دنیا میں جاری جنگوں کا ملکی اور عالمی معیشت پر اثر

یوکرین سے غزہ تک جنگوں کے سبب عالمی معیشت کو 17.4 کھرب ڈالر کا نقصان

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ایران-اسرائیل تصادم تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ؟
یکم اکتوبر کو ایران نے بیروت اور تہران میں حزب اللہ اور حماس کے رہنماؤں اور ایرانی افسروں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل پر بڑے پیمانے پر میزائل حملے کیے۔ حملے کے خدشے کے پیشِ نظر امریکہ نے اپنے حامی اسرائیل کی مدد کے لیے مشرق وسطیٰ میں اپنی پہلے سے موجود فوجی قوت میں اضافہ کیا تھا۔ امریکی تباہ کن جنگی ساز و سامان نے ایران کے حملے کے دوران اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں پر داغے گئے 180 سے زائد پروجیکٹائل روکنے میں مدد فراہم کی۔ اس طرح کی فوجی کارروائیاں امریکہ کے لیے معمول بن چکی ہیں، کیونکہ وہ گزشتہ دہائیوں سے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اسرائیل کے تحفظ کے لیے اس خطے میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ تاہم، امریکی مداخلت کے الٹے اثرات مرتب ہوئے ہیں، جنہوں نے اسرائیل کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ نتیجتاً اسرائیل یہودیوں کے لیے ایک خطرناک جگہ بن چکا ہے کیونکہ اسرائیل کا امریکہ پر فوجی مدد کے لیے انحصار اور اس کی مجبوریاں خطے میں تناؤ کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ خصوصاً فلسطینی اور یہودی تنازعے کے حل کی کسی بھی کوشش پر روک لگ چکی ہے۔ اس مداخلت نے پورے مشرق وسطیٰ میں نئے طاقتور فوجی گروہوں اور عوامی حمایت یافتہ مزاحمتی گروپوں کو جنم دیا ہے جن میں حزب اللہ، حماس، انصار اللہ (حوثی) اور دیگر مزاحمتی محاذ شامل ہیں جو مسلسل امریکہ اور اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں پر حملے کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کا مقابلہ کرنے والے گروہوں کو طاقت نہ صرف ان کے ہتھیاروں سے مل رہی ہے بلکہ ان کی عربوں کے خلاف اسرائیل کی فوجی حکمت عملی کی مخالفت کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ تمام صورتحال دہائیوں سے جاری امریکی-اسرائیلی جنگی جنون اور عرب ممالک کی اپنی زمین، آبادی اور مطلق العنانیت کے تحفظ میں ان کی بے وقعتی کو نمایاں کرتی ہے۔
ایران کے اسرائیل پر میزائل حملوں کی برسات کے بعد خام تیل کی قیمت میں چار فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سے تیل کی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہتا ہے تو یہ بھارتی معیشت کے لیے مصیبت بن سکتا ہے کیونکہ بھارت کی آئیل کمپنیاں اپنی زیادہ تر ضرورت درآمدات سے پوری کرتی ہیں۔ ایران کے حملے کے بعد اسرائیل نے کہا ہے کہ ایران کو اس کی قیمت چکانی ہوگی جس سے خام تیل کی قیمت مزید بڑھے گی اور ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ ماہرین کے مطابق خام تیل کی قیمت میں دس ڈالر کے اضافے سے افراطِ زر یعنی مہنگائی میں 0.3 فیصد کا اضافہ ہو جاتا ہے، وہیں کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ (CAD) 12.5 بلین ڈالر بڑھ جاتا ہے۔ یہ جی ڈی پی کے قریب 43 بیسس پوائنٹس کے برابر ہے جس کا اثر لوگوں کی قوتِ خرید پر زیادہ ہوتا ہے۔ تیل کے مہنگا ہونے سے لوگوں کو ٹرانسپورٹیشن پر زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے جس سے اشیاء اور خدمات کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں خام تیل کی سپلائی میں اوپیک ممالک کی حصہ داری 40 فیصد ہے اور اس تنظیم کا تیل کی قیمتوں پر براہِ راست اثر ہوتا ہے۔ اگر طویل مدت تک تیل کی قیمتیں بلند رہیں تو اس سے ہمارے جیسے کئی ابھرتے ہوئے معاشی ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ ایران روزانہ سات لاکھ بیرل خام تیل برآمد کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق تیل کی مہنگائی سے بھارت کو زیادہ ڈالر خرچ کرنے ہوں گے جس سے روپیہ کی قیمت کم ہو جائے گی۔ ایران اوپیک تنظیم کا رکن ہے اور ایران کے قریب ہی خلیجِ ہرمز واقع ہے جہاں سے تیل کی کافی سپلائی ہوتی ہے۔ سعودی عرب، قطر اور یو اے ای جیسے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک برآمدات کے لیے اسی گزرگاہ کا استعمال کرتے ہیں۔
ہماری معیشت دباؤ میں ہے، اسرائیل اور ایران سے ہمارے درآمدات و برآمدات اربوں ڈالر کے ہیں اور ان کا بھی معطل ہونا لازمی ہے۔ ہماری مینوفیکچرنگ پی ایم آئی (PMI) گر کر ستمبر میں آٹھ ماہ کی نچلی سطح پر آگئی ہے۔ پہلی سہ ماہی میں CAD بڑھ کر جی ڈی پی کے 1.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ CAD بڑھنے سے بھارت کو زیادہ ڈالر خرچ کرنے ہوں گے۔ یاد رہے کہ ریٹیل انفلیشن میں فیول اور لائٹ کی حصہ داری 6.84 فیصد ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے جنگی حالات کے تحت یہ خدشہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے کہ کہیں یہ تناو بڑی علاقائی جنگ میں تبدیل ہو کر پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ گزشتہ ایک سال سے شیطان امریکہ بڑی قوت کے ساتھ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ غزہ میں وہاں کے جائز باشندوں کی نسل کشی کے لیے اس نے اب تک اٹھارہ ارب ڈالر کا مہلک ترین جنگی اسلحہ سپلائی کیا ہے اور درندہ صفت امریکہ ہی کی پشت پناہی کی وجہ سے صہیونی شیطان نیتن یاہو نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ مغربی ممالک بھی اس نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
اگر مغربی ایشیا میں بڑے پیمانے پر جنگ کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے تو ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہوگی کہ اس خطے میں متعین 90 لاکھ بھارتیوں کی سلامتی کو یقینی بنانا اور متاثرہ علاقوں سے انہیں نکال کر بحفاظت لانا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس بڑی آبادی کی باز آبادکاری سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ اگر اسرائیل جنگی جنون میں ایران پر حملہ کرتا ہے اور روس، جو تین سالوں سے یوکرین میں الجھا ہوا ہے، اپنے دیرینہ حلیف ایران کو بچانے کے لیے جنگ میں شامل ہو جاتا ہے تو یہ تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔ ہمارے لیے مغربی ایشیائی ممالک سرمایہ کاری کا ذریعہ ہیں، وہ بھی متاثر ہو سکتے ہیں، اور یہ خطہ درآمدات اور برآمدات کا اہم راستہ ہے۔ بحر احمر میں حوثیوں (انصار اللہ) کی پابندی کے بعد عالمی تجارت میں رکاوٹ پیدا ہو چکی ہے۔ اگر جنگ کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے تو بحری راہ گزر مکمل طور پر بند ہو سکتی ہے اور ہوائی آمد و رفت بھی متاثر ہوگی۔ ان سب کا اثر پوری دنیا پر ہوگا، مگر بھارتی معیشت پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔
آج دنیا بھر میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ تین سالوں سے روس-یوکرین جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ اس کے بعد اپنے حقوق اور بیت المقدس کی بازیابی کے لیے لڑنے والے حماس کے مجاہدین اور فلسطینی عوام کو مسلسل صہیونی ریاست اسرائیل کا سامنا ہے۔ تقریباً 42 ہزار بچوں، عورتوں اور نہتے عوام کو بلا قصور شہید کیا گیا ہے اور غزہ پر مسلسل بمباری کر کے اسے ویران کر دیا گیا ہے۔مسجدیں، گرجا گھر، اسکول اور ہسپتال سب ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ اس طرح کے تنازعات اور جنگوں میں ہزاروں لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ علاقائی حکومتیں اور اقوام متحدہ (یو این او) اس قتل و غارت کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ یو این او کے مطابق دنیا بھر میں مسلح تصادم میں یومیہ سو لوگوں کی موت ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ جنگیں موت اور تباہی لاتی ہیں۔ اس سے تجارت میں خلل پڑتا ہے، مہنگائی بڑھتی ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کے لیے بیرونی مدد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دی اکنامک ویلیو آف پیس کے مطابق جنگوں کی وجہ سے عالمی معیشت کو 17.4 کھرب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، یعنی عالمی جی ڈی پی کا 12.9 فیصد متاثر ہوا ہے، کیونکہ تنازعات سے پیداواری صلاحیت میں کمی آتی ہے، اقتصادی سرگرمیاں رک جاتی ہیں، کاروباری اعتماد گھٹ جاتا ہے اور پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی رہتی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ بیس سالوں میں دنیا کو جنگوں اور تنازعات سے جتنا خسارہ ہوا ہے اتنا آلودگی اور قدرتی آفات سے نہیں ہوا۔
جنگیں افرادی قوت کو ختم کر دیتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر دنیا میں امن ہوتا تو تمام ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے اور جس دنیا کا خواب ہم 2050 یا 2060 کے لیے دیکھ رہے ہیں وہ 2030 تک ہی ممکن ہو جاتا۔
دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق 2024 میں ساٹھ ہزار اسرائیلی کاروبار مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے اسرائیل ایک بڑے معاشی صدمے سے دوچار ہے۔ گزشتہ سال سے ہی اسرائیل کا سیاحت کا شعبہ مکمل طور پر بند ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے سے قبل ہی اسی ہزار فلسطینیوں کے پرمٹ، جو تعمیرات سے جڑے تھے منسوخ کر دیے گئے تھے۔ اسی طرح ہائی ٹیک اور دیگر کمپنیوں کا بھی یہی حال ہے۔ حوثیوں (انصار اللہ) کے مسلسل حملوں سے حیفہ اور دیگر بندرگاہیں بند پڑی ہیں، جس سے اسرائیل کو تجارت میں ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے (دی ہندو)۔ حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے دو لاکھ تیس ہزار اسرائیلی اپنے گھروں کو چھوڑ چکے ہیں۔ اسرائیل کا پاور گرڈ، جو قدرتی گیس سے چلتا تھا وہ بند پڑا ہے کیونکہ کولمبیا نے اسرائیل کو کوئلے کی سپلائی روک دی ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا مجرم ہے۔ اس کے علاوہ کوئلے کے بڑے سپلائر جنوبی افریقہ اور روس ہیں۔ بجلی کے بغیر اسرائیل کبھی بھی ترقی یافتہ معاشی ملک نہیں بن سکتا۔ اب اسرائیلی معیشت جنگ کے سبب بڑھتے ہوئے اخراجات کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں رہی ہے۔ اسرائیل پر قرض اس کی جی ڈی پی کا 62 فیصد ہو چکا ہے، اسی لیے ریٹنگ ایجنسیاں اس کی ریٹنگ کو کم کر رہی ہیں۔ جنگ کی وجہ سے وہاں مسلسل مہنگائی بڑھ رہی ہے اور جاری جنگ کی صورت میں اس کی کرنسی کی قدر میں بھی بڑی گراوٹ آ رہی ہے۔
اب اسرائیلی عوام خوف و دہشت کے سائے میں "ارض موعود” میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ امیر اسرائیلیوں نے اسرائیلی بینکوں سے دو ارب ڈالر نکال کر دوسرے ممالک کے بینکوں میں منتقل کر دیے ہیں۔ اگر جنگ جاری رہی تو مزید لوگ اپنی رقومات بینکوں سے نکال لیں گے۔ اپریل تا جون سہ ماہی میں اسرائیل کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو محض 0.7 فیصد رہی ہے۔

 

***

 ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع اور امریکی مداخلت کے باعث خطے میں تناؤ بڑھ رہا ہے جس سے خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا براہ راست اثر بھارت جیسی تیل درآمد کرنے والی معیشتوں پر پڑ رہا ہے، جہاں مہنگائی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کے امکانات ہیں۔اسی طرح اسرائیل پر ایران کے میزائل حملے اور اس کے جواب میں اسرائیلی فوجی ردعمل سے مشرق وسطیٰ میں جنگ کے دائرے کے وسیع ہونے کا خدشہ ہے، جو ممکنہ طور پر تیسری عالمی جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی معیشت کو مزید مسائل کا سامنا ہوگا، خاص طور پر اس خطے میں موجود 90 لاکھ بھارتیوں کی سلامتی اور وہاں کی سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024