دنیا کی آبادی 8ارب کے پار،میڈیا میں تشویش کی لہرٍ!

مودی۔ شی جن پنگ کی غیر متوقع ملاقات ‘نسیم سحر’

احتشام الحق آفاقی

G-20کی صدارت حاصل کرنا بھارت کے لیے ایک قابل ذکر کامیابی۔ہندی اور انگریزی اخبارات کی رائے
آبادی کی کثرت اور غذائی قلت کو ہمیشہ ایک سنگین چیلنج تصور کیا گیا ہے۔ مختلف ممالک اگرچہ اپنی اپنی سطح سے آبادی پر قابو پانے کے لیے جد و جہد میں مصروف ہیں لیکن نتائج توقع کے مطابق نہیں ہیں۔ 15اکتوبر 2022کو 8ارب ویں بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک ایسا ریکارڈ درج کیا گیا ہے جسے دنیا کبھی بھلا نہیں سکتی۔ انسانی ترقی کے لحاظ سے یقیناً یہ لمحہ قابل مسرت ہے لیکن اس پہلو سے باعث تشویش بھی ہے کہ ایک ایسے وقت جب دنیا نے آبادی کے سفر کے اس سنگ میل کو طے کیا ہے، عالمی معیشت بحران کا شکار ہے۔ ایک بڑی آبادی مہنگائی اور غذائی قلت جیسے مسائل کا سامنا کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 19.3کروڑ لوگوں کو ایک وقت کی غذا کے لیے بھی ترسنا پڑا تھا۔ ایسی صورت حال میں جب عالمی تنظیم یہ بتا رہی ہے کہ آئندہ 15برسوں میں عالمی آبادی 9ارب تک پہنچ سکتی ہےتو مسئلہ مزید پیچیدہ نظرآتا اور مستقبل کے لیے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ میں اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آبادی کے معاملہ میں بھارت اگلے سال چین کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی پر ہندی اور انگریزی اخبارات نے اپنے اداریوں میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہندی روزنامہ ہندوستان نے 16اکتوبر کے شمارے میں اپنے اداریہ میں عالمی سطح پر درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے جہاں 8ارب آبادی کو خوشی کا لمحہ قرار دیا ہے وہیں حاشیہ پر کھڑے ہوئے افراد کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کا بھی مشورہ دیا ہے۔ اخبار نے کثرت آبادی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: یہ بات باعث تشویش ہے کہ آبادی میں اضافے سے قدرتی وسائل کے بے تحاشہ استعمال کا دباؤ بڑھے گا، خاص طور پر چین، بھارت، امریکہ، انڈونیشیا، پاکستان، نائیجیریا وغیرہ جیسے ممالک میں جہاں نصف سے زیادہ آبادی مقیم ہے۔ قدرتی وسائل کے استحصال کے ماحول پر اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ابھی تو ہمارے میٹروپولیٹن شہر گیس چیمبر بننے لگے ہیں اور گرمیوں میں پانی کا شدید بحران ہوتا ہے۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ بھارتی آبادی 2060 میں اپنے عروج پر پہنچ جائے گی، اس وقت بھارت ایک ارب 70 کروڑ آبادی کا ملک ہوگا۔ ایسی صورت حال میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمیں کتنے وسائل کی ضرورت ہو گی۔ پھر چین اور بھارت کے نظام حکومت میں بنیادی فرق ہے۔ بھارت سمیت دنیا کی تمام جمہوریتوں کو جس معاشی تفاوت کا سامنا ہے، ان کے لیے بہت سے سماجی چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں معاشی توازن کے متعلق اب ایک سنجیدہ بحث چھڑ گئی ہے۔ اس لیے ہم انسانی تہذیب کی ترقی کا جشن اسی وقت منا سکیں گے جب ہم اسے ماحول کے ساتھ متوازن رکھیں گے۔ہم معاشرے کے پسماندہ لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کر سکیں گے‘‘۔
اگر معیار زندگی میں بہتری ہے تو بڑھتی آبادی پر افسوس بے جا
بڑھتی آبادی کے تناظر میں جن ستا نے غور و فکر کے نئے در کو وا کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اس نقطہ نظر سے یہ یقیناً تشویشناک ہے کہ چند دہائیوں سے بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ آبادی پر قابو پانے کے اقدامات پر بھی کئی دہائیوں سے بحث ہوتی رہی ہے۔ اس طرح آبادی میں اضافے کے نئے اعداد و شمار پر سوچ بچار ہونا چاہیے۔ لیکن یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں سے دنیا میں شرح پیدائش میں کمی کا رجحان ہے۔آبادی کے تجزیے میں یہ بات سامنے آئی کہ 1950 کے بعد اس وقت شرح پیدائش اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ یعنی ہم مطمئن ہو سکتے ہیں کہ آبادی پر قابو پانے کے اقدامات پچھلی دہائیوں میں موثر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آبادی میں توقع سے زیادہ اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ دنیا بھر میں حکومتوں کے اچھے کاموں کی وجہ سے شہریوں کی اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر آبادی میں اضافے کی وجہ صحت کی خدمات میں اضافہ اور معیار زندگی میں بہتری ہے تو اب ہم آبادی کے نئے اعداد و شمار پر افسوس کس بنیاد پر کریں گے!‘‘
آبادی کی درست منصوبہ بندی کے لیے تعلیمی معیار میں اضافہ ضروری: دینک جاگرن
ملکی مسائل کے حل کے لیے صرف ضروری ہی نہیں بلکہ بہت اہم ہے کہ معیشت مضبوط رہے اور تیزی سے ترقی کرے۔ درحقیقت بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بھارت اپنے مسائل کو ٹھیک اسی وقت حل کر سکے گا جب معیشت کی ترقی کی شرح آٹھ فیصد سے زیادہ ہو گی۔ اس وقت عالمی معیشت کی غیر مستحکم حالت کو دیکھتے ہوئے اس کے امکانات کم ہیں لیکن بھارت کو اس کے لیے چوکنا رہنا ہوگا۔عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ہندی روزنامہ دینکجاگرن نے اپنے اداریہ میں بھارت میں آبادی اور معیشت کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’معیشت کو فروغ دینے کے لیے بہت سے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے شہروں میں بہتر انفراسٹرکچر اور شہری سہولیات کا معیار ہو۔ شہروں کو خوبصورت بنانے کے کام کو اولین ترجیح دینا ہو گی کیونکہ روزگار اور بہتر زندگی کی امید میں دیہات سے شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی بڑھ رہی ہے۔ ہمارے چھوٹے اور بڑے شہر بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ سے دوچار ہیں۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شہر ترقی کے انجن ہوتے ہیں۔ جن شہروں میں انفراسٹرکچر بہتر ہے وہاں صنعتیں خوب پھلتی پھولتی ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔آبادی کی درست منصوبہ بندی کے لیے تعلیمی معیار میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہمارے پالیسی سازوں کو نوجوانوں کو کسی نہ کسی ہنر سے آراستہ کرنے پر بھی خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ اسکل ڈیولپمنٹ پر زور دینے سے نہ صرف صنعت اور کاروباری دنیا کی ضرورت کے مطابق قابل نوجوانوں کو تیار کرنے میں مدد ملے گی بلکہ ان کے لیے بیرون ملک روزگار کے بہتر مواقع حاصل کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔‘‘ دوسری جانب دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں والے ممالک کے گروپ G-20 کی صدارت حاصل کرنا بھارت کے لیے ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔ بھارت کو پہلی بار یہ ذمہ داری ملی ہے۔ اس سے نہ صرف یہ ثابت ہو گا ہے کہ عالمی سطح پر بھارت کا قد بڑھ رہا ہے بلکہ بین الاقوامی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ رہی ہے۔ بلاشبہ اس کی ایک وضاحت اس شکل میں بھی ہو سکتی ہے کہ عالمی برادری کا بھارت پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔اس اعتماد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بھارت کی معاشی طاقت میں اضافے کے ساتھ بین الاقوامی معاملات میں دنیا کو متاثر کرنے والی پالیسیاں ہیں۔ ان بااثر پالیسیوں کی جھلک نہ صرف چین کے ساتھ محاذ آرائی کے دوران بلکہ روس یوکرین جنگ کے دوران بھی دیکھنے کو ملی۔ G-20 کے حالیہ اجلاس میں بھارت کو ملنے والی غیر متوقع کامیابی پر اخبارات نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
مودی-شی جن پنگ ملاقات مستقبل کے لیے مثبت اشارہ
بالی میں G-20 سربراہی اجلاس کے موقع پر منگل کی شام وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، اس G-20 میٹنگ کے دوران وزیر اعظم مودی نے امریکی صدر جو بائیڈن سے لے کر فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون اور برطانوی وزیر اعظم رشی سنک تک تمام عالمی رہنماؤں کے ساتھ اہم دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔ مودی اور شی جن پنگ کے درمیان ملاقات کے بارے میں طویل عرصے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ لیکن آخری دم تک اس بارے میں کوئی اعلان نہیں ہوا۔ ملاقات کے بعد بھی نہ تو بھارتی جانب سے کوئی اعلامیہ جاری کیا گیا اور نہ ہی چینی فریق نے کچھ کہا۔ لیکن ملاقات کی ویڈیو دستیاب ہے جس میں صاف نظر آرہا ہے کہ دونوں رہنما مسکراہٹ کے ساتھ ایک دوسرے سے ملے مصافحہ کیا اور چہرے پر خوش گوار مسکراہٹ برقرار رکھتے ہوئے چند باتیں کیں۔ ذرائع کے توسط سے بتایا گیا ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی سنجیدہ بات چیت نہیں ہوئی، صرف رسمی سوالات و جوابات شائستگی کے ساتھ کیے گئے۔ اس سلسلہ میں این بی ٹی نے لکھا ’’یہ ملاقات خالص اتفاق کا نتیجہ تھی اور نہ ہی اسے بالکل بے معنی کہا جا سکتا ہے۔ دونوں فریق چاہتے تو آسانی سے ٹال سکتے تھے۔اس بات کی دلیل یہ ہے کہ دونوں رہنما گزشتہ ستمبر میں سمرقند میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں بھی شریک تھے تاہم اس وقت ان کی ملاقات کی ایسی کوئی ویڈیو سامنے نہیں آئی تھی۔ اس بار یہ آئی ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی مطلب ضرور ہے۔ اس سے قبل متعدد پیچیدہ حالات میں اگرچہ دونوں ممالک کے اعلیٰ رہنماؤں کے درمیان کوئی ملاقات یا بات چیت نہیں ہوئی لیکن اس غیر رسمی ملاقات نے یاد دلایا کہ ایک زمانے میں ان دونوں رہنماؤں کے درمیان ذاتی کیمسٹری کا پوری دنیا میں چرچا ہوا تھا۔ اس لحاظ سے یہ ملاقات دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کی تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش کا مظہر ہے اور یہ یقینی طور پر ایک ہم آہنگ اتفاق رائے کی طرف مذاکراتی عمل کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘
بھارت نے دنیا کی امیدوں کو بڑھانے کا کام کیا ہے
دینک جاگرن نے G-20 کی سربراہی کرنے والے بھارت کو اس گروپ کا ایجنڈا طے کرنے کا حق حاصل ہو گا، اس لیے دنیا کے بڑے ممالک ایک طرح سے بھارتی قیادت کے دکھائے ہوئے راستے پر چلیں گے۔ وہ چلائیں گے کیونکہ وہ اقتصادی اور سفارتی معاملات میں بھارت کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ گو کہ بھارت کی صدارت میں G-20 ممالک کی کانفرنس اگلے سال ستمبر میں منعقد ہوگی، لیکن اس تقریب کے سلسلے میں اگلے ماہ سے ہی مختلف میٹنگوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو تقریباً ایک سال تک جاری رہے گا۔یہ ملاقاتیں ملک کے مختلف حصوں میں ہوں گی، اس لیے عالمی برادری کو بھارت کو بہتر طریقے سے جاننے کا موقع ملے گا۔ G-20 کی صدارت کے دوران بھارت جس طریقہ کار کی پیروی کرے گا اس کی ایک جھلک حال ہی میں اس وقت موصول ہوئی جب وزیر اعظم نے گروپنگ کے آئندہ سربراہی اجلاس کا لوگو، تھیم اور ویب سائٹ جاری کی۔ یہ درست ہے کہ اس وقت دنیا غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، لیکن بھارت نے واسودھیوا کٹمبکم کے جذبے سے کام کرنے کا عہد لے کر دنیا کی امیدوں کو بڑھانے کا کام کیا ہے۔”
جبراً تبدیلی مذہب امن و سلامتی اور شہری حقوق کے لیے خطرہ!
سپریم کورٹ نے پیر کے روز جبری تبدیلی مذہب پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے اسے ایک سنگین مسئلہ قرار دیا اور حکومت سے کہا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر بتائے کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ عدالت نے بجا طور پر اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ کسی بھی طرح سے رغبت یا جبر کے ذریعے مذہب کی تبدیلی نہ صرف ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے بلکہ شہریوں کے آئین کے ذریعے ضمانت دی گئی مذہبی آزادی کے حق میں بھی رکاوٹ ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ایسے بہت سے واقعات خاص طور پر ملک کے قبائلی اکثریتی علاقوں میں دیکھے جا رہے ہیں۔این بی ٹی نے اس مسئلہ پر اپنے اداریہ میں لکھا کہ’’ یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں بالادستی کا احساس عدم برداشت کی حدوں کو چھونے لگے تو مختلف مذاہب کی خوبیوں اور خامیوں پر صحت مندانہ بحث کے امکان میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ایک جمہوری اور سیکولر معاشرے کے لیے صحت مند بحث کے اس میدان کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ یقیناً اس میں بنیادی کردار معاشرے کے جمہوری اور ترقی پسند عناصر کا ہے۔ لیکن حکومت کو اپنی سطح پر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار معاشرے کے ان جمہوری اور ترقی پسند عناصر کے کردار کو کمزور نہ کرے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرے۔‘‘
٭٭٭

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022