
مترجم: ڈاکٹر ضیاء الحسن، ناندیڑ
غزہ کے باشندے ان دنوں بھوک سے نڈھال ہیں۔ انہیں اس بات کا خوف نہیں کہ وہ اسرائیلی بمباری میں مارے جائیں گے یا گولیوں کا نشانہ بنیں گے۔ البتہ انہیں ہر وقت اس فکر نے گھیر رکھا ہے کہ آج کھانے کے لیے کچھ ملے گا بھی یا نہیں۔فدی ثوبیٰ اور ان کی بیوی عبیر، غزہ شہر کے مغرب میں واقع پناہ گزینوں کے کیمپ میں اپنے چھ بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ نیند سے بیدار ہوتے ہی ان کے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کرتا ہے: وہ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے غذا کیسے حاصل کریں؟ ان کے پاس گزشتہ دن کا بچا ہوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ میاں بیوی کے سامنے غذا حاصل کرنے کے تین ہی راستے ہوتے ہیں۔ مفت کھانا تقسیم کرنے والے ’سوپ کچن‘ پر جا کر کھانے کے بارے میں دریافت کرنا، امدادی ٹرک پر چڑھ کر شدید دھکم پیل کے بعد کچھ اشیائے خورد و نوش حاصل کرنا یا پھر لوگوں سے مانگ کر پیٹ کی آگ بجھانا۔اگر ان تینوں ذرائع سے بھی کچھ حاصل نہ ہو سکے تو پھر سارا خاندان بھوکا سو جاتا ہے۔ اگلی صبح وہ دوبارہ خوراک کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ عبیر روزانہ صبح اپنے بچوں کو سمندر کے کھارے پانی سے نہلاتی ہے۔ جب پانی ننھی ’حالا‘ کی آنکھوں میں جاتا ہے تو وہ زور زور سے رونے لگتی ہے، البتہ باقی بچے بغیر احتجاج کے غسل کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد عبیر اپنے خیمے کی صفائی کرتی ہے۔ اگر تھوڑی سی دال بچی ہو تو اسے پیس کر پانی میں ملا دیتی ہے اور حریرہ نما یہ غذا ننھی ’حالا‘ کو پلا دیتی ہے۔ کبھی کبھار پانی سے بھری دودھ کی بوتل اس بھوکی بچی کے منہ سے لگا کر اسے تسلی دینے کی کوشش کرتی ہے۔پناہ گزینوں کو مفت غذا فراہم کرنے کے لیے سوپ کچن قائم کیے گئے ہیں، مگر یہ بھی ہفتے میں صرف ایک دن کھلتے ہیں جب پانی جیسی پتلی دال ملتی ہے۔ باقی دنوں میں یہ بند رہتے ہیں۔ فدی روزانہ شمالی غزہ کے چکر لگاتا ہے کیونکہ وہیں سے اسرائیل کی جانب سے امدادی ٹرک آتے ہیں۔ بھوک سے بیزار لوگ ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اسرائیلی فوجی ہجوم پر قابو پانے کے بہانے گولیاں چلا دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک فائرنگ میں فدی کے پاؤں میں گولی لگنے سے وہ زخمی ہوگیا تھا۔ عبیر بچوں کے ساتھ پانی لانے والے ٹرک کے پاس جاتی ہے اور دو چار جار بھر کر لے آتی ہے۔ پھر وہ بھی غذا کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔ کبھی وہ مردوں کے ہجوم میں گھس کر مفت اناج بانٹنے والے ٹرک سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شام ڈھلنے کے بعد جب دھوپ کی شدت کم ہو جاتی ہے تو اس کے بچے ادھر ادھر سے ایندھن جمع کرتے ہیں تاکہ چولہا سلگایا جا سکے۔ دن بھر کی اس محنت کے بعد ہی عبیر اپنے بچوں کے لیے رات کو پانی جیسی پتلی دال پکا پاتی ہے۔ 22 مہینوں سے بھوک کے خلاف جنگ لڑتی عبیر اب تھک چکی ہے۔ شدید مایوسی کے عالم میں وہ کہتی ہے کہ اگر یہ جنگ مزید طویل ہوئی تو وہ خود کو ختم کرلے گی۔ آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ غزہ کے پناہ گزیں کیمپوں میں مقیم لوگوں کی بھوک کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟ حماس نے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کے بدلے میں پناہ گزینوں تک غذائی امداد پہنچنے نہیں دی۔ اسی وجہ سے غزہ میں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ جنگ میں مخالف کو شکست دینے کے لیے اس طرح کے ظالمانہ اور غیر انسانی رویّے کو دیکھ کر آج ساری دنیا غم کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ مگر افسوس، اس کے آگے کچھ نہیں۔
(بشکریہ: مراٹھی روزنامہ ’’لوک مت‘‘، ممبئی، مورخہ 25 اگست 2025ء)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025