اداریــــہ

جمہوریت کے چوتھے ستون کا اعتبار کیسے قائم ہوگا؟

معروف نیوز پورٹل ‘دی وائر ‘ کے ادارتی عملے سے وابستہ ایک فرد نے ادارے کو گمراہ کرنے کے بعد ایک بڑی غلط رپورٹ شائع کردی تھی۔دی وائر کی ان رپورٹوں میں حکم راں جماعت کے آئی ٹی سیل کے ذمہ دار اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک چلانے والی کمپنی میٹا کے متعلق جس اندرونی ای میل کی بنیاد پر بعض الزامات عائد کیے گئے تھے اس ای میل کو میٹا کے چیف انفارمیشن سیکورٹی افسر نے جعلی قراردیا۔ یقیناً "دی وائر” کے ذمہ داروں کو اس طرح کی رپورٹ شائع کرنے سے قبل اچھی طرح تحقیق کرلینی چاہیے تھی اور پوری تفتیش کے بعد ہی اس طرح کی رپورٹوں کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ سچ کو عوام تک پہنچانا ہی میڈیا کی اصل ذمہ داری ہے اور اسی کام میں کوتاہی ہو تو ان خبروں پر سے عوام کا اعتبار جاتا رہتا ہے۔
میٹا کے ذمہ دار کی جانب سے دستاویز کی اصلیت سامنےآنے کے بعد ادارے نے کھلے دل کے ساتھ اپنی چوک کا اعتراف کیا اور معذرت پیش کرتے ہوئے ان رپورٹوں کو پورٹل سے یہ کہتے ہوئے ہٹا دیا کہ ان کے متعلق مزید داخلی تحقیق کی جائے گی۔ اس کے علاوہ دی وائرنے اس رپورٹ کے سلسلے کی مختلف دستاویزات پیش کرنے والے فرد کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کروائی اور اس بات کا شبہ بھی ظاہر کیا کہ یہ ادارے کی نیک نامی کو متأثر کرنے کی سازش بھی ہوسکتی ہے۔ بہر حال معمول کے مطابق ادارے کی معذرت اور رپورٹوں سے دست برداری کے بعد یہ معاملہ ختم ہوجانا چاہیے تھا لیکن اس معذرت کے منظر عام پر آنے کے بعد حکم راں جماعت کے مذکورہ آئی ٹی سیل کے ذمہ دار نے نیوز پورٹل اور اس کے چار ایڈیٹروں کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر درج کروائی اورپھر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئےادارے کے انتظامی دفتر اور ایڈیٹروں کے گھروں پر چھاپے مارے۔ ان کے سیل فون، کمپیوٹرس اور دوسرے آلات ضبط کرلیے گئے۔ پولیس کی یہ کارروائی کسی جمہوری ملک کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں مختلف ٹی وی چینلس، روزنامہ اخبارات آئے دن دانستہ یا نادانستہ ایسی گمراہ کن رپورٹیں، خبریں اور بحثیں نشر کرتے رہتے ہیں جن کے ذریعے نہ صرف افراد بلکہ اکثر ایک پورے طبقے کو ملزم بنا کر پیش کردیا جاتا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اپنے کھوکھلے دعووں کے حق میں اتنے ہی ناقابلِ اعتبار "ثبوت و دلائل” تلاش کیے جاتے ہیں۔ انتخابات کے موقع پر اپنے حقیر مفادات کی خاطر جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں، غلط اور بگاڑی ہوئی تصویروں کے ذریعے سماج کے مختلف طبقات کے درمیان میں نفرت اور دشمنی کا ماحول پیداکردیا جاتا ہے، غیر جانب داری کے بجائے علانیہ جانب داری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مختلف ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے اس غلط رویے پر ملک کی عدالتوں اور صحافت سے متعلق مختلف سرکاری اداروں نے بارہا سخت سرزنش کی، انہیں ملک میں انتشار اور نفرت پھیلانے والے تک قراردیا اور بعض اداروں پر جرمانے بھی عائد کیے گئے۔ لیکن مجال ہے کہ ان پر کوئی اثر ہوا ہو، موجودہ انتظامیہ تو ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ پولیس کی جانب سے اب تک ان کے خلاف نہ تو کوئی ضابطے کارروائی ہوئی اور نہ کسی پر کوئی چھاپے پڑے۔ بلکہ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ان مجرمانہ اور تخریب کاری پر مبنی صحافت کرنے والے افراد اور اداروں کی خاموش سرپرستی کررہی ہے۔ اگر ایسا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ایسا ہی ہے، تو یہ گویا جمہوریت کے چوتھے ستون پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ وقت بدلتا رہتا ہے، کل اقتدار پر کوئی اور آئے گا اور اسی میڈیا پر ان کے ساتھ جانب داری کے الزامات لگائے جائیں گے۔ اس طرح ملک کا پورا میڈیا ہی بے وزن ہوکر رہ جائے گا۔ حکومت کی جانب سے دی وائر یا اس طرح کے چھوٹے چھوٹے میڈیا اداروں پر حکومت کی نامعقول سختی اور اپنے پسندیدہ میڈیا اور صحافیوں پر نظر کرم سے بالآخر عوام کی نظروں میں جمہوریت کے چوتھے ستون کا اعتبار ہی ختم ہوتا جائے گا جو کسی صحت مند جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں ہوسکتا اور نہ عالمی سطح پر ملک کی خراب ہوتی شبیہ کو درست بنانے میں اس طرح کے رویے سے کوئی مدد مل سکتی ہے۔