!دنیا امیری اور غریبی کی دو انتہاوں کے درمیان
بڑھتا ہوا معاشی عدم توازن دنیا کو گہرے بحران کی طرف دھکیل رہا ہے
نور اللہ جاوید، کولکاتا
بھارت سمیت دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک میں معاشی نا برابری کی شرح بھیانک سطح پر
236 ماہرین اقتصادیات کا اظہار تشویش اقوام متحدہ اور عالمی بینک کے صدر کو خط
دنیا کی دس فیصد آبادی نصف سے زائد اثاثوں پر قابض
مسلم ممالک اپنے پاس نسخہ کیمیا رکھنے کے باوجود بے راہ روی اور معاشی عدم توازن کا شکار
سیاسی بحران صرف برصغیر یا صرف بھارت کا نہیں ہے بلکہ اس وقت پوری دنیا کے اعصاب پر سیاست سوار ہے۔ اقتدار کا حصول اور اقوام عالم پر بالادستی ہی واحد ہدف باقی رہ گیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے نشریات اور ان کے مواد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اسی فیصد رپورٹنگ سیاسی سرگرمیوں پر مشتمل ہوتی ہے، چاہے وہ بین الاقوامی سیاست ہو یا پھر قومی سیاست۔ باقی بیس فیصد رپورٹنگ میں تعلیم، صحت، معیشت، سماجیات اور سیرو تفریح سے متعلق خبریں ہوتی ہیں۔ گویا آج کی صحافت کا اوڑھنا اور پچھونا سیاست ہے۔ ذرائع ابلاغ کا یہ رجحان کیوں ہے، یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے لیکن اس روش کی قیمت دنیا بھر کے عام انسانوں کو سب سے زیادہ چکانی پڑ رہی ہے۔ عام انسانوں کے مسائل سے چشم پوشی اور حقیقی دنیا کے بجائے تصوراتی دنیا کو گڑھنے کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں عدم اطمینان کی فضا پائی جاتی ہے۔ فرانس کا حالیہ فساد ہو، اسرائیل میں مہینوں سے جاری عوامی احتجاج ہو یا پھر منی پور میں گزشتہ تین مہینوں سے جاری خلفشار یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا آتش فشاں کے دہانے پر کھڑی ہے اور ایک معمولی سا واقعہ بھی پورے خطے کو آگ کی چپیٹ میں لے سکتا ہے۔ لبنان اور سری لنکا کا معاشی دیوالیہ پن، برطانیہ میں معاشی بحران، پاکستان کا آئی ایم ایف کے سامنے قرض کے لیے ناک رگڑنا، امریکہ جیسے سپر پاور ملک میں بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ اور سب سے بڑے بینک کا دیوالیہ ہوجانا اور بھارت کی معیشت کا چند کارپوریٹ گھرانوں کے آگے سرنگوں ہو جانا بے حد تشویش ناک ہے۔ رواں ہفتے نوبل انعام یافتہ اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جوزف اسٹگلٹز اور میساچوسٹس یونیورسٹی کے پروفیسر ایمہرسٹ جیتی گھوش نے دو سو سے زائد ماہرین اقتصادیات کے دستخطوں کے ساتھ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس اور عالمی بینک کے صدر اجے بنگا کے نام خط لکھتے ہوئے خبر دار کیا ہے کہ دنیا بھیانک طریقے سے عدم مساوات کا شکار ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کے وسائل چند ہاتھوں میں مرکوز ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے عالمی ادارے کی حیثیت سے اقوام متحدہ اور عالمی بینک کی ذمہ داری ہے کہ عدم مساوات کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کریں۔ اگر بروقت اقدامات نہیں کیے گئے تو دنیا کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ آخر عدم مساوات کا بحران اس قدر گہرا کیوں ہو گیا ہے کہ دنیا بھر کے ماہرین اقتصادیات کو اجتماعی خط لکھنا پڑا؟ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال اچانک پیدا نہیں ہوئی ہیں بلکہ بتدریج رونما ہوئی ہے تو پھر یہ موضوع بحثِ عام کا حصہ کیوں نہیں ہے؟
عالمی ماہرین اقتصادیات کے اندیشے اور عدم مساوات کی تباہ کاریاں
ماہرین اقتصادیات نے اس طویل خط میں آگاہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہم غیر معمولی طور پر بلند معاشی عدم مساوات کے دور سے گزر رہے ہیں۔ پچیس سالوں میں پہلی بار انتہائی غربت اور انتہائی دولت میں تیزی سے اور بیک وقت اضافہ ہوا ہے۔ اس میں 2019 اور 2020 کے درمیان دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔ دنیا کی سب سے امیر ترین دس فیصد آبادی کو اس وقت عالمی آمدنی کا باون فیصد حصہ چلا جاتا ہے جب کہ غریب ترین آبادی کو عالمی آمدنی کا 8.5 فیصد حصہ ملتا ہے۔
ایک ارب سے زائد افراد کو خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بھوک کی خوف ناک صورت حال کا سامنا ہے، جبکہ پچھلی دہائی میں ارب پتیوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے انہی صفحات میں ہم نے آکسفیم انڈیا کی رپورٹ کے تحت لکھا تھا کہ بھارت کی دس فیصد آبادی ملک کی آمدنی اور وسائل کے ستر فیصد حصے پر قابض ہے۔ پاکستان میں چالیس فیصد افراد غربت کی سطح پر زندگی گزارتے ہیں اور اب آئی ایم ایف کے تازہ معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے غربت کی سطح پر زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اگرچہ مرکزی حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ بھارت میں غریبوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت میں غربت کا جو معیار طے کیا گیا ہے وہ عالمی پیمانے کے مطابق ہے یا نہیں۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ غربت کے شکار افراد کے تعین کے لیے غذا، تعلیم صحت اور سماجیات کے اعتبار سے جو اسکورنگ کی جاتی ہے اس میں حصہ داری کس کی کتنی ہے۔ عالمی ماہرین اقتصادیات نے ایک ایسے وقت میں یہ اندیشے ظاہر کیے ہیں جب روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے دنیا منقسم ہے۔ روس اور یوکرین دنیا کو خوراک فراہم کرنے والے اہم ترین ممالک ہیں۔ گزشتہ چودہ مہینوں سے ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری ہے۔ روس کا کہنا ہے چونکہ عالمی قیادت بالخصوص یورپی ممالک اپنے معاہدہ کی پاسداری نہیں کر رہے ہیں اس لیے وہ غذائی اجناس کی فراہمی کے سلسلے میں کیے گئے ’’بلیک سی گرین انیشیٹو‘‘ معاہدے سے دستبراد ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال سے دنیا کی ایک بڑی آبادی غذائی بحران کا شکار ہوجائے گی۔ روس اور یوکرین دنیا کے دو بڑے غذائی پروڈیو سر ہیں، یہ دونوں ممالک آرمینیا، آذربائیجان، اریٹیریا، جارجیا، منگولیا اور صومالیہ میں نوے فیصد گندم فراہم کرتے ہیں۔ یوکرین ورلڈ فوڈ پروگرام کے لیے گندم کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے، جو ایک سو بیس سے زائد ممالک میں 115.5 ملین لوگوں کو خوراک فراہم کرتا ہے۔ اور روس دنیا کے سب سے اوپر تین خام تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، نیز قدرتی گیس کا دوسرا سب سے بڑا پیدا کرنے والا اور سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے۔ روس اور یوکرین سب سے زیادہ گندم، مکئی اور جو پیدا کرنے والے ممالک ہیں، مگر دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی وجہ سے غذائی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 2022 کے آغاز میں جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک خوراک کی قیمتوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خام تیل کی قیمتیں جو کہ فی الحال تینتیس فیصد ہیں، سال کے آخر تک پچاس فیصد سے زیادہ بڑھنے کا امکان ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق ان دونوں ممالک کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے غذائی قیمتوں میں اضافے کے اثرات ترقی پذیر ممالک پر غیر متناسب طور سے متاثر ہو رہے ہیں۔ افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ کو بھی اس سے سخت نقصان پہنچا ہے۔
ماہرین اقتصادیات نے اپنے خط کے آخری حصے میں عدم مساوات کے بحران کے نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ عدم مساوات کا بحران ہمارے تمام سماجی اور ماحولیاتی اہداف کو نقصان پہنچاتا ہے۔ 2006 کی عالمی ڈیولپمنٹ رپورٹ کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر مطالعات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عدم مساوات کے معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، اعتماد کی فضا ختم ہوگی اور اجتماعی خوش حالی کو شدید نقصان پہنچے گا اور کیثرالجہتی ترقی کمزور ہوگی اور عدم مساوات کے خاتمے کے بغیر ہم غربت کے خاتمے اور موسمیاتی خرابی کے خاتمے کا ہدف پورا نہیں کرسکتے۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق عدم مساوات کی تباہ کاری کی وجہ سے ہر چار سیکنڈ میں ایک شخص کی موت کی ہوتی ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران لاکھوں لوگ متعدی بیماریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مر چکے ہیں کیونکہ انہیں وقت پر ویکسین نہیں ملی تھی۔ہسپتالوں میں علاج کی سہولتوں کی عدم دستیابی اور مہنگی دواوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں اموات ہو رہی ہیں۔ دنیا میں اس وقت 2,755 ارب پتیوں کی ایک چھوٹی سی تعداد ہے۔ گزشتہ چودہ سالوں کے مقابلے میں محض دو تین سالوں میں ان ارب پتیوں کی آمدنی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورت حال ہر ملک میں ہے۔ بھارت میں ریلائنس اور اڈانی گروپوں کی آمدنی سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں، غیر منظم اداروں میں تیزی، اجارہ داری کی طاقت اور نجکاری میں اضافے، انفرادی کارپوریٹ ادارے ٹیکس کی شرحوں میں رعایت کارکنوں کے حقوق و اجرتوں میں کٹوتی کے ساتھ فعال ہے۔
بھارت کے تناظر میں عدم مساوات کا تجزیہ اور حقائق
آکسفیم انڈیا کی رپورٹ کے حوالے سے اسی سال جنوری کے ہفت روزہ دعوت کے شمارے میں بھارت میں عدم مساوات اور دولت کے ارتکاز کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی تھی اس لیے مذکورہ رپورٹ کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حال ہی میں حکومت کی طرف سے یہ بلند وبانگ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں غربت کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ حکومت کے ان دعووں کے اعداد و شمار کو مختلف آزاد اداروں کے تناظر میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نیتی آیوگ کے کثیر جہتی غربت انڈیکس (ایم پی آئی) (Multidimensional Poverty Index) کے دوسرے ایڈیشن نے پیشن گوئی کی ہے کہ بھارت کی تقریباً 14.96 فیصد آبادی یعنی 20.79 کروڑ بھارتی شہری غربت کا شکار ہیں۔ انہیں متعدد ترقیاتی شعبوں میں محرومی کا سامنا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ پہلے 24.85 فیصد آبادی غربت کا شکار تھی جس میں کمی ہونے کے بعد 14.96 فیصد تک ہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار فیملی سروے کے نتائج سے لیے گئے ہیں۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گلوبل کثیرجہتی غربت انڈیکس میں بھی نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی بنیاد پر بھارت میں غربت کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے مطابق بھارت میں کیثر جہتی غربت کے شکار افراد کی تعداد 16.4 فیصد ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک فیصد فرق کوئی معمولی نہیں ہے۔ ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ جب ایک ہی سروے کی بنیاد دو تنظیموں نے رپورٹ مرتب کی ہے تو پھر یہ فرق کیوں آیا؟ کثیر جہتی غربت میں حصہ داری کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بھارت میں غربت کی بڑی وجہ غذائی قلت ہے۔رپورٹ کے مطابق کثیر غربت انڈیکس غذائیت کی کمی حصہ داری 29.86 فیصد ہے، یعنی غربت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک بڑی آبادی مناسب غذائیت سے محروم ہے۔ سوال یہ ہے کہ مفت غذا فراہم کرنے کی حکومت کی اسکیمیں بار آور ثابت کیوں نہیں ہو رہی ہیں۔ غذائیت کی خدمات کی کمی کے بعد اسکول کی تعلیم کی کمی 16.65 فیصد، زچگی کی صحت خدمات کی نا کافی رسائی کی شرح 11.37 فیصد، اسکولوں میں مطلوبہ حاضری کی شرح 9.11 فیصد، مناسب کھانا پکانے کے ایندھن تک رسائی کا فقدان 8.26 فیصد شامل ہیں۔
عدم مساوات کی وجوہات کیا ہیں؟
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ عدم مساوات کا بحران کیوں پیدا ہوا؟ کیونکہ اس کا تجزیہ کیے بغیر ہم اس کے حل تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کا جواب سادہ ہے۔ چند سال قبل نوبل انعام حاصل کرنے والے بنگالی نژاد پروفیسر ابھیجیت بنرجی اور ایسھترڈ فلور نے 2019 میں Good Economics for Hard Tmes کے نام سے عالمی معیشت کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی ہے جس میں موجودہ عالمی اقتصادی نظام کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے دو اصطلاحوں کا استعمال کیا ہے۔ ایک Good Economics اور دوسرا Bad Economics (اچھی معیشت اور بری معیشت) اس کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ اچھی معیشت کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔ جب معیشت اور اخلاقیات کے درمیان علیحدگی ہو جائے تو معاشرے میں عدم استحکام اور عدم مساوات پیدا ہوتی ہے کیوں کہ اخلاقیات سے عاری معیشت خود غرض اور اندھی ہوتی ہے۔ اس کے پیش نظر صرف منافع خوری ہوتی ہے۔ یہی Bad Economics ہے۔ مغربی معاشرہ کا حصہ رہنے کے باوجود پروفیسر ابھیجیت کہتے ہیں کہ معاشیات کا مقصد فلاح و بہبود، عام شہریوں کو خوش حال زندگی فراہم کرنا، خاندان کا احترام اور ہر ایک کو یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔ صرف منافع کمانا اچھی معیشت کی علامت نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ معیشت کا رجحان صرف آمدنی پر مرکوز کرنے کی پالیسی نے پالیسی سازوں اور ماہرین اقتصادیات کو غلط فیصلے پر مجبور کیا ہے۔
مشہور اسلامی مفکر اور تحریک اسلامی سے وابستہ پروفیسر خورشید احمد نے عالمی معیشت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’موجودہ سرمایہ دارانہ سماج کا ایک بڑا المیہ مالی معیشت اور حقیقی معیشت میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔ آج کی دنیا حقیقی اور معنوی رقوم کے سیلاب کی لپیٹ میں ہے جس میں اضافی قدر پیدا کرنے کا ٹھوس عمل، عالمی انسانی برادری کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسی خود مختار فضا قائم کردی گئی ہے جس میں دولت، دولت کو کھینچتی ہے، لیکن حقیقی معیشت میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ اُدھار کو حقیقی دولت پیدا کرنے کے لیے صرف استعمال ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یہ خود ایک الگ معیشت بن گئی ہے۔ گھروں، کاروباری اداروں اور ریاستوں سمیت ہر سطح پر گویا سودی قرض کے پھیلاو کی ایک دھماکا خیز صورتِ حال ہے، جس سے پیدا ہونے والے بلبلے پھیل بھی رہے ہیں اور بڑھ بھی رہے ہیں، لیکن مصنوعات اور خدمات کی حقیقی فراہمی، جو انسانی ضروریات اور سہولیات کا باعث بنیں، ان میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ دنیا کو معاشی انجینئرنگ سے زیادہ حقیقی انجینئرنگ کی ضرورت ہے۔ دنیا کی معیشت کی موجودہ صورت حال سخت تشویش ناک ہے جس میں بیرونی زرمبادلہ کی روزانہ خرید و فروخت، اشیا و خدمات کی حقیقی بین الاقوامی تجارت سے تقریباً پچاس گنا زیادہ ہے۔
جدید معاشی نظام پر پروفیسر ابھیجیت بنرجی کی تنقید کا اگر تجزیہ کیا جائے تو آج پوری دنیا میں Bad Economics کا ہی دور دورہ ہے کیوں کہ آج پورے ملک کی معیشت کے تمام اختیارات اور وسائل چند امیر لوگوں کے ہاتھوں سپرد کردیے گئے ہیں۔ ریاست کے فلاحی تصور کو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔ پورے زور و شور سے اس بیانیہ کو مرتب کیا گیا ہے کہ ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے۔ گڈ گورننس صرف ریاست کی ذمہ داری ہے۔ معیشت کا سارا کاروبار صنعت کاروں کا کام ہے۔ اس صورت حال نے ملکی وسائل کا بے جا استعمال کیا، زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی مسابقت اور قرضوں کے شکار ممالک پر عوام زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگائے اور فلاحی اسکیموں کے دائرہ کار کو محدود کر دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ اندھی معیشت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس خوف ناک صورت حال نے عدم مساوات کا بحران پیدا کر دیا ہے۔
کیا عدم مساوات کا خاتمہ ممکن ہے؟
سوال یہ ہے کہ کیا دنیا سے عدم مساوات کا خاتمہ ممکن ہے؟ جیسا کہ دنیا دیکھ چکی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم نے مسائل کو حل کرنے کے بجائے دنیا میں مزید بحران ہی پیدا کیے ہیں۔ اس لیے یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ کیا عدم مساوات سے دنیا نکل سکتی ہے؟ اسلامی معیشت پر گہری نظر رکھنے والوں سے یہ سوال کیا جائے تو کا ان کا جواب امید افزا لگتا ہے جو پورے یقین و اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اسلامی نظام معیشت کے پاس رہنمائی کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ موددی نے تفصیل کے ساتھ اسلامی نظام معیشت کے خد وخال پیش کرتے ہوئے دنیا کی رہنمائی کی ہے۔ بعد میں تحریک اسلامی سے وابستہ دیگر شخصیات نے بھی عالمی معاشی منظر نامے کے تناظر میں اسلامی معیشت کو پیش کیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ عالمی نظام کی رہنمائی کرنے کی ذمہ داری مسلم دنیا کی تھی مگر مسلم دنیا اس قدر خود غرضی، مفاد پرستی اور علاقائی برتری کے خبط میں مبتلا ہے کہ آج بیشتر مسلم ممالک خود غیر متوازن عدم مساوات کا شکار ہیں۔
لبنان، شام اور یمن کا بحران ہمارے سامنے ہے۔ مسلم دنیا کی خود غرضی کی قیمت ان ممالک کے عوام چکا رہے ہیں جبکہ غربت کے خاتمے اور معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے قرآن کریم نے بھر پور رہنمائی کی ہے۔ اسلامی معیشت کا پورا فلسفہ انصاف، اخلاقیات اور توازن پر قائم ہے۔ اسلامی نظام معیشت میں غربت کے خاتمے کے لیے تین اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔ مثبت اقدامات، احتیاطی تدابیر، اور اصلاحی اقدامات اور مساوی مواقع۔احتیاطی تدابیر کے طور پر اسلامی معیشت کا پورا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں نہ ہو۔ اس کے لیے ملکیت پر کنٹرول کرنے کے ساتھ بدعنوانی پر خصوصی نظر رکھی جاتی ہے۔ غربت کے خلاف تیسرا قدم دولت کی منتقلی کو فروغ دیتا ہے تاکہ وہ دولت مندوں میں مرتکز نہ ہونے پائے۔ اس کے لیے تین اقدامات کیے جاتے ہیں (الف) لازمی منتقلی یعنی زکوٰۃ (ب) تجویز کردہ منتقلی یعنی صدقہ و خیرات (ج) ریاستی ذمہ داری یعنی ریاست کا کام انصاف اور مساوات قائم کرنا اور فلاحی ریاست کے تصور کو مستحکم کرنا ہے۔
اس وقت پوری دنیا کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ پر تشدد، جنس پرست اور نسل پرستانہ معیشت کا راستہ ہے جس میں ارب پتیوں کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے، جس میں لاکھوں لوگوں کو نقصان ہوتا ہے یا وہ مارے جاتے ہیں، اور کروڑوں لوگ عدم مساوات کی وجہ سے غریب ہوتے ہیں۔ دوسرا راستہ مساوات، اخلاقیات اور انصاف پر مبنی معیشت کا راستہ ہے جس میں کوئی بھی غریب نہیں رہتا اور نہ ہی کوئی ناقابل تصور حد تک ارب پتی بنتا ہے۔ جس میں ہر شخص کی ہر ضرورت پوری ہوتی ہے اور ہر ایک کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔
***
***
دولت اور دنیا بھر کے وسائل چند ہاتھوں میں مرکوز ہوتے جارہے ہیں ۔اس لیے عالمی ادارے کی حیثیت سے اقوام متحدہ اور عالمی بینک کی ذمہ داری ہے کہ عدم مساوات کے خاتمے کےلئے موثر کن اقدامات کرے ۔اگر بروقت اقدامات نہیں کئے گئے تو دنیا کو اس کی بھاری قیمت چکانی ہوگی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023