اداریہ

ریت میں منھ چھپانے سے کچھ نہیں ہوگا

گزشتہ دنوں بھوک کے عالمی اشاریےسےمتعلق جاری کردی گئی تھی جس میں بھارت 121 ممالک میں 107 ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ سال بھی ہمارا ملک 116 ممالک کی فہرست میں101 ویں نمبر پر تھا۔حکومت کی مختلف فلاحی اسکیموں، بہبودی اطفال و خواتین کے میدان میں بلند و بانگ دعووں کے باوجود ہمارا ملک دنیا کے فاقہ زدہ ممالک کی فہرست میں انتہائی بدتر مقام تک پہنچ چکا ہے۔عالمی بھوک کا یہ اشاریہ تغذیہ میں کمی ، عمر کے لحاظ سے بچوں کے قد اور وزن کےتناسب میں کمی اور بچوں کی شرح اموات کے چار پیمانوں پر حاصل شدہ اعدادوشمار کے تجزیات کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے،جس میں ہندوستان انتہائی سنگین صورت حال والے44 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ اشاریہ میں جو درجہ بندی کی گئی ہے اس کے لحاظ سےجنوبی ایشیا میں صرف افغانستان ہی وہ ملک ہے جس کی حالت بھارت سے بھی بدتر ہے ورنہ سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان جیسے ممالک بھی اس میدان میں بھارت سے اچھی حالت میں ہیں۔
حالاں کہ ہمارے ملک میں دولت مند ترین لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے، اور دنیا کے دولت مند ترین لوگوں کی فہرست میں بھارت سے تعلق رکھنے والے افراد کا تناسب بھی اس دوران بڑھا ہے۔ لیکن یہ دولت کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم اور ملکی وسائل اور دولت پر چند لوگوں کے قبضے کا نتیجہ ہے کہ یہاں دولت مند ترین لوگوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود بھوک کے عالمی اشاریہ میں ہمارا ملک مسلسل بدتر ین صورت حال کا شکار ہوتا جارہا ہے۔حالاں کہ مرکزی حکومت اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم سودیشی جاگرن منچ نے اس رپورٹ کو پوری طرح مسترد کیا ہے اور کہا کہ یہ رپورٹ عالمی سطح پر بھارت کی شبیہ کو خراب کرنے کی سازش ہے، اس میں غلط معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔ یقیناً اس طرح کے اعدادو شمار کسی بھی ملک کی حقیقی صورت حال کی عکاسی نہیں کرتے لیکن انہیں پوری طرح مسترد کردینا کوئی مسٗلے کا حل نہیں ہے۔ کیوں کہ بعض دیگر معاملات پر اسی طرح کے عالمی اشاریوں اور رپورٹوں پر ہمارے قائدین اپنی پیٹھ بھی تھپتھپاتے رہتےہیں ۔ یہ دراصل حقائق سے منہ چرانے کی طرح ہے۔واقعہ یہ ہے ملک میں بے روزگاری کی شرح تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔کروڑوں نوجوانوں نے مایوس ہوکر روزگار کی تلاش بھی ترک کردی ہے۔ جب کہ موجودہ برسراقتدار گروہ ملک میں اچھے دنوں ، اور بے روزگاروں کو روزگار دینے کے وعدے کے ساتھ 2014 میں اقتدار کی کرسی تک پہنچا تھا۔لیکن آٹھ سال کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود بے روزگاری کے مسئلے کے حل میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکا، بلکہ اس عرصے میں مزید بے روزگاروں کی ایک بڑی فوج تیار ہوگئی۔ ان نوجوانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔مہنگائی کے تیز رفتار اضافے نے مڈل کلاس طبقے کا جینا بھی دوبھر کردیا ہے، غریب طبقہ تو پہلے ہی سے اس چکی میں پس رہا تھا۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرتے گرتے اپنی تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے۔اس پر بھی کہا گیا کہ روپیہ کی قدر میں کمی نہیں ہوئی بلکہ ڈالر مستحکم ہوا ہے اس لیے یہ صورت حال ہوئی ہے۔ کیا حکومت ان سب حقائق کو اسی طرح جھٹلاتی رہے گی۔ کیا ریت میں اس طرح منھ چھپانے سے حقیقت تبدیل ہوجائے گی۔حالاں کہ یہ سب ملک کے حقیقی مسائل ہیں جن سے ہمارے عوام اس وقت نبرد آزما ہیں۔ اور موجودہ حکم راں اپنے حقیر سیاسی مفادات کی خاطرانہیں نفرت کی سیاست کے پردے میں چھپادینے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے حکم راں بھی ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کریں اور عوام کو بھی ان پر توجہ سے دینا ہوگا۔ انہیں چاہیےکہ ملک کی حالت کو بہتر بنانے اور یہاں سے بھوک کا خاتمہ کرنے کے لیے خود بھی اپنی سطح پر سرگرم حصہ ادا کریں اور حکومت وقت کو بھی اس بات پر مجبور کریں کہ وہ محض سیاسی بازیگری اور مفادات کے لیے نفرتی ایجنڈے کی تکمیل سے آگے بڑھ کر ملک کے حقیقی مسائل کے حل کے سلسلےمیں اقدامات کرے۔