عید قرباں اور خطبۂ حج:ایثار و قربانی اور انسانیت کا عالمی پیغام

اسلامی عقائد کی بنیاد پر انسانی شرف و مساوات کا آفاقی نظریہ

0

نوراللہ جاوید، کولکاتا

مسلمانوں کی دو بڑی عیدیں دراصل عبادات کی تکمیل پر شکر، عبودیت اور خوشی کے اظہار کے طور پر منائی جاتی ہیں۔ عید الفطر رمضان المبارک کے روزوں اور عبادات کی تکمیل پر بطورِ مسرت منائی جاتی ہے، جبکہ عید الاضحیٰ حج جیسی عظیم عبادت کی تکمیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کی یاد میں منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر کے مسلمان دوگانہ نماز کی ادائیگی کے بعد قربانیاں پیش کرتے ہیں۔
حج اور عید الاضحیٰ صرف انفرادی عبادات نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے عظیم پیغامات کے حامل مواقع ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں مادیت، مفاد پرستی اور مطلق العنانیت غالب ہے، عید الاضحیٰ اور حج ایثار، قربانی، اتحاد اور انسانی فلاح و بہبود کے کئی سبق لے کر آتے ہیں۔
اگر آج کی دنیا 1400 سال قبل حجۃ الوداع کے موقع پر محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کے دیے گئے پیغام—جس میں انسانیت، بقائے باہمی اور حقوقِ انسانی پر زور دیا گیا تھا—پر عمل کرے تو جنگ و تباہی سے بچ سکتی ہے اور امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام دنیا بھر کے ممالک نے ایک عالمی منشورِ انسانی حقوق پر اتفاق کیا تھا، جو انسانیت کے لیے ایک امید کی کرن سمجھا گیا۔ لیکن آج یہ منشور اپنی معنویت کھو چکا ہے۔ اس منشور کی آڑ میں دنیا کی طاقتور قوموں نے ایثار اور روحانیت کے بجائے خود غرضی اور مفاد پرستی کو فروغ دیا اور کمزور ممالک کو معاشی طور پر غلام بنانے کی منصوبہ بندی کی۔
ایک طرف اقوام متحدہ کا یہ عالمی منشور ہے اور دوسری طرف غزہ میں انسانیت کی تذلیل اور قتل و غارت گری کے لرزہ خیز مناظر ہیں۔ زمانہ جاہلیت کی تمام برائیاں آج پوری شدت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ طاقتور لوگ کمزوروں کا بے دریغ استحصال کر رہے ہیں، مادہ پرستی کو کامیاب زندگی کی علامت بنا دیا گیا ہے اور روحانیت بھی ایک کاروبار بن چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کے مقابلے میں 1400 سال قبل محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو عالمی منشور پیش کیا تھا اس میں شخصی، شہری، سیاسی اور معاشی آزادی کو روحانیت سے جوڑ کر انسانی معاشرے کے لیے توازن، عدل، اور اعلیٰ اقدار پر مبنی نظام کا خاکہ دیا گیا۔ اگر حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے اور بعد کی دنیا کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جدید انسانی اقدار کا بانی دراصل اسلام ہے۔ آج جو کچھ بھی آزادی، جمہوریت اور احترامِ انسانیت کی صورتیں دنیا میں باقی ہیں، وہ محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کی دین ہیں۔
10 دسمبر 1948 کو جب انسانی حقوق کا چارٹر منظور کیا گیا اور 30 دفعات پر مشتمل یہ دستاویز پیش کی گئی، تو دعویٰ کیا گیا تھا کہ دنیا کو تباہی و بربادی سے بچا لیا گیا ہے۔ مگر اس چارٹر کے نفاذ کے سات دہائیوں بعد صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کی حالت بدترین ہو چکی ہے۔ بھوک و افلاس سے مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی نسل پرستی کے واقعات روز کا معمول ہیں۔
اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اپنی تہذیب و ثقافت کو کمزور اقوام پر تھوپا جا رہا ہے۔ اس "روشن خیالی” نے خاندانی نظام کو کمزور کر دیا ہے اور زنا کاری کی بڑھتی ہوئی کثرت نے انسانیت کے مقدس جذبے کو پامال کر دیا ہے۔ آج جو لوگ انسانیت کا راگ الاپتے ہیں، وہ درحقیقت انسانیت سے عاری ہیں۔ نسلی، لسانی، علاقائی اور مذہبی تعصبات نے انسان کو انسان ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ دولت کی ہوس اور سودی نظام نے ہمدردی، محبت اور انسان شناسی کے جذبات کو ختم کر دیا ہے۔ طاقتور قوموں کی توسیع پسندانہ پالیسیاں سمندروں کو خون سے رنگین کر رہی ہیں۔
عالمی امن کے علم بردار ادارے سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونے بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک صورت حال عورتوں کی ہے۔ آزادی اور مساوات کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود سب سے زیادہ ظلم و تشدد کی شکار خواتین ہی ہیں۔ نسلی امتیاز کا سلسلہ نہ صرف ترقی پذیر ممالک بلکہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی جاری ہے اور انسانی حقوق کے علم بردار ممالک بھی اپنے ہی ملکوں میں اس تعصب کو روکنے میں ناکام ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک اگر اپنے ہی بنائے ہوئے عالمی منشور پر صدقِ دل اور دیانت داری سے عمل کرتے تو کسی حد تک دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتی تھی۔ ظلم و ستم کے بازار بند ہو جاتے، صنفِ نازک کے استحصال کا سلسلہ تھم جاتا اور سامراجی و استعماری قوتیں خود بخود مٹ جاتیں۔ لیکن افسوس کہ جن قوتوں نے اس منشور کے نفاذ کی ذمہ داری لی، ان کی نیت صاف نہ تھی، ان کے ارادے ناپاک تھے اور وہ اس منشور کی آڑ میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل چاہتے تھے۔
خود کو عالمی امن کا نگہبان کہلانے والے ممالک نے ہی سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کی ہے اور بدستور کر رہے ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں کے واقعات چیخ چیخ کر یہ گواہی دے رہے ہیں کہ مغرب نے کبھی بھی اس عالمی منشور کے نفاذ کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ بلکہ اس منشور کو ہر اس قوم اور ملک کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا گیا جو ان کے سیاسی یا معاشی مفادات کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
آج انسانیت درد سے کراہ رہی ہے۔ ایک طرف کچھ لوگ زندگی کی بلند ترین سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو دوسری طرف کروڑوں انسان بھوک، پیاس، غربت، جہالت، بے شعوری، بے روزگاری، غلامی اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔ طاقتور اقوام آج بھی غریب ملکوں کو زیر نگیں رکھنے کی سازشیں کر رہی ہیں۔ گویا اقوامِ متحدہ کا امن چارٹر غریب ممالک اور عام انسانوں کو فائدہ پہنچانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ اس سمت میں کی جانے والی تمام کوششیں لاحاصل ثابت ہوئی ہیں۔
ایسے حالات میں دنیا کو آج ایک ایسے عالمی منشور کی ضرورت ہے جو انسانوں کو انسانوں کے ظلم سے نجات دلائے، خواتین کی عصمت کی بازار میں نیلامی کو روکے، کمزور اور نادار طبقات کو ان کے جائز حقوق دلا سکے، امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرے اور توسیع پسندی کی ذہنیت پر قدغن لگا سکے۔ ظاہر ہے کہ اس ضرورت کو صرف وہی منشور پورا کر سکتا ہے جو آج سے چودہ سو سال قبل نبیِ رحمت حضرت محمد ﷺ نے میدانِ عرفات میں اپنے آخری خطبے کے دوران پیش فرمایا تھا۔
محمدِ عربی ﷺ نے اس وقت انسانیت کا منشور پیش کیا جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور اس وقت کی ایران و روم جیسی مہذب ریاستیں بھی انسانی حقوق کی اصطلاح سے ناواقف تھیں۔ اسلام کا پیش کردہ عالمی منشور نہ کسی فکری دباؤ کا نتیجہ تھا نہ کسی وقتی انقلاب کا ثمر، بلکہ وہ براہِ راست وحیِ الٰہی کا نور تھا۔ اسلام کا انسانی حقوق کا منشور چند ایسی خصوصیات کا حامل ہے جو اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے چارٹر میں ناپید ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے انسان کو اس کے ضمیر سے مخاطب کیا، اس کے شعور کو بیدار کیا اور اللہ کی حاکمیت کو مرکزِ فکر بنا کر اس کی زندگی کے تمام معاملات کو روحانیت، اخلاق اور عدل کے سانچے میں ڈھالا۔ اسلام کا نظریہ حقوق، نفع و نقصان کے اس الٰہیاتی شعور پر مبنی ہے کہ کیا چیز انسان کے لیے خیر ہے اور کیا شر۔
اسلامی منشور کی دوسری بڑی خوبی اس کا دوام اور ثبات ہے۔ زمانے کی کروٹیں اس پر اثر انداز نہیں ہوتیں، کیونکہ اسلام میں "حق” سے مراد وہ مسلمہ صداقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔
اسلام میں انسانی حقوق کی بنیاد "احسان” پر رکھی گئی ہے — یعنی انسان ہر وقت اس احساس میں رہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ شعور رکھے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے "احسان” کی تعریف یوں فرمائی:
"تو اللہ کی عبادت اس طرح کر جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے، اور اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا تو کم از کم یہ یقین رکھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔”
اسلامی تعلیمات نے انسانی حقوق کو اخلاق، آداب اور دین کا پابند بنایا ہے۔ ان کی پامالی کو محض قانونی خلاف ورزی نہیں بلکہ اخلاقی اور دینی جرم قرار دیا ہے۔ یوں اسلام نے انسانی حقوق کو فطرتِ الٰہی پر استوار کیا اور انہیں مقاصدِ شریعت کے جامع فریم میں ڈھال دیا۔
اسلامی تصورِ حقوق کی ایک اور امتیازی خوبی یہ ہے کہ یہ فرد کو اصل قرار دیتا ہے اور معاشرے کو اس کا تابع، نہ کہ برعکس؟ جبکہ جدید دنیا میں اجتماعی مفاد کی آڑ میں فرد کے حقوق کو قربان کیا جاتا ہے۔
درحقیقت آج کا انسان خود ساختہ نظاموں کا اسیر ہے، اور انہی نظاموں نے انسان کو ظلم، بے چینی اور فکری غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ نجات کی صورت صرف اسی میں ہے کہ دنیا اس ابدی اور آفاقی منشور کی طرف رجوع کرے جو خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔
انسانی حقوق کی ادائیگی اور اسلامی اخلاق کی فراوانی، اسلام کی رحمت و رفعت کا مظہر ہیں۔ محبت، خلوص اور یکجہتی درحقیقت اسلامی اخلاقیات اور انسانی حقوق کی بنیاد ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بنی نوع انسان پر اسلام کی سب سے بڑی عنایت عقیدہ توحید اور رسالتِ محمدی ﷺ پر غیر متزلزل ایمان ہے۔ توحید انسان کو غیر اللہ کی غلامی سے نجات دلاتی ہے، جبکہ رسالتِ محمدی سے انسانوں میں حقوق و فرائض کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ یہی دو عقائد انسانی شرف، آزادی اور وقار کے سرچشمے ہیں۔
اسلام نے جو تصورِ حقوقِ انسانی پیش کیا ہے، اس میں انسانیت کا احترام، رحم و کرم کا برتاؤ، اخوتِ انسانی، مساوات، انسانی جان و مال کا تحفظ، حقِ ملکیت، عزت و ناموس کی حفاظت، شخصی آزادی، مذہبی آزادی، ظلم و جبر کے خلاف چارہ جوئی، انصاف تک رسائی، آزادیِ فکر و رائے، خواتین، بچوں، غلاموں، معذوروں اور کمزور طبقات کے حقوق کی پاسداری، نیز معاشی، معاشرتی اور تہذیبی رواداری جیسے اہم پہلو شامل ہیں۔
تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ امتِ مسلمہ نے خود ان تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ وہی قوم جس نے دنیا کو احترامِ انسانیت، آزادیِ اظہار اور فکری آزادی جیسے تصورات سے روشناس کرایا، آج علمی پسماندگی، رجعت پسندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طعنے سننے پر مجبور ہے۔
ان حالات میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے خود اسلام کے تصورِ حقوقِ انسانی سے مکمل واقفیت حاصل کریں، اس کی انفرادیت اور برتری کو سمجھیں اور ان بنیادی اصولوں کو پہچانیں جن پر یہ نظام قائم ہے۔ پھر اس کے بعد اس نظام کو عملی طور پر نافذ کر کے دنیا کے سامنے ایک زندہ و جاوید نمونہ پیش کریں۔
یقیناً ایسا کر کے ہم نہ صرف سسکتی بلکتی انسانیت کی داد رسی کر سکتے ہیں بلکہ اپنے "خیر امت” ہونے کا فریضہ بھی ادا کر سکتے ہیں۔ یہ محض اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ انسانیت کی رہنمائی اور خدمت ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ خطبۂ حجۃ الوداع کے پیغام کو عالمی سطح پر بھرپور طریقے سے عام کیا جائے۔
ہندوستانی آئین کے چیپٹر "بنیادی حقوق” میں جن حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، ان میں ترمیم کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ دستور کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ سپریم کورٹ بھی اس بات کی وضاحت کر چکا ہے کہ دستور کے بنیادی خدوخال میں تبدیلی ممکن نہیں۔ آرٹیکل 14 سے آرٹیکل 30 تک کے بنیادی حقوق پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہی وہ حقوق ہیں جن کا اعلان نبی کریم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا۔
اسلام میں انسانی حقوق کا آغاز رحمِ مادر سے ہوتا ہے اور قبر کی آغوش تک جاری رہتا ہے۔ آج، چودہ سو سال بعد، دنیا انسانی حقوق کی تشریح و تعبیر میں مصروف ہے، جبکہ ہم اس حقیقت پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ نے یہ تمام حقوق صدیوں قبل انسانیت کے سامنے رکھ دیے تھے، جنہیں آج کی نام نہاد مہذب دنیا بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جون تا 06 جون 2025