاء بڑے مضبوط اور قوی ہیں۔ گویا آخرت کے لیے توشہ حاصل کرسکتے ہو، فائدہ اٹھالو۔ اے پچاس سال کی عمر والو! کھیتی کی کٹائی کا وقت آچکا ہے، تیار ی کرلو۔اے ساٹھ سال کی عمر والو! اللہ تعالی کا عذاب بھول گئے ہو، کل کو اللہ کے سامنے جواب دینا ہے،اس کی طرف سے غافل ہوگئے ہو تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا اگر تم نے اس کے بعد بھی غفلت برتی تو؟
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں: روزانہ طلوعِ فجر کے وقت دن پکارتا ہے:اے آدم کے بیٹو! میں ایک نئی مخلوق ہوں اور تمہارے عمل پر گواہ ہوں، تم مجھ سے خوب فائدہ اٹھالو،اس لیے کہ میں جانے کے بعد قیامت تک نہیں لوٹوں گا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں:میں کسی چیز پر نادم نہیں ہوتا جتنا نادم اس دن پر ہوتا ہوں جس کا سورج غروب ہوا،میری زندگی کم ہوگئی، لیکن میرے نیک عمل میں اضافہ نہیں ہوا۔‘‘ ایک موقع پر فرمایا: یقیناً دن رات کے گزرنے سے تمہاری عمریں چھوٹی ہوتی جارہی ہیں اور اعمال محفوظ ہورہے ہیں،اور موت اچانک آئے گی تو جس نے خیر کی کاشت کی، قریب ہے کہ وہ شوق سے کٹائی کرے اور جس نے شر کو بویا قریب ہے کہ وہ بطور ندامت کٹائی کرے اور ہر کاشت کرنے والے کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے بویا۔
غرض یہ کہ انسانی زندگی بڑی اہم اور قابل قدر ہے۔ اس کو کارآمد بنانے اور دنیا و آخرت میں فیض پانے کے لیے انسان کو رب کی اطاعت وفرماں برداری کرنا پڑے گا۔ اسی میں اس کی ترقی اور نجات ہے۔ نئے سال کی آمد کے موقع پر لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں اور زمانہ کی ہنگامہ آرائیوں میں ایسے کھوجاتے ہیں کہ اپنی حقیقی منزل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سال کا آنا جانا ہر اعتبار سے ایک انسان کے لیے سبق اور پیغام ہے۔ زندگی کی قدر کرنے والے بنیں۔ آنے والے دنوں کو بہتر بنانے والے بنیں۔ ماضی کی کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے والے بنیں۔ ایک نئے عزم اور پختہ ارادہ کے ساتھ میدان عمل میں جدوجہد کرنے والے بنیں۔ تب دینا اور آخرت کی کامیابی انسان کا مقدر بنے گی۔وقتی طور پر جشن ومسرت منالینا اور خوشیوں کی تقریبات منعقد کرلینا عقل مند اور سمجھ دار انسان کا کام نہیں ہے۔آج ہمارا معاشرہ نئے سال کی خرافات میں اس درجہ مبتلا ہوگیا ہے کہ حقائق نگاہوں سے اوجھل ہوگئے ہیں ، وقت جیسی قیمتی دولت اور عظیم نعمت ضائع ہو رہی ہے، اس کی کوئی پروا نہیں اور انسانی زندگی گھٹ گھٹ کر قبر کے قریب پہنچ رہی ہے لیکن انسان ہے کہ غافل ہے۔
اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو
بچوں اور نوجوانوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کرنا اور زندگی کے اصل مقصد کو سمجھانا بڑوں کی ذمہ داری ہے تاکہ ہماری نسلیں بامقصد زندگی گزارنے والی بنیں اور انہیں اس دنیاوی زندگی کی صحیح قدر کرنے اور ایامِ زندگی کو غنیمت جاننے کا موقع ملے۔
ایک پتّا شجرِ عمر سے اور گرا
لوگ کہتے ہیں مبارک ہو نیا سال تمہیں
***
***
نئے سال کی آمد کے موقع پر لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں اور زمانہ کی ہنگامہ آرائیوں میں ایسے کھوجاتے ہیں کہ اپنی حقیقی منزل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سال کا آنا جانا ہر اعتبار سے ایک انسان کے لیے سبق اور پیغام ہے۔ زندگی کی قدر کرنے والے بنیں۔ آنے والے دنوں کو بہتر بنانے والے بنیں۔ ماضی کی کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے والے بنیں۔ ایک نئے عزم اور پختہ ارادہ کے ساتھ میدان عمل میں جدوجہد کرنے والے بنیں۔ تب دینا اور آخرت کی کامیابی انسان کا مقدر بنے گی۔وقتی طور پر جشن ومسرت منالینا اور خوشیوں کی تقریبات منعقد کرلینا عقل مند اور سمجھ دار انسان کا کام نہیں ہے۔آج ہمارا معاشرہ نئے سال کی خرافات میں اس درجہ مبتلا ہوگیا ہے کہ حقائق نگاہوں سے اوجھل ہوگئے ہیں ، وقت جیسی قیمتی دولت اور عظیم نعمت ضائع ہو رہی ہے، اس کی کوئی پروا نہیں اور انسانی زندگی گھٹ گھٹ کر قبر کے قریب پہنچ رہی ہے لیکن انسان ہے کہ غافل ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024