ایک اور نوجوان ہجومی تشدد کا شکار

راجستھان میں لکڑی کی اسمگلنگ کے شبہ میں تین مسلم نوجوانوں پر جان لیوا حملہ

(دعوت نیوز نیٹ ورک)

مقامی بھیڑ اور محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے ایک مسلم نوجوان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جبکہ دو شدید زخمی ہوئے
‏ملک میں ہجومی تشدد اور ناحق قتل کے واقعات آئے دن سننے کو مل رہے ہیں اور اب تک کئی معصوم لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں جو ملک کی سالمیت کے لمحہ فکریہ ہے۔ چنانچہ پچھلے دنوں راجستھان میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس میں27 سالہ مسلم نوجوان کو مشتعل بھیڑ کے ذریعہ مار مار کر ہلاک کر دیا گیا اور اس کے دو ساتھیوں کو بھی زخمی کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے ساتھ ایک ہجوم نے اس شبہ میں ان پر حملہ کر دیا کہ وہ مشرقی راجستھان کے جنگل میں لکڑی کاٹ کر اسمگل کر رہے تھے۔ یہ واقعہ راجستھان کے کوٹ پٹلی-بہرور ضلع کی بانسور تحصیل کے رام پور علاقے میں پیش آیا۔ مقتول کی شناخت وسیم کے نام سے ہوئی ہے۔ وہ پک اپ ٹرک چلا رہا تھا جس میں اس کا بھائی آصف اور ایک دوست اظہر الدین اس کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ یکایک ایک ہجوم نے ان کے خالی ٹرک کو نرول گاؤں کے قریب جے سی بی کی مدد سے روکا، انہیں زبردستی اپنی گاڑی سے باہر نکالا اور ان پر حملہ کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ وہ اس علاقے میں غیر قانونی طور پر درختوں کو گرانے اور ان کی لکڑی کاٹنے کے لیے گھوم رہے ہیں۔ اسی اثنا محکمہ جنگلات کے سات سے آٹھ اہلکار، جو اپنی جیپ میں مذکورہ نوجوانوں کا پیچھا کر رہے تھے وہ بھی گاؤں والوں کے گروپ میں شامل ہو گئے اور سب نے مل کر ان تینوں کی بے دردی سے پٹائی کی۔ ہجوم کے پاس تیز دھار ہتھیار، لاٹھیاں اور لوہے کی سلاخیں بھی تھیں جس کی وجہ سے وسیم بری طرح زخمی ہوگئے۔ آناً فاناً وسیم کو کوٹ پٹلی کے بی ڈی ایم سرکاری اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ دو دیگر نوجوانوں کو بھی سخت چوٹیں آئیں۔
ہرسورہ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر کے اندراج کے بعد، پولیس نے اگلے دن محکمہ جنگلات کے چار اہلکاروں سمیت دس افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا۔ جس جیپ میں محکمہ جنگلات کے اہلکار سفر کر رہے تھے اسے بھی ضبط کر لیا گیا۔ لیکن کسی بھی ملزم کو باضابطہ طور پر گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ تفتیش جاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق جب ان لوگوں میں جھگڑا شروع ہوا تو اس کی اطلاع پولیس کو دے دی گئی اور کچھ لوگوں کے درمیان لڑائی کی اطلاع ملتے ہی ہرسورہ کے پولیس اہلکار موقع پر پہنچ گئے۔ پولیس کے پہنچنے پر حملہ آور موقع سے فرار ہو گئے جبکہ تینوں افراد سڑک پر خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے۔ پولیس وسیم اور دیگر افراد کو بنسور کے قریب واقع پرائمری ہیلتھ سنٹر لے گئی اور بعد ازاں وسیم کو تشویش ناک حالت کے پیش نظر کوٹ پٹلی ہسپتال منتقل کر دیا جہاں دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انہوں نے دم توڑ دیا۔
پولیس نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر، مہلک چوٹ اس کے دھڑ یا اگلے حصے پر تیز دھار ہتھیار سے لگی تھی۔ پولیس میں درج کرائی گئی اپنی شکایت میں، وسیم کے والد طیب خان نے کہا کہ ان کے بیٹے نے دن کے وقت ایک مقامی ڈیلر سے لکڑی خریدی تھی اور رات کو اسے لوڈ کرنے کے لیے پک اپ ٹرک رام پور لے گیا تھا۔ گاؤں والوں نے جے سی بی کھدائی کرنے والے کی مدد سے سڑک بلاک کر دی اور نوجوانوں کو اپنی گاڑی سے نیچے اترنے پر مجبور کیا۔ محکمہ جنگلات کی ایک جیپ جو ان کا پیچھا کر رہی تھی، وہاں پہنچ گئی اور اس میں سوار اہلکاروں نے بھیڑ میں شامل ہو کر تینوں نوجوانوں کو پیٹا۔ ایف آئی آر کے مطابق پولیس کے موقع پر پہنچنے کے بعد بھی غنڈوں نے انہیں مارنا پیٹنا جاری رکھا اور پھر انہیں گرفتار کرنے سے قبل وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔
پولیس نے تعزیرات ہند کی دفعہ 302 (قتل) 147 (فساد برپا کرنا ) 149 (غیر قانونی اجتماع) 323 (کسی شخص کو زخمی کرنا) اور 341 (غلط طریقے سے کسی کی راہ روکنا) کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔
2017 میں جے پور-دلی قومی شاہراہ پر ہریانہ کے ایک مسلمان ڈیری فارمر پہلو خان کے قتل سے شروع ہونے والے ہجومی تشدد کے واقعات ماضی میں مشرقی راجستھان میں باقاعدگی کے ساتھ رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ ایک جنگل کے درمیان پیش آیا ہے۔ اس خطے میں مسلمانوں کے خلاف ماحول نہایت ہی خطرناک ہو گیا ہے۔
ہریانہ کی سرحد سے متصل اس خطے میں گاؤ رکھشکوں نے کئی بار مویشیوں کو لے جانے والوں کو نشانہ بنایا ہے، لیکن درختوں کی کٹائی اور لکڑی کی اسمگلنگ کے شبہ میں حملے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ سرکاری اہلکاروں نے بھیڑ میں شامل ہوکر مسلم نوجوانوں کو مارا۔
وسیم کا تعلق ضلع کھیرتھل-تیجارہ کے تپوکارا گاؤں سے تھا اور وہ اپنے والدین کے دس بچوں میں سے ایک تھا۔ اس کی شادی زاہدہ سے ہوئی تھی اور اس کے سات، چھ اور پانچ سال کے تین بیٹے اور دو سال کی بیٹی تھی۔ وسیم کے بھائی توفیق نے کہا کہ ہجوم نے انہیں راستے میں ایک جے سی بی ایکسویٹر لگا کر روکا اور علاقے میں افواہ پھیلنے کے بعد ان پر حملہ کیا کہ وہ مویشیوں کے اسمگلر ہیں۔
وسیم کے بھائی زبیر خان نے دعویٰ کیا کہ ان پر صرف ان کی مسلم شناخت کی وجہ سے حملہ کیا گیا اور وحشیانہ لنچنگ واضح طور پر ایک فرقہ وارانہ واقعہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ وسیم ایک دہائی سے زائد عرصے سے لکڑی کے تاجر کے طور پر کام کر رہا تھا اور مقامی کسانوں اور زمینداروں سے لکڑی اور درخت خرید رہا تھا۔ جس دن اسے مارا گیا، وہ جنگل میں جا کر لکڑیاں اکٹھی کرنے کے لیے نکلا تھا جو اس نے خریدی تھیں اور اسے لوڈ کیے بغیر وہاں سے چلا گیا جب اسے اطلاع ملی کہ جنگل کے اہلکار، جو علاقے کا معائنہ کر رہے تھے، وہ اس کی قانونی تجارت (legal Business) کے باجود اسے ہراساں کر سکتے ہیں۔
وسیم کے گھر والوں نے تپوکارہ کے گاؤں والوں کی بڑی تعداد کے ساتھ تمام قاتلوں کی فوری گرفتاری اور انہیں سخت سزا دینے کے مطالبے کے ساتھ ہرسورہ پولیس اسٹیشن پر مظاہرہ کیا۔ لواحقین نے وزیر اعلیٰ کو ایک میمورنڈم بھی سونپا جس میں انہوں نے متوفی کے لواحقین کو مالی امداد اور خاندان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دینے کا مطالبہ کیا۔
اپنے ردعمل میں راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت نے محض یہ کہا کہ یہ ایک ’افسوس ناک واقعہ‘ ہے۔ واقعہ کے بعد جے پور میں کانگریس کی ریاستی الیکشن کمیٹی کی میٹنگ سے باہر نکلتے وقت صحافیوں کے سوال پر گہلوت نے مسلمانوں پر فرقہ وارانہ حملوں اور پرتشدد واقعات میں شامل ہونے والے سرکاری اہلکاروں اور ہجوم کے ذریعہ ایک بے گناہ کو قتل کرنے جیسے اہم اور اصل مسئلے کو حل کیے بغیر یہ کہا کہ’’ تشدد کے واقعات پولیس اسٹیشنوں میں ایف آئی آر کے لازمی اندراج کی ریاستی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ جب کوئی جرم ہوتا ہے تو لوگ اب پولیس کے پاس جانے سے ڈرتے نہیں ہیں۔ وہ فوری کارروائی کی توقع رکھتے ہیں، جسے ہماری پولیس فورس نے یقینی بنایا ہے۔ یہاں تک کہ عصمت دری کے معاملات بھی، جو سماجی بدنامی کے خوف سے پہلے رپورٹ نہیں ہوتے تھے، اب پولیس کے نوٹس میں لائے جارہے ہیں۔‘‘
دوسری جانب راجستھان میں حزب اختلاف بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ یہ واقعہ ریاست میں امن و امان کی صورتحال کے مکمل طور پر تباہ ہونے کا اشارہ ہے۔ بی جے پی کے قومی ایگزیکٹیو ممبر اور سابق ریاستی وزیر ارون چترویدی نے کہا کہ ضلع الور، جہاں سے حال ہی میں کوٹ پٹلی-بہرور ضلع بنایا گیا تھا، "جرائم کی راجدھانی” کے طور پر ابھرا ہے اور اس واقعے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کی جانی چاہیے۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پہلے ’گاؤ رکشا‘ کے نام پر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جاتا تھا اور اب بلا سبب معصوم مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی زہریلی سازشیں چل رہی ہیں اور سرکاری کارندے بھی اس کا حصہ بن رہے ہیں جو خطرے کی ایسی گھنٹی ہے جسے سن کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہنا ناعاقبت اندیشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔لہذا اس جانب مسلم عمائدین اور قائدین ملت کو توجہ دینے اور اس مسئلے کا مکمل حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ایک ایسا مضبوط اور سخت قانونی قدم اٹھانا کہ آئندہ کسی بھی معصوم انسان کو قتل کرنے سے پہلے بدمعاشوں کو اپنا انجام یاد رہے۔
بشکریہ : انڈیا ٹو مارو
***

 

***

 غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پہلے ’گاؤ رکشا‘ کے نام پر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جاتا تھا اور اب بلا سبب معصوم مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی زہریلی سازشیں چل رہی ہیں اور سرکاری کارندے بھی اس کا حصہ بن رہے ہیں جو خطرے کی ایسی گھنٹی ہے جسے سن کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہنا ناعاقبت اندیشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔لہذا اس جانب مسلم عمائدین اور قائدین ملت کو توجہ دینے اور اس مسئلے کا مکمل حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ایک ایسا مضبوط اور سخت قانونی قدم اٹھانا کہ آئندہ کسی بھی معصوم انسان کو قتل کرنے سے پہلے بدمعاشوں کو اپنا انجام یاد رہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023