ایک معیاری تعلیمی ادارے کے لیے مطلوبہ ضروریات کا خاکہ

کسی بھی مسلم تنظیم یا مدرسے کے ذمہ داران کے لیے نہایت مفید معلومات

عرفان احمد صدیقی، فیض آباد

مسلم معاشروں میں مدارس اسلامیہ اور اسی قبیل کے دیگر تعلیمی ادارے بکثرت پائے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر و بیشتر ایسے ہوتے ہیں جنہیں یہ نہیں پتہ ہوتا ہے کہ ایک معیاری تعلیمی ادارے کے لیے مطلوبہ ضروریات کونسی ہیں جن کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے، لہٰذا افادۂ عامہ کے لیے اس ضمن میں چند تفصیلات ملاحظہ فرمائیں :
01 انتظامیہ: ٹرسٹ، سوسائٹی وغیرہ کی تشکیل اور رجسٹریشن۔
الف: ایک مضبوط رجسٹرڈ ٹرسٹ یا سوسائٹی جس کے اغراض و مقاصد Aims and Objective اور ضوابط Rules and regulations کسی ماہر ایڈووکیٹ سے بنوائے جائیں تاکہ بار بار ترمیم، تنسیخ و اضافہ وغیرہ کی ضرورت نہ پڑے۔ نیز یہ ضوابط عصری و رائج الوقت سرکاری قوانین بالخصوص انکم ٹیکس کے قوانین سے بھی مطابقت رکھتے ہوں۔ اس کے اقلیتی کردار کو بنائے رکھنے کے لیے ضروری قانونی پابندیوں، لوازمات اور مطالبات پر بھی نگاہ رہے۔
ب: ٹرسٹ یا سوسائٹی کے ممبران و عہدے داران مخلص و دیندار افراد پر مبنی ہوں۔
۲۔ زمین عمارت و دیگر بنیادی سہولیات کا خیال رکھا جائے۔
الف: اگر تعلیمی ادارہ نئے سرے سے قائم کیا جانا ہے تو کوشش کی جائے کہ حکومت کے کسی بورڈ سے منظوری کے لیے مطلوبہ معیار سے زیادہ رقبہ کی اراضی خریدی یا وقف کی جائے۔ اسکولوں کو منظوری دینے کے نئے قوانین کے مطابق زمین اسکول کے نام (سوسائٹی یا ٹرسٹ نہیں، راست اسکول کے نام) بیعنامہ یا کم سے کم ۲۹ سال کے رجسٹرڈ لیز پر ہونی چاہیے۔
ب: اسکولوں کو منظوری دینے والے اداروں کے مطلوبہ معیار کے مطابق کسی ماہرِ تعمیراتArchitect سے نقشہ بنوا کر گورنمنٹ(بلدیاتی ترقیاتی ادارہ (Development Authority) جو ہر شہر اور قصبہ میں ہوتا ہے، اس سے نقشہ منظور کروانے کے بعد کسی ماہر انجینئر کی نگرانی میں عمارت تعمیر کی جائے۔ہر بورڈکلاس روم، آفس، لیاب، پرنسپل روم، اسٹور روم، لائبریری، بیت الخلاء، زینہ وغیرہ کے معیاری رقبہ (لمبائی چوڑائی) وغیرہ سے متعلق مفصل معلومات اپنی ویب سائٹ پرمہیا کرتا ہے یا ان کے آفس میں طبع شدہ دستیاب رہتا ہے۔اس لیے اس کو دیکھ لیں اور اسی کے مطابق کام کریں۔
ج: عمارت کے ساتھ کھیل کے میدان کا مناسب رقبہ ( ویسے بھی اسکول کی منظوری کے لیے میدان کا کم سے کم رقبہ منظوری دینے والے ادارے پہلے ہی سے طے کردیتے ہیں) ضرور موجود ہو۔ مطلوبہ رقبہ سے کم کا میدان ہونے پر اسکول کو منظوری نہیں مل سکتی ہے۔
د: اگر تین منزل سے زیادہ اونچی عمارت بنانے کا رادہ ہے تو کم سے کم ایک لفٹ کی جگہ مختص رکھی جائے ۔ منظوری کے وقت لفٹ لگانے کا مطالبہ ہو سکتا ہے۔
۳۔ منظوری کے لیے بورڈ کا انتخاب۔
الف: موجودہ حالات میں بغیر منظوری کے ادارہ چلانا قابل تعزیر جرم ہے اس لیے کسی معیاری بورڈ سے ادارے کی منظوری لازماً لی جائے۔اس سلسلے میں کوشش کی جائے کہ مرکزی بورڈ جیسے سی بی ایس ای (CBSE) سے منظوری لی جائے ۔اس کے لیے CBSE کے مطلوبہ معیار و ضوابط کے مطابق سوسائٹی، ٹرسٹ، زمین کا رقبہ، اسکول کی عمارت، کھیل کا میدان، لیب وغیرہ کے لیے ضروی ساز و سامانinfrastructure and lab equipment, consumable items وغیرہ کی خرید مع بل واوچر تیار رکھا جائے۔ اگر CBSE سے منظوری ملنے میں دقت ہو تو ریاستی بورڈ سے منظور ی لے لی جائے ۔
ویسے بھی اب پہلے ریاستی بورڈ سے منظوری لینا لازمی ہے اس کے بعد ہی CBSE یا ICSE بورڈ سے منظوری لی جاسکتی ہے۔
۴۔ نصاب کا انتخاب
ظاہر ہے اسکول کا نصاب اسکول کو منظوری دینے والے بورڈ کے مطابق ہی رکھنا ہوگا۔ دینی تعلیم کے لیےہم اپنے اداروں میں کسی مناسب اسلامی مکتبہ کی تیار شدہ کتب شامل ِنصاب کرسکتے ہیں۔ درسی کتابوں کے لیے NCERTکی کتابیں بہترین ہوتی ہیں، اس کے علاوہ ملک کے اہم کتب خانوں کی معیاری کتابوں کو لائبریری میں دستیاب رکھنا طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے علمی استعداد میں اضافہ کا موجب بن سکتا ہے۔
کتابوں کا انتخاب : ہر استاد اپنے اپنے مضمون کی کتب کا انتخاب خود کر سکتاہے۔ بصورت دیگر اساتذہ دوسرے اداروں کے ماہر اور درس و تدریس کاوسیع تجربہ رکھنے والے اساتذہ کی مدد لے سکتے ہیں۔ مرکزی تعلیمی بورڈ کی تیارکردہ کتب بھی بہترین اور ملک بھر میں شامل نصاب ہیں ،یہ کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز سے شائع ہوتی ہیں ۔انہیں بھی شامل نصاب کیا جاسکتا ہے۔
۵۔ اساتذہ کا انتخاب
الف: اساتذہ کا انتخاب بالکل شفاف اور مقابلہ جاتی جائزہ کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔
٭ پہلاراؤنڈ:پہلےراؤنڈمیں تمام امیدواروں کو شامل امتحان کیا جائے۔ یہ ایک طرح سے اسکریننگ ٹیسٹ (Screening Test) ہوگا۔
٭ پہلے راؤنڈ کے امتحان میں کم سے کم دو زبانوں کی بنیادی معلومات کا جائزہ ہو جس میں سے ایک زبان اسکول کے ذریعہ تعلیم Mediumکی زبان ہو۔ اس جائزہ میں استاد کی اردو، ہندی، انگریز، علاقائی زبان دانی کا جائزہ ہوگا جس میں املا و قواعد کے ساتھ صحیح لکھنے پڑھنے و بولنے کی صلاحیت/استعداد پرکھی جائے۔
٭ پہلے راؤنڈ کے پرچہ کا دوسرا جز عام معلوماتGeneral Studies کا ہو جس میں سائنس کے بنیادی سوالات، دینی معلومات پر مبنی سوالات اور ذہنی صلاحیت (Mental Ability Test) Reasoning, Logic, Numerical Skill, Analysis etc پر مبنی سوالات شامل ہوں۔
٭ تیسرا جز بنیادی ریاضی ( جماعت ہشتم تک ارتھمیٹک کے سوالات) پر مبنی ہو۔
٭ دوسرا راؤنڈ: پہلے راؤنڈ میں منتخب امیدواروں کا انٹرویو لیا جائے۔
٭ تیسرا راؤنڈ: انٹرویو میں منتخب امیدواروں کو کم سے کم ایک ہفتہ کلاس روم میں پڑھواکر کسی ماہر تجربہ کار استاد کی نگرانی میں اس کا طرز تعلیم وغیرہ کا مشاہدہ کرنے کے لیے متعین کیا جائے اور اس کی رپورٹ کے مطابق ہی کوئی آخری فیصلہ کیا جائے۔اسے Demo Teachingکہہ سکتے ہیں۔ اگر اس دوران امیدوار کی کسی کمی کی وجہ سے اس کا حتمی تقرر نہ کرنا ہو تواسے اس ایک ہفتہ یا جتنے دن پڑھایا ہے اس کا معاوضہ دے کر معذرت کر لی جائے۔
ب: نئے تقرر شدہ اساتذہ کی تربیت Trainingکا نظم کیا جائے یا کم سے کم اپنے ادارے کے طریقہ تعلیم، نصاب و دیگر لوازمات قواعد و ضوابط سے متعارف کروا دیا جائے۔ اس کے لیے اسے چند دنوں تک کسی پرانے تجربہ کار استاد کی نگرانی میں کام کرنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے۔
نوٹ: موجودہ زمانے کے لحاظ سے ہر استاد کو کمپیوٹر پر بنیادی کام کرنے کی تربیت دی جائے اور نئے تقرر کے وقت Computer Skill کو لازمی شرائط میں شامل کیا جائے۔بنیادی کمپیوٹر صلاحیت میںData Entry, MS Word, Excel, email, Net surfingپر کام کرنا آنا چاہیے۔اساتذہ کی ٹریننگ اور اورئنٹیشنTraining and orientation کے پروگرام مستقل چلائے جائیں۔ سال میں کم سے کم ایک بارلازمی طور پر ہونا چاہئے۔
۶۔ طلباء کا داخلہ
کسی بھی درجہ میں طالب علم کا داخلہ بغیر ٹیسٹ کے نہ کیا جائے سوائے ابتدائی درجہNursery/1stوغیرہ کے۔
تعلیمی معیار اور ادارہ کا ماحول سازگار و بہتر کرنے میں سرپرست حضرات کا تعاون لینے کے لیے ان کی ہر ماہ ایک میٹنگ رکھی جائے۔ ایک ذیلی کمیٹی بھی بنادی جائے جس میں ہرجماعت کے منتخب شدہ تعلیم یافتہ سرپرست حضرات کو شامل کیا جائے جسے Parent Teacher Association (PTA)کہہ سکتے ہیں۔ ان کی سال میں کم سے کم دوبار میٹنگ ہو، جس میں ان سے تعلیمی معیارکو بہتر بنانے اور ادارہ میں کمیوں پر تبادلہ خیال کیا جائے اور ان کی قابل عمل مشوروں کو اہمیت دی جائے نیز ان پر عمل درآمد کیا جائے۔
۷۔ تدریس میں معاون ساز و سامان کی فراہمی
تدریس میں معاون ساز و سامان جیسے نقشے ، چارٹ، ماڈل(Both working and non-working models)، عملی مشاہدہ کے لیے تجربہ گاہ کے ساز و سامان، ڈیجیٹل ساز و سامان بجٹ کے مطابق، عمدہ بلیک بورڈ، گرین بورڈ ( اور اسمارٹ بورڈ اگر ادار ہ اس کا مالی طور پر متحمل ہو تو کم سے کم ایک ڈیجیٹل بورڈ ضرور رکھا جائے ) اس کے استعمال کی سبھی اساتذہ کو تربیت دی جائے۔ ضروری نہیں کہ تدریس میں معاون ساز و سامان بہت قیمتی ہوں۔ بجٹ کے لحاظ سے ان کی خریداری بتدریج کی جاسکتی ہے۔
ٌَ۸۔ اسکول کا نظام الاوقات(Time Table)
اسکول کا Time Tableکسی تجربہ کار استاد یا چندتجربہ کار اساتذہ کی نگرانی میں بنانا چاہیے جس سے طلباو اساتذہ پر دماغی و جسمانی بوجھ کم سے کم پڑے اورطلباء ذہنی و جسمانی بشاشت کے ساتھ مضامین کی درس وتدریس میں شامل ہو سکیں۔Time Tableمیں مشکل اور آسان مضامین کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ مشکل مضامین آخری پیریڈس میں نہ رکھے جائیں،اس سے بچوں کو اکتاہٹ ہوتی ہے اور پھر وہ سبق کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
۹۔ اسکول کے اوقات و تدریس کے دوران اساتذہ کی نگرانی
ذمہ دار ادارہ (Principal/Headmaster)درس و تدریس کے دوران اساتذہ کی وقتاً فوقتاً اچانک نگرانی کرےتاکہ کلاس روم میں اساتذہ کا طرز عمل ، طریقہ تعلیم کیا ہے؟ اس کا اندازہ ہوتا رہے۔ اگر کوئی کمی محسوس ہو تو اپنے آفس میں بلاکر اس کی نشان دہی کرے اور اسے دور کرنے کی ترکیب بھی دے۔
۱۰۔ ٹیسٹ اور امتحانات
طلباء کا بے لاگ مستقل جائزہ بصورت ہفتہ وار، ماہانہ، ششماہی امتحانات کے ذریعہ لیا جاتارہے تاکہ سالانہ امتحان سے قبل ان کی کمیاں دور کی جاسکیں۔ کسی خاص مضمون میں کمزور طلبا کے لیے اضافی کلاسزRemedial/Extra Classes چھٹیوں کے دنوں میں چلائے جا سکتے ہیں۔
۱۱۔ دیگر تعلیمی سرگرمیاں
دیگر تعلیمی سرگرمیوں Extracurricular activities کے ذریعہ طلباء میں غیر تدریسی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھایا جائے۔
۱۲۔ بین ادارتی مقابلہ جات
طلباء کو تقریری، تحریری و دیگر سرگرمیوں میں ہونے والے بین ادارتی مقابلہ جات(Inter school competitions) میں شامل کیا جائے تاکہ طلباء اپنا تقابل دوسرے اداروں کے بچوں سے کرسکیں اور اندازہ لگا سکیں کہ دوسرے اداروں کے بچوں کے مقابلہ میں ان کا معیار کیسا ہے؟
۱۳۔ اسکول کا اکاؤنٹ و دیگر ریکارڈس:
اسکول کا اکاؤنٹ بک، کیش بک، لیجربک، بل واؤچرس، رسیدیں، تنخواہ رجسٹر، بینک بکس، نقد وبینک سے ادائیگی کے واؤچرس بکس کے علاوہ دیگر اہم ریکارڈس، طلباء سے متعلق ریکارڈس یعنی ( داخلہ جسٹر، داخلہ فارم مع جملہ منسلکات، حاضری رجسٹر ، School فیس کا رجسٹر Leaving Certificate Book/TC Register اوررزلٹ شیٹ وغیرہ) ملازمین کے ریکارڈس ( تعلیمی اسناد، آدھار، بینک کھاتہ، PAN,، فوٹو ملازمین کی پانچوں انگلیوں کے نشانات۔ تقرر نامہ یا ڈیوٹی جوائن کرنے والے کاغذات پر)، اسکول کی منظوری سے متعلق جملہ کاغذات ( Building NOC, Fire NOC, Recognition Letter, Udise Number Allotment Letter)، مختلف سرکاری اداروں، ضلع تعلیمی افسر(DIOS/BSA/DEO) کے سرکلرس، ہدایات، حکم نامے، نوٹسزNotices وغیرہ کو باضابطہ فائل بناکر رکھنا چاہیے تاکہ کسی بھی وقت مانگے جانے اور ضرورت پڑنے پر بروقت بلا تاخیر فراہم کیا جاسکے۔جملہ فائل کا انڈیکس بھی بنایا جائے تاکہ فائل تلاش کرنے میں وقت ضائع نہ ہو۔
اگر اسکول کے طلباء کو سرکاری امداد، وظیفہ ملتا ہے تو اس کے جملہ ریکارڈس کو کم سے کم دس سال محفوظ رکھنا چاہیے۔
داخلہ فارم مع جملہ منسلکات۔ آدھار، سابق اسکول کی ٹی سی، رزلٹ وغیرہ سال بہ سال جلد بنواکر محفوظ کرلینا چاہیے۔ اسی طرح ہر تعلیمی سال کے اختتام پر جملہ درجات کے طلباکی حاضری رجسٹر کوجلد بنوا کر محفوظ کرلیناچاہیے۔
ملازمین کے تقرر نامے، برطرفی نامے، استعفی نامے ، ملازمین کو دی گئی ہدایات، نوٹس Notices و دیگر اسناد کی فوٹو کاپیز اور ملازمین کے حاضری رجسٹر بھی دائمی ریکارڈ کے طور پر محفوظ رکھے جائیں۔
۱۴۔ EPFضوابط کی پابندی: ادارہ میں بیس یا زیادہ ملازمین ہونے کی صورت میں لازمی ہے۔
اگر ادارہ،سوسائٹی، ٹرسٹ EPF کے دائرے میں آتا ہے تو ای پی ایف میں بھی رجسٹریشن کروا یا جائے اور ان کے ضابطوں کی پابندی کی جائے تاکہ بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو۔CBSEسے منظوری لینے کے لیے توEPFمیں رجسٹریشن لازمی شرط ہے۔ بعد میں پکڑے جانے پر لمبا تاوان ہوتا ہے۔
۱۵۔ انکم ٹیکس
انکم ٹیکس کے ضابطوں کو ملحوظ رکھ کر سوسائٹی وغیرہ کا 12A, 80G میں رجسٹریشن اورcomplianceضرور کروایا جائے۔ اگر بیرن ملک سے امداد لینا ہے توFCRA لازماًلے لیں۔
۱۶۔ آڈٹ
ہر مالی سال(Financial year) میں مالیات کا باضابطہ حساب آڈٹ (Audit)کروانا چاہیے اور اس کے ریکارڈ کم سے کم دس سال تک محفوظ رکھناچاہیے۔ اگر انکم ٹیکس میں رجسٹریشن ہے تو ہر سالITRبھی فائل کیا جائے ،اس کے لیے کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ (CA) کی پیشہ ورانہ خدمات لی جائیں۔
اسی طرح سوسائٹی یا ٹرسٹ کا PAN, TAN, LIN, Niti Portal Reg Number وغیرہ ضرور حاصل کر لیا جائے۔
۱۷۔نقد لین دین
سرکاری ضابطہ کے مطابق نقد ادائیگی کم سے کم کی جائے، بڑی رقومات کا لین دین صرف بینک کے ذریعہ، کراسڈ چیک، کراسڈ ڈیمانڈ ڈرافٹ ( NEFT/RTGS)سے کیا جائے تاکہ لین دین میں شفافیت کے ساتھ ساتھ اس کا اعتماد بھی محفوظ رہے۔
۱۸۔چندہ/عطیات دینے والوں کا ریکارڈس
اگر عوامی چندہ، عطیات کی وصولی ہوتی ہے تو اس کا بھی باقاعدہ سرکاری قوانین کی پابندی اور لوازمات کو ملحوظ رکھ کر ریکارڈ تیار رکھا جائے۔ جیسے نقدعطیہ کنندہ کا پتہ ، آدھار نمبر وغیرہ ۔ بینک سے راست وصول ہونے کی صورت میں صرف عطیہ کنندہ کا نام ہی کافی ہے۔
نقد عطیہ لینے کی جو زیادہ سے زیادہ حد ہے اس سے کم ہی کیش لیا جائے ۔ عطیہ رجسٹر اور رسیدیںDonation Register and Donation Receipts کم سے کم دس سال محفوظ رکھی جائیں۔
۱۹۔ بینک اکاونٹ
سوسائٹی اور اسکول کا کھاتہ الگ الگ رکھا جائے اور کھاتوں کو کم سے کم دو ذمہ داران کی دستخط سے آپریٹ Operateکیا جائے۔ صرف چالو کھاتہ(Current account) کھولا جائے۔ بچت کھاتہ((Saving Account نہیں۔
۲۰۔تعلیمی تبدیلیوں سے واقف رہیں
سوسائٹی، ٹرسٹ و تعلیمی اداروں کے جدید ترین قوانین، سرکاری حکم نامے GOsوغیرہ ادارے میں دستیاب رہیں اور ذمہ داران ادارہ ان سے Updateبھی رہیں تاکہ قوانین کی پابندی بھی صحیح طور پر ہوتی رہے۔
یہ چند ایسی تفصیلات ہیں جن سے ہر ادارے کے ذمہ داران کو واقف رہنا ضروری ہے ۔امید ہے کہ ان باتوں کا خیال رکھا جائے گا اور ملت کے مستقبل کو منظم طریقے سے روشن و تابناک کیا جائے گا ۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024