ایک کلیم سربکف

پیغمبرانہ مشن کے لیے عزیمت کا سفر لازمی ہے

0

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

مولانا محمد کلیم صدیقی کی شخصیت سرتاپا حرکت وعمل ہے۔ وہ جب کبھی آمادۂ تصنیف ہوتے ہیں تو قلم کے ذریعہ دوسروں کو بھی حرکت وعمل کا پیغام دیتے ہیں۔ان کی کئی کتابیں ہیں، ان کی کتاب ’’اسوۂ نبی رحمت‘‘ بیداری کا پیغام بھی ہے، صور اسرافیل بھی ہے اور تیغ اصیل بھی ہے۔ اس میں سیرت طیبہ کا نئے سرے سے مطالعہ کرنے اور نئے سرے سے پیش کرنے اور اس کو پورے طور پر اپنا اسوہ بنانے کی تلقین بھی ہے۔ سیرت طیبہ پر ہر زبان میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں، خود اردو زبان میں بعض کتابیں انسائیکلوپیڈیا کا مقام رکھتی ہیں اور کئی جلدوں میں مکمل ہوتی ہیں۔ لیکن ان کتابوں میں علم وتحقیق کی روح زیادہ جلوہ گر ہے۔ خود ان مصنّفین کی روح دعوت وجہاد کے صحراء میں شریک سفر نہیں ہے۔ گویا مصنف کتاب ساحل پر بیٹھ کر موجوں کا تماشائی ہے، وہ موجوں کو گنتا اور ان کی تفصیلات کا مرقع تیار کرتا ہے۔کتاب وقیع علمی اور تحقیقی تو بن جاتی ہے لیکن ساحل پر بیٹھ کر طوفان کا نظارہ کرنااور دریا کی موحوں کو گننا ایک بات ہے اور خود اس طوفان سے گزرنا اور اپنے سفینۂ حیات کو خطرے میں ڈالنا دوسری بات ہے۔ پہلا کام سعادت ہے اور دوسرا عزیمت، پہلا کام صاحب سیرت کے بارے میں نقوش قلم تیار کرنا ہے اور دوسرا کام صاحب سیرت کے نقوش قدم پر چلنا ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ نقوش قدم پر چلنے کے لیے رہنمائی اور روشنی نقوش قلم سے ملتی ہے۔ لیکن ان انسانوں کو کیا کہا جائے جنہیں چراغ راہ تو چاہیے لیکن راستہ اور منزل نہیں چاہیے۔
سنت نبوی کی اتباع کی تبلیغ اور تلقین تو بہت زیادہ ہورہی ہے ،مسواک تک کی سنت پر عمل کرنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سیرت طیبہ بلکہ تمام انبیاء کی سیرتوں میں جو سنت سب سے نمایاں ہے، وہ ہے سنت دعوت جس کے ساتھ تغافل کا معاملہ کیا جارہا ہے اور اس پر بھی لوگوں کو اپنی غلطیوں کا اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ آج کے دور میں سنت نبوی کی پیروی کی سب سے زیادہ دعوت دینے والے سب سے بڑی سنت کو سب سے زیادہ ترک کر رہے ہیں۔ بندگانِ خدا تک اور ایمان سے محروم لوگوں تک ایمان کی سوغات پہنچانا تمام انبیاء کی سب سے بڑی سنت ہے لیکن مسلمانوں کی اصلاح اور تزکیہ کے کام کو دعوت وتبلیغ کا عنوان دے دیا گیا ہے۔ اصلاح وتزکیہ، ہمہ گیر انبیائی دعوت کا جزوی پہلو ہے، روئے زمین پر چلنے والے انسانوں کو جہنم کے خطرہ سے آگاہ کرنا وسیع تر کارِ دعوت ہے۔ اس جگہ یہ توجیہ قابل قبول نہیں کہ پہلے صرف اپنے گھر کو درست کرنا چاہیے اور مسلمانوں کو اچھا مسلمان بنانا چاہیے۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہر جگہ مسلمانوں میں ایسے افراد ملیں گے جو اپنے عمل وکردار اور اپنے تقوی اور تعلق مع اللہ کے اعتبار سے اچھے ہیں لیکن سنت دعوت تسلسل کے ساتھ اتنی متروک ہو چکی ہے کہ مسلمانوں کے متقی اور پرہیزگار لوگوں کو بھی اس کام کی طرف توجہ نہیں ہے اور انہیں اس کا خیال بھی نہیں گزرتا کہ روز مرہ کی زندگی میں چھوٹی چھوٹی سنتوں کو زندہ کرنے کی دعوت دے کر بھی وہ سب سے بڑی سنت کے تارک بنے ہوئے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ مولانا محمد کلیم صدیقی بہت شریف اور شائستہ انسان ہیں انہوں نے مدارس بھی کھولے ہیں اور ان کا مشن بہت سے اداروں کے کاموں سے زیادہ وقیع تر، وسیع تر اور روشن تراور سیرت سے قریب تر ہے۔ اس راہ میں جو آزمائشیں آتی ہیں وہ ان کے نزدیک ’’زخم زخم گلاب‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں جو کسی نا مہرباں کی نشانیاں ہیں لیکن حقیقت میں عزت وتکریم کا ہار ہیں۔ اہل علم کا خیال ہے کہ جو شخص پیغمبرانہ مشن کو اختیار کرے گا اسے وادی پُرخار سے گزرنا پڑ سکتا ہے اور اس آبلہ پائی کا اجرو ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ ہزاروں قائدین ملت اور ہزاروں مسند نشینان علم وفضیلت کو اقبال نے اس طرح پیغام دیا ہے
صحبت پیر روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ، ایک کلیم سر بکف
(مولانا کلیم صدیقی کی کتاب ’’اسوۂ نبی رحمت‘‘ کا پیش لفظ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024