عیدِ قربان کی حقیقی روح اور پیغام

بے مقصد زندگی نہ گزاریں۔ اللہ ہی کے ہو رہیں

ڈاکٹر ساجد عباسی

پوری یکسوئی کے ساتھ دینِ حنیف پر جم جائیں چاہیں کتنی ہی بڑی قربانی دینی پڑے
اسلام میں دو عیدیں ہیں ،ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحیٰ ۔اسلام میں عیدیں دوسرے مذاہب کی طرح محض خوشی اور تفریح کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ اپنے اندر اہم پیغام رکھتی ہیں ۔عیدالفطر ہر سال پہلی شوال کو منائی جاتی ہے ۔اس عید کا پیغام یہ ہے کہ قرآن جیسی نعمت پر، اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا فرمائی ہے ۔یہ ایسی نعمت ہے جو سارے عالم میں کسی دوسری قوم کو نہیں دی گئی ہے ۔یہ نعمت امتِ مسلمہ کو دنیا میں بامِ عروج پر پہنچاتی ہے اورآخرت میں جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔یہ قرآن کی نعمت ہے جس میں ساری انسانیت کی دنیاوی اور اخروی بھلائی رکھ دی گئی ہے۔یہ حقیقت اس فرض کو یاد دلاتی ہے کہ امتِ مسلمہ قرآن کی روشنی کو لے کر سارے عالم کی تاریکی کو دور کرے۔جس طرح اللہ تعالیٰ نےقرآن دےکر امتِ مسلمہ پر اپنی نعمت کا اتمام کیا، اس اعزاز کی مناسبت سے جو گراں قدر ذمہ داری اس امت پر عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ساری انسانیت تک قرآن کے پیغام کو پہنچائے ۔
عیدالاضحیٰ کا پیغام یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کا ہر فرد اللہ کی محبت میں ہر شئے کو قربان کرنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرے۔ عیدالاضحیٰ سے جو تاریخی ہستی جڑی ہوئی ہے وہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت جنہوں نے قربانیوں کی عظیم مثالیں پیش کیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دعوتِ توحید کے مشن پر لگایا تو انہوں نے اسی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ۔سب سے پہلے اپنے باپ آذر کودعوت دی ،پھر اپنی قوم کو ،اور اس کے بعد وہ موقع بھی آیا جب انہوں نے وقت کے بادشاہ نمرود کے دربار میں پیش ہوکر جرأتمندی اور حکمت کے ساتھ اللہ کا تعارف پیش کیا ۔جب آپ نے اس کو یہ کہہ کر لاجواب کردیا کہ میرا خدا وہ ہے جو مشرق سے سورج کو نکالتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے۔اگر تیرے پاس اختیار ہوتو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھادے۔اس بے باک جواب کی پاداش میں ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا ۔آپ نے اس سزا کو قبول کیا اور اپنی جان کو قربان کرنے کا مرحلہ آیا توکہا : حسبنا اللہ ونعم الوکیل ۔آپ کی زندگی میں آزمائش کا دوسرا مرحلہ اس وقت پیش آیا جب آپ حجاز سے گزر رہے تھے ساتھ میں آپکی اہلیہ ہاجرہ اور شیر خوار بیٹے اسماعیلؑ تھے جو بڑھاپے کی عمر میں مسلسل دعاؤں کے بعد پیدا ہوئے تھے ۔ حکمِ خداوندی ہوا کہ اپنی اہلیہ اور شیر خوار بیٹے کو بے آب و گیا وادی اور لق دق صحرا میں چھوڑکر چلے جائیں ۔یہ اپنے اہل و عیال کی قربانی تھی ۔جس میں حضرت ابرھیمؑ کامیاب نکلے۔عمر کے آخری پڑاؤ پر ایک آخری امتحان مطلوب تھا جس کو قیامت تک ایک مثال بننا تھا ۔خواب کے ذریعے حکم ہوا کہ اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو ذبح کریں۔ جب وہ لڑکپن کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور آپ کے بڑھاپے میں واحد سہارا تھے ۔جب بیٹے کے سامنے اللہ کے مطالبے کو پیش کرتے ہیں تو بیٹا بھی والہانہ انداز میں کہتا ہے کہ اباجان جو حکم آپ کو دیا گیا ہے اس کو کر گزریے ۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔یہ انسانی تاریخ کا عجیب منظر تھا کہ دونوں باپ اور بیٹے اللہ کے حکم پر راضی بہ رضا ہوکر اس عظیم قربانی کو انجام دیتے ہیں ۔بدلے میں اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو بچالیا اور ان کی جگہ پر ایک دنبے کو ذبح کروادیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ساری انسانیت کا امام بنایا اور اپنے لیے آپ کو اپنا خلیل (دوست) بنالیا اور قرآن میں فرمایا کہ ابراہیم کے اسوہ میں تمہارے لیے قیامت تک بہترین نمونہ ہے۔اللہ تعالیٰ کو ایک باپ کی اپنے چہیتے بیٹے کی قربانی کے حکم پر سرتسلیم خم کرنا اتنا پسند آیا کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے اس قربانی کے منظر کو یادگار بنا دیا اور دس ذو الحجہ کو امت مسلمہ کے لیے عید کا دن بنا دیا جس کو عیدلاضحیٰ کہتے ہیں یعنی وہ عید جس میں جانورذبح کیے جاتے ہیں ۔حسب ذیل سطورمیں عیدالاضحیٰ کے پیغام کو پیش کیا جاتا ہے:
۱۔عیدالاضحیٰ کا پیغام یہ ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔یہ اللہ کا عین حق ہے کہ وہ ان نعمتوں میں سے جو اس نے عنایت کی ہیں ، جس جس چیز کا مطالبہ کرےاسے بلا تردُّد اللہ کے حضور پیش کر دیا جائے۔ جان کا مطالبہ ہو تو جان پیش کر دے،مال کا مطالبہ ہوتو مال پیش کردے۔اپنی سب سے دل پسند چیز اللہ کی خدمت میں پیش کرنا ہی اصل نیکی ہے ۔یہی نیکی کی اصل ہے:لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ ۔تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں خدا کی راہ میں خرچ نہ کر دو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا۔(سورۃ آل عمران ۹۲)
۲۔عیدالاضحیٰ کا پیغام یہ ہے کہ ہمارے اندر بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی وہ صفت پیدا ہو جو ابراھیمؑ میں بدرجہ اتم موجود تھی ۔اس صفت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا : إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ۔ اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا، ”مسلم ہوجا“ تو اس نے فوراً کہا ”میں مالک کائنات کا ”مسلم“ہو گیا۔“
(سورۃ البقرۃ ۱۳۱)
جب حضرت ابرہیمؑ نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں تو انہوں نے اس کو اللہ کے حکم کے معنی میں لیا اس لیے کہ رسولوں کا خواب سچا ہوتا ہے۔جب رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ آپ عمرہ کررہے ہیں تو آپ نے اس کو اللہ کے حکم کے معنوں میں لیا اور عمرہ کا عزم کرکے صحابہ کرام کے ساتھ مکہ کے لیے روانہ ہوئے ایسے وقت میں جبکہ قریش مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اور آپس میں جنگوں کا سلسلہ جاری تھا ۔منافقین سمجھ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کا قافلہ جو مکہ کی طرف رواں دواں تھا وہ موت کے منہ میں جارہا تھا ۔اس لیے اس خطرناک سفر پر نہ جانے کے لیے منافقین نے معذرتیں پیش کیں ۔تمام انبیا و رسل نے اللہ کے حکم پر سرِ تسلیم خم کیا اور ذرا بھی ان خطرات کی پروانہیں کی جو اس وقت ان کے سامنے درپیش تھے۔سامنے نقصان اور خطرات کو دیکھنے کے باوجود اللہ کے احکام کو بجالانا اصل فرماں برداری ہے۔
۳۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے خواب میں دیکھا کہ بیٹے کو ذبح کررہے ہیں تو انہوں نے اس کو اللہ کا حکم سمجھا اور اپنے بیٹے سے مشورہ کیا : بیٹے! اس بارے میں تیری کیا رائے ہے۔یہ ایسا معاملہ تھا کہ اس حکم میں دونوں باپ اور بیٹے شامل تھے۔اس لیے ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے سے مشورہ کیا : فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِن شَاء اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ۔وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک روز ابراہیمؑ نے اس سے کہا،’’بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے ؟اس نے کہا، ’’ابا جان ، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہےاسے کر ڈالیے ، آپ انشاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے ‘‘(سورۃ الصافات ۱۰۲)
حصرت ابراہیمؑ نے غفلت میں یا جبر و اکراہ کے ذریعے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے بجائے اپنے بیٹے سے مشورہ کیا ۔ فرماں بردار بیٹا سمجھ گیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا امتحان ہے جو باپ اور بیٹے دونوں سے لیا جارہا ہے۔بیٹے نے جواب دیا کہ اباجان، جو اللہ کو مطلوب ہے اس پر عمل کیجیے:
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کی اس طرح تربیت فرمائی تھی کہ جب وہ کعبۃ اللہ کی تعمیر کررہے تھے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو ساتھ رکھا اور تعمیرکے دوران دونوں نے مل کر دعائیں کیں۔اس سے یہ معلوم ہوا کہ والدین اپنی اولاد کو نیکی کے کاموں میں شریک رکھیں تاکہ بچپن ہی سے ان کی تربیت ہو۔عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو کم عمری سے نیک کاموں میں ساتھ نہیں رکھا جاتا اور جوانی کی عمر میں ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دین دار بنیں اور دین کی خدمت کریں۔
اس سے یہ سبق بھی ملتا ہےکہ جب کوئی حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے جس میں دوسرا فریق بھی شامل ہوتو اس کوانجام دینے کے لیے جبر و اکراہ کے ذریعے مجبورنہ کیا جائے بلکہ ان کی تربیت کرتے ہوئے ان سے مشورہ کیا جائے۔دین کی اقامت سب سے پہلے اپنی ذات پر ہونی چاہیے ۔اس کے بعد اقامتِ دین کا تقاضا یہ ہے کہ دعوت، اصلاح و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے ۔ اقامتِ دین کا یہی فطری طریقہ ہےجس کے نتیجے میں ایک صالح فرد سے ایک صالح خاندان بنتا ہے اور صالح خاندانوں سے ایک صالح معاشرہ بنتا ہے اور دین کی بنیادیں مضبوطی سے قائم ہوتی چلی جاتی ہیں۔اگر معاشرہ اسلامی نہ بن پائے تو اس صورت میں چاہے اوپر سے کتنی ہی کاوش کرلی جائے دین کی اقامت ممکن نہیں ہوسکتی ۔دعوت ،اصلاح و تربیت کے مسلسل عمل سے ہی اقامتِ دین کی منزل کی طرف جانے والی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔غیر مسلموں میں دعوت اور مسلمانوں میں اصلاح و تزکیہ کا مسلسل عمل ہی دراصل اقامت دین کا عملی پروگرام ہے۔
۴۔انسان کے درجے اس وقت بلند ہوتے ہیں جب وہ امتحانات میں کامیا ب ہوتا ہے۔دنیا میں ہم دیکھتے ہیں ایک طالب علم ایک درجے سے اگلے درجے میں ترقی کرتا ہےجب وہ امتحانات میں کامیابی حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔ابرہیم علیہ السلام کو بھی پے درپے امتحانا ت سے گزارا گیا۔جب آپ تمام امتحانات میں کامیابی سے ہم کنار ہوئے تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ۔یاد کرو کہ جب ابرہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا : ”میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں“۔ ابرہیم نے عرض کیا : ”اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے“؟ اس نے جواب دیا:”میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے“
(سورۃ البقرۃ ۱۲۴)
اس آیت میں فرمایا گیا کہ جب ابرہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے بھی اس امامتِ انسانیت کے وعدہ کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے فوراً تصحیح فرمادی کہ امامت و قیادت کا انعام مورثی بنیادوں پر نہیں ملتا بلکہ ان آزمائشوں میں کامیابی کے بعد ہی ملتا ہے۔ایک ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنی اہلیت و محنت سے تعلیم حاصل کرکے سند حاصل نہ کر لے۔
۵۔اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ وہ بندے کے بقدر استطاعت ہی امتحان لیتا ہے: لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۔۔اللہ کسی متنفّس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمّہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے۔ (سورۃ البقرۃ ۲۸۶)
امتحان میں ایک ہائی اسکول کے طالب علم کو پوسٹ گریجویٹ کا پیپر نہیں دیا جاتا بلکہ اسی کلاس کا پیپر دیا جاتا ہے جس میں وہ اس وقت ہے ۔ابرہیمؑ کو جن بڑے بڑے امتحانات سے گزارا گیا ہے وہ ان کےعظیم ایمان کےشایان شان ہے۔ہر امتحان میں کامیابی انسان کو اس سے بڑے امتحان کے لیے تیار کرتی ہے۔ ہر نیکی کا عمل انسان کو اس سے بڑی نیکی کے لیے تیا ر کرتا ہے۔اور نیکی کے معیارکے مطابق اللہ تعالیٰ انسان کے درجے بڑھاتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم دنیا میں تو درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہیں لیکن نیکیوں میں اس قدر پیش قدمی نہیں کرتے اور برسہا برس نیکی کے کم وبیش ایک ہی مقام پر رہ کر جمود کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام ایک بڑے امتحان سے گرزتے ہیں تو اس سے عظیم تر امتحان کے لیے وہ تیار ہوجاتے ہیں ۔بالآخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح سے آزمانے کے بعد امامتِ انسانیت کے سب سے بڑے مقام پر فائز فرمایا ۔
۶۔قربانی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ۔نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔اس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو۔اور اے نبیؐ ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو (سورۃ الحج ۳۷)
اللہ تعالیٰ بے نیا ز ہے کہ بندے کی قربانیوں سے اس کو کوئی فائدہ پہنچے۔بندے کی طرف سے ہر نیک کام کا فائدہ خود بندے کی طرف لوٹ آتا ہے۔بندوں پر نیکیوں کی بدولت دنیا میں بھی برکتوں کا نزول ہوتا ہےاور ان کے لیے آخرت میں جنت کی لازوال نعمتوں کی صورت میں انعام دیا جاتا ہے۔اس لیے فرمایا جارہا ہے کہ جانور کی قربانی کا نہ گوشت اللہ کو پہنچتا ہے نہ ہی خون ۔اللہ کے پاس جو چیز پہنچتی ہے وہ ہے دل کا تقویٰ یعنی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کاخالص جذبہ و ارادہ ۔اللہ تو جہاں والوں سے بے نیاز ہے۔
۷۔اسلامی عیدوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اللہ کی نعمتوں پر شکر گزاری کا اظہار ہیں ۔شکر گزاری کا طریقہ یہ رکھا گیا ہے کہ اللہ کے ان بندوں کا حق ادا کیا جائے جو محتاج ہوں ۔چونکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کا ایک طریقہ یہ رکھا کہ محتاجوں کی حاجت پوری کی جائے۔دوسرے مذاہب میں جھوٹے خداؤں کو خوش کرنے کےلیے ان کے آستانوں پر نذرانے چڑھائے جاتے ہیں اورجانور ذبح کیے جاتے ہیں جن سے ان آستانوں کے مجاوروں اور پجاریوں کا فائدہ تو خوب ہوتا ہے لیکن غریبوں، محتاجوں اور مسکینوں کا کوئی بھلا نہیں ہوتا۔مشرکین کا یہ طریقہ ہے کہ جب ان کا ضمیر ان کو ان کے گناہوں پر ملامت کرتا ہے تو ان کے برے اثرات سے بچنے کے لیے اپنے جھوٹے معبودوں کے آستانوں پر حاضر ہوتے ہیں اور ان کو خوش کرنے کے لیے ان معبودوں کے نام پر نذرانے پیش کرتے ہیں ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت میں مندروں میں دولت کے انبار اور سونے کے خزانے جمع ہوتے ہیں لیکن غریبوں کی حاجتیں پوری نہیں ہوتیں۔
۸۔غیر مسلموں کی طرف سے یہ اعتراض کیاجاتا ہےکہ مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کا خون بہاتے ہیں۔اسلام خون بہانے کو پسند کرتا ہے۔اسلام ایک تشدد پسند مذہب ہےوغیرہ ۔یہ اعتراضات اس لیے کیے جاتےہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ اس کرۂ ارض پر انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اللہ کی معرفت و عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔اور دوسری تمام مخلوقات کو انسانوں کی خدمت کے لیے مسخر کیا گیا ہے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں۔اس بنیادی حقیقت کو نہ سمجھنے سے ساری الجھنیں پیداہوتی ہیں۔ بکری،گائے اور اونٹ کو انسانوں کے لیے پیداکیا گیا ہے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں، سواری کی شکل میں ، دودھ اور گوشت حاصل کرنے کے لیے اور اللہ کا شکر ادا کریں ۔اگر ان مویشی جانوروں کوصحت مند حالت میں ذبح نہ کریں گے وہ بوڑھے اور بیمار ہوکر کئی گنا زیادہ تکلیف سہتے ہوئے سسک سسک کر مر جائیں گے۔اسلام میں جانور ذبح کرنے سے پہلے اللہ کا نام لے کر ان کو ذبح کیا جاتا ہے۔اللہ کا نام لینا گویا اللہ کی اجازت طلب کرنا ہے۔اللہ کی اجازت کے بغیر یقیناً کسی کا بھی خون بہانا جائزنہیں ہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا فرمایا ہے اور اسی نے ان حلال جانوروں کو کھانے کی اجازت دی ہے۔اس لیے صرف اللہ کا نام لے کر ہی اس اجازت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے جس کو اللہ کی عبادت کے لیے پیدافرمایا گیا ہے اور دوسری مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے پیدا فرمایا ہے۔انسان صرف اللہ کی ذات پر قربان ہو۔وہ اللہ کے سوا نہ کسی کے سامنے جھکے اور نہ کسی اور کی عبادت کرے۔ انسان کی جان کو اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے۔کسی انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے انسان کی جان ،مال اور عزت کو پامال کرے۔لیکن جانوروں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اللہ کے بتلائے ہوئے طریقے پر حلال جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔
۹۔عید قربان کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ قربانی کی صفت اہلِ ایمان میں پیدا ہو۔اسلام دراصل ہر موقع پر قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اللہ کے لیے قربانی صرف جانور قربان کرنے تک محدود نہ ہو ۔ نفس کی خواہشات کی قربانی بھی مطلوب ہے۔جب ہم چھوٹی چھوٹی نفس کی خواہشات کو اللہ کے لیے قربان نہیں کر سکتے تو اللہ کے دین کی خاطر جان و مال کیسے قربان کرسکتے ہیں؟ اسلامی اجتماعیت کے لیے اور اسلامی معاشرہ میں اتحاد امت کے لیے اپنی انا کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ایک آدمی امت کے مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے کے لیے تیا رنہ ہوتو ایسا شخص امت کو بہت نقصان پہنچاسکتا ہے۔اللہ اور رسول کے ارشادات کے مقابلے میں اگر اکابرین کے طور طریقوں کو قربان نہ کریں اور ان کو دین میں شامل کرتے چلے جائیں تو دین کی شکل بگڑ جائے گی اور دین میں تفرقہ برپا ہوگا۔اللہ کی محبت کے مقابلے میں دوسری محبتوں اور الفتوں کو قربان نہ کرسکے تو نہ انسان دنیا میں کامیاب ہوگا نہ آخرت میں ۔مشرکانہ عقائد اور بدعات وخرافات اور غیر اسلامی رسوم و رواج کو اگر قربان نہ کرسکیں تو مسلمان اسلام کو بدنام کرنے کا سبب بنیں گے جس کا خمیازہ دنیا میں بھی بھگتنا پڑے گا اور آخرت میں بھی ۔حرام چیزوں ،بری عادتوں اور بری صحبت کو اللہ کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو یہ تمام چیزیں دنیا و آخرت بربادکرنے کا ذریعہ بنیں گے۔یہ بات یادرکھیں کہ اللہ کی خاطر ہم جس چیز کی بھی قربانی دیں گے اللہ تعالیٰ اس کا ہمیں اس دنیا میں بھی اچھا انجام دکھائے گا اور آخرت میں اچھا صلہ دے گا۔
۱۰۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی سے ہمیں قربانی کا سبق دیا ہے ۔آپ نے ہر ہر قدم پر اپنی سب سے قیمتی چیز کی قربانی دی ۔ دوسرا سبق جو ہمیں ان کی زندگی سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو ایک مقصد کے لیے وقف کر دیا تھا۔ وہ مقصد ہمیں جاننا ضروری ہے۔وہ مقصدیہ ہے کہ دنیا میں توحید کا آوازہ بلندکیا جائے۔شرک و کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں توحید کی روشنی سے دنیا کو منورکیا جائے۔عید قربان کا آخری اور اہم سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ ہم بے مقصد زندگی نہ گزاریں بلکہ ہم اسی مقصد کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیں کہ ہمارے ماحول میں جو لوگ بھی شرک و کفر کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو اس سے نکالنے کی کوشش کریں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جون تا 22 جون 2024