فیروز رشید، ناندیڑ
(پردہ اٹھتا ہے)
(اسٹیج پر مکمل اندھیرا ہے۔ گھوڑے دوڑنے اور تلواروں کے ٹکرانے کی آوازیں آرہی ہیں۔ بیچ بیچ میں جوشیلے نعروں اور سپاہیوں کو جوش دلانے والی آوازیں گونج رہی ہیں۔ آوازوں کا یہ شور کچھ دیر تک رہتا ہے اس کے بعد یہ آوازیں دھیمی ہو جاتی ہیں اور اِنہی دھیمی آوازوں کے درمیان بیک گراؤنڈ آواز سنائی دینے لگتی ہے)
بیک گراؤنڈ آواز:
تاریخ کا ایک سنہرا باب روشن ہے۔ اسلامی فوجوں کی شاندار فتوحات اور صلیبیوں کی عبرت انگیز شکست کا سلسلہ جاری ہے۔ حطین کے میدان میں اس وقت گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ سات صلیبی حکم راں متحد ہو کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف میدانِ جنگ میں لڑنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ میدان جنگ اس وقت کسی طوفان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ صلاح الدین ایوبی اپنے محفوظہ کے ساتھ فوج کے دائیں اور بائیں پہنچ رہے ہیں اور سالاروں کو جنگی حالات کی نزاکت کے اعتبار سے نئے احکامات دے رہے ہیں۔ صلیبی فوجوں میں بھی جوش اور ولولے کی کمی نہیں ہے۔ لیکن یہاں ایک طرف حق ہے اور دوسری طرف باطل۔ آخر کار سات صلیبی متحدہ فوجوں کو شرمناک شکست ہو چکی ہے۔ (بیک گراؤنڈ آواز رک جاتی ہے۔ اسٹیج پر دھیرے دھیرے روشنی ہونے لگتی ہے۔ صلاح الدین ایوبی کے جنگی خیمے کا منظر خیمے میں مشعل جل رہی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے تینوں سالاروں کے ساتھ جنگی نقشے کو غور سے دیکھ رہے ہیں)
پہلا سالار: سب سے پہلے تو ہم آپ کو فتح حطین کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
سلطان ایوبی: نہیں مجھے مبارکباد پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ میری فتح نہیں، حق کی فتح ہے۔ میرے رفیقو! جنگ کثیر تعداد میں فوج کے بل بوتے پر نہیں جیتی جاتی، جنگ جیتنے کے لیے اعلی جنگی ساز و سامان کی بھی ضرورت نہیں ہے، جنگ جیتی جاتی ہے صرف عقیدہ، جذبہ اور مقصد کی بدولت۔ ہمارے سامنے ہمارا مقصد ہے ہم خدائی پیغام کو پوری دنیا میں پہنچانا چاہتے ہیں بیت المقدس کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔
دوسرا سالار:ہماری فوجیں اسی مقصد اور جذبے کے ساتھ لڑتی ہیں جناب۔
سلطان ایوبی: اور یہ ضروری بھی ہے۔ ہم خدا کے لیے لڑتے ہیں اور صلیبی اپنے بادشاہوں کے لیے، اسی لیے خدا ہماری مدد فرما رہا ہے اور صلیبیوں کو شکست ہو رہی ہے۔
تیسرا سالار: بیت المقدس ہمارا ہے اور ہم اسے آزاد کرا کے ہی دم لیں گے ان شاءاللہ۔
سلطان ایوبی: بے شک خدا نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا۔
پہلا سالار: بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ مسلمان بادشاہوں کی غداری کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا۔
سلطان ایوبی: انہوں نے اپنا ایمان صلیبیوں کے پاس رہن رکھ دیا تھا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے قوم کو بیچ دیا۔ صلیبی بیت المقدس پر قبضہ کرنے جا رہے تھے اور راستے میں یہ نام نہاد غدار مسلمان انہیں رسد اور جنگی مدد پہنچا رہے تھے۔ ہر زمانے میں ایسے ملّت فروش پیدا ہوتے رہیں گے۔ (سلطان کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگتا ہے) اپنے ایمان کو نیلام کرنے والوں کا ٹھکانہ سوائے جہنم کے اور کہیں نہیں ہو سکتا۔ ان کے اس گناہ کی سزا بیت المقدس میں رہنے والے بے قصور نہتے مسلمانوں کو ملی۔ کبھی کبھی کسی کے انفرادی گناہ کی سزا ساری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔
عزیزو! بعض وقت ایسا لگتا ہے کہ اندھیرا چاروں طرف پھیل جائے گا مگر پھر ہوتا یہی ہے کہ حق کا سورج طلوع ہوتا ہے اور چاروں طرف اجالا پھیل جاتا ہے۔
پہلا سالار: سلطان! جہاں مِلت فروش ہیں وہیں ملت کے لیے اپنی جان قربان کرنے والے بھی موجود ہیں۔
سلطان ایوبی: ہمارا ایمان جب تک سلامت ہے خدا کی مدد ہمیں حاصل ہوتی رہے گی اور کوئی فوج ہمیں شکست نہیں دے سکے گی۔ آج کی جنگ میں آپ نے دیکھ لیا کہ ہمارے سامنے سات صلیبی حکم رانوں کی کثیر فوج تھی لیکن خدا نے ہماری مدد فرمائی اور ہم نے حطین کا میدان مار لیا۔
دوسرا سالار: کیا فوج کو حکم دے دیا جائے کہ وہ آرام کر لے؟
سلطان ایوبی: (سالاروں کے قریب آکر) میرے رفیقو! مجھے آپ کی تھکن کا پورا احساس ہے لیکن یاد رکھو اگر ہم یہاں آرام کرنے بیٹھ گئے تو صلیبی کہیں بھی جمع ہو کر تازہ دم ہو جائیں گے۔ میں انہیں زخم چاٹنے کی بھی مہلت نہیں دینا چاہتا۔
(سلطان سالاروں کی طرف دیکھتا ہے۔ تینوں سالار ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں)
دوسرا سالار: ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔
سلطان ایوبی: کوچ کل علی الصبح ہوگی اور پیش قدمی تیز رفتار ہوگی۔
تیسرا سالار: کوچ کس سمت ہوگی؟
سلطان ایوبی: (معنی خیز لہجہ میں) عکرہ کی سمت
تیسرا سالار: وجہ؟
سلطان ایوبی: آپ سب کو یاد ہوگا کہ صلیبیوں نے ایک مرتبہ مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کی سمت پیش قدمی کی تھی۔
تیسرا سالار: ہاں یاد ہے۔
سلطان ایوبی: اور یہ بھی یاد ہوگا کہ شہزادہ ارناطہ اور کاؤنٹ ریجنالڈ مکہ معظمہ سے دو کوس کی دوری تک پہنچ گئے تھے۔
تیسرا سالار: ہاں، یہ بھی یاد ہے۔
سلطان ایوبی: مکہ معظمہ کی طرف بری نظر سے دیکھنے کا زبردست انتقام تو میں نے شہزادہ ارناطہ سے لے لیا ہے۔ عکرہ صلیبیوں کا مقدس مقام ہے۔ صلیبی عکرہ کی طرف بڑی عقیدت سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے نفسیاتی لحاظ سے بیت المقدس سے پہلے عکرہ پر قبضہ کرنا بہت ضروری ہوگا تاکہ صلیبیوں کے حوصلے پر کاری ضرب پڑے۔ اس کے علاوہ جنگی لحاظ سے بھی یہ بہت اہم ہے۔
پہلا سالار: سلطان جو حکم دیں گے اس کی تعمیل ہمارا فرض ہے۔
دوسرا سالار: صلیبیوں کے ساتھ جنگ میں آپ ہمیں ہمیشہ ثابت قدم پائیں گے۔
سلطان ایوبی: یہ بات اپنے ذہنوں میں اچھی طرح بٹھا لو اور اپنے سپاہیوں کو بھی سمجھا دو کہ ہمیں فتح پر فتح ہماری طاقت، ہمارے جذبہ یا جنگی مہارت کی وجہ سے حاصل نہیں ہو رہی ہے بلکہ یہ فتح محض خدا کی عنایت اور مہربانی کی وجہ سے ہے اور خدا کی مہربانی ہم کو اس لیے نصیب ہو رہی ہے کیونکہ ہم حق پر ہیں۔ اس لیے خدا کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہوگے تو یقینا فاتح کہلاؤ گے۔(سلطان کے لہجے میں جوش آجاتا ہے۔ سالاروں کے چہروں سے بھی جوش جھلکنے لگتا ہے)
تیسرا سالار: سلطان! اب آرام ہمارے لیے حرام ہے۔ ہمیں تفصیلات بتا دیجئے۔
سلطان ایوبی: (نقشہ پر انگلی سے لکیر بناتے ہوئے) یہاں سے ہمیں عکرہ کی سمت جانا ہے۔ عکرہ فتح کرنے کے بعد بغیر آرام کیے ہمیں طائیر، حیفہ، بیروت، عسقلان اور تمام چھوٹے بڑے ساحلی شہروں اور قصبوں پر قبضہ کرنا ہے۔
دوسرا سالار: ساحلی شہروں پر پہلے قبضہ کرنے کی وجہ؟
سلطان ایوبی: اس لیے کہ یورپ کے کچھ اور بادشاہ اپنے صلیبی بھائیوں کی مدد کے لیے اپنی فوجیں، مال و دولت اور جنگی ساز و سامان ضرور بھیجیں گے۔ ساحلی علاقوں پر اگر ہمارا قبضہ ہوجائے گا تو دشمن کا کوئی بحری جہاز ساحل کے نزدیک آنے کی ہمت نہیں کر سکے گا۔
تیسرا سالار: یہ بے حد کامیاب منصوبہ رہے گا، اس کے بعد ؟
سلطان ایوبی: اس کے بعد ہم بیت المقدس کی جانب پیش قدمی کریں گے۔
تیسرا سالار: ٹھیک ہے سلطان!
بیک گراؤنڈ آواز: سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوجیں تیز رفتار کے ساتھ عکرہ کی سمت بڑھنے لگیں۔ ان کے راستے میں جو بھی چھوٹا بڑا قصبہ یا شہر آتا گیا سلطان کی فوجوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ فوج تھی جو بغیر آرام کیے یلغار کر رہی تھی۔ اس فوج کے راستے میں جو بھی آیا وہ تنکے کی طرح بہا دیا گیا۔ آخرکار سلطان کی فوجوں نے 6؍ جولائی 1187 کی رات عکرہ پر حملہ کر دیا۔ مجاہدین کے سیلاب کو کوئی روک نہیں سکا۔ سورج غروب ہونے سے پہلے عکرہ کا حکم راں قیدی بنا ہوا سلطان ایوبی کے سامنے کھڑا تھا۔ عکرہ کے قلعہ میں تقریبا 6 ہزار مسلمان قیدی تھے۔ قلعہ پر قبضے کے بعد سب سے پہلے سلطان نے ان قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا۔ ان تمام قیدیوں کی حالت جانوروں سے بھی زیادہ بدتر تھی۔ یہ وہ قیدی تھے جو غدّاروں کے گناہوں کی سزا بھگت رہے تھے۔ اپنے تخت و تاج کی حفاظت کے لیے دین کے دشمنوں سے ہاتھ ملانے والے یہ غدار اگر صلیبیوں کے اشارے پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا نہ کرتے تو ان قیدیوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ 8؍ جولائی 1187 کو عکرہ پر قبضہ مکمل ہو چکا تھا۔ اسی رات جب سلطان ایوبی کھانے سے فارغ ہو کر اپنے خیمے میں بیٹھا تھا تب محکمہ جاسوسی کے چیف علی بن سفیان داخل ہوتے ہیں۔
سلطان ایوبی: اس وقت آنے کا مقصد؟
علی بن سفیان: ایک نہایت اہم قیدی آپ کے سامنے لایا جا رہا ہے۔
سلطان ایوبی: کون ہے وہ؟
علی بن سفیان: صلیبیوں کے شعبہ جاسوسی کا چیف’’ہرمن‘‘
سلطان ایوبی: (کچھ یاد کرتے ہوئے) اوہ ہرمن!
علی بن سفیان: جی ہاں سلطان صلیبیوں کی انٹلیجنس کا سربراہ اور مسلمانوں کی کردار کشی کرنے کا ماہر۔
کچھ دیر بعد ہرمن کو دو سپاہی اندر لاتے ہیں۔ اس کے ہاتھ پیچھے سے بندھے ہوئے ہیں۔ چہرے پر خوف ہے اور سر جھکا ہوا ہے۔
سلطان ایوبی: (علی بن سفیان سے) علی ! اس کے ہاتھ کھول دو۔ (علی بن سفیان ہرمن کے ہاتھ کھول دیتے ہیں۔ سلطان، ہرمن کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ ہر من ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے چہرے سے گھبراہٹ صاف ظاہر ہو رہی ہے)
سلطان ایوبی: (ہرمن سے) میں تمہاری دانشمندی کا اعتراف کرتا ہوں۔
ہرمن: اس قدر دانی کے لیے میں سلطان معظم کا شکر گزار ہوں۔
سلطان ایوبی: تمہاری جتنی قدر میں کر سکتا ہوں اتنی تمہارے حکم راں بھی نہیں کر سکتے۔
ہرمن: جی سلطان
سلطان ایوبی: ہرمن، میں تمہارے ساتھ کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔
ہر من: مجھ سے باتیں کیے بغیر اگر آپ میرے قتل کا حکم دے دیں تو زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ اگر میری لاش کو مچھلیوں یا گدھوں کی خوراک بننا ہی ہے تو باتیں کرنے سے کیا فائدہ؟
سلطان ایوبی: (ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ) میں تمہیں قتل نہیں کروں گا ہرمن، قتل ہونے والوں سے میں کبھی بات نہیں کرتا۔
ہرمن: میں سلطان معظم کا احسان مند ہوں۔
سلطان ایوبی: (علی بن سفیان سے) علی! دربان سے کہو کہ ہر من کو شربت پیش کیا جائے۔
(دربان شربت لا کر ہر من کو دیتا ہے اور وہ اسے پی لیتا ہے)
سلطان ایوبی: ہرمن! تم جانتے ہو کہ مسلمان اپنے دشمن کو پانی یا شربت پیش کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے دل سے دشمنی نکال دی۔
(ہرمن کھڑا ہو جاتا ہے)
ہرمن: بہت بہت شکریہ سلطان جیسا سنا تھا آپ کو ویسا ہی پایا۔ آپ انصاف پسند اور نہایت رحم دل ہیں۔
(سلطان ہرمن کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ ہرمن ادب کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے)
سلطان ایوبی: میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔
ہرمن: آپ مجھ سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کون کون سے علاقے میں ہماری کتنی فوج ہے اور سلطان معظم۔ آپ یہ جاننا چاہیں گے کہ ہماری فوج میں لڑنے کی صلاحیت کیسی ہے؟
سلطان ایوبی: نہیں ہرمن، اب مجھے اس بات کی پروا نہیں رہی کہ تمہاری فوج کس علاقے میں ہے اور اس کی تعداد کتنی ہے۔ ایک سچا مسلمان تعداد پر نہیں اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتا ہے۔ ارضِ مقدس سے اب کوئی فوج مجھے نکال نہیں سکتی۔ تم یہ سنو گے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی مر گیا لیکن پسپا نہیں ہوا۔
ہرمن: (تعجب سے) پھر آپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟
سلطان ایوبی: مسلمانوں کے کردار کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟
ہرمن: مسلمانوں کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ مسلمان ایمان کے پکے اور کردار کے سچے ہوتے ہیں۔ اگر مسلمان بد کردار ہوتے تو آج آپ یہاں نہیں ہوتے۔ صلیب اعظم آپ کے قبضے میں نہیں ہوتی۔
(سلطان بیٹھ جاتا ہے) میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ لذت اور ذہنی عیاشی ایمان کو کھا جاتی ہے۔ میں نے یہی حربہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ عیش و عشرت اور اقتدار کا لالچ دیا لیکن میں ہر محاذ پر ناکام رہا۔ میں کھلے طور پر اپنی شاطرانہ چالوں کی شکست کا اعتراف کرتا ہوں۔
سلطان ایوبی: ہرمن، میں نے تمہاری جان بخشی ہے۔ مجھے یہ بتاؤ کہ میرے مرنے کے بعد میری فوج اور عام مسلمانوں کا کردار کس طرح بلند رہ سکتا ہے؟
ہرمن: کیا میں صاف گوئی کے لیے آزاد ہوں؟
سلطان ایوبی: بے شک! تمہیں جو بھی کہنا ہے بے خوف ہو کر کہہ سکتے ہو۔
ہرمن: محترم سلطان! میں آپ کو جاسوسی کا سب سے بڑا استاد سمجھتا ہوں۔ آپ صحیح وقت کا انتخاب کرتے ہیں اور صحیح مقام پر ضرب لگاتے ہیں۔ آپ کے حربوں نے ہماری لاکھوں کی فوج کو پریشان کر رکھا تھا۔ ہماری راتوں کی نیند حرام ہو گئی تھی۔ آپ کے سپاہی جانباز ہیں، آپ کا جاسوسی نظام نہایت اعلی درجہ کا اور کارگر ہے۔ علی بن سفیان اور حسن بن عبداللہ جیسے وفادار ماہرین جب تک آپ کے ساتھ ہیں آپ ناکام نہیں ہو سکتے لیکن
سلطان ایوبی: (پہلو بدل کر) لیکن کیا؟
ہرمن: لیکن سلطان میں آپ کو بتا دوں کہ یہ صرف آپ کی زندگی تک ہے۔ صلیبی حکم رانوں کو کافی بحث و مباحثے کے بعد میں نے سمجھا دیا ہے کہ مسلمانوں کے علاقوں پر نہیں بلکہ ان کے ایمان پر حملہ کرو۔ اے سلطان معظم! ہم نے آپ کی قوم میں ایسا بیج بو دیا ہے کہ مسلمان اپنے ایمان سے دور ہو جائیں گے۔ ایک نہ ایک دن ہمارا بویا ہوا یہ بیج ایک تناور درخت میں تبدیل ہو جائے گا۔ مسلمانوں کے پاس اسلامی تعلیمات تو رہیں گی لیکن عمل سے وہ کوسوں دور ہو جائیں گے۔ صرف نماز اور روزے کو ہی وہ اسلام سمجھنے لگیں گے۔ ان کا لباس کھانا، پینا، چلنا، پھرنا اور طرز معاشرت سب ہمارے منصوبے کے مطابق ہوگا۔ وہ صرف نام کے مسلمان رہیں گے۔ مجھے بتائیے محترم سلطان! کیا صرف نام رکھنے سے ہی آدمی مسلمان ہو جاتا ہے؟
(سلطان کے چہرے پر گہرے تفکر کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں اور وہ کھڑے ہو کر بے چینی کے عالم میں ٹہلنے لگتے ہیں۔ ہرمن اپنی بات جاری رکھتا ہے۔)
ہم نے آپ کی قوم میں دولت، لذت اور مغرب پرستی کا بیچ بویا ہے۔ ایک نہ ایک دن اس کا نشہ سر چڑھ کر بولے گا۔ آپ کے جانشین اس نشے کو اتار نہیں سکیں گے اور میرے جانشین اس نشے کو اور زیادہ تیز کرتے رہیں گے۔
سلطان ایوبی: (کچھ سوچتے ہوئے) کیا ایسا ہو سکتا ہے؟
ہرمن: ایسا ہی ہوگا سلطان معظم ہماری کوششیں بیکار نہیں جائیں گی۔ آپ کی قوم کو ہم انفرادی مفاد کا زہر کھلائیں گے۔ جب انفرادی مفاد کا جذبہ پختہ ہو جائے گا تو اجتماعیت کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔ جب اجتماعیت ہی ختم ہو جائے گی تو قوم کا شیرازہ خود بخود بکھر جائے گا۔ اب جنگ میدانوں میں نہیں لڑی جائے گی بلکہ دل و دماغ فتح کیے جائیں گے۔
سلطان ایوبی: تمہیں اور کچھ کہنا ہے؟
ہرمن: ہاں محترم سلطان، مسلم تہذیب میں ہم ایسی دراڑ ڈالیں گے کہ مسلمان اپنی تہذیب سے بیزارگی کا اظہار کرنے لگیں گے اور ہماری تہذیب کو اپنا کر فخر محسوس کریں گے۔ ہم مسلمانوں کے مذہبی عقائد کا محاصرہ کریں گے، ذہنی طور پر انہیں تقسیم کر دیں گے، اسلامی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کو مسلمان یکسر فراموش کر دیں گے۔ جب کسی مذہب کے اصولوں اور تعلیمات پر عمل نہیں ہوتا تو اس مذہب کو ماننے والی قوم کی تہذیب ختم ہو جاتی ہے۔
سلطان ایوبی: کیا ایسا وقت آئے گا؟
ہرمن: وہ وقت ضرور آئے گا محترم سلطان، وہ وقت آپ نہیں دیکھیں گے، میں نہیں دیکھوں گا لیکن ہماری روحیں ضرور دیکھ رہی ہوں گی۔
سلطان ایوبی: ہرمن! یہ بات تو میں بھی مانتا ہوں کہ وہی قوم زندہ رہتی ہے جو اپنے مذہب کی تعلیمات، اپنی تہذیب اور اپنی معاشرتی قدروں کی پاسبانی کرے اور ان کے گرد ایسا حصار کھینچے کہ کوئی باطل نظریہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ قوموں کی زندگی کے لیے ان کی تہذیب کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔ اجتماعیت کا تصوّر ہی قوموں کی جڑوں کو مضبوط بناتا ہے۔ تمہاری باتیں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں لیکن اس وقت مجھے بیت المقدس کی طرف جانا ہے، میں مسجد اقصی کو صلیبی پنجے سے ضرور آزاد کراؤں گا۔
ہرمن: پھر کیا ہوگا؟ آپ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے پھر آپ کے جانشینوں میں اقتدار کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ ہوس پرستی کا نشہ تیز ہو جائے گا، عیش و عشرت کے رجحان میں اضافہ ہوتا جائے گا اس طرح ہمارے بوئے ہوئے بیچ کا پودا لہلہانے لگے گا۔ میرے جانشین آپ کی قوم کو لالچ کا زہر کھلا کر اور مسلمان حکم رانوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑا کر دوبارہ بیت المقدس پر قبضہ کر لیں گے۔ اب آپ کی قوم میں کوئی نور الدین زنگی یا صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوگا۔
سلطان ایوبی: تمہاری باتیں بہت قیمتی ہیں ہرمن، کاش! میری قوم ان باتوں کی گہرائی کو سمجھ سکتی۔ فی الحال میں تمہیں دمشق بھیج رہا ہوں وہاں تمہارے ساتھ معزز قیدیوں جیسا سلوک کیا جائے گا، اب تم جا سکتے ہو۔
(سلطان، علی بن سفیان کو اشارہ کرتے ہیں کہ وہ ہر من کو لے جائے۔ علی بن سفیان ہرمن کو لے جاتے ہیں۔ سلطان آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے گہری سوچ میں غرق ہو جاتے ہیں۔ موسیقی کی ہلکی آواز کے ساتھ اسٹیج کی روشنی مدھم ہونے لگتی ہے)
(پردہ گرتا ہے)
تلخیص: ڈاکٹر ضیاءالحسن
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024