ایک اور ستارہ ٹوٹ گیا۔۔۔

بزرگ اخوان رہنما شیخ عِصام عطّار کی جرمنی میں وفات

نعمان بدر فلاحی، علی گڑھ

تقریباً ۶۰ برس کی جلا وطنی کے بعد شام میں اخوان المسلمون کے دوسرے بڑے رہنما اور یورپ میں اخوان کے شامی نژاد قائد شیخ عصام عطار (۱۹۲۷ء- ۲۰۲۴ء) ۲؍ مئی بروز جمعہ جرمنی کے شہر ’ آخن ‘ میں۹۷ سال کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون )
داعی ،ادیب ، شاعر ،مفکر اور شام کی پارلیمنٹ کے سابق رکن شیخ عصام 1927ء میں دارالحکومت دمشق کے ایک علمی اور مذہبی خانوادے میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد محمد رضا عطار ملک شام کے بڑے عالم اور قاضی تھے ۔ دمشق کی جامع مسجد الاموی میں ان کے دروس اور خطبے پابندی سے ہوا کرتے تھے ۔ان کا خانوادہ عثمانی خلافت اور سلطان عبد الحمید کا حمایتی تھا۔چنانچہ شام کے گورنر جمال پاشا نے ان کے والد کو دیگر افراد کے ساتھ ایک فرضی مقدمہ میں پھانسی کی سزا سنائی مگر وہ ملک سے فرار ہو جانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
شیخ عصام نے طالب علمی کے زمانے میں ایک انجمن تشکیل دی تھی جو فلاحی ،اصلاحی اور خدمت خلق کے کاموں میں پیش پیش رہتی تھی۔ شیخ عصام اور ان کے متعدد رفقاء جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے دمشق کے مضافات کی مختلف بستیوں میں جایا کرتے تھے۔ شیخ نے کالج کے زمانے میں ہی عرب کے معروف ادیبوں مثلاً مصطفی صادق رافعی، طہٰ حسین، عباس محمود عقاد، احمد امین ، سلامہ موسیٰ اور احمد حسن زیات وغیرہ کی تصنیفات ،ادبی رجحانات اور ذاتی افکار کا خوب مطالعہ کرلیا تھا ۔ 1945ء میں مصری عالم، مصنف اور اخوان رہنما مصطفی السباعی (۱۹۱۵ء- ۱۹۶۴ء) کے ذریعہ اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے۔ 1955ء میں دمشق میں منعقد ہونے والی ’مؤتمر عالم اسلامی‘ کی اس بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہوئے جس میں شام کے کبار اہل علم اور سیاسی رہنما مثلاً محمد المبارک، معروف الدوالیبی اور مصطفی زرقاء وغیرہ بھی موجود تھے۔کانفرنس میں عصام عطار کو ’مؤتمر عالم اسلامی‘ ( قیام 1926ء) کا سکریٹری جنرل مقرر کیا گیا تھا۔
عصام عطار نے ۱۹۵۱ء میں شامی حکومت کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ میں حصہ لیا ۔چالیس کی دہائی میں اخوان نے شام پر مسلط فرانسیسی سامراج کے خلا ف مسلح جدو جہد میں حصہ لیا تھا ۔آزادی کے بعد اخوان شام کے سیاسی عمل میں شامل ہوگئی ۔۱۹۴۹ء میں اس کے ۳ اراکین پارلیمان میں پہنچے ۔ ۱۹۶۱ء میں اس کے اراکین پارلیمنٹ کی تعداد دس تھی۔ لیکن۱۹۶۳ء میں سیکو لرزم اور سوشلزم کی داعی بعث پارٹی نے جب بزور قوت جمہوری حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ جمایا تو شام میں اخوان کے دوسرے مرشد عام شیخ عصام عطار نے بعث پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف عوامی تحریک منظم کی ۔
۱۹۵۴ء میں اخوان کے مرشد حسن الہضیبی اور محمد حامد ابو النصر وغیرہ نے شام کا دورہ کیا تو مصطفی سباعی اور سعید رمضان کے ساتھ عوامی اجلاس منعقد کیے، جن میں لاکھوں کا مجمع تھا۔ اخوان کے دوسرے مرشد حسن الھضیبی، عبدالقادر عودہ، محمد فرغلی اور یوسف طلعت وغیرہ ان کے رفیقوں میں شامل تھے۔مصر کے ایک ممتاز قانون داں، صحافی، دانشور اور امام حسن البناء ( ۱۹۰۶ء-۱۹۴۹ء) کے انتہائی معتمد، ان کے داماد اور یورپ میں الاخوان المسلمون کے بانی سعید رمضان ( ۱۲؍ اپریل ۱۹۲۶ء- ۴؍اگست ۱۹۹۵ء) شیخ عصام عطار کے حلقہ احباب میں شامل تھے ۔
مصطفی السباعی کے بعد ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۳ء تک وہ شام میں الاخوان المسلمون کے سربراہ رہے ۔فرانسیسی استعمار او رفوجی انقلاب کے بعد مطلق العنان حکم راں حافظ الاسد کے خلاف اپوزیشن کی سب سے نمایاں آواز اور تحریک مزاحمت کی علامت (Symbol of Resistance) تھے۔ ۱۹۶۴ء میں ملک بدر کیے گئے۔ لبنان، مصر، اردن اور کویت وغیرہ میں بھی وقت گزارا۔ سید قطب اور محمود محمد شاکر اور عبد الوہاب عزام وغیرہ سے اسی زمانے میں ملاقاتیں کیں۔ ۱۹۷۰ء سے مستقل جرمنی میں مقیم تھے۔ عربی ان کی مادری زبان تھی مگر انگریزی، جرمن اور فرانسیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی تصنیفات میں ’’بلادنا الاسلامیۃ و صراع النفوذ، الایمان و اثرہ فی تربیۃ الفرد المجتمع، ثورۃ الحق ، ازمۃ روحیۃ‘‘ قابل ذکر ہیں ۔
بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں شام کی الاخوان المسلمون سے وابستہ افراد نے ہالینڈ کی سرحد پر واقع جرمن شہر ’آخین‘ کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا جہاں شامی نژاد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی۔ شامی اخوان کے سربراہ شیخ عصام العطار بھی شامی حکم رانوں کے مظالم سے بچ کر آخین میں آکر آباد ہوئے اور ایک اسلامی مرکز قائم کیا۔ بعد میں رفتہ رفتہ بہت سے اخوانی وہاں جمع ہوگئے اور ایک قوت بن کر ابھرے۔ امریکہ اور جرمن ایجنسیوں کا یہ خیال ہے کہ جرمنی کی یہ اسلامی سوسائٹی الجزائر کی اسلامک سالویشن فرنٹ اور فلسطین کی حماس سے نہ صرف یہ کہ تعلقات رکھتی ہے بلکہ ان کی مالی امداد بھی کرتی ہے۔ مصر کے بعد شام میں اخوان کی تنظیم سب سے زیادہ طاقتور نظر آتی ہے۔ دمشق یونیورسٹی معروف شامی خاتون سیاست داں نجاح عطار شیخ عصام کی ہمشیرہ ہیں جو ۱۹۷۶ء سے ۲۰۰۰ء تک شام کی وزیر ثقافت رہیں۔موصوفہ واحد عرب خاتون ہیں جو ۲۰۰۶ء سے شام میں نائب صدر کے عہدہ پر فائز ہیں۔
یورپ میں تحریک اسلامی کی آبیاری اور نشو ونما میں بنیادی کردار ادا کرنے والے اور اخوان کی پہلی نسل سے متعلق بزرگ قائد شیخ عصام عطار کو ۳؍ مئی۲۰۲۴ء کو جرمنی کے شہر’ آخن‘ میں اخوان سے منسلک سیکڑوں غمگین مرد و خواتین کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا۔اللہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کر دے، آمین۔
***

 

***

 ۱۹۵۴ء میں اخوان کے مرشد حسن الہضیبی اور محمد حامد ابو النصر وغیرہ نے شام کا دورہ کیا تو مصطفی سباعی اور سعید رمضان کے ساتھ عوامی اجلاس منعقد کیے، جن میں لاکھوں کا مجمع تھا۔ اخوان کے دوسرے مرشد حسن الھضیبی، عبدالقادر عودہ، محمد فرغلی اور یوسف طلعت وغیرہ ان کے رفیقوں میں شامل تھے۔مصر کے ایک ممتاز قانون داں، صحافی، دانشور اور امام حسن البناء ( ۱۹۰۶ء-۱۹۴۹ء) کے انتہائی معتمد، ان کے داماد اور یورپ میں الاخوان المسلمون کے بانی سعید رمضان ( ۱۲؍ اپریل ۱۹۲۶ء- ۴؍اگست ۱۹۹۵ء) شیخ عصام عطار کے حلقہ احباب میں شامل تھے ۔
شیخ عِصام عطّار


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024