گزشتہ چند دنوں سے ملک کے مین اسٹریم میڈیا میں شردھا قتل کیس کا موضوع چھایا ہوا ہے۔ یقیناً اس قتل کی تفصیلات اس قدر وحشیانہ اور بہیمانہ ہیں کہ ان کو الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ یہ قتل انسانیت کے نام پر ایک بدنما داغ ہے۔ اس کے مجرم کو جو بھی سزا دی جائے وہ کم ہے۔ لیکن برا ہو ملک کی فرقہ ورانہ سیاست کا جس نے اس پورے واقعے کا تناظر ہی تبدیل کر دیا۔ اس قتل کو انسانیت کی نظر سے دیکھنے کے بجائے اس پر مذہبی رنگ چڑھا دیا گیا۔ اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد سے ہی ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا میں ایک مخصوص مذہب کے لوگوں کے خلاف لعن طعن شروع ہو گیا۔ بھارتی میڈیا کو تو گویا ایک پسندیدہ موضوع ہاتھ لگ گیا اور اس نے جی بھر کے اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ حالاں کہ یہ واقعہ ایسا ہے کہ اس پر ملک کے حکم رانوں، میڈیا اور تمام شہریوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے تھا کہ آخر وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے ایک نوجوان نے اس بہیمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک شرمناک جرم کا ارتکاب کیا؟ آخر وہ کون سے حالات ہیں جو نوجوانوں کو اس طرح کے جرائم پر ابھار رہے ہیں اور اس صورت حال کو کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر ملک کے ہر ذمہ دار شہری کو سوچنا چاہیے اور حکومت، میڈیا یا جو بھی ان کے لیے ذمہ دار ہے ان کا احتساب بھی کرنا چاہیے۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ واقعے میں قاتل نے ایک ڈرگ کے نشے میں اس قتل کا ارتکاب کیا ہے۔ آخر ہمارے ملک میں یہ نشہ آور ادویات کہاں سے آتی ہیں اور کیسے حکومت کی ناک کے نیچے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہیں؟ کرپشن اور رشوت نے حکومت، انتظامیہ، پولیس اور متعلقہ محکموں کو اس طرح بے دست و پا کر دیا ہے کہ ڈرگ مافیا دلی جیسے شہروں میں پوری آزادی کے ساتھ اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو ملک کی نوجوان نسل ذہنی و نفسیاتی طور پر پوری طرح ناکارہ ہو کر ملک کے لیے ایک بوجھ بن جائے گی۔
اس کا ایک اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارا ملک جس مغربی تہذیب کی نقالی میں بگٹٹ دوڑ رہا ہے یہ اور اس جیسے واقعات اسی کے کڑوے کسیلے پھل ہیں۔ ملک کی حکومتیں، عدالتیں اور انتظامیہ مغرب کے درآمد کردہ معاشرتی اصولوں کی بنیاد پر ایسے قوانین بنا رہے ہیں یا ایسے فیصلے صادر کر رہے ہیں جس کا یہی کچھ انجام ہونے والا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ہماری اعلیٰ ترین عدالتوں نے جس طرح عصمت فروشی کو ایک باعزت پیشہ قرار دیا اور شادی شدہ مرد و عورت کے ناجائز جنسی تعلقات کو جواز عطا کیا اس سے آخر ملک میں کس طرح کے سماج کو فروغ ملے گا؟ ہمارے ملک میں عورت اور مرد کے درمیان شادی کے سوا کسی بھی دوسرے طریقے سے جنسی تعلق کو ہمیشہ غلط سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اب مغربی تہذیب کی اندھی پیروی میں شادی کے علاوہ بھی مختلف طریقوں سے جنسی تعلق کو قانونی جواز عطا کیا جانے لگا ہے۔
یہ بھی ایک عجیب مذاق ہے کہ ملک کی ایک صوبائی عدالت 16 سال کی عمر کی لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق کو غلط نہیں کہتی لیکن اسی ملک کا قانون 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کو غیر قانونی قرار دیتا ہے، بلکہ اب تو اس عمر میں مزید اضافہ کر کے 21 سال کر دیا جا رہا ہے۔ یہی وہ دہرا معیار ہے جس نے پورے انسانی معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
یقیناً آفتاب پونا والا کا جرم نہایت سنگین ہے، اسے اس جرم کی سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے اور اس میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے ملک میں ایسا ماحول بھی تشکیل دیں جس میں نوجوانوں کو اس طرح کے غلط طرز عمل کی ترغیب نہ ملے۔ اسی لیے اسلام نے جہاں ایک طرف زنا، قتل اور ان جیسے سنگین جرائم کے لیے سخت سے سخت سزائیں مقرر کی ہیں وہیں اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ معاشرے میں ایسا ماحول فروغ پائے جس میں لوگوں کے لیے گناہ اور جرم کرنا مشکل ہو جائے۔ ملک کے ذمہ دار شہریوں کو اپنے معاشرے کی تعمیر نو کے لیے ان تمام امور پر غور کرنے اور درست طرز عمل کے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ ایک ایسا موقع ہے جس میں وہ اسلام کے معاشرتی نظام اور عورت اور مرد کے درمیان تعلق کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو عام انسانوں کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی رد عمل کا شکار ہوئے بغیر عوام کو اپنے قولی اور عملی رویے سے اسلام کے معاشرتی نظام کی خوبیوں کا تعارف کروائیں۔
گذشتہ اسٹوری
اگلی اسٹوری