ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
ڈھکے الفاظ میں اختلافات کا اظہار:نظریے کے بجائے اصولوں کی اہمیت پر زور !
غلطیوں کا اعتراف، جمہوریت میں الزامات قبول کرنے کا درس اور مودی کے حیران کن دعوے
ایک زمانے کے اخبارات میں ’شادی سے پہلے اور شادی کے بعد‘ کے عنوان سے اشتہارات چھپتے تھے جن میں مردانہ کم زوری کا علاج بتایا جاتا تھا۔ فی زمانہ ’انتخاب سے پہلے اور انتخاب کے بعد‘ کا اشتہار شائع ہونا چاہیے اور اس میں سیاسی کم زوری کی حکمت عملی پیش کی جانی چاہیے۔ پچھلے سال الیکشن سے قبل ماہِ مئی میں ایک انٹرویو کے دوران وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’وہ حیاتیاتی طور پر پیدا نہیں ہوئے بلکہ انہیں کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘ معروف ٹی وی اینکر روبیکا لیاقت کے ساتھ گفتگو کے دوران مودی نے یہ دل چسپ انکشاف ایک ایسے وقت میں کیا جب سات مرحلوں میں ہونے والے عام انتخابات کا پانچواں مرحلہ مکمل ہو چکا تھا اور محض دو مرحلے باقی تھے یعنی آخری ووٹ پڑنے ہی والا تھا۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی (بنارس) میں ایک کشتی پر سوار ہوکر یہ دعویٰ کیا تو سوشل میڈیا پر لوگ اسے ’خود پسندی کی انتہا‘ قرار دینے لگے۔ ایکس کے صارفین نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر وہ تیسری بار جیت جائیں تو خدائی کا دعویٰ کر دیں گے۔
متحدہ قومی محاذ اگر 400 پار ہوجاتا تو یقیناً یہی ہوتا اور ان کے بھگت سر بسجود بھی ہو جاتے مگر خوش قسمتی وہ رتھ 240 پر اٹک گیا اور کامیابی کے باوجود اقتدار کی کرسی ہوا میں لٹک گئی۔ اس کا مثبت اثر یہ ہوا کہ ہوا میں اڑنے والا دماغ ٹھکانے آگیا۔ ابھی حال ہی میں اپنے پہلے پوڈ کاسٹ میں مودی کو ایک پرانی تقریر یاد آگئی اور اس کا حوالہ دے کر انہوں نے کہا ’جب میں وزیر اعلیٰ بنا تھا تو میں نے ایک خطابِ عام میں کہا تھا، غلطیاں ہوتی ہیں، مجھ سے بھی ہوتی ہیں۔ میں بھی انسان ہوں کوئی دیوتا نہیں ہوں‘‘۔ وزارت اعلیٰ کے زمانے میں انہوں نے یہ اعتراف تو کیا تھا لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی سوچ بدل گئی۔ اس لیے جب روبیکا لیاقت نے ان سے پوچھا کہ ’پانچ سال پہلے میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ تھکتے کیوں نہیں۔ پانچ سال پہلے کے مقابلے مجھے آپ زیادہ توانا نظر آ رہے ہیں، آپ نے زیادہ ریلیاں کی ہیں، آپ زیادہ کام کر رہے ہیں، آپ واقعی تھکتے کیوں نہیں؟‘ تو وزیر اعظم اس کی باتوں میں آگئے اور بھول گئے کہ ان کی مانند ایک چاپلوس اینکر بھی جھوٹ بول سکتی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے جذبات سے سرشار ہو کر اس کے جواب میں کہہ دیا کہ ’پہلے جب تک ماں زندہ تھی تو مجھے لگتا تھا کہ شاید بائیولوجیکلی مجھے جنم دیا گیا۔ ماں کے گزر جانے کے بعد ان سارے تجربات کو جوڑ کر میں دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہو چلا ہے، کہ میں غلط ہو سکتا ہوں، لوگ تنقید کریں، میرے بال نوچ لیں گے لیکن میں قائل ہو چکا ہوں کہ پرماتما نے مجھے بھیجا ہے، یہ توانائی بائیولوجیکل (طبعی) جسم سے نہیں ملی۔ ایشور نے مجھ سے کوئی کام لینا ہے، اس لیے مجھے صلاحیت کے ساتھ طاقت بھی دی ہے۔‘ یہ تھی نتائج سے پہلے کی کیفیت لیکن انتخاب میں معمولی اکثریت سے بھی محرومی کے بعد موصوف کا دماغ کسی قدر درست ہو گیا ہے۔ مودی اگر اس نرگسیت کا شکار نہیں ہوئے ہوتے تو موہن بھاگوت کو یہ چٹکی لینے کا موقع نہیں ملتا کہ ’’ترقی کی کوئی حد نہیں ہے کچھ لوگ سوپر مین بننا چاہتے ہیں، دیوتا… بھگوان بننا چاہتے ہیں۔‘‘
آگے چل کر بھاگوت ایک جلسہ عام میں اور بھی کھل کر بولے کہ ’’کوئی بھی شخص اپنے آپ کو بھگوان نہیں کہہ سکتا۔ عوام کسی کو اس کے کام کی بنیاد پر بھگوان قرار دے سکتے۔ کام کے ذریعے ہر کوئی قابل احترام انسان بن سکتا ہے لیکن ہم اس سطح پر پہنچے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ ہم خود نہیں کریں گے۔ ہمیں یہ اعلان نہیں کرنا چاہیے کہ ہم بھگوان بن گئے ہیں‘‘۔ ویسے اپنے آپ کو خدا کا آلہ کار کہنے والے مودی نے انتخاب سے قبل یہ بھی کہا تھا ’’اور اس لیے میں جب بھی کچھ کرتا ہوں تو میں مانتا ہوں کہ شاید ایشور مجھ سے کروانا چاہتا ہے۔ میں اس ایشور کو دیکھ نہیں سکتا، سو میں بھی ایک پجاری یا بھکت ہوں۔ میں ملک کے 140 کروڑ باشندوں کو ایشور کا روپ مان کر چلتا ہوں، وہی میرے بھگوان ہیں۔‘ یہ وزیر اعظم کے ذہنی توازن کا عالم تھا کہ کبھی خود کو معبود اور کبھی عوام کو خدا مان کر اپنے آپ کو ان کا بندہ کہہ رہے تھے۔ سچائی تو یہ ہے کہ اقتدار کی ہوس انسان کو بھگوان یا شیطان اور نہ جانے کیا کیا بنا دیتی ہے۔
دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے
اب ذرا نیچے اُتریے آدمی بن جائیے
فی الحال سوشل میڈیا پر وزیر اعظم نریندر مودی اور زیرودھا کے شریک بانی نکھل کامتھ کا پوڈ کاسٹ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ 2 گھنٹے کے اس ویڈیو انٹرویو میں پی ایم مودی نے اپنی زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ وزیر اعظم نے پہلے ہی اپنے بچپن کے حوالے سے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ وہ ایک مگر مچھ کا بچہ اٹھا لائے تھے اور پھر اپنی والدہ کے کہنے پر اسے دوبارہ تالاب میں چھوڑ آئے۔ وزیر اعظم کے نئے پوڈ کاسٹ نے ان کے 2019 میں نیوز نیشن کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کی یاد دلا دی جس میں انہوں نےدعویٰ کیا تھا "پہلی بار میں نے 1987 یا 1988 میں ڈیجیٹل کیمرہ استعمال کیا تھا تب مٹھی بھر لوگوں کے پاس ای میل کی سہولیات تھی۔ گجرات کے ویرمگام میں اڈوانی کے عوامی جلسے میں میرے پاس ڈیجیٹل کیمرہ تھا۔ میں نے اڈوانی جی کی تصویر لی اور اسے دہلی پہنچا دیا۔ وہ حیران ہوئے اور کہا کہ آج میری رنگین تصویر کیسے نظر آئی‘‘۔
اس انٹرویو کے بعد بھی ذرائع ابلاغ میں اسی طرح کا طوفان آگیا تھا جیسا کہ اب ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے بتایا کہ پہلا ڈیجیٹل کیمرہ نیکون نے 1987 میں فروخت کیا تھا اور وہ حیرت انگیز طور پر واڈ نگر جیسے دیہات میں مودی کے ہاتھ لگ گیا ۔اسی طرح تجارتی ای میلز 1990-95 میں متعارف کرائے گئے تھے اور عام لوگوں کو 1995 تک ای میل کی سہولیات دستیاب نہیں تھیں مگر مودی نے اسے 1987میں استعمال کرلیا۔ ویسے جس شخص کی ڈگری میں وہ فونٹ استعمال ہوجائیں جو اس وقت ایجاد ہی نہیں ہوئے تھے تو پھر یہ کون سی بڑی بات ہے؟ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ والا محاورہ اسی لیے تو وضع کیا گیا ہے۔ مودی نے اپنے تازہ پوڈ کاسٹ میں بتایا کہ چینی فلسفی زوان زانگ کافی عرصے تک ان کے آبائی گاؤں واڈ نگر میں مقیم رہے تھے۔ ان پر بنی ایک فلم کے حوالے سے مودی نے چینی سفارت خانے کو خط لکھا تھا ۔
یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر آگے وہ بولے ’’2014 میں جب وہ ہندوستان کے وزیر اعظم بنے تو چینی صدر شی جن پنگ نے گجرات اور واڈ نگر کا دورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی‘‘۔ یعنی جن پنگ کا دہلی کے بجائے احمد آباد جانا ان کی خواہش پر تھا۔ کیا کوئی صحیح الدماغ آدمی اس بات پر یقین کرسکتا ہے؟ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ جن پنگ واڈ نگر جانا چاہتے تھے تو مودی انہیں وہاں لے کر کیوں نہیں گئے؟ ان کو اپنے آبائی گاؤں لے کر جانا یقیناً بڑی سعادت کی بات تھی لیکن کہانی میں ٹویسٹ یہ ہے کہ مذکورہ فلم کی ریلیز سے دو سال قبل جن پنگ گجرات کا دورہ کر چکے تھے۔ اس وقت پتہ نہیں انہوں نے زوان زانگ کا نام بھی سنا ہوگا یا نہیں اور مودی نے یقیناً اس کے بعد ہی وہ فلم دیکھی ہوگی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے بچپن کے استاد کا حوالہ دیتے وقت بھی اپنی ہی تعریف کی۔ وہ بولے ’ویلجی بھائی نے محسوس کیا تھا کہ مودی چیزوں کو تیزی سے سمجھتا تھا لیکن پھر اپنے ہی خیالات میں گم ہو جاتا تھا‘‘۔اس پوڈ کاسٹ کے ذریعہ وزیر اعظم اب بھی عوام کو اپنے گنجلک ماضی میں گم کر دینا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنے بچپن کے بارے میں بتایا کہ انہیں مقابلہ آرائی میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ وہ بغیر زیادہ محنت کے امتحانات پاس کرنا پسند کرتے تھے۔ چنانچہ آج کل وہ عوام کی خدمت کرنے یا ان کے مسائل کو حل کرنے کی مشقت اٹھانے کے بجائے اشتہارات اور خطابت کی مدد سے بغیر محنت کے انتخاب میں کامیابی درج کروانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں مختلف سرگرمیوں میں زیادہ دل چسپی تھی سو اب بھی ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے ایوان پارلیمنٹ میں وقت گزارنے یا دفتر میں جانے کے بجائے ان کا زیادہ تر وقت انتخابی مہم اور سیر و سیاحت میں صرف ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے دورانِ گفتگو اپنے 93 سالہ اسکولی استاد رس بیہاری منیہار کا کی پذیرائی کا ذکر کیا مگر ان کے سیاسی گرو بے چارے اڈوانی تو غیض و غضب کا شکار ہوئے۔ پہلے تو بھرے اسٹیج پر مودی نے ان کی جانب سے منہ پھیر لیا اور پھر رام مندر کے افتتاح میں انہیں قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا۔
وزیر اعظم نے اس پوڈ کاسٹ میں اپنے بچپن کی ایک دل چسپ عادت کا ذکر کیا تو مشہور کہاوت ’بندر بوڑھا ہو تب بھی کُلاٹیاں (قلا بازیاں) مارنا نہیں بھولتا ‘ یاد آگئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ لڑکپن میں وہ بغیر کسی خاص تیاری کے ڈراموں کے مقابلوں میں خود بخود حصہ لیتے تھے۔ آج کل انتخابی مہمات میں ان کا ’دیدی او دیدی‘ اور منگل سوتر سے مجرا تک کے مکالمات کو سن کر پتہ چلتا ہے کہ ان کی یہ پرانی عادت آج بھی گل کھلا رہی ہے۔ انہوں نے سیاست میں کامیابی کے لیے لگن، عزم، اور لوگوں کی خوشیوں اور غموں کے تئیں ہمدردی کو لازمی قرار دیا مگر نہیں معلوم کہ گجرات فسادات کے دوران ان کی حساسیت کہاں چلی گئی تھی؟ کیوں کہ اس وقت ان کی پوری ہمدردی فسادیوں کے ساتھ تھی فساد میں مارے جانے والوں کے ساتھ تو نظر نہیں آئی! لوگوں کو انسانیت کا درس دینے والے لیڈر کا فسادات میں مرنے والے کو گاڑی کے پہیے کے نیچے کچلے جانے والے کتے سے تشبیہ دینا اور بلقیس بانو کے مجرموں کو جیل سے آزاد کروانا اور اس کے بعد پھر حساسیت کی بات کرنا؟ واقعی اس سے بڑی بے حسی کی بات اور کوئی نہیں ہوگی؟
کیا یہ بے حسی بات نہیں ہے کہ دنیا میں گھوم پھر کر امن کا ڈھنڈورا پیٹنے والا وزیر اعظم پچھلے ڈیڑھ سال سے اپنے ہی ملک میں تشدد زدہ منی پور جانے کی زحمت نہ کر سکا اور اس کے بعد حال یہ ہے کہ ڈھٹائی کے ساتھ غم خواری کا درس بھی دے رہا ہے؟ وزیر اعظم کی یہ بات سراسر غلط ہے کہ سماج ان لوگوں کو قبول کرتا ہے جو قوم کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ تیسری بار وزیر اعظم نہیں بنتے۔ دس لاکھ روپے کا کوٹ پہننے والا اور دن میں کئی بار لباس تبدیل کرنے والا وزیر اعظم جب اشوک بھٹ جیسے مخلص کارکن کی سادہ زندگی کی تعریف کرتا ہے تو منہ سے ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ’’سیاست صرف انتخابات لڑنے کا نام نہیں ہے بلکہ لوگوں کے دل جیتنے کا عمل ہے‘‘۔ یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے جو دن رات انتخابی جوڑ توڑ میں لگا رہتا ہے اور دل جیتنے کے بجائے دلوں کو توڑنا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
سیاست کو ’’گندہ مقام‘‘ سمجھنے کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے مودی نے نادانستہ طور پر خود اپنے خلاف بہت پتہ کی بات کہہ دی کہ سیاست کی تصویر کو سیاست دانوں کے اعمال ہی آلودہ کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو خود ان کی ذات والا صفات ہے۔ اس میں جو کمی رہ جاتی ہے اس کو ان کے بھکت پورا کر دیتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے بھکتوں نے سیاسی تالاب کو اس قدر گدلا کر دیا ہے کہ شریف آدمی کو اس کے قریب آنے میں بھی گھن محسوس ہوتی ہے۔ مودی کے مطابق سیاست میں اب بھی ان مثالی افراد کے لیے جگہ ہے جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ تبدیلیاں تو اب بھی رونما ہو رہی ہیں لیکن بد قسمتی سے وہ مثبت کے بجائے منفی رخ پر ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو میں ایک مقامی ڈاکٹر کا ذکر کیا جس نے برسوں پہلے کم وسائل کے ساتھ آزادانہ انتخابی مہم چلا کر یہ ثابت کیا تھا کہ معاشرہ نہ صرف سچائی اور لگن کو پہچانتا ہے بلکہ اس کی حمایت بھی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو بی جے پی کو اپنی انتخابی مہم پر کروڑوں روپے کی خرچ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ کیا یہ سب سچائی اور لگن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے؟
وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ غلطیاں انسانی فطرت کا حصہ ہیں لیکن وہ ہمیشہ نیک نیتی کے ساتھ عمل کرتے ہیں۔یہی بات انہوں نے نوٹ بندی کے وقت بھی کہی تھی اور اچھے نتائج کے نہ آنے کی صورت میں پھانسی پر لٹکانے کی پیشکش بھی کی تھی مگر پھر اس سے پلٹ گئے۔ غلطی تو غلطی ہے وہ کسی بھی ارادے سے کی جائے اس کا مرتکب سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ مودی نے اپنے پہلے ہی پوڈ کاسٹ میں خوب پھلجڑیاں چھوڑیں مثلاً کہا کہ سیاست داں کو ایک اچھا ٹیم پلیئر ہونا چاہیے اور حاکمانہ رویہ نہیں اپنانا چاہیے۔ مودی جیسے آمر کی زبان سے ایسا جملہ سن کر ہنسی کے ساتھ ساتھ رونا بھی آتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جمہوریت میں الزامات اور جوابی الزامات کو قبول کرنا چاہیے لیکن خود ان کا اسپیکر جب حزب اختلاف کے رہنماوں کا مائیک بند کردے، اڈانی کو بچانے کے لیے مہو موئیترا کی رکنیت ختم کر دی جائے، ڈیڑھ سو سے زیادہ ارکان کو پارلیمنٹ سے باہر کرکے ایوان بالا میں متنازع قانون منظور کروالیا جائے تو یہ الفاظ بے معنیٰ ہوجاتے ہیں۔
وزیر اعظم نے ایک اہم بات یہ بھی بتائی کہ ’’تنقید اور اختلاف رائے ہر شعبے، بشمول سیاست اور کام کی جگہوں پر، عام بات ہے اس لیے ان کو قبول کرکے آگے بڑھنا ضروری ہے‘‘۔ مودی اور شاہ کی جوڑی اگر اس اصول پر کاربند ہوتی تو نہ ہرین پانڈیا کا قتل ہوتا اور نہ جسٹس لویا پر دل کا دورہ پڑتا۔ 2002 کے گجرات انتخابات اور گودھرا واقعہ کا حوالہ دے کر مودی بولے کہ انہوں نے ان چیلنجنگ اوقات میں اپنے جذبات اور ذمہ داریوں کو قابو میں رکھا۔ یہ دعویٰ درست ہوتا تو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ان کو بھرے مجمع میں راج دھرم کا پالن کرنے کی تلقین کیوں کرتے؟ وزیر اعظم کے مطابق سیاست اگر صرف انتخابات، جیتنے یا ہارنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں پالیسی سازی اور حکم رانی بھی شامل ہے اور وہ بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے کا ذریعہ ہے تو وہ دن رات انتخابی مہم اور سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف کیوں رہتے ہیں؟
وزیر اعظم نے اس پوڈ کاسٹ میں آر ایس ایس کے ساتھ اپنے اختلاف کو بڑی خوبصورتی سے واضح کیا۔ وہ بولے سیاست میں مثالی اصولوں کو نظریہ پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نظریہ ضروری ہے، لیکن سیاست میں مؤثر ہونے کے لیے مثالی اصول زیادہ اہم ہیں۔ یہ جواب نظریہ کو بالائے طاق رکھ کر سیاسی جوڑ توڑ کا گویا ایک جواز ہے کیونکہ اقتدار کی خاطر ایسی ابن الوقتی ناگزیر ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے اس مفروضے کے حق میں تحریک آزادی کی مثال دی جہاں مختلف نظریات کے حامل لوگ آزادی کے مشترکہ مقصد کے حصول پر متفق ہو گئے تھے لیکن یہ بھی تو ایک تلخ حقیقت ہے آزادی کے ان متوالوں کو آر ایس ایس کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس نے خود کو سماجی گروہ کا نام دے کر اس عظیم جدوجہد سے الگ تھلگ کرلیا تھا بلکہ انگریزوں کی مخبری کرنے لگی تھی۔ ساورکر نے انگریزوں سے وفاداری کی قسم کھا کر جیل سے رہائی حاصل کی اور سنگھ کے پرچارک گوڈسے کو آشیرواد دے کر گاندھی جی کا قتل کروادیا۔ اس تناظر میں مخالف نظریہ کے حاملین کی بابت کہنے اور کرنے میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی کے پوڈکاسٹ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بہت ہی زیادہ بھیانک ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
اپنے پہلے پوڈ کاسٹ میں مودی کو ایک پرانی تقریر یاد آگئی اور اس کا حوالہ دے کر انہوں نے کہا ’جب میں وزیر اعلیٰ بنا تھا تو میں نے ایک خطابِ عام میں کہا تھا، غلطیاں ہوتی ہیں، مجھ سے بھی ہوتی ہیں۔ میں بھی انسان ہوں کوئی دیوتا نہیں ہوں‘‘۔ وزارت اعلیٰ کے زمانے میں انہوں نے یہ اعتراف تو کیا تھا لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی سوچ بدل گئی۔ اس لیے جب روبیکا لیاقت نے ان سے پوچھا کہ ’پانچ سال پہلے میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ تھکتے کیوں نہیں۔ پانچ سال پہلے کے مقابلے مجھے آپ زیادہ توانا نظر آ رہے ہیں، آپ نے زیادہ ریلیاں کی ہیں، آپ زیادہ کام کر رہے ہیں، آپ واقعی تھکتے کیوں نہیں؟‘ تو وزیر اعظم اس کی باتوں میں آگئے اور بھول گئے کہ ان کی مانند ایک چاپلوس اینکر بھی جھوٹ بول سکتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024