اس ماہ کے اوائل میں ملک کی چھ ریاستوں کی سات اسمبلی نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات منعقد ہوئے جن میں سے چار پر بی جے پی نے اور ٹی آر ایس، آر جے ڈی اور شیو سینا نے فی کس ایک ایک نسشت پر کامیابی حاصل کی جب کہ کانگریس کو کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ اگرچہ ضمنی انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی قیاس آرائی کرنا اور مستقبل کے متعلق اندازے لگانا درست نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ ایک تو ان نشستوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے دوسرے وہ مختلف ریاستوں میں بکھری ہوئی ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود حالیہ ضمنی انتخابات سے چند باتیں بہت واضح ہو کر سامنے آئی ہیں جن پر ملک کے شہریوں، بالخصوص ملک کو فسطائیت اور نفرت کی سیاست سے بچانے والے لوگوں کو نہایت سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک کے انتخابی عمل اور عوام کے ذہنوں پر بی جے پی کے اثرات ابھی بھی بہت گہرے ہیں۔ عوام ابھی تک صاحب اقتدار گروہ کے خوشنما جملوں، بلند بانگ دعوؤں اور پر فریب وعدوں کے جال سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کر سکے ہیں۔ چناں چہ ان ضمنی انتخابات میں بی جے پی نے نہ صرف یہ کہ اپنی تین نشستوں پر قبضہ برقرار رکھا ہے بلکہ ہریانہ میں کانگریس کی ایک نشست بھی چھین لی ہے۔ جو لوگ اس ملک میں بی جے پی کی نفرت پر مبنی سیاست کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں انہیں اپنی حکمت عملی پر ازسر نو غور کرنا چاہیے کہ وہ اس صورت حال کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ کسی بھی انتخاب کو غیر ضروری خود اعتمادی یا خوش فہمی کی بنیاد پر آسان نہ سمجھیں کیوں کہ موجودہ صاحب اقتدار طبقہ انتخاب جیتنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ ان ضمنی انتخابات کے نتائج، بالخصوص گوپال گنج اسمبلی حلقے کے نتیجے نے مسلم ووٹوں کی تقسیم کے مسئلے کے متعلق پھر ایک بار سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہندوستان کے انتخابات ہمیشہ سے ہی مسلمانوں کے شعور کا امتحان ثابت ہوتے ہیں۔ آج بھی ملک کی کئی ریاستوں میں ان کی ووٹنگ کا حکیمانہ طرز، انتخابات پر غیر معمولی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مسلم رائے دہندوں کی اس معاملے میں ابھی سے تربیت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تلنگانہ کے حلقہ منوگوڑ میں ہونے والے انتخاب نے یہ بات ایک بار پھر ثابت کر دی ہے کہ ہندوستان کے انتخابات میں دولت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ میں پیش کی گئی اطلاعات کے مطابق تلنگانہ کے اس حلقے میں دونوں سیاسی جماعتوں نے بے تحاشا دولت لٹائی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ صرف اسی ایک حلقہ انتخاب میں کئی ہزار کروڑ روپے صرف ہوئے ہیں۔ دولت کے اس طرح بے جا استعمال نے ہندوستانی سیاست کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں کا کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے۔ عوامی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود کی باتیں بس قصہ پارینہ بن کر رہ گئی ہیں۔ عوام تو محض ان سرمایہ داروں کے ہاتھوں کٹھ پتلیوں کی طرح رقص کرنے پر مجبور ہیں۔ہر انتخاب سے قبل دانشوروں اور سوچنے سمجھنے والوں کی جانب سے اس صورت حال پر فکر مندی کا اظہار ہوتا ہے لیکن ہر انتخاب کے ساتھ یہ صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے، کیوں کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت مکمل بے شعوری کی حالت میں پڑی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کا یہ مکروہ گٹھ جوڑ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت اب اپنی حقیقی کیفیت سے پوری طرح محروم ہو چکی ہے جس کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
گذشتہ اسٹوری