ایک نئےاتحادِ ثلاثہ کی بازگشت

ایران۔سعودی عرب اور ترکیہ میں قربت

مسعود ابدالی

ترکیہ، سعودی عرب اور ایران تینوں نے تصادم و مزاحمت کے بجائے تعاون و مفاہمت کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ سہ فریقی اقتصادی اتحاد کی وسط ایشیا تک وسعت بھی خارج از امکان نہیں کہ یہاں اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) پہلے سے موجود ہے۔
مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اتوار 3؍ ستمبر کو تہران میں اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ جناب حسین امیر عبداللہیان نے اعلان کیا کہ ایران، سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ سہ فریقی اقتصادی اجلاس کے انعقاد پر کام کر رہا ہے۔ مجوزہ اتحاد ثلاثہ کے پس منظر میں چند سطور پیش ہیں۔
مارچ میں ایران اور سعودی عرب نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا جس کے لیے چین کی ثالثی میں کافی عرصے سے مذاکرات جاری تھے۔ مشرق وسطٰی کی سیاست پر نظر رکھے والے ماہرین ابتدا ہی سے تہران ریاض مفاہمت کو رفاقتِ عرب و عجم قراردے رہے تھے۔ سفارتی حلقوں کا خیال تھا کہ اگر سعودی و ایرانی قیادت نے شاہراہ دوستی کی راہ میں بچھی فرقہ پرستی کی بارودی سرنگوں سے دامن بچالیا تو یہ مفاہمت اہل و شام و یمن کے لیے بھی امن و استحکام کا سبب بنے گی۔ حسب توقع کچھ ہی دنوں بعد شام و سعودی عرب نے سفارتی تعلقات دوبارہ قائم کرلیے اور عرب لیگ میں شام کی رکنیت بحال کردی گئی۔ اسی کے ساتھ بمباری کے عذاب میں مبتلا مظلوم یمنیوں کو بھی راحت محسوس ہوئی اور برسوں بعد وہاں عید الفطر و عید الاضحیٰ روایتی جوش و خروش سے منائی گئیں۔
مشرق وسطیٰ میں ترکیہ کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔ جب متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے قطر سے تعلقات توڑ کر اس ننھی سی خلیجی ریاست کی ناکہ بندی کردی تھی تو ترکیہ قطر کی مدد کو آیا تھا، نتیجے کے طور پر انقرہ کے ریاض و ابوظبی سے تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے تھے۔ لیبیا میں حفتر دہشت گردوں کے مقابلے میں وفاقی حکومت کی ترک پشت پناہی سے تعلقات میں مزید کشیدگی آئی۔ امریکی سی آئی اے کا خیال ہے کہ لیبیا کے عبوری وزیر اعظم عبدالحميد محمد الدبيبہ اخوانی فکر سے وابستہ ہیں۔ یک نہ شد دو شد کہ جلد ہی اخوان المسلمون کی حامی انصاف و تعمیر پارٹی (JCP) کے قائد خالد المصری عبوری کونسل کے سربراہ مقرر کردیے گئے۔
عبوری کونسل اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے ملک گیر مذاکرات کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے اس لیے کونسل کی کھل کر مخالفت تو نہ کی جاسکی لیکن اسرائیل، مصر، فرانس، امریکہ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب، حفتر ملیشیا کو در پردہ مدد فراہم کرتے رہے۔ متفقہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے روس کی ویگنر ملیشیا کو بھی میدان میں اتارا گیا جن کے اخراجات خلیجی ممالک نے برداشت کیے۔ اس کے مقابلے میں ترکیہ وفاقی حکومت کی پشت پر آ کھڑا ہوا اور اس کے تباہ کن ڈرونوں نے حفتر ملیشیا کو بھاری نقصان پہنچایا۔
مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف جولائی 2013 کے شب خون پر جناب طیب ایردوان کا ردعمل انتہائی شدید تھا اور اسے جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے ترکیہ نے مصر سے سفارتی تعلقات عملاً توڑ لیے تھے۔ مرسی حکومت کے خلاف کارروائی میں جنرل السیسی کو یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ان دونوں ممالک نے بھی اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود طیب ایردوان مصری اخوانیوں کی اصولی حمایت پر ڈٹے رہے، چنانچہ ترکیہ کے مصر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے تعلقات میں مزید خرابی آگئی ۔
دہشت گرد تنظیم کردش ورکرز پارٹی (PKK) کے عسکری دھڑے YPG کی سرگرمیوں پر شام اور ترکیہ میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ وائی پی جی اور اس کی خواتین شاخ YPJ کو داعش کی سرکوبی کے لیے اتارا گیا تھا چنانچہ جلد ہی ان دہشت گردوں کو امریکی حمایت یافتہ قوات سوريا الديمقراطیہ یا سِیرین ڈیموکریٹک فورس (SDF) میں ضم کرکے جدید ترین اسلحے سے لیس کر دیا گیا۔ داعش کے خلاف کارروائی میں صدر بشار الاسد کی وفادار شامی فوج، امریکہ کی حمایت یافتہ SDF کی اتحادی ہے اور YPG امریکہ نواز مشترکہ فوج کا حصہ۔ دوسری طرف ایران بھی بشارالاسد کی حمایت کر رہا ہے۔
داعش کے خلاف کارروائی تک تو معاملہ ٹھیک رہا لیکن کردش ورکرز پارٹی کی ہدایت پر YPG نے شمال اور شمال مشرقی شام سے ترک فوج کی چوکیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ شمال مغرب میں قمشلی کے مقام سے بھی ترک فوج پر حملوں کی اطلاعات ملیں۔ ترک عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ قمشلی پر حملے کے لیے YPG کو عراق سے کمک آئی تھی۔ اب ایران کے لیے ترکیہ، اس کے دوست شام کا دشمن تھا اور انقرہ نے تہران کو اپنے دشمن YPG کا دوست گردانا۔
سعودی، ایران اور شام کشیدگی میں کمی آنے پر شمالی شام میں عسکری سرگرمیاں سرد پڑیں اور ترک سرحد پر دراندازی کا سلسلہ رک گیا۔ مفاہمت کا سلسلہ کو وسعت دیتے ہوئے ترکیہ نے ایران سے تعلقات بہتر بنا لیے جن کا پہلے بھی کوئی براہ راست تصادم نہ تھا بلکہ ترکیہ کی طرح ایران کو بھی PKK دہشت گردی کا سامنا ہے۔ جناب ایردوان نے مصر سے بھی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا اور جولائی میں ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔ ترکیہ نے اب تک اخوان کے بارے میں اپنے موقف سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے نہ تعلقات بحال کرنے کے لیے مصر نے ایسی کوئی شرط عائد کی۔ تاہم بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اخوان سے محبت پر وطن کا مفاد غالب آگیا۔ دوسری طرف اسلامی تحریک سے دیرینہ وابستگی اور مقصد سے جناب ایردان کے اخلاص پر شبہ بھی مناسب نہیں ہے۔
اب آتے ہیں مجوزہ ترک، ایران اور سعودی اقتصادی اتحاد کی طرف۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں ترک وزیر خارجہ حاکن فدان ایران کے دورے پر آئے۔ تہران آمد پر ان کی غیر معمولی آو بھگت اور ایرانی میزبان حسین امیر عبداللہیان کے پرجوش انداز سے اسرائیل پریشان اور امریکہ اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوگیا۔ گرمجوشی کے ایسے ہی مناطر سعودی وزیر خاجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کے دورہ ایران پر نظر آئے تھے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے ایرانی و سعودی اہلکاروں کے مابین مختلف سطح پر بات چیت جاری ہے اور دفاع سمیت کئی شعبوں میں باہمی تعاون کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ اسی نوعیت کی بات چیت ترکی اور ایران کے درمیان بھی چل رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے سیاسی افق پر نظر آنے والی یہ پیش رفت امن عالم اور علاقے کے عوام کے لیے تو یقیناً امید افزا ہے لیکن ‘لڑاو اور قبضہ برقرار رکھو’ کے اصول پر کاربند قوتوں کے لیے دوستی و ہم آہنگی کے سندیسے تشویشناک ہیں۔
ایران، سعودی عرب اور ترکی کے درمیان پس پردہ سرگوشیوں اور ملاقاتوں پر امریکہ اور اسرائیلی وزارت خارجہ نظر رکھے ہوئے ہے۔ اگست کے آغاز سے ایران، سعودی عرب اور ترکیہ اتحاد کا ‘خدشہ’ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ عرب و عجم سیاست پر نظر رکھنے والے غیر جانب دار سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ تینوں ممالک اب یہ تو سمجھ چکے ہیں کہ ‘خرد مندو! خرد مندی نہیں باہم دِگر لڑنا’ لیکن دیرپا اتحاد میں ابھی وقت لگے گا۔
مشرق وسطیٰ کے سیاسی پنڈت علاقائی سیاست کی نئی صورت گری پر تجزیے، تبصرے اور تحفظات سے مزین محتاط پیشن گوئیوں میں مصروف تھے کہ جناب حسین امیر عبداللہیان نے تہران میں سعودی، ترک اور ایران کے سہ فریقی اقتصادی اجلاس کا ذکر کر دیا جو سفارتی ماہرین کے خیال میں ایک ’ڈھیلے ڈھالے‘ اتحاد کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
اسی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ حالیہ ملاقات میں ترکیہ و ایران کے درمیان تمام شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو مزید فروغ دینے پر بات ہوئی۔ اسرائیل و امریکہ کے دفاعی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ تہران و انقرہ ڈرون ٹکنالوجی پر مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ روس یوکرین جنگ میں ایرانی و ترک ڈرون اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ روسی فضائیہ یوکرینی تنصیبات پر حملوں کے لیے ایران کے شاہد ڈرون استعمال کر رہی ہے جبکہ یوکرین نے ترک ساختہ Bayraktar TB2 ڈرون سے روس کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ ترک ڈرونوں نے آذربائیجان کی جانب سے نگورنوکاراباخ جنگ میں آرمینیا پر فیصلہ کن ضرب لگائی تھی۔
ایران ترک قربت کا انکشاف فیس بک کی مالک میٹا کمپنی Meta نے بھی کیا ہے، حال ہی میں میٹا نے نے ایران اور ترکی کے کئی نیٹ ورکس کی ایسی سرگرمیوں کی نشاندہی کی ہے جنہیں مربوط غیر مستند طرز عمل یا Coordinated Inauthentic Behavior(CIB) کہا جاتا ہے، یعنی ایسی ویب سائٹس یا صفحات (Pages) جنہیں حکومتی کہانیاں پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ میٹا کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ‘مربوط غیر مستند رویے کی بنا پر (ترکیہ اور ایران کے) 22 فیس بک اکاؤنٹس، 21 صٖفحات) اور انسٹا گرام کے 7 اکاؤنٹس کو حذف کر دیا ہے۔
مجوزہ سہ فریقی اتحاد تادم تحریر ابھی نشستند و گفتند کے مرحلے تک بھی نہیں آیا اس لیے اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن ترکیہ، سعودی عرب اور ایران تینوں نے تصادم و مزاحمت کے بجائے تعاون و مفاہمت کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ سہ فریقی اقتصادی اتحاد کی وسط ایشیا تک وسعت بھی خارج از امکا ن نہیں کہ یہاں اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) پہلے سے موجود ہے۔ پاکستان، ایران اور ترکی سمیت وسط ایشیا کے دس ممالک پر مشتمل یہ تنظیم 1964 میں قائم ہونے والے علاقائی تعاون برائے ترقی (RCD) کا تسلسل ہے۔ روس اور چین بھی اس اقتصادی اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں۔
جی-20 کی دلی سربراہی کانفرنس میں امریکہ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ہندوستان نے مشرقی ایشیا کو مشرق وسطیٰ کے راستے یورپ سے ملانے کے لیے بحری وبری راہداری کی تعمیر کے لیے مفاہمت ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ اس اعلان کے بعد علاقے سے چین کی دلچسپی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مشرقی ایشیا یورپ راہداری دراصل چین کے Belt & Road Initiative (BRI) کا جواب ہے۔ اس سلسلہ میں کاشغر تا گوادر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبہ معمولی ے رکاوٹوں کے باوجود جزوی تکمیل کا ہدف حاصل کر چکا ہے۔ مشرقی ایشیا یورپ راہداری میں قباحت یہ ہے کہ بھارت کی اس کے مشرقی پڑوسی سے غیر معمولی کشیدگی کی بنا پر زمینی راستہ اختیار کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا یہ شاہراہ بحری راستے سے ہندوستان کو سعودی عرب سے ملائے گی جبکہ سی پیک کو توسیع دے کر ایران و عراق سے ہوتے ہوئے ریل اور زمینی شاہراہ کے ذریعے سعودی عرب پہنچا جاسکتا ہے۔
ترکیہ، سعودی عرب، ایران اتحاد یا مفاہمت، امریکہ و اسرائیل کے لیے شاید اچھی خبر نہ ہو لیکن غیر ضروری کشیدگی ختم ہوجانے کی صورت میں اس سے علاقے کے عوام کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ حالات کا جائزہ لینے اور سعودی عرب کا اعتماد بحال کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے صدر بائیڈن کے خصوصی ایلچی بیرٹ مک گرک Brett McGurk بہت جلد سعودی عرب آ رہے ہیں۔
مفاہمت کا سلسلہ کو وسعت دیتے ہوئے ترکیہ نے ایران سے تعلقات بہتر بنالیے جن کا پہلے بھی کوئی براہ راست تصادم نہ تھا بلکہ ترکیہ کی طرح ایران کو بھی PKK دہشت گردی کا سامنا ہے۔ جناب ایردوان نے مصر سے بھی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا اور جولائی میں ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔ ترکیہ نے اب تک اخوان کے بارے میں اپنے موقف سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے نہ تعلقات بحال کرنے کے لیے مصر نے ایسی کوئی شرط عائد کی۔ تاہم بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اخوان سے محبت پر وطن کا مفاد غالب آگیا۔ دوسری طرف اسلامی تحریک سے دیرینہ وابستگی اور مقصد سے جناب ایردان کے اخلاص پر شبہ بھی مناسب نہیں ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 مفاہمت کا سلسلہ کو وسعت دیتے ہوئے ترکیہ نے ایران سے تعلقات بہتر بنالیے جن کا پہلے بھی کوئی براہ راست تصادم نہ تھا بلکہ ترکیہ کی طرح ایران کو بھی PKK دہشت گردی کا سامنا ہے۔ جناب ایردوان نے مصر سے بھی بات چیت کا سلسلہ شروع کیا اور جولائی میں ان دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔ ترکیہ نے اب تک اخوان کے بارے میں اپنے موقف سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے نہ تعلقات بحال کرنے کے لیے مصر نے ایسی کوئی شرط عائد کی۔ تاہم بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اخوان سے محبت پر وطن کا مفاد غالب آگیا۔ دوسری طرف اسلامی تحریک سے دیرینہ وابستگی اور مقصد سے جناب ایردوان کے اخلاص پر شبہ بھی مناسب نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023